خیرات اور احسان کے طور پر انصاف
راشد کی والدہ کی پتھریلی آنکھیں ملنے والوں کو اس ملک میں انصاف کی پامالی کی یاد دلاتی ہیں۔
راشد رحمن جنوبی پنجاب میں انسانی حقوق کی جدوجہد کو منظم کرنے والے ہراول دستہ کے قائد تھے۔ 7مئی 2014 کو دنیا سے چلے گئے۔ راشد رحمن نے ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان اور اطراف کے علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مسلسل صدا بلند کی تھی۔ ان کی بوڑھی ماں اپنے بیٹے کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے جستجو میں تھیں مگر پھر ذہن نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ ان کے بڑے صاحبزادہ ارشد رحمن رضا الٰہی سے انتقال کرگئے۔
راشد کی والدہ کی پتھریلی آنکھیں ملنے والوں کو اس ملک میں انصاف کی پامالی کی یاد دلاتی ہیں۔ راشد رحمن نے اپنے دادا عبدالرحمن، چچا اطہر رحمن اور والد اشفاق احمد خان کی پیروی کرتے ہوئے وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور اپنے بزرگوں کی طرح ملتان میں پریکٹس کرنے لگے۔ ان کے والد اشفاق احمد خان ایڈووکیٹ نے 60 کی دھائی میں جنوبی پنجاب میں نیشنل عوامی پارٹی اور پھر پیپلز پارٹی کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ، وہ بائیں بازوکی مزدور تحریک سے وابستہ تھے۔
اشفاق احمد خان کو 1970میں اﷲ وسایا ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں کو اجرتوں کی ادائیگی اور حالات کار بہتر بنانے کی جدوجہد کے صلہ میں جنرل یحییٰ خان کی فوجی عدالت نے ایک سال قید بامشقت کی سزا دی تھی۔ ان کے اس وقت کے ساتھیوں میں محمود نواز ، بابر اشرف رضوی ایڈووکیٹ وغیرہ بھی فوجی عدالت سے سزا یافتہ ہوئے تھے۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہونے والے جلسہ میں ویتنام کا سفیر نامزد کیا تھا۔ عوامی جلسہ میں سفیر مقرر ہونے کا اعزاز صرف اشفاق احمد خان کو حاصل ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اشفاق احمد خان عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے باوجود اسیر ہوئے۔
راشد رحمن کے خاندان نے ملتان میں ترقی پسند خیالات کو عام کرنے میں خاصا کردار ادا کیا تھا۔ ان کے تایا آئی اے رحمن بائیں بازو کے معروف صحافیوں اور دانشوروں میں شامل تھے۔ 1991میں آئی اے رحمن نے معروف اخبار پاکستان ٹائمز کی ادارت سے استعفیٰ دیا اور انسانی حقوق کمیشن (HRCP) کا حصہ بن گئے۔ انسانی حقوق کمیشن کی اس وقت کی سربراہ عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن ملتان آئے۔
انھوں نے وکلاء کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا اور وکلاء کے سامنے یہ سوال رکھا کہ اس خطہ میں انسانی حقوق کی تحریک کو منظم کرنے کے لیے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ ان رہنماؤں نے مظلوم انسانوں کو انصاف دلانے اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا۔
راشد اس اجلاس میں شریک چند کم عمر وکلاء میں ایک تھے مگر انھوں نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ اب اپنی زندگی اس مقدس تحریک کے لیے وقف کردیں گے، یوں راشد ایچ آر سی پی میں متحرک ہوئے اورکچھ عرصہ بعد ایچ آر سی پی نے جنوبی پنجاب کے لیے اس ٹاسک فورس قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور راشد رحمن کو اس ٹاسک فورس کا کوآرڈینیٹر مقررکیا گیا۔ راشد رحمن نے انسانی حقوق کی ترویج اور مظلوم انسانوں کو انصاف دینے کے لیے نئی راہیں تلاش کیں، وہ آزاد عدلیہ کی لڑائی میں برابر کے شریک تھے۔
جب جنرل پرویز مشرف نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معطل کیا تو بیرسٹر اعتزاز احسن کی قیادت میں وکلاء نے ملک گیر تحریک شروع کی راشد اگرچہ کبھی بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار نہیں رہے نہ پنجاب بار کونسل کے رکن تھے مگر انھوں نے وکلاء تنظیموں کے عہدیداروں سے زیادہ اس تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ راشد رحمن اس تحریک میں کئی دفعہ گرفتار ہوئے۔ ان کی کچھ عرصہ پہلے دل کی انجیوگرافی ہوئی تھی مگر راشد کے پاس بیماری کے لیے وقت نہیں تھا۔
راشد کو پنجاب حکومت نے گرفتار کیا اور سخت سردی میں اٹک جیل بھیج دیا گیا۔ اس جیل میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منیر اے ملک بھی نظر بند تھے مگر ان رہنماؤں کو علیحدہ بیرکوں میں نظربند کیا گیا۔
انھوں نے جنوبی پنجاب میں خواتین کے مسائل پر مسلسل آگہی کی مہم چلائی اور مظلوم خواتین کو مفت قانونی سہولتیں فراہم کیں، وہ مظفر گڑھ میں مختاراں مائی کے سب سے بڑے حامی تھے۔ راشد کا کہنا تھا کہ مختاراں مائی کا تعلق پنجاب کے سب سے پسے ہوئے طبقہ سے ہے اور ایک عورت نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاگیردارانہ کلچرکو چیلنج کیا تھا۔ مختاراں مائی اتنی کمزور تھی کہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے اپنی مرضی سے اجتماعی گینگ ریپ کے مقدمہ کی ایف آئی آر درج کی اور مظلوم عورت سے انگوٹھا لگوا لیا۔
سپریم کورٹ کے اس وقت کے ججوں نے اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے اس وقت کے حالات کو نظرانداز کیا۔ راشد رحمن نے کسانوں کے حقوق کے لیے بہت کام کیا ، وہ کسانوں میں اسٹڈی سرکل منعقد کرتے، ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرتے اور کوئی مظلوم کسان زمیندار یا عمومی طور پر پولیس کے ظلم کا شکار ہوتا تو اس کے لیے ایک طرف ذرایع ابلاغ پر رائے عامہ ہموار کرتے اوردوسری طرف عدالتوں سے رجوع کرتے۔ملتان اور اطراف کے علاقوں میں زبردستی شادی اور غیرت کے نام پر قتل کی روایات بہت گہری ہیں۔
راشد نے خواتین کے قتل کے کئی واقعات پر تحقیق کی جنھیں ان کے پڑھے لکھے خاندانوں کے مردوں نے شادی سے انکار اور پسند کی شادی کرنے پر قتل کیا تھا۔ پولیس عمومی طور پر عورتوں کے قتل کو یا تو خودکشی قرار دیتی ہے یا تحقیقات نہیں کرتی۔ راشد رحمن نے ایسے مقدمات کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا۔ کئی مقدمات میں دفن کی جانے والی عورتوں کا پوسٹ مارٹم ہوا اور قتل کے الزامات درست ثابت ہوئے۔ راشد رحمن نے مسلسل عدالتوں میں جنگ لڑی۔
راشد رحمن آزادئ صحافت کے لیے آواز اٹھاتے رہتے تھے۔ جب اسلام آباد کے ایک معروف صحافی پر حملہ ہوا اور ایک چینل پر پابندی لگادی گئی تو راشد رحمن نے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر ملتان میں جلسے کیے۔ ان کے قتل سے چند دن قبل وہ ایک ایسی مہم میں مصروف تھے۔ راشد رحمن مظلوم افراد کو مفت قانونی سہولتیں فراہم کرتے۔ جنید کے والد اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرچکے تھے۔ انھیں کسی نے لاہور میں ایچ آر سی پی کے دفتر بھیج دیا۔
آئی اے رحمن نے سارا کیس دیکھا اور راشد کو ٹیلیفون کیا۔ فون پر ایک مختصر بات ہوئی۔ جب کئی دن بعد جنید کے والد نے راشد رحمن کے چیمبر میں ان سے ملاقات کی تو جنید کے مقدمہ کے تیار کاغذات انھیں ملے۔ راشد اس مقدمہ سے کسی وقت دستبردار ہوسکتے تھے۔ انھیں بھری عدالت میں دھمکیاں دی گئی تھیں، لوگوں نے انھیں مقدمہ سے علیحدگی کا مشورہ دیا۔
انھوں نے بی بی سی کی ایک ٹیم کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی جان کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا مگر راشد نے کبھی واپسی کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ راشد رحمن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ خواتین پر زیادتیوں کے خلاف بہت سے مقدمات چھپا دیے جاتے ہیں، کچھ ایسے ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں ان میں سے کچھ عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں،جو خواتین ان مظالم کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں وہ صرف ایک ملزم کے خلاف نہیں بلکہ پورے سماجی رویوں اور ریاست کے رویوں کے خلاف اٹھاتی ہیں۔
خواتین کو برابری کی حیثیت نہیں دی جاتی، انھیں خیرات کے طور پر انصاف دیا جاتا ہے۔ احسان کے طور پر انصاف زیادہ ظالمانہ ہوتا ہے اور جب کچھ مقدمات میں ملزم پر الزام لگ جاتا ہے تو ان لوگوں کے لیے مقدمہ لڑنا موت کے منہ میں لے جانے کے مترادف ہوتا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ملزم کو وہی سزا ملے جو وہ سوچتے ہیں۔ راشد کا یہ انٹرویو تاریخی حقائق کی نشاندہی کررہا ہے۔
راشد کی والدہ کی پتھریلی آنکھیں ملنے والوں کو اس ملک میں انصاف کی پامالی کی یاد دلاتی ہیں۔ راشد رحمن نے اپنے دادا عبدالرحمن، چچا اطہر رحمن اور والد اشفاق احمد خان کی پیروی کرتے ہوئے وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور اپنے بزرگوں کی طرح ملتان میں پریکٹس کرنے لگے۔ ان کے والد اشفاق احمد خان ایڈووکیٹ نے 60 کی دھائی میں جنوبی پنجاب میں نیشنل عوامی پارٹی اور پھر پیپلز پارٹی کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ، وہ بائیں بازوکی مزدور تحریک سے وابستہ تھے۔
اشفاق احمد خان کو 1970میں اﷲ وسایا ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں کو اجرتوں کی ادائیگی اور حالات کار بہتر بنانے کی جدوجہد کے صلہ میں جنرل یحییٰ خان کی فوجی عدالت نے ایک سال قید بامشقت کی سزا دی تھی۔ ان کے اس وقت کے ساتھیوں میں محمود نواز ، بابر اشرف رضوی ایڈووکیٹ وغیرہ بھی فوجی عدالت سے سزا یافتہ ہوئے تھے۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہونے والے جلسہ میں ویتنام کا سفیر نامزد کیا تھا۔ عوامی جلسہ میں سفیر مقرر ہونے کا اعزاز صرف اشفاق احمد خان کو حاصل ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اشفاق احمد خان عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے باوجود اسیر ہوئے۔
راشد رحمن کے خاندان نے ملتان میں ترقی پسند خیالات کو عام کرنے میں خاصا کردار ادا کیا تھا۔ ان کے تایا آئی اے رحمن بائیں بازو کے معروف صحافیوں اور دانشوروں میں شامل تھے۔ 1991میں آئی اے رحمن نے معروف اخبار پاکستان ٹائمز کی ادارت سے استعفیٰ دیا اور انسانی حقوق کمیشن (HRCP) کا حصہ بن گئے۔ انسانی حقوق کمیشن کی اس وقت کی سربراہ عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن ملتان آئے۔
انھوں نے وکلاء کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا اور وکلاء کے سامنے یہ سوال رکھا کہ اس خطہ میں انسانی حقوق کی تحریک کو منظم کرنے کے لیے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ ان رہنماؤں نے مظلوم انسانوں کو انصاف دلانے اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا۔
راشد اس اجلاس میں شریک چند کم عمر وکلاء میں ایک تھے مگر انھوں نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ اب اپنی زندگی اس مقدس تحریک کے لیے وقف کردیں گے، یوں راشد ایچ آر سی پی میں متحرک ہوئے اورکچھ عرصہ بعد ایچ آر سی پی نے جنوبی پنجاب کے لیے اس ٹاسک فورس قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور راشد رحمن کو اس ٹاسک فورس کا کوآرڈینیٹر مقررکیا گیا۔ راشد رحمن نے انسانی حقوق کی ترویج اور مظلوم انسانوں کو انصاف دینے کے لیے نئی راہیں تلاش کیں، وہ آزاد عدلیہ کی لڑائی میں برابر کے شریک تھے۔
جب جنرل پرویز مشرف نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معطل کیا تو بیرسٹر اعتزاز احسن کی قیادت میں وکلاء نے ملک گیر تحریک شروع کی راشد اگرچہ کبھی بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار نہیں رہے نہ پنجاب بار کونسل کے رکن تھے مگر انھوں نے وکلاء تنظیموں کے عہدیداروں سے زیادہ اس تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ راشد رحمن اس تحریک میں کئی دفعہ گرفتار ہوئے۔ ان کی کچھ عرصہ پہلے دل کی انجیوگرافی ہوئی تھی مگر راشد کے پاس بیماری کے لیے وقت نہیں تھا۔
راشد کو پنجاب حکومت نے گرفتار کیا اور سخت سردی میں اٹک جیل بھیج دیا گیا۔ اس جیل میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منیر اے ملک بھی نظر بند تھے مگر ان رہنماؤں کو علیحدہ بیرکوں میں نظربند کیا گیا۔
انھوں نے جنوبی پنجاب میں خواتین کے مسائل پر مسلسل آگہی کی مہم چلائی اور مظلوم خواتین کو مفت قانونی سہولتیں فراہم کیں، وہ مظفر گڑھ میں مختاراں مائی کے سب سے بڑے حامی تھے۔ راشد کا کہنا تھا کہ مختاراں مائی کا تعلق پنجاب کے سب سے پسے ہوئے طبقہ سے ہے اور ایک عورت نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاگیردارانہ کلچرکو چیلنج کیا تھا۔ مختاراں مائی اتنی کمزور تھی کہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے اپنی مرضی سے اجتماعی گینگ ریپ کے مقدمہ کی ایف آئی آر درج کی اور مظلوم عورت سے انگوٹھا لگوا لیا۔
سپریم کورٹ کے اس وقت کے ججوں نے اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے اس وقت کے حالات کو نظرانداز کیا۔ راشد رحمن نے کسانوں کے حقوق کے لیے بہت کام کیا ، وہ کسانوں میں اسٹڈی سرکل منعقد کرتے، ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرتے اور کوئی مظلوم کسان زمیندار یا عمومی طور پر پولیس کے ظلم کا شکار ہوتا تو اس کے لیے ایک طرف ذرایع ابلاغ پر رائے عامہ ہموار کرتے اوردوسری طرف عدالتوں سے رجوع کرتے۔ملتان اور اطراف کے علاقوں میں زبردستی شادی اور غیرت کے نام پر قتل کی روایات بہت گہری ہیں۔
راشد نے خواتین کے قتل کے کئی واقعات پر تحقیق کی جنھیں ان کے پڑھے لکھے خاندانوں کے مردوں نے شادی سے انکار اور پسند کی شادی کرنے پر قتل کیا تھا۔ پولیس عمومی طور پر عورتوں کے قتل کو یا تو خودکشی قرار دیتی ہے یا تحقیقات نہیں کرتی۔ راشد رحمن نے ایسے مقدمات کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا۔ کئی مقدمات میں دفن کی جانے والی عورتوں کا پوسٹ مارٹم ہوا اور قتل کے الزامات درست ثابت ہوئے۔ راشد رحمن نے مسلسل عدالتوں میں جنگ لڑی۔
راشد رحمن آزادئ صحافت کے لیے آواز اٹھاتے رہتے تھے۔ جب اسلام آباد کے ایک معروف صحافی پر حملہ ہوا اور ایک چینل پر پابندی لگادی گئی تو راشد رحمن نے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر ملتان میں جلسے کیے۔ ان کے قتل سے چند دن قبل وہ ایک ایسی مہم میں مصروف تھے۔ راشد رحمن مظلوم افراد کو مفت قانونی سہولتیں فراہم کرتے۔ جنید کے والد اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرچکے تھے۔ انھیں کسی نے لاہور میں ایچ آر سی پی کے دفتر بھیج دیا۔
آئی اے رحمن نے سارا کیس دیکھا اور راشد کو ٹیلیفون کیا۔ فون پر ایک مختصر بات ہوئی۔ جب کئی دن بعد جنید کے والد نے راشد رحمن کے چیمبر میں ان سے ملاقات کی تو جنید کے مقدمہ کے تیار کاغذات انھیں ملے۔ راشد اس مقدمہ سے کسی وقت دستبردار ہوسکتے تھے۔ انھیں بھری عدالت میں دھمکیاں دی گئی تھیں، لوگوں نے انھیں مقدمہ سے علیحدگی کا مشورہ دیا۔
انھوں نے بی بی سی کی ایک ٹیم کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی جان کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا مگر راشد نے کبھی واپسی کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ راشد رحمن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ خواتین پر زیادتیوں کے خلاف بہت سے مقدمات چھپا دیے جاتے ہیں، کچھ ایسے ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں ان میں سے کچھ عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں،جو خواتین ان مظالم کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں وہ صرف ایک ملزم کے خلاف نہیں بلکہ پورے سماجی رویوں اور ریاست کے رویوں کے خلاف اٹھاتی ہیں۔
خواتین کو برابری کی حیثیت نہیں دی جاتی، انھیں خیرات کے طور پر انصاف دیا جاتا ہے۔ احسان کے طور پر انصاف زیادہ ظالمانہ ہوتا ہے اور جب کچھ مقدمات میں ملزم پر الزام لگ جاتا ہے تو ان لوگوں کے لیے مقدمہ لڑنا موت کے منہ میں لے جانے کے مترادف ہوتا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ملزم کو وہی سزا ملے جو وہ سوچتے ہیں۔ راشد کا یہ انٹرویو تاریخی حقائق کی نشاندہی کررہا ہے۔