اردو والے اپنے رسم الخط کو توقیر دیں جاپانی مترجم و محقق سے ایک بیٹھک کا احوال

پاکستانیوں کا شاعری پر جھومنا اور کیف اٹھانا بہت متاثر کرتا ہے، اردو کے مترجم ومحقق پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا

نجی جاپانی جامعات میں ہندی کے طلبہ میں اضافہ ہوا ہے، ہیرو جی کاتاؤ (فوٹو: ایکسپریس)

اُن کے عہدِ کم سنی کی دھندلی دھندلی یادوں میں دوسری جنگ عظیم کی تباہ کُن پرچھائیاں موجود ہیں جس میں یہ مناظر بھی ہیں کہ جاپان کی فضا میں امریکی بم بار طیارے نمودار ہوتے، جن کی گھن گرج سن کر وہ اور دیگر ہم عمر بچے بھاگ کر چھپ جایا کرتے تھے۔

ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کے وحشیانہ جوہری حملوں اور تاریخ عالم کی اس خوف ناک جنگ کا احوال سننے کے لیے ریڈیو کا سہارا لیا جانا اُن کی یادداشت کے پردے پر کسی ہلکے سے نشان کی طرح اب بھی ہے جوہری حملوں سے متاثرہ شہر ان کے آبائی علاقے سائیتاما (Saitama) سے 700 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہیں، اس لیے 'جوہری قیامت' کے حوالے سے مزید کچھ ذہن میں نہیں۔

یہ تذکرہ قومی زبان سے انسیت رکھنے والے جاپانی پروفیسر اور محقق 'پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا' کا ہے، جو گزشتہ ماہ شہر قائد میں منعقدہ "دسویں عالمی اردو کانفرنس" میں رونق افروز تھے، ہم نے اِسی دوران آرٹس کونسل میں ایک ڈھلتی ہوئی شام، اُبھرتے ہوئے سورج کی سرزمین کے اس مکین کے روبرو ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

اپنے منفرد جاپانی لب ولہجے کے ذریعے وہ اردو کو وقعت بخشے ہیں دوران گفتگو متعدد بار وہ ہمارے سوالات کے جواب میں بہترین اردو مترادف کی کھوج میں تھوڑی دیر توقف کرتے ہیں کسی بات کے جواب میں وہ جلدی جلدی جاپانی زبان میں حساب لگاتے ہیں اور پھر اسے اردو کے قالب میں ڈھال کر ہمیں بتاتے ہیں برجستہ جملوں پر ہمارے ساتھ جی کھول کر ہنستے بھی ہیں یوں کسی بھی قسم کی 'اجنبیت' کا احساس رہتا ہی نہیں۔

کالج کی تعلیم تک پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا کی زندگی دیگر عام جاپانیوں کی طرح جاری رہی، لیکن جب 1964ءمیں انہوں نے ٹوکیو یونیورسٹی کے 'شعبۂ اردو' میں داخلہ لیا، تو انہیں اپنے ہم عصروں میں ایک انفرادیت ملتی چلی گئی، نئی زبان جاننے کی جستجو نے انہیں نہ صرف اردو سے متعارف کرایا، بلکہ اس کے بعد اُن کا اردو سے رشتہ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔

پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا کہتے ہیں کہ انہوں نے اردو کافی مشقت سے سیکھی، بالخصوص جاپانیوں کو تحریری زبان سیکھنے میں زیادہ وقت لگتا ہے، لیکن اس کے بعد اسی وجہ سے اُن کی زندگی آسان ہوئی۔ اردو کو اپنی یافت کا ذریعہ بنانے کا ذکر وہ بڑے اہتمام سے کرتے ہیں، حالاں کہ وہ کسی اور شعبے سے زیادہ آسانی سے آمدنی حاصل کر سکتے تھے۔

ہیروجی کاتاﺅکا کا خیال ہے کہ اگر جاپانی ہندی رسم الخط پڑھنا جانتے ہوں، تو ہندی زیادہ مشکل نہیں، لیکن اردو سیکھنے والوں کو تلفظ کا بہت زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے، جب کہ ہندی میں ایسا نہیں۔ جاپانی زبان میں بھی تلفظ کا مسئلہ اتنا زیادہ نہیں، جاپانی زبان میں ایک ہی آواز سے تلفظ کیا جاتا ہے۔ اردو کے تلفظ میں فرق میں مشکل ہوتی ہے، اس لیے میں اس پر زیادہ توجہ نہیں دے پاتا۔ جاپانی زبان میں ہر طرح کے جذبے کے اظہار کی استطاعت ہے، جو کہ ہر زبان میں ہونی چاہیے۔

پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا 1970ءکی دہائی میں ترجمے کی جانب راغب ہوئے، اور پہلا ترجمہ کرشن چندر کے افسانے کا کیا۔ اس کے بعد سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو جاپانی کے قالب میں ڈھالا، اس کے بعد راجندر سنگھ بیدی کے ترجمے کیے، جس کے بعد وہ اردو شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کا اب بھی یہ خیال ہے کہ جاپانی قارئین اردو شعرا سے کم واقف ہیں۔ انہوں نے اسد اللہ خان غالب اور فیض احمد فیض کے اردو کلام کا مکمل جاپانی ترجمہ کیا ہے۔ فیض کا نصف ترجمہ ابھی شایع نہیں ہوا ہے۔

ہیروجی کاتاﺅکا نے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے افسانوں پر تحقیق بھی کی، اسی سبب وہ انہی کے افسانوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کی کتابیں بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم، مکمل ترجمہ کیا ہے۔ رواں برس ارمغان حجاز کا جاپانی ترجمہ بھی شایع ہونے والا ہے، کہتے ہیں کہ یہ ناشر پر ہے کہ کتنے دن لگتے ہیں۔ فیض، غالب اور اقبال کے علاوہ انہوں نے جوش ملیح آبادی، احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز وغیرہ کی شاعری کو بھی جاپانی کے قالب میں ڈھالا ہے۔

ہیروجی کاتاﺅکا مرزا غالب کی شاعری کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اُن کا کلام زیادہ تر دل کی کیفیات کے بارے میں ہے، محبت کی شاعری تو ساری دنیا میں ہی بہ آسانی سمجھ لی جاتی ہے، اس لیے جاپانیوں کے لیے اس کے اِبلاغ میں مشکل نہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ اس کے پس منظر میں مذہب بھی ہے، اس لیے اُسے سمجھنا تھوڑا سا مشکل ہے، جب کہ فیض احمد فیض تو آج کی دنیا کی بات ہے، اس لےے یہ زیادہ مشکل نہیں، ترقی پسند حلقے انہیں خاص طور پر سراہتے ہیں۔

ترجمے کے دوران مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا نے کہا کہ صرف لفظی ترجمے سے کام نہیں چلتا، مندرجات کے پس منظر سے واقفیت بھی ضروری ہے، ورنہ اِس کے اِبلاغ میں دشواری پیش آتی ہے۔ ادبی ترجمے کے وقت ابہام سے بچنے کے لیے پس منظر کا حوالہ ضروری ہے۔
جب ہم نے ہیروجی کاتاﺅکا سے پوچھا کہ 'کیا شاعری کے ترجمے میں بھی اوزان ملحوظ خاطر رکھتے ہیں؟' جس پر وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے، وہ اِسے جاپانی شاعری کے روپ میں رکھتے ہیں، لیکن ترجمے میں ردیف یا قافیے کا خیال رکھنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ جب ہم نے اُن سے جاپانی کلام کے اردو ترجمے کا استفسار کیا، تو انہوں نے بتایا کہ ابھی اس بارے میں نہیں سوچا اور وہ اردو کے جاپانی ترجمے کی طرف مرکوز ہیں۔

پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا کہتے ہیں کہ جاپانی جامعات میں مختلف ایشیائی زبانیں پڑھائی جاتی ہیں۔ اردو کا نام سن کر یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ کہاں بولی جاتی ہے، جب کہ چینی، ہندی، انڈونیشیائی اور کوریائی وغیرہ تو اپنے نام سے اپنے دیس کا تعارف کرا دیتی ہیں۔ اس لیے 'شعبہ ¿ اردو' میں داخلے کے بعد ہی طلبہ کو پتا چلتا ہے کہ یہ پاکستان کی زبان ہے اور ہندوستان میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔


جاپان میں اردو پڑھنے والوں کے ماضی اور حال کے سوال پر پروفیسر ہیروجی بتاتے ہیں کہ جب انہیں داخلہ ملا، تو تب وہاں 15 طالب علم زیر تعلیم تھے اور آج بھی اُتنے ہی ہیں۔ اب اردو میں پی ایچ ڈی پروگرام بھی موجود ہے، جو پہلے نہیں تھا۔ سرکاری جامعات میں تو اردو اور ہندی پڑھنے والے طلبہ کی تعداد ماضی کی طرح مساوی ہے، لیکن نجی جامعات میں اردو کے مقابلے میں ہندی کے طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

جاپان میں ہندی کو بڑھاوا دینے میں ہندوستان کی توجہ کا تذکرہ کرتے ہوئے پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا کہتے ہیں کہ اِن دنوں جاپان اور ہندوستان کے ناتے بہت گہرے ہیں۔ ہم نے استفسار کیا کہ "کیا اردو کے لیے پاکستانی حکومت اور سفارت خانہ کوشش نہیں کرتے؟' جس پر انہوں نے کہا 'بالکل کوشش کرتے ہیں، اور پھر بہت پرجوش انداز میں بتایا کہ موجودہ پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان تو بہت روانی سے جاپانی زبان بھی بول سکتے ہیں، انہوں نے جاپان سے ہی ڈاکٹریٹ کیا ہوا ہے۔'

رسم الخط کے حوالے سے ہیروجی کاتاﺅکا کہتے ہیں کہ اردو رسم الخط کا قدیم ثقافتی پس منظر ہے، انگریزی رسم الخط (رومن) استعمال کرنا، اپنی ثقافت چھوڑدینے کے مترادف ہے۔ ترکی میں رسم الخط کی تبدیلی کے تجربے سے یہی نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ اردو والوں کو اپنے رسم الخط کو توقیر دینی چاہیے، یہ بہت خوب صورت ہے۔

پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا بتاتے ہیں کہ اردو سیکھنے والے جاپانی طالب علم چار ہفتوں کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ دس پندرہ برس قبل وہ ایسے ہی طلبہ کا ایک وفد لے کر یہاں آئے، تو انہوں نے طے شدہ پروگرام کے تحت دو ہفتے تدریسی امور سے استفادے کے بعد سیر کے لیے مختص دو ہفتوں میں سے چار، پانچ دن ہندوستان یاترا کی نذر کیے، تاکہ ایک دورے سے دو مختلف ممالک کا تجربہ حاصل کیا جا سکے۔ وہ سمجھ رہے تھے، کہ طلبہ اس سے خوش ہوں گے، لیکن اس کے برعکس طلبہ نے پاکستان سے پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوستان کے بہ جائے پاکستان میں وقت گزارنا چاہتے تھے۔ جاپانی طلبہ کے اس تاثر کا سبب ان کے خیال میں ہندوستان میں ذات پات کا سلسلہ ہے، جب کہ یہاں کے لوگ زیادہ مہربان ہیں۔ صفائی اور دیگر مسائل تو دونوں ممالک میں ہیں، لیکن پاکستان کے لوگ بہت عزت کرتے ہیں۔

پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا کے بقول دنیا میں تو لوگ مے نوشی سے سرور اٹھاتے ہیں، جب کہ پاکستان میں لوگ علم وادب سے کیف اٹھاتے ہیں، یہاں یہ لطف شاعری سے اٹھایا جاتا ہے، یہ چیز انہیں بہت زیادہ متاثر کرتی ہے۔ مشاعروں میں داد وتحسین کے قرینے انہیں اتنے پسند آئے کہ انہوں نے جاپان میں خود بھی مشاعروں کا اہتمام کیا، جس میں اردو سیکھنے والے جاپانیوں کے ساتھ ہندوپاک کے باشندے بھی بڑے پیمانے پر شرکت کرتے ہیں۔

کسی جاپانی کی اردو شاعری کے حوالے سے پوچھا، تو پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا نے بتایا کہ چند سال پہلے ایم اے اردو کے ایک جاپانی طالب علم نے ایک مشاعرے میں اردو شاعری پڑھی تھی، اب انہیں یہ یاد نہیں آرہا کہ وہ اس طالب علم کی اپنی کاوش تھی، یا کسی دوسرے شاعر کا کلام تھا۔ جاپان اور امریکا کے سمبندھ کی بات ہوئی، تو ہیروجی کاتاﺅکا نے بتایا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہمارے ہاں امریکا کا بہت زیادہ اثر تھا، انہوں نے ہمارے ملک پر جوہری بم گرایا، اب ہم سب اس ہتھیار کے خلاف ہیں۔ ہم جوہری بم تیار کر نے کی صلاحیت کے باوجود تیار نہیں کرتے، گویا ان کے کہنے کا مقصد تھا کہ جاپان نے 'انتقام' کا یہ ڈھب اختیار کیا۔

"کھانا چھپ کر کیوں کھا رہے ہیں؟"

پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا اپنے ابتدائی دورہ ¿ پاکستان کو یوں بازیافت کرتے ہیں کہ پہلی بار یہاں آمد کا مقصد اپنے تحقیقی مقالے کے لیے مواد کا حصول تھا، تب یہاں کے بارے میں زیادہ معلومات نہ تھی، ایک بار جب یہاں آئے، تو رمضان کا مہینا تھا اور انہیں روزے کے بارے میں پتا نہیں تھا۔ جب انہوں نے یہاں ریستوران اور ہوٹلوں پر بڑے بڑے پردے پڑے ہوئے دیکھے، تو سمجھ نہ سکے کہ یہ کیا ماجرا ہے، جب پردہ اٹھا کر اندر دیکھا، تو پتا چلا کہ یہاں تو لوگ کھانا کھا رہے ہیں، اس کے بعد بھی ان کی حیرانی کا سلسلہ نہ تھما کہ آخر اس میں چھپنے والی کیا بات ہے۔ بعد میں انہیں روزوں اور ان دنوں کی حدود قیود کا پتا چلا، تب اس رازداری کی منطق سمجھ سکے۔

"جاپانی اخراجات سے بچنے کے لیے شادی نہیں کررہے"

جاپانی سماج میں خاندانی نظام کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی، پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا اس حوالے سے کہتے ہیں، وہاں نوجوان شادی نہیں کر رہے، یا پھر زیادہ عمر میں کر رہے ہیں، جس کے سبب جاپانی آبادی کم ہو گئی ہے، کاتاﺅکا صاحب اس کی وجوہات کے ذیل میں کئی عوامل مذکور کرتے ہیں، جن میں پیسے کی طلب اور اس کے علاوہ اخراجات سے بچنا شمار کرتے ہیں۔ جب اُن کی شادی کا سوال کیا، تو بے ساختہ ہنسنے لگے اور بتایا کہ اس واقعے کو 40 سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ وہ دو بیٹیوں کے والد ہیں، دونوں صاحب زادیاں شادی شدہ اور بال بچے دار ہیں۔ ان کی رہائش بھی قریب ہی ہے، اس لیے اکثر وبیش تر ملاقات ہو جاتی ہے۔ دونوں بیٹیاں اسکول میں تدریس سے وابستہ ہیں۔

پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا 1941ءمیں جاپانی شہر سائیتاما (Saitama) میں پیدا ہوئے۔ ان دنوں ہیروجی کاتاﺅکا جاپان کے درارالحکومت ٹوکیو میں رہتے ہیں۔ وہ روزانہ صبح ساڑھے چھے بجے اٹھتے ہیں اور پھر اپنے تعلیمی کاموں کے سلسلے میں نو بجے جامعہ چلے جاتے ہیں اور شام سات بجے گھر لوٹتے ہیں۔ کھانا کھاتے ہیں، ٹی وی پر خبریں دیکھتے ہیں، فلمیں آج کل کم دیکھتے ہیں۔ جاپان میں ہندوستانی فلمیں دیگر غیر ملکی فلموں کے مقابلے میں کم چلتی ہیں۔ پسندیدہ فلموں میں 'سات سمندر پار' کا نام لیتے ہیں۔ ایک دو مزید فلمیں اچھی لگیں، جن کا نام ذہن سے محو ہوگیا۔ وہ پہلے بھی پاکستان آتے رہے ہیں، اس بار چھے برس بعد آنے کا موقع ملا۔ اس سے پہلے ہر دو، تین سال میں وہ تحقیق اور اردو کے طلبہ کے ساتھ آتے رہے ہیں۔

2009ء میں 'ستارۂ امتیاز' ملا

پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا ٹوکیو یونیورسٹی سے ا ±ردو میں ایم اے کرنے کے بعد 1970ءمیں پاکستان آگئے اور کراچی یونیورسٹی سے ا ±ردو زبان میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کیا۔ 1974ءمیں وطن واپسی کے بعد ا ±نہوں نے چند برس اوساکا یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیے، جب کہ 1986ءمیں وہ دائتو بُنکا یونیورسٹی (Daito Bunka University) چلے گئے۔ وہاں بین الاقوامی تعلقات کے ڈین بھی رہے، پاکستانی ثقافت کے مضامین بھی پڑھاتے رہے، Institute of Contemporary Asian Studies کے ڈائریکٹر کی بھی ذمے داریاں نبھائیں۔ اردو ادب اور زبان پر اُن کے 60 سے زیادہ تحقیقی مقالے شایع ہو چکے ہیں۔ 1975ءمیں فیض احمد فیض کی منتخب شاعری کا مجموعہ جاپانی زبان میں شایع ہوا۔ جون 1994ءمیں مزید ترجمہ منصۂ شہود پر آیا۔ 1988ء اور 1990ءمیں پروفیسر سوزوکی ٹاکیشی (Suzuki Takeshi) کے ساتھ سعادت حسن منٹو کے افسانوں کے جاپانی زبان میں ترجمے کیے۔ فروری 2006ءمیں غالب کے منتخب کلام کا جاپانی ترجمہ کیا۔ 2009ءمیں اُن کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں 'ستارۂ امتیاز' سے نوازا۔ آج کل وہ ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں، تاہم اردو ادب کے جاپانی زبان میں ترجمہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
Load Next Story