سندھ کا مقدمہ
1970ء کی دہائی میں ہی سندھ کے اندر دو انتظامی یونٹس قائم کر کے سندھ کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی تھی
1970ء کی دہائی میں ہی سندھ کے اندر دو انتظامی یونٹس قائم کر کے سندھ کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ اگر اس وقت ہی میرٹ کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کا نظام وضع کر لیا جاتا تو سندھ میں آباد نئے اور پرانے سندھیوں کے مابین خلیج میں اضافہ نہ ہوتا اور نہ ہی سندھ کی تقسیم یا کسی علیحدہ انتظامی یونٹ کی بازگشت سنائی دیتی۔ آج اکیسویں صدی کا یہ چودھویں کا سال ہے اور اس میں سندھ کے وہ باسی جو ہندوستان سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے یا وہ نفوس جنہوں نے پاکستان کے دیگر حصوں سے نقل مکانی کی اور رزق کی تلاش میں صوبہ سندھ کا رُخ کیا، ان کے اندر ایک بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ بے چینی ایک دو روز کی نہیں ، اس کے پیچھے تیس سے پینتیس سال کی محرومیاں موجود ہیں۔ ستر کی دہائی میں پاکستان کے چار صوبے تھے اور پانچ انتظامی یونٹس اور سندھ میں دو انتظامی یونٹس اس لیے قائم کیے گئے تا کہ دیہی اور شہری زندگی میں توازن پیدا کیا جائے۔ وہ توازن پیدا ہوا یا نہیں، یہ علیحدہ بحث ہے لیکن نفرتوں کے تناور درخت ضرور نشوونما پا گئے اور جو معاشرے میں تشدد اور بے چینی کا سبب بن رہے ہیں۔
اس ضمن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اپنی پینتیس سالہ سیاسی جدوجہد میں متعدد بار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ اگر کسی صوبے میں دو انتظامی یونٹس کے قیام سے ترقی کے عمل کو تیز کیا جا سکتا ہے تو پاکستان کے باقی صوبوں میں بھی دیہی اور شہری بنیادوں پر انتظامی یونٹس قائم کر دیے جائیں اور سندھ وہ واحد صوبہ ہے جس میں دو انتظامی یونٹس ہیں اور یہ صوبہ ترقی کی منازل بھی طے نہ کر سکا اور بحیثیت صوبہ یہ اپنے اتحاد کو بھی برقرار نہ رکھ سکا۔ بالآخر اس میں ایک علیحدہ انتظامی یونٹ کی بات کی گئی جو کہ وسائل کی تقسیم کا بھی حق رکھتا ہو اور سندھ کے وسائل کو مساوی بنیادوں پر تقسیم کر کے عوام کے تمام طبقات کو یکساں فائدہ پہنچانے کی بات کی گئی ہے۔ سندھ کے اندر سے اسے غداری، ملک دشمنی اور سندھ سے نفرت کا اظہار قرار دیا گیا لیکن کسی نے اس عمل پر غور نہ کیا کہ آخر یہ وقت کیوں آیا کہ سندھ کے باسیوں نے ہی سندھ میں بٹوارے اور ایک ہی گھر میں دیوار کھڑی کرنے کی بات کی ۔ گو کہ 3 جنوری 2014ء کو حیدر آباد کے باغِ مصطفی میں خطاب کرتے ہوئے صوبے کے قیام اور وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کے باعث علیحدہ ملک کی بات بھی کی گئی لیکن اس خطاب کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ آؤ پہلے ففٹی ففٹی پر بات کر لیں۔
آج جتنی بھی تنقید ہو رہی ہے، وہ صرف صوبے کے قیام یا ''ملک کے حصول'' کے اس مطالبے پر کی جا رہی ہے جو کہ اس مطالبے سے مشروط تھا کہ پہلے عزت سے جینے کا حق دینے، وسائل کو منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کے لیے کوئی فارمولا وضع کرنا اور اس کے لیے مذاکرات کر کے ایک نیا معاہدہ عمرانی ترتیب دینا تھا۔ پہلے نکتے پر تو کسی نے بات نہ کی البتہ وہ نکتہ جو ان کے بعد آنا تھا، اس پر ہرزہ سرائی کی جانے لگی۔ بعد ازاں الطاف حسین نے کراچی میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ صوبے کے وسائل کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر چاہتے ہیں۔ سندھ کی تقسیم نہ ان کا مقصد تھا، نہ ہے۔ لیکن اگر کراچی کو مختلف سمتوں سے ہم پکار سکتے ہیں کہ کراچی غربی، کراچی شرقی، کراچی جنوبی او رکراچی وسطی تو کیا اس سے کراچی تقسیم ہو جاتا ہے؟ جواب یقیناً نفی میں آئے گا۔ اسی کُلّیے کو اختیار کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائدا لطاف حسین نے سندھ ون اور سندھ ٹو کی اصطلاح استعمال کی اور کہا کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ، بہتر انتظامی نظم و نسق اور ترقی کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے صوبے میں دو باقاعدہ انتظامی یونٹس قائم کر کے سندھ میں آباد مختلف طبقہ ہائے آبادی کو حکومت اور اپنے عوام کی خدمت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کہا کہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ہمیں سندھ ون کہا جاتا ہے یا سندھ ٹو ۔ ہم سندھ ٹو بننے کو بھی تیار ہیں۔
مذاکرات کی میز پر اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم کا فارمولا طے کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو اس کے بعد ہی سندھ ون اور سندھ ٹو کا فارمولا زیر بحث آئے گا۔ شاید وہ وقت آ گیا ہے کہ اب وسائل پر زیادہ دیر تک استحصالی طبقہ قابض نہیں رہ سکتا۔ یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں ہے کہ سندھ دیہی کے لیے مختص وسائل ہی صحیح سمت میں خرچ نہیں کیے گئے کیونکہ اگر ان وسائل کا درست استعمال کیا جاتا تو سندھ کے دیہی علاقے بھی شہری علاقوں کے برابر آتے لیکن افسوس کہ نہ صرف سندھ کے دیہی علاقوں کے عوام کا معیارِ زندگی بلند نہ ہوا بلکہ شہری علاقوں میں بھی انحطاط نوٹ کیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال مواصلات کا درہم برہم ہوتا نظام، ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی، فراہمی و نکاسی آب کی فراہمی کی تباہی، امن و امان کا مسئلہ، علاج معالجے کی ابتر ہوتی صورتحال، تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کا انہدام ، یہ وہ مسائل ہیں جو اب شہروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر ستر کی دہائی میں دو انتظامی یونٹس اور ساٹھ اور چالیس کے تناسب سے وسائل کی تقسیم کا فارمولا مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
لہٰذا وقت تقاضا کرتا ہے کہ تیز رفتار ترقی کے زمانے میں وقت کا ساتھ دینے کے لیے بہتر نظم و نسق اور امورِ حکومت چلانے کے لیے حاکم اور محکوم کے تصور کو ختم کرنے کے لیے نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ یوں تو صوبوں کا قیام کسی ملک کی وحدت کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ اس سے ملک میں استحکام آتا ہے لیکن اگر صوبے کی تقسیم کسی کی انا کا مسئلہ ہے تو صوبے کی جغرافیائی وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے سندھ ون اور سندھ ٹو کے کلیے کو اختیار کرتے ہوئے با اختیار اور مکمل انتظامی یونٹ بنا دیے جائیں جو نہ صرف اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں بلکہ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پالیسیاں وضع کریں۔ اس کے لیے وسائل پیدا کر سکیں اور ایک شفاف طریقے سے اس پر عمل کر کے ترقی کی رفتار کو تیز کرسکیں تاکہ حقیقی معنوں میں ملک کو ایک جمہوری، فلاحی ریاست بنایا جا سکے اور وہ بھی ایسی ریاست جہاں اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں نہ کہ اس پر چند مراعات یافتہ خاندان قبضہ کر کے اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ کریں بلکہ سندھ سمیت ملک کے تمام صوبے ایک ایسے نظام کا تقاضا کر رہے ہیں جہاں کرپشن، جہالت اور دہشت گردی کو ختم کر کے ایک ایسی صبح کا آغاز کیا جائے جس کا خواب بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا۔
آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی گر بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ
اس ضمن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اپنی پینتیس سالہ سیاسی جدوجہد میں متعدد بار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ اگر کسی صوبے میں دو انتظامی یونٹس کے قیام سے ترقی کے عمل کو تیز کیا جا سکتا ہے تو پاکستان کے باقی صوبوں میں بھی دیہی اور شہری بنیادوں پر انتظامی یونٹس قائم کر دیے جائیں اور سندھ وہ واحد صوبہ ہے جس میں دو انتظامی یونٹس ہیں اور یہ صوبہ ترقی کی منازل بھی طے نہ کر سکا اور بحیثیت صوبہ یہ اپنے اتحاد کو بھی برقرار نہ رکھ سکا۔ بالآخر اس میں ایک علیحدہ انتظامی یونٹ کی بات کی گئی جو کہ وسائل کی تقسیم کا بھی حق رکھتا ہو اور سندھ کے وسائل کو مساوی بنیادوں پر تقسیم کر کے عوام کے تمام طبقات کو یکساں فائدہ پہنچانے کی بات کی گئی ہے۔ سندھ کے اندر سے اسے غداری، ملک دشمنی اور سندھ سے نفرت کا اظہار قرار دیا گیا لیکن کسی نے اس عمل پر غور نہ کیا کہ آخر یہ وقت کیوں آیا کہ سندھ کے باسیوں نے ہی سندھ میں بٹوارے اور ایک ہی گھر میں دیوار کھڑی کرنے کی بات کی ۔ گو کہ 3 جنوری 2014ء کو حیدر آباد کے باغِ مصطفی میں خطاب کرتے ہوئے صوبے کے قیام اور وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کے باعث علیحدہ ملک کی بات بھی کی گئی لیکن اس خطاب کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ آؤ پہلے ففٹی ففٹی پر بات کر لیں۔
آج جتنی بھی تنقید ہو رہی ہے، وہ صرف صوبے کے قیام یا ''ملک کے حصول'' کے اس مطالبے پر کی جا رہی ہے جو کہ اس مطالبے سے مشروط تھا کہ پہلے عزت سے جینے کا حق دینے، وسائل کو منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کے لیے کوئی فارمولا وضع کرنا اور اس کے لیے مذاکرات کر کے ایک نیا معاہدہ عمرانی ترتیب دینا تھا۔ پہلے نکتے پر تو کسی نے بات نہ کی البتہ وہ نکتہ جو ان کے بعد آنا تھا، اس پر ہرزہ سرائی کی جانے لگی۔ بعد ازاں الطاف حسین نے کراچی میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ صوبے کے وسائل کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر چاہتے ہیں۔ سندھ کی تقسیم نہ ان کا مقصد تھا، نہ ہے۔ لیکن اگر کراچی کو مختلف سمتوں سے ہم پکار سکتے ہیں کہ کراچی غربی، کراچی شرقی، کراچی جنوبی او رکراچی وسطی تو کیا اس سے کراچی تقسیم ہو جاتا ہے؟ جواب یقیناً نفی میں آئے گا۔ اسی کُلّیے کو اختیار کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائدا لطاف حسین نے سندھ ون اور سندھ ٹو کی اصطلاح استعمال کی اور کہا کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ، بہتر انتظامی نظم و نسق اور ترقی کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے صوبے میں دو باقاعدہ انتظامی یونٹس قائم کر کے سندھ میں آباد مختلف طبقہ ہائے آبادی کو حکومت اور اپنے عوام کی خدمت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کہا کہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ہمیں سندھ ون کہا جاتا ہے یا سندھ ٹو ۔ ہم سندھ ٹو بننے کو بھی تیار ہیں۔
مذاکرات کی میز پر اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم کا فارمولا طے کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو اس کے بعد ہی سندھ ون اور سندھ ٹو کا فارمولا زیر بحث آئے گا۔ شاید وہ وقت آ گیا ہے کہ اب وسائل پر زیادہ دیر تک استحصالی طبقہ قابض نہیں رہ سکتا۔ یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں ہے کہ سندھ دیہی کے لیے مختص وسائل ہی صحیح سمت میں خرچ نہیں کیے گئے کیونکہ اگر ان وسائل کا درست استعمال کیا جاتا تو سندھ کے دیہی علاقے بھی شہری علاقوں کے برابر آتے لیکن افسوس کہ نہ صرف سندھ کے دیہی علاقوں کے عوام کا معیارِ زندگی بلند نہ ہوا بلکہ شہری علاقوں میں بھی انحطاط نوٹ کیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال مواصلات کا درہم برہم ہوتا نظام، ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی، فراہمی و نکاسی آب کی فراہمی کی تباہی، امن و امان کا مسئلہ، علاج معالجے کی ابتر ہوتی صورتحال، تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کا انہدام ، یہ وہ مسائل ہیں جو اب شہروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر ستر کی دہائی میں دو انتظامی یونٹس اور ساٹھ اور چالیس کے تناسب سے وسائل کی تقسیم کا فارمولا مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
لہٰذا وقت تقاضا کرتا ہے کہ تیز رفتار ترقی کے زمانے میں وقت کا ساتھ دینے کے لیے بہتر نظم و نسق اور امورِ حکومت چلانے کے لیے حاکم اور محکوم کے تصور کو ختم کرنے کے لیے نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ یوں تو صوبوں کا قیام کسی ملک کی وحدت کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ اس سے ملک میں استحکام آتا ہے لیکن اگر صوبے کی تقسیم کسی کی انا کا مسئلہ ہے تو صوبے کی جغرافیائی وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے سندھ ون اور سندھ ٹو کے کلیے کو اختیار کرتے ہوئے با اختیار اور مکمل انتظامی یونٹ بنا دیے جائیں جو نہ صرف اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں بلکہ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پالیسیاں وضع کریں۔ اس کے لیے وسائل پیدا کر سکیں اور ایک شفاف طریقے سے اس پر عمل کر کے ترقی کی رفتار کو تیز کرسکیں تاکہ حقیقی معنوں میں ملک کو ایک جمہوری، فلاحی ریاست بنایا جا سکے اور وہ بھی ایسی ریاست جہاں اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں نہ کہ اس پر چند مراعات یافتہ خاندان قبضہ کر کے اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ کریں بلکہ سندھ سمیت ملک کے تمام صوبے ایک ایسے نظام کا تقاضا کر رہے ہیں جہاں کرپشن، جہالت اور دہشت گردی کو ختم کر کے ایک ایسی صبح کا آغاز کیا جائے جس کا خواب بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا۔
آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی گر بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ