ایک شاعر جو بچھڑ گیا
وہ انسان غریب نہیں ہے جس کے پاس اچھے دوست ہیں۔ جو اس کا سرمایہ ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ ان کے بچھڑنے۔۔۔
وہ انسان غریب نہیں ہے جس کے پاس اچھے دوست ہیں۔ جو اس کا سرمایہ ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ ان کے بچھڑنے یا پھر مر جانے سے دوستوں کے خزانے میں کمی آ جاتی ہے مگر وہ دوست ادیب، شاعر، صحافی یا رائٹرز ہیں تو ان کی جدائی جسمانی ہے مگر روحانی طریقے سے وہ ہمارے پاس ہمیشہ رہتے ہیں۔ وہ کبھی کتابوں کی صورت میں، کبھی ادبی اجلاس میں اور کبھی یادوں میں، اس طرح سے لا تعداد اچھے دوستوں میں سے ایک دوست تاجل بے وس بھی تھا جس کا اصلی نام تاج محمد سموں تھا جوہر نویس شاعر اور ادیب تھا جس کی تحریریں آج بھی سندھ کی لائبریریز میں لوگوں کے ذاتی کتب خانوں اور اسٹالز پر موجود ہیں۔
تاجل بے وس نے کل 46 کتابیں لکھیں جس میں 31 چھپ چکی ہیں اور باقی چھپنے کے مراحل میں ہیں۔ ان کتابوں میں سے زیادہ تر اس کی شاعری کی کتابیں ہیں جس میں ایک شاہ کے رسالے کی طرح ہے۔ جس میں اس نے جان بوجھ کر شاعری کم رکھی ہے کیوں کہ اسے بھٹائی کے رسالے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے جس کو کوئی بھی عبور نہیں کر سکتا ۔ اس نے اپنا تخلص بے وس اس لیے رکھا تھا ایک تو وہ ایک خاتون سے بڑا پیار کرتے تھے جس سے شادی کرنا چاہتے تھے مگر یہ نہ ہو سکا اس لیے اس نے اپنا تخلص بے وس رکھ لیا۔ ان کی کتابوں میں ایک کتاب انھوں نے میوزک کے بارے میں لکھی ہے جس میں اس نے بتایا ہے کہ سُر کیا ہیں اور انھیں ہارمونیم پر کیسے گایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سفر نامے، تاریخ، آٹو بایو گرافی، نثری شاعری کی کتابیں شامل ہیں۔ ان میں مزید ایک کتاب ریسرچ پر مشتمل ہے جس میں سیاسی، ادبی اور سماجی شخصیات کی بایو گرافی شامل ہیں۔ وہ ان کتابوں پر مختلف ایوارڈز اور انعامات حاصل کر چکے ہیں۔ تاجل خوش لباس، خوش اخلاق اور خوش خوراک شخصیت کے مالک تھے جس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مقناطیسی مسکراہٹ رہتی تھی اور اس کی یہ خوبی تھی کہ وہ بیٹھے بیٹھے شاعری کرتے تھے۔ وہ بڑے مہمان نواز تھے اور اس کے گھر پر ہر وقت دوستوں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ اس شاعر کے پورے سندھ اور انڈیا میں بے تحاشا فین ہیں۔ شاعری اور موسیقی اس کی کمزوری تھی۔
میری ملاقات تاجل سے پہلی مرتبہ ایک سندھی ادبی سنگت کی میٹنگ میں ہوئی تھی جو عبدالستار بھٹی کے گھر پر منعقد کی گئی تھی۔ اس کے بعد ہم لوگوں میں ذہنی ہم آہنگی بڑھتی گئی اور اس نے مجھے پابند کر دیا کہ میں ہر ہفتے کے دن اس کے گھر پر جاؤں اور اس کے ساتھ ڈنر کروں۔ جب تک کھانا تیار ہو وہ اپنے پاس کسی سنگر کو بلاتے تھے جو اس کے اشعار ہارمونیم پر گاتے تھے۔ جس کے لیے انھوں نے فرمائش پر عورت کے حسن پر ایک غزل مجھے لکھ کر دی جو میرے پاس اب تک محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ اس نے بتایا کہ جس عورت سے وہ پیار کرتے تھے اس کے بھائی اسے مارنے کے لیے ڈنڈے لے کر اس کے پیچھے بھاگے اور اس نے سائیکل پر بھاگ کر جان بچائی اور اس کے بعد اس کی ماں نے اسے کراچی بھیج دیا۔
تاجل انڈیا تین بار ادبی میٹنگز کے سلسلے میں جا چکے تھے جہاں پر اسے بڑا پروٹوکول دیا جاتا تھا اور انھیں وہاں پر سندھی ادب کے بڑے ایوارڈ دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جاپان، امریکا، جرمنی، تھائی لینڈ، اوساکا، ہانگ کانگ، کوریا وغیرہ سرکاری خرچے پر دیکھ چکے ہیں۔ کیوں کہ وہ وفاقی حکومت میں تھے اور انھیں ان ملکوں میں ہونے والے سیمینارز اور کانفرنسز میں یو این او کی طرف سے جانا پڑتا تھا۔ وہ 20 گریڈ میں 1998ء میں رجسٹرار آف کمپنیز کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ اتنے سارے ممالک دیکھنے کے بعد بھی اسے سندھ کے گاؤں، اس کا ماحول، آب و ہوا، مہمان نوازی بہت پسند تھے۔ جب بھی اسے وقت ملتا تھا تو وہ اپنے گاؤں جاتا تھا۔ اسے پیروں اور فقیروں کے مزاروں پر جانا پسند تھا۔ جہاں اسے ایک روحانی سکون ملتا تھا۔ انھیں شاعروں میں شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، شیخ ایاز، تنویر عباسی، مرزا غالب، رسول ہم زار، ولیم شیکسپیئر، شمشیر الحیدری، محمود درویش، کالی داس، کشن بیوس اچھے لگتے تھے۔ سیاسی شخصیات میں اسے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو پسند تھے جس کے لیے انھوں نے شاعری بھی کی ہے۔ سندھ کے شہروں میں لاڑکانہ اسے زیادہ اچھا لگتا تھا۔ جہاں وہ اکثر گھومنے جاتے تھے۔ سینماؤں میں فلم دیکھنا، امرود کھانا، قلفی کھانا اور ٹانگے کی سواری کرنا اسے اچھا لگتا تھا۔ فنکاروں میں انھیں دلیپ کمار، مدھو بالا، نمی، راج کپور، محمد رفیع اور لتا منگیشکر پسند تھے۔ جب کہ سندھ کے حوالے سے ان کے پسندیدہ فنکاروں میں عابدہ پروین، سرمد سندھی، محمد یوسف، استاد محمد جمن، عذرا ریاض، برکت علی، احمد مغل شامل ہیں۔ تاجل کی شاعری کو سندھ کے بڑے بڑے سنگرز نے گایا ہے جس میں عابدہ پروین سر فہرست ہیں۔ انھوں نے ایک کلام جو سندھ کے لیے لکھا تھا جسے عابدہ پروین نے گایا ہے بڑا مقبول ہوا ہے جس کے بول ہیں ''اے میری ماں تجھ پر میں کیا لکھوں ایک ہاتھ میں ایک قلم لکھنے کے لیے کم ہیں'' تاجل جب 7 سال کے تھے تو اس کے والد کا انتقال ہو گیا اور اس کی ماں کو ان کے بھائی اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے جن کے ساتھ جانے سے ان کی ماں نے انکار کیا۔ کیوں کہ وہ چاہتی تھی کہ اس کا اکلوتا بیٹا پڑھ لکھ کر پٹواری یا پھر ٹیچر بنے کیوں کہ اس کے ماما اسے بکریاں چرانے کا کام دیںگے۔ اس وقت اس کے گاؤں میں کوئی اسکول نہیں تھا۔ اس لیے وہ کئی میل پیدل چل کر دوسرے گاؤں میں اسکول جاتا تھا۔ اب وہ پڑھ لکھ کر پہلے ٹیچر بنا پھر ایم اے پاس کرنے کے بعد مختلف گریڈوں پر ترقی کرتے کرتے 20 گریڈ میں ریٹائر ہوا۔ وہ اسکول جاتے اور وہاں سے آتے جنگل میں جو بھی پرندوں اور جانوروں کو دیکھتا تھا ان کی آوازیں سنتا تھا، اسے اچھے لگتے تھے۔ اب پانی کا بہاؤ، درختوں کا جھومنا، لہلہاتے کھیتوں اور کھلیانوں کی سرسراہٹ، صبح سورج کا طلوع ہونا، شام کو ڈھلنا اور کالی رات میں ستاروں کے درمیان چاند کا ابھرنا، اس کی کرنوں کا اس کے گھر کے آنگن میں چمکنا اسے شاعری کرنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ اس نے 1958ء میں شاعری شروع کی جس کی اصلاح کے لیے وہ اپنے گاؤں کے شاعر حکیم اﷲ آندو جتوئی سے رجوع کرتے تھے جو چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا تھے اور معلومات کا خزانہ تھے۔ تاجل نے اپنی شاعری کا محور اپنی سندھ دھرتی کو بنایا اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں، اس کی خوبصورتی اور خوشحالی، اس میں بسنے والے سادہ اور امن پسند لوگ اس کی شاعری میں ملتے ہیں اب اس نے اپنی شاعری سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ جو بھی ملتا تھا اس کا مداح ہو جاتا تھا۔
تاجل کا خیال تھا کہ لٹریچر سماج میں صحت مند تبدیلی لاتا ہے جس سے نہ صرف تاریخ مرتب ہوتی ہے بلکہ لوگوں میں شعور بیدار ہوتاہے اور وہ اپنی زمین، زبان اور کلچر کو پہچاننا شروع کرتے ہیں اور اگر شاعری میں تصوف موجود ہے تو پھر انسانیت سے پیار ہو جاتا ہے۔ شاعر کا کام ہے کہ وہ پیار سے پریشانیوں کو آسان بنا کر لوگوں تک پہنچائے کیوں کہ جو لفظ شاعر استعمال کرے اس میں طاقت ہو جو ظالموں کو نیچا دکھانے کے لیے وزن رکھتے ہوں۔ وہ کیسٹ کلچر کے بہت مخالف تھے۔ کیوں کہ اس سے زبان اور کلچر خراب ہوتا ہے۔
تاجل اپنی ماں کو اپنا پہلا مدرسہ سمجھتے تھے جس کی گود میں پل کر وہ ایک ایسا انسان بنے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنی بیوی سے بے حد پیار کرتا تھا اور وہ اپنی اولاد کو جس میں پانچ بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں انھیں دوست سمجھتا تھا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی شاعر یا ادیب نہیں بن سکا ہے اور اپنی والد کے نام کو آگے لے کر نہیں چل سکے ہیں۔ اس کے قریبی دوستوں میں شیخ ایاز اور شمشیر الحیدری تھے جن سے وہ بہت متاثر تھے۔ اسے سندھی ہو جمالو ڈانس بہت زیادہ پسند تھا۔ جسے وہ بیرونی ممالک کے دورے کے دوران وہاں کے لوگوں کو رقص کر کے سناتے اور بتاتے تھے۔ تاجل نے سندھی، سرائیکی، اردو اور انگریزی میں شاعری کی ہے اور نثر میں بھی نام کمایا ہے۔
وہ دن ہمارے لیے بڑا ہی منحوس تھا جب تاجل پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی طرف سے بلائے گئے نصیر سومروکی کتاب کی رونمائی میں بحیثیت مہمان تقریر کر کے بے ہوش ہو گئے اور کوما میں چلے گئے، اسپتال میں دو ہفتے رہنے کے بعد 13 دسمبر کو اﷲ کی طرف چلے گئے۔ اس کی وصیت کے مطابق اس کو چوکنڈی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ تاجل 22 ستمبر 1938ء کو ضلع خیرپور میرس کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ حق مغفرت فرمائے۔
تاجل بے وس نے کل 46 کتابیں لکھیں جس میں 31 چھپ چکی ہیں اور باقی چھپنے کے مراحل میں ہیں۔ ان کتابوں میں سے زیادہ تر اس کی شاعری کی کتابیں ہیں جس میں ایک شاہ کے رسالے کی طرح ہے۔ جس میں اس نے جان بوجھ کر شاعری کم رکھی ہے کیوں کہ اسے بھٹائی کے رسالے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے جس کو کوئی بھی عبور نہیں کر سکتا ۔ اس نے اپنا تخلص بے وس اس لیے رکھا تھا ایک تو وہ ایک خاتون سے بڑا پیار کرتے تھے جس سے شادی کرنا چاہتے تھے مگر یہ نہ ہو سکا اس لیے اس نے اپنا تخلص بے وس رکھ لیا۔ ان کی کتابوں میں ایک کتاب انھوں نے میوزک کے بارے میں لکھی ہے جس میں اس نے بتایا ہے کہ سُر کیا ہیں اور انھیں ہارمونیم پر کیسے گایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سفر نامے، تاریخ، آٹو بایو گرافی، نثری شاعری کی کتابیں شامل ہیں۔ ان میں مزید ایک کتاب ریسرچ پر مشتمل ہے جس میں سیاسی، ادبی اور سماجی شخصیات کی بایو گرافی شامل ہیں۔ وہ ان کتابوں پر مختلف ایوارڈز اور انعامات حاصل کر چکے ہیں۔ تاجل خوش لباس، خوش اخلاق اور خوش خوراک شخصیت کے مالک تھے جس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مقناطیسی مسکراہٹ رہتی تھی اور اس کی یہ خوبی تھی کہ وہ بیٹھے بیٹھے شاعری کرتے تھے۔ وہ بڑے مہمان نواز تھے اور اس کے گھر پر ہر وقت دوستوں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ اس شاعر کے پورے سندھ اور انڈیا میں بے تحاشا فین ہیں۔ شاعری اور موسیقی اس کی کمزوری تھی۔
میری ملاقات تاجل سے پہلی مرتبہ ایک سندھی ادبی سنگت کی میٹنگ میں ہوئی تھی جو عبدالستار بھٹی کے گھر پر منعقد کی گئی تھی۔ اس کے بعد ہم لوگوں میں ذہنی ہم آہنگی بڑھتی گئی اور اس نے مجھے پابند کر دیا کہ میں ہر ہفتے کے دن اس کے گھر پر جاؤں اور اس کے ساتھ ڈنر کروں۔ جب تک کھانا تیار ہو وہ اپنے پاس کسی سنگر کو بلاتے تھے جو اس کے اشعار ہارمونیم پر گاتے تھے۔ جس کے لیے انھوں نے فرمائش پر عورت کے حسن پر ایک غزل مجھے لکھ کر دی جو میرے پاس اب تک محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ اس نے بتایا کہ جس عورت سے وہ پیار کرتے تھے اس کے بھائی اسے مارنے کے لیے ڈنڈے لے کر اس کے پیچھے بھاگے اور اس نے سائیکل پر بھاگ کر جان بچائی اور اس کے بعد اس کی ماں نے اسے کراچی بھیج دیا۔
تاجل انڈیا تین بار ادبی میٹنگز کے سلسلے میں جا چکے تھے جہاں پر اسے بڑا پروٹوکول دیا جاتا تھا اور انھیں وہاں پر سندھی ادب کے بڑے ایوارڈ دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جاپان، امریکا، جرمنی، تھائی لینڈ، اوساکا، ہانگ کانگ، کوریا وغیرہ سرکاری خرچے پر دیکھ چکے ہیں۔ کیوں کہ وہ وفاقی حکومت میں تھے اور انھیں ان ملکوں میں ہونے والے سیمینارز اور کانفرنسز میں یو این او کی طرف سے جانا پڑتا تھا۔ وہ 20 گریڈ میں 1998ء میں رجسٹرار آف کمپنیز کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ اتنے سارے ممالک دیکھنے کے بعد بھی اسے سندھ کے گاؤں، اس کا ماحول، آب و ہوا، مہمان نوازی بہت پسند تھے۔ جب بھی اسے وقت ملتا تھا تو وہ اپنے گاؤں جاتا تھا۔ اسے پیروں اور فقیروں کے مزاروں پر جانا پسند تھا۔ جہاں اسے ایک روحانی سکون ملتا تھا۔ انھیں شاعروں میں شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، شیخ ایاز، تنویر عباسی، مرزا غالب، رسول ہم زار، ولیم شیکسپیئر، شمشیر الحیدری، محمود درویش، کالی داس، کشن بیوس اچھے لگتے تھے۔ سیاسی شخصیات میں اسے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو پسند تھے جس کے لیے انھوں نے شاعری بھی کی ہے۔ سندھ کے شہروں میں لاڑکانہ اسے زیادہ اچھا لگتا تھا۔ جہاں وہ اکثر گھومنے جاتے تھے۔ سینماؤں میں فلم دیکھنا، امرود کھانا، قلفی کھانا اور ٹانگے کی سواری کرنا اسے اچھا لگتا تھا۔ فنکاروں میں انھیں دلیپ کمار، مدھو بالا، نمی، راج کپور، محمد رفیع اور لتا منگیشکر پسند تھے۔ جب کہ سندھ کے حوالے سے ان کے پسندیدہ فنکاروں میں عابدہ پروین، سرمد سندھی، محمد یوسف، استاد محمد جمن، عذرا ریاض، برکت علی، احمد مغل شامل ہیں۔ تاجل کی شاعری کو سندھ کے بڑے بڑے سنگرز نے گایا ہے جس میں عابدہ پروین سر فہرست ہیں۔ انھوں نے ایک کلام جو سندھ کے لیے لکھا تھا جسے عابدہ پروین نے گایا ہے بڑا مقبول ہوا ہے جس کے بول ہیں ''اے میری ماں تجھ پر میں کیا لکھوں ایک ہاتھ میں ایک قلم لکھنے کے لیے کم ہیں'' تاجل جب 7 سال کے تھے تو اس کے والد کا انتقال ہو گیا اور اس کی ماں کو ان کے بھائی اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے جن کے ساتھ جانے سے ان کی ماں نے انکار کیا۔ کیوں کہ وہ چاہتی تھی کہ اس کا اکلوتا بیٹا پڑھ لکھ کر پٹواری یا پھر ٹیچر بنے کیوں کہ اس کے ماما اسے بکریاں چرانے کا کام دیںگے۔ اس وقت اس کے گاؤں میں کوئی اسکول نہیں تھا۔ اس لیے وہ کئی میل پیدل چل کر دوسرے گاؤں میں اسکول جاتا تھا۔ اب وہ پڑھ لکھ کر پہلے ٹیچر بنا پھر ایم اے پاس کرنے کے بعد مختلف گریڈوں پر ترقی کرتے کرتے 20 گریڈ میں ریٹائر ہوا۔ وہ اسکول جاتے اور وہاں سے آتے جنگل میں جو بھی پرندوں اور جانوروں کو دیکھتا تھا ان کی آوازیں سنتا تھا، اسے اچھے لگتے تھے۔ اب پانی کا بہاؤ، درختوں کا جھومنا، لہلہاتے کھیتوں اور کھلیانوں کی سرسراہٹ، صبح سورج کا طلوع ہونا، شام کو ڈھلنا اور کالی رات میں ستاروں کے درمیان چاند کا ابھرنا، اس کی کرنوں کا اس کے گھر کے آنگن میں چمکنا اسے شاعری کرنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ اس نے 1958ء میں شاعری شروع کی جس کی اصلاح کے لیے وہ اپنے گاؤں کے شاعر حکیم اﷲ آندو جتوئی سے رجوع کرتے تھے جو چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا تھے اور معلومات کا خزانہ تھے۔ تاجل نے اپنی شاعری کا محور اپنی سندھ دھرتی کو بنایا اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں، اس کی خوبصورتی اور خوشحالی، اس میں بسنے والے سادہ اور امن پسند لوگ اس کی شاعری میں ملتے ہیں اب اس نے اپنی شاعری سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ جو بھی ملتا تھا اس کا مداح ہو جاتا تھا۔
تاجل کا خیال تھا کہ لٹریچر سماج میں صحت مند تبدیلی لاتا ہے جس سے نہ صرف تاریخ مرتب ہوتی ہے بلکہ لوگوں میں شعور بیدار ہوتاہے اور وہ اپنی زمین، زبان اور کلچر کو پہچاننا شروع کرتے ہیں اور اگر شاعری میں تصوف موجود ہے تو پھر انسانیت سے پیار ہو جاتا ہے۔ شاعر کا کام ہے کہ وہ پیار سے پریشانیوں کو آسان بنا کر لوگوں تک پہنچائے کیوں کہ جو لفظ شاعر استعمال کرے اس میں طاقت ہو جو ظالموں کو نیچا دکھانے کے لیے وزن رکھتے ہوں۔ وہ کیسٹ کلچر کے بہت مخالف تھے۔ کیوں کہ اس سے زبان اور کلچر خراب ہوتا ہے۔
تاجل اپنی ماں کو اپنا پہلا مدرسہ سمجھتے تھے جس کی گود میں پل کر وہ ایک ایسا انسان بنے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنی بیوی سے بے حد پیار کرتا تھا اور وہ اپنی اولاد کو جس میں پانچ بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں انھیں دوست سمجھتا تھا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی شاعر یا ادیب نہیں بن سکا ہے اور اپنی والد کے نام کو آگے لے کر نہیں چل سکے ہیں۔ اس کے قریبی دوستوں میں شیخ ایاز اور شمشیر الحیدری تھے جن سے وہ بہت متاثر تھے۔ اسے سندھی ہو جمالو ڈانس بہت زیادہ پسند تھا۔ جسے وہ بیرونی ممالک کے دورے کے دوران وہاں کے لوگوں کو رقص کر کے سناتے اور بتاتے تھے۔ تاجل نے سندھی، سرائیکی، اردو اور انگریزی میں شاعری کی ہے اور نثر میں بھی نام کمایا ہے۔
وہ دن ہمارے لیے بڑا ہی منحوس تھا جب تاجل پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی طرف سے بلائے گئے نصیر سومروکی کتاب کی رونمائی میں بحیثیت مہمان تقریر کر کے بے ہوش ہو گئے اور کوما میں چلے گئے، اسپتال میں دو ہفتے رہنے کے بعد 13 دسمبر کو اﷲ کی طرف چلے گئے۔ اس کی وصیت کے مطابق اس کو چوکنڈی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ تاجل 22 ستمبر 1938ء کو ضلع خیرپور میرس کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ حق مغفرت فرمائے۔