کراچی کا حقیقی سیاسی وارث کون
قیام پاکستان کو 73 برس بیت گئے لیکن اس شہر کے سیاسی مزاج کا واضح اظہار ہنوز نہیں ہو سکا۔
قیام پاکستان کو 73 برس بیت گئے لیکن اس شہر کے سیاسی مزاج کا واضح اظہار ہنوز نہیں ہو سکا۔ کبھی یہ شہر اربن مڈل کلاس کے کلاسیکل مزاج کی بھرپور عکاسی کرتے ہوئے جمہوری قوتوں کے ساتھ شانہ بشانہ جمہوری نظام کی بحالی کی جدوجہد کرتا دکھائی دیتا ہے اور اپنے اربن مڈل کلاس کے مفادات اور اس کی سوچ وفکر کے عین مطابق جنرل ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کرتا دکھائی دیتا ہے، تو کبھی اربن مڈل کلاس کے مزاج کے بر عکس جدید سوچ کے حامل ذوالفقارعلی بھٹو کی جمہوری حکومت کی بدترین مخالفت میں پیش پیش نظر آتا ہے۔
ملک میں پارلیمانی سیاست کا آغاز ہوتا ہے اور جب عوام کو حق رائے دہی کا موقع ملتا تو یہاں کے عوام مختلف ناموں سے کام کرنے والی سیاسی جماعتوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی حمایت سے کوسوں دور، ان کے روشن خیال، ترقی پسندانہ سوچ کے بدترین مخالف بن جاتے ہیں۔ بھٹو حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں سب سے زیادہ موثر تحریک کا مرکز بنے رہتے ہیں یہاں تک کہ ملک میں ایک بار پھر مارشل لاء لگا دیا جاتا ہے تو بدقسمتی سے ماضی میں مارشل لاء کی بھرپور مخالفت کرنے والے اس شہر میں جمہوری حکومت کے خاتمے پر جشن منایا جاتا اور مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کے طویل مارشل لاء کی کہیں کھل کر تو کہیں درپردہ حمایت کی جاتی ہے۔
شہری سطح پر مہاجر قومی موومنٹ (MQM) قائم کی جاتی ہے، یعنی اب مذہبی اور مسلکی سیاست سے نکلتے ہیں تو دلیل اور منطق کی بنیاد پر لسانی سیاست کو اپنی فکر کی جواز بنا بیٹھتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت ہی میں جب اس سیاسی جماعت کو عوامی حمایت اور تقویت حاصل ہوجاتی ہے تو 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں اگرچہ آزاد حیثیت میں حصہ لیا جاتا ہے لیکن کامیابی حاصل کرنے کے بعد بلدیاتی ہاؤس میں اپنی جماعت کا مئیر منتخب کر واکر اس نوزائیدہ سیاسی جماعت کو قومی سطح پر پارلیمانی سیاست میں اپنی حیثیت کو تسلیم کروانے کا موقع مل جاتا ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد جب ملک میں پارلیمانی سیاست اور انتخابات کا موقع آتا ہے تو 1988 کے جماعتی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا جاتا ہے۔ جس میں کراچی کے شہری MQM کو اپنی بھرپور تائید و حمایت سے نوازتے ہیں۔ قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں سے گٹھ جوڑ کر کے اقتدار میں اپنا حصہ لیا جاتا ہے۔ اس جماعت کے بانی اور دیگر کئی رہنما تقریباً تیس سال کراچی شہر کے ہر فورم پر نمایندگی کرتے ہیں۔ اس طویل عرصہ میں اقتدار میں حصہ دار تو رہتے ہیں لیکن خود مین اسٹریم سے آؤٹ ہو جاتے ہیں۔
اس جماعت کے بانی کو پارٹی اور پورے شہر میں بلند ترین مقام حاصل ہو جاتا ہے، ان کی کہی ہر بات کا ہر سطح پر ان کی جماعت اور اس کے ارکان خوب دفاع کرتے ہیں، ان کی کہی ہر بات کو درست ثابت کرنے کے لیے کہاں کہاں سے دلیلیں اور طاویلیں تلاش کی جاتی ہیں اور ان کی کہی بات کو ہر قیمت پر درست ثابت کیا جاتا ہے۔ عشروں تک یہ تماشا دیکھنے کو ملتا ہے،آخر کار 22 اگست 2016 کا وہ دن آ جاتا ہے کہ جب MQM کے بانی کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مخالف نعرے لگادیتے ہیں۔
بعدازاں ان کی ہر بات کو دلیلوں سے صحیح ثابت کرنے اور ان پر جان نچھاور کرنے والے خود ان ہی کو ان کی جماعت سے نکال کر بیدخل کردیتے ہیں اور ان سے یہ شناخت تک چھین لی جاتی ہے۔ ایسے میں کراچی کے عوام سکھ کا سانس لیتے ہیں، کراچی کے شہری اس کی باقیات سے بھی اپنے آپ کو لاتعلق کر لیتے ہیں۔ ایسے میں کراچی میں شدید سیاسی خلاء پیدا ہوجاتا ہے۔ طاقت ور قوتوں کی جانب سے سیاسی لاوارث اس شہر کے لیے نئے ورثاء کی تلاش شروع کردی جاتی ہے۔ اب اس بار قرعہ فال تحریک انصاف کے نام نکلتاہے۔ اس بار بھی مصنوعی طریقے سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اب آج کی الجھن یہ ہے کہ گزشتہ ڈھائی برسوں میں تحریک انصاف پورے ملک کے عوام کی طرح کراچی کے شہریوں کو بھی اپنی کارکردگی سے متاثر نہیں کرسکی ہے لہذا وہ خلا جو قومی سیاست میں MQM کی بساط کو لپیٹنے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا وہ آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ ان ہی حالات میں کراچی شہر میں ایک صوبائی اور پھر قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا میدان سجنے کا موقع آگیا۔ صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی لہٰذا اس کے نتائج کو خوش دلی کے ساتھ پہلے دن ہی تسلیم کر لیا گیا لیکن قومی اسمبلی کے نتائج سے پوری قوم ہی ششدر رہ گئی، ملک کے تمام تجزیہ نگاروں نے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
قومی اسمبلی کے نتائج سے ملک کی مقتدر قوتوں کی جانب سے جو اشارے سمجھے جا سکتے ہیں وہ یہی ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی اپنی کارکردگی کو بہتر بناکر اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کو کراچی میں بڑھا کر اس سیاسی خلا کو پُر کرسکتی ہے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔اس پوری صورتحال میں اگر کراچی میں کسی جماعت کا راستہ روکنا مقصود ہے تو وہ ہے مسلم لیگ (ن)، جس سے مقتدر قوتوں کو شدید اختلاف ہے اور جس جماعت کی قیادت کے سخت رویہ کی بناء پر فی الحال وہ بات کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ دوئم وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس شہر پر ذرا سی توجہ اور اہمیت دی تو کراچی، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چلا جائے گا جو جاگیر دارانہ سماج کی فکر کے بر خلاف اربن مڈل کلاس پر مشتمل صنعتی شہر اور مسلم لیگ (ن) کا فطری اتحادی بھی ہے۔
ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ دونوں کے مابین تعلقات کو قائم کروادیا جائے اور کراچی کے شہریوں اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے درمیان مکالمے کا آغاز کیا جائے۔ اس کے دوسری جانب وہ MQM ہے جو ایک طویل عرصہ تک مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر قومی سیاست میں کردار ادا کرتی رہی ہے اور ان دونوں کی شراکت داری کی طویل تاریخ ہے جس میں کہیں کہیں اختلافات ضرور پیدا ہوئے ہیں لیکن مفادات کی میز پر وہ حل بھی ہوتے رہے ہیں لہذا گزشتہ چند برسوں کی دوری کو غلط فہمی قرار دے کر ماضی کے آزمائے ہوئے پرانے دوستوں کے ساتھ ایک بار پھر اقتدار میں شراکت داری کی جاسکتی ہے۔
ملک میں پارلیمانی سیاست کا آغاز ہوتا ہے اور جب عوام کو حق رائے دہی کا موقع ملتا تو یہاں کے عوام مختلف ناموں سے کام کرنے والی سیاسی جماعتوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی حمایت سے کوسوں دور، ان کے روشن خیال، ترقی پسندانہ سوچ کے بدترین مخالف بن جاتے ہیں۔ بھٹو حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں سب سے زیادہ موثر تحریک کا مرکز بنے رہتے ہیں یہاں تک کہ ملک میں ایک بار پھر مارشل لاء لگا دیا جاتا ہے تو بدقسمتی سے ماضی میں مارشل لاء کی بھرپور مخالفت کرنے والے اس شہر میں جمہوری حکومت کے خاتمے پر جشن منایا جاتا اور مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کے طویل مارشل لاء کی کہیں کھل کر تو کہیں درپردہ حمایت کی جاتی ہے۔
شہری سطح پر مہاجر قومی موومنٹ (MQM) قائم کی جاتی ہے، یعنی اب مذہبی اور مسلکی سیاست سے نکلتے ہیں تو دلیل اور منطق کی بنیاد پر لسانی سیاست کو اپنی فکر کی جواز بنا بیٹھتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت ہی میں جب اس سیاسی جماعت کو عوامی حمایت اور تقویت حاصل ہوجاتی ہے تو 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں اگرچہ آزاد حیثیت میں حصہ لیا جاتا ہے لیکن کامیابی حاصل کرنے کے بعد بلدیاتی ہاؤس میں اپنی جماعت کا مئیر منتخب کر واکر اس نوزائیدہ سیاسی جماعت کو قومی سطح پر پارلیمانی سیاست میں اپنی حیثیت کو تسلیم کروانے کا موقع مل جاتا ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد جب ملک میں پارلیمانی سیاست اور انتخابات کا موقع آتا ہے تو 1988 کے جماعتی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا جاتا ہے۔ جس میں کراچی کے شہری MQM کو اپنی بھرپور تائید و حمایت سے نوازتے ہیں۔ قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں سے گٹھ جوڑ کر کے اقتدار میں اپنا حصہ لیا جاتا ہے۔ اس جماعت کے بانی اور دیگر کئی رہنما تقریباً تیس سال کراچی شہر کے ہر فورم پر نمایندگی کرتے ہیں۔ اس طویل عرصہ میں اقتدار میں حصہ دار تو رہتے ہیں لیکن خود مین اسٹریم سے آؤٹ ہو جاتے ہیں۔
اس جماعت کے بانی کو پارٹی اور پورے شہر میں بلند ترین مقام حاصل ہو جاتا ہے، ان کی کہی ہر بات کا ہر سطح پر ان کی جماعت اور اس کے ارکان خوب دفاع کرتے ہیں، ان کی کہی ہر بات کو درست ثابت کرنے کے لیے کہاں کہاں سے دلیلیں اور طاویلیں تلاش کی جاتی ہیں اور ان کی کہی بات کو ہر قیمت پر درست ثابت کیا جاتا ہے۔ عشروں تک یہ تماشا دیکھنے کو ملتا ہے،آخر کار 22 اگست 2016 کا وہ دن آ جاتا ہے کہ جب MQM کے بانی کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مخالف نعرے لگادیتے ہیں۔
بعدازاں ان کی ہر بات کو دلیلوں سے صحیح ثابت کرنے اور ان پر جان نچھاور کرنے والے خود ان ہی کو ان کی جماعت سے نکال کر بیدخل کردیتے ہیں اور ان سے یہ شناخت تک چھین لی جاتی ہے۔ ایسے میں کراچی کے عوام سکھ کا سانس لیتے ہیں، کراچی کے شہری اس کی باقیات سے بھی اپنے آپ کو لاتعلق کر لیتے ہیں۔ ایسے میں کراچی میں شدید سیاسی خلاء پیدا ہوجاتا ہے۔ طاقت ور قوتوں کی جانب سے سیاسی لاوارث اس شہر کے لیے نئے ورثاء کی تلاش شروع کردی جاتی ہے۔ اب اس بار قرعہ فال تحریک انصاف کے نام نکلتاہے۔ اس بار بھی مصنوعی طریقے سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اب آج کی الجھن یہ ہے کہ گزشتہ ڈھائی برسوں میں تحریک انصاف پورے ملک کے عوام کی طرح کراچی کے شہریوں کو بھی اپنی کارکردگی سے متاثر نہیں کرسکی ہے لہذا وہ خلا جو قومی سیاست میں MQM کی بساط کو لپیٹنے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا وہ آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ ان ہی حالات میں کراچی شہر میں ایک صوبائی اور پھر قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا میدان سجنے کا موقع آگیا۔ صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی لہٰذا اس کے نتائج کو خوش دلی کے ساتھ پہلے دن ہی تسلیم کر لیا گیا لیکن قومی اسمبلی کے نتائج سے پوری قوم ہی ششدر رہ گئی، ملک کے تمام تجزیہ نگاروں نے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
قومی اسمبلی کے نتائج سے ملک کی مقتدر قوتوں کی جانب سے جو اشارے سمجھے جا سکتے ہیں وہ یہی ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی اپنی کارکردگی کو بہتر بناکر اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کو کراچی میں بڑھا کر اس سیاسی خلا کو پُر کرسکتی ہے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔اس پوری صورتحال میں اگر کراچی میں کسی جماعت کا راستہ روکنا مقصود ہے تو وہ ہے مسلم لیگ (ن)، جس سے مقتدر قوتوں کو شدید اختلاف ہے اور جس جماعت کی قیادت کے سخت رویہ کی بناء پر فی الحال وہ بات کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ دوئم وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس شہر پر ذرا سی توجہ اور اہمیت دی تو کراچی، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چلا جائے گا جو جاگیر دارانہ سماج کی فکر کے بر خلاف اربن مڈل کلاس پر مشتمل صنعتی شہر اور مسلم لیگ (ن) کا فطری اتحادی بھی ہے۔
ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ دونوں کے مابین تعلقات کو قائم کروادیا جائے اور کراچی کے شہریوں اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے درمیان مکالمے کا آغاز کیا جائے۔ اس کے دوسری جانب وہ MQM ہے جو ایک طویل عرصہ تک مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر قومی سیاست میں کردار ادا کرتی رہی ہے اور ان دونوں کی شراکت داری کی طویل تاریخ ہے جس میں کہیں کہیں اختلافات ضرور پیدا ہوئے ہیں لیکن مفادات کی میز پر وہ حل بھی ہوتے رہے ہیں لہذا گزشتہ چند برسوں کی دوری کو غلط فہمی قرار دے کر ماضی کے آزمائے ہوئے پرانے دوستوں کے ساتھ ایک بار پھر اقتدار میں شراکت داری کی جاسکتی ہے۔