کچھ تو ’’کرو…نا‘‘

کورونا بہت خوش تھا کہ وہ جیت گیا مگر کچھ جگہ پر کورونا اپنے اعزازات سے محروم نظر آیا۔

meemsheenkhay@gmail.com

دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے روایات کی پاسداری کے ساتھ دوبارہ قارئین کی محفل میں موجود ہوں۔ عوامی پذیرائی تو مل جاتی ہے مگر سیاسی طور پر اس پذیرائی سے محروم ہو کر خود ہی کالم کی صورت میں ڈفلی بجا کر خاموش ہو جاتا ہوں۔ پھر سوچتا ہوں کہ عوامی سطح پر کوششیں جاری و ساری رکھوں گا، آخر ناکامی پر دل گرفتہ ہونا بھی تو کوئی چیز ہے۔

عوام کے لیے مایوسی کی گرد جھاڑتا رہوں گا کہ میں عادی ہوں ان سیاست دانوں کی بھول بھلیوں کے حوالے سے مگر کیا کروں کہ میں بھی وہ بھینس ہوں جس کے سامنے بین بجاتے رہیں مگر وہ عوامی مسائل حل کروانے کے لیے دودھ دینا نہیں بھولتی کچھ عوامی اعترافات اتنے اعلیٰ و ارفع ہیں کہ اس مملکت خداداد میں اس پر روشنی ڈالنا بہت ضروری ہے مگر میری کوششیں ہوتی ہے کہ دانشورانہ بصیرت کے ساتھ منفی پروپیگنڈے سے بچ کر اپنے سیاست دانوں کے دل دروازے کو کھٹکھٹایا جائے کہ اب ان بے ضابطگیوں کا سلسلہ ختم ہو، گھناؤنی چاپلوسی کی باتیں اپنی ناتواں تحریر کے ذریعے خیانت کے زمرے میں نہیں لانا چاہتا کیونکہ ہم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔

آج کل ہر بات کا موضوع ایک تناور درخت کی طرح پھیل رہا ہے جس کا نام کورونا ہے، جناب کورونا کا نام عزت و احترام سے اس لیے لیا جاتا ہے کہ کورونا کا تو ہمارے ملک میں قصور نہیں ہے یہ باضابطہ ذمے داری کے ساتھ یورپی دنیا میں ایک بہترین گھڑ سوار کی طرح دوڑ رہا ہے مگر دنیا میں اس کی افزائش کے لیے کھلے میدان نہیں ہیں مگر ہمارے ملک میں اس کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کرنیوالے بہت ہیں اور اب یہ لیجنڈ اداکار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے کچھ سیاسی علم نجوم کے ماہرین قوم کے لیے گراں قدر اثاثہ بن بیٹھے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں قانون نے اختیاراتی دستانے پہن رکھے ہیں مگر ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک میں صرف سیاسی طور پر شامل ہے ویسے یہ ایک ہانڈی کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کا پیٹ خالی ہے سارا دن میڈیا پر اپوزیشن اور برسر اقتدار قوم کے مسائل سے لاتعلق ہوکر بحث و مباحثہ میں الجھے رہتے ہیں۔ یہ کسی المیے سے کم نہیں کورونا کی عزت و تکریم کو دولت کی پازیب سے تولا جا رہا ہے گزشتہ دنوں ایک ضمنی الیکشن کاحال سوشل میڈیا پر دیکھا، سیاسی بقا کے تحت سب انتہائی تہذیب و شائستگی سے بغیر ماسک کے اپنے امیدواروں کے لیے سیاسی درجہ حرارت کے تحت فضول سیاسی مشقوں میں مصروف نظر آئے۔

کورونا بہت خوش تھا کہ وہ جیت گیا مگر کچھ جگہ پر کورونا اپنے اعزازات سے محروم نظر آیا کہ کاروباری طبقہ جو ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ان کی دکانیں سیل کرکے جرمانے کی نذر کردی گئیں کیونکہ انھوں نے ایس او پیز پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا؟ پرائیویٹ اسکول مالکان نے اپنے غریب چپڑاسی سیکیورٹی گارڈ کی تنخواہیں کم کردیں مگر عزت دار پروٹوکول کے تحت بچوں کے والدین سے عزم و استقلال کے تحت ڈرامائی انداز سے تشویش کی لہر کو پیروں تلے کچلتے ہوئے پوری پوری فیس وصول کر رہے ہیں جب کہ اسکول خاصے دنوں سے بند ہیں۔

وفاقی و صوبائی وزرائے تعلیم کو اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا چاہیے اسکول مالکان والدین کو معاشی پستی کی طرف دھکیل رہے ہیں لہٰذا اس غیر ذمے داری کا ایک ضابطہ اخلاق تشکیل دیا جائے۔ فارمسٹ حضرات نے قوم کو لاوارث سمجھتے ہوئے نیست و نابود کرکے رکھ دیا ہے محکمہ صحت اس پر توجہ دے جو قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ دیکھیں کہ میڈیکل اسٹور پر آپ کو بی فارمیسی کے بجائے نائی، قصائی، چونا سفیدی کرنیوالے خدمات انجام دے رہے ہیں، یہ سب دل لبھانے والی باتیں ہیں۔ پرسان حال کوئی نہیں۔


افسوس صد افسوس انتہائی معذرت کے ساتھ سیاسی حضرات کورونا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ،سیکڑوں ٹھیلے بازاروں میں خرید و فروخت کرتے نظر آئیں گے جس پر ہزاروں لوگ بغیر ماسک کے زیر گردش ہیں تو پھر کاروباری حضرات کی دکانیں سیل کرنے کا معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس ملک میں جب تک کورونا کی فضا ہے ضمنی الیکشن نہ کرائے جائیں عموماً ایسی جگہوں پر آپ کو جذباتی لوگ نظر آئیں گے جمہوریت کی بات تو بعد میں ہوگی۔

جمہوریت کو بحال کرنیوالوں کا زندہ رہنا بھی تو ضروری ہے۔ بلکہ میں تو ارباب اختیار سے مودبانہ گزارش کرتا ہوں جب تک اس ملک میں کورونا کی وبا ہے ضمنی الیکشن پر وقتی طور پر پابندی عائد کردیں یہ الیکشن انسانوں کی زندگی سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔ ضمنی الیکشن کے موقع پر ماسک اور سینیٹائزر کو فراموش کرکے یہ سیاسی حضرات ووٹرز کی نازبرداریاں کرتے نظر آتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے جو پاکستانی ماسک کے علاوہ دیگر بے ضابطگیوں سے دور رہنا چاہتا ہے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ یہ قانون نافذ کرنیوالوں کا فرض ہے کہ اس بوسیدہ نظام کو دفن کریں قانون سخت کرکے طرز زندگی میں تبدیلی لائی جائے۔ ڈاکٹر طاہر شمسی جو پاکستان کے پہلے بون میرو ڈاکٹر ہیں، اب تک 900 سے زائد ٹرانسپلانٹ کرچکے ہیں جو پاکستان میں ریکارڈ ہے۔ وہ کورونا کے حوالے سے کہتے ہیں کہ لوگوں کو احتیاط کرنی ہوگی اور اگر لوگوں نے اس پر توجہ نہیں دی تو صحت کے بگاڑ کی کھڑکیاں کھل جائیں گی پھر انھیں بند کرنا مشکل ہوگا۔

پاکستان میں ٹی بی اور پھیپھڑوں کے معروف ڈاکٹر سید علی ارسلان جو ایک معروف ٹی وی ڈرامہ رائٹربھی ہیں انھوں نے بتایا کہ کورونا کا تعلق پھیپھڑوں کے حوالے سے بہت گہرا ہے آپ ایک لمبا سانس لیں اور پھر اس پر دل کی گہرائیوں سے اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ اس وقت پوری دنیا میں وینٹی لیٹرز پر پڑے لاکھوں افراد پورا زور لگا کر بھی ایک سانس کے محتاج ہیں۔ لاک ڈاؤن ہو نہ ہو لیکن احتیاط کو زندگی کا اصول بنائیں لوگوں کے لیے آپ صرف گنتی کا حصہ ہیں لیکن اپنے اہل خانہ کے لیے آپ زندگی کا حصہ ہیں۔

پھیپھڑوں کے ڈاکٹر سید ارسلان وہی ڈاکٹر ہیں جن کی سیریل راستہ دے زندگی ، آدم اور ابن آدم نے ایوارڈز لیے جب کہ ''راستہ دے زندگی'' سیریل کو پی ٹی وی ایوارڈ بھی ملا تھا۔ ڈاکٹر سید علی ارسلان لیاقت نیشنل میں ہوتے ہیں، جنرل کیسز کے حوالے سے نجیب نعمت اللہ کہتے ہیں کینسر کے مریضوں کو تو حواس باختہ نہیں ہونا ،کورونا میں زندگی کو سلیقے سے گزاریں موت زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ڈاکٹر عرفان بھی کینسر کے ڈاکٹر ہیں وہ بھی کینسر کے حوالے سے احتیاط کی بات کرتے ہیں۔

قارئین! یہ وہ ڈاکٹرز ہیں جو FRCS، FCPS ہیں، یہ ڈاکٹر یورپین ممالک اور مڈل ایسٹ میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں مگر یہ درویش لوگ ہیں۔ میڈیکل کے حوالے سے یہ پاکستان کا سرمایہ اور بلند و بالا عمارات ہیں۔ ہمارے قارئین بیمار انتظامی ڈھانچے کے تحت برسوں میں کوئی اعلیٰ اعزازات کی خبر پڑھتے ہیں آپ کو حیرت ہوگی ان تمام ڈاکٹرز کو حکومت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں بس علم کی زنجیریں ان کے پیروں کو جکڑے ہوئے ہیں۔
Load Next Story