تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی

یؐ میں حق و باطل کی کشمکش کے نتیجے میں برپا ہونے والے ان جنگی معرکوں جن میں نبی کریمؐ نے ۔۔۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

عہد نبویؐ میں حق و باطل کی کشمکش کے نتیجے میں برپا ہونے والے ان جنگی معرکوں جن میں نبی کریمؐ نے خود بحیثیت سپہ سالار اسلامی فوج کی کمان سنبھالی اور قیادت کی، وہ غزوات کہلاتے ہیں، جن کی تعداد بعض مورخین اور سیرت نگاروں کے نزدیک 27 اور بعض کے نزدیک 28 ہے۔ ان میں سے صرف 9 غزوات میں قتال کی نوبت آئی اور حق و باطل کا باہمی ٹکراؤ ہوا، باقی میں صلح یا معاہدات ہوئے یا دشمن میدان جنگ ہی سے فرار ہو گیا اور سرایا عہد نبویؐ میں دشمن اسلام کے ساتھ برپا ہونے والے حق و باطل کے وہ معرکے ہیں جن کی قیادت نبی رحمت ؐ نے خود سے تو نہ فرمائی تاہم کسی صحابیؓ کو بحیثیت سپہ سالار اس کی قیادت سونپ کر دشمن سے مقابلے کے لیے لشکر اسلام میدان جنگ کی جانب روانہ فرمایا، ان سرایا کی تعداد 71 ہے اور یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان تمام معرکوں میں جن میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان دوبدو مقابلہ ہوا ان میں کفار اور مسلمانوں کے مجموعی جانی نقصان کی تعداد 300 سے زائد نہیں جانے پائی بلکہ یہ تعداد 300 کے اندر اندر ہے اور یہ تعداد حیرت انگیز طور پر مسلمانوں کی دس سالہ سیاسی و عسکری جدوجہد پر محیط ہے۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ آپؐ نے حق کی سربلندی اور اسلام کے دفاع کے لیے یہ جنگیں اس قدر احتیاط سے لڑیں کہ تمام تر کوشش یہی رہی کہ جانی نقصان کم از کم ہو، یہی وجہ تھی کہ مدنی دور میں جہاد فی سبیل اﷲ کا حکم نازل ہونے کے بعد 10 سالہ دورانیہ میں کفار اور مسلمانوں کے مجموعی جانی نقصان کی کل تعداد 300 کے اندر اندر رہی، بعض مستشرقین نے یہ تعداد 1500 بیان کی ہے تاہم یہ درست نہیں۔ تاہم اگر ان مشتشرقین کی بیان کردہ تعداد کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو یہ تعداد بھی جو دس سالہ عرصے میں بیان کی جاتی ہے نام نہاد مہذب اقوام کی ظلم و بربریت و سفاکیت پر مبنی ہلاکت خیز جنگوں میں رونما ہونے والے بے پنہاں کشت و خون کے مقابلے میں انتہائی معمولی ہے، جس سے اسلام میں انسانی جان کی اہمیت اور انسانی خون کی حرمت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

انسان کی 5ہزار سالہ تحریری تاریخ میں 15 ہزار جنگیں ہو چکی ہیں یعنی اوسطاً 3جنگیں فی سال ہوئی ہیں۔ اس 5ہزار سالہ معلوم تحریری تاریخ میں صرف 3سو سال کا عرصہ امن سے گزرا ہے اور یہ بھی وہ دور ہے جو یا تو کسی جنگ کے بعد کا زمانہ ہے یا پھر کسی جنگ سے پہلے جنگ کی تیاری کا دور ہے، جسے ہم امن کا زمانہ کہتے ہیں اور یہ امن کا زمانہ 5ہزار سالہ تاریخ کا کل 6فیصد حصہ ہے جو جنگ و جدل سے محفوظ رہا۔ باقی پورے چار ہزار سات سو سال وحشت و بربریت پر مبنی انسانیت سوز مظالم کی عجیب و غریب اور شرمناک داستان ہیں جن میں بے دریغ کشت و خون ہوا اور انسانی جان کی حرمت پیوند خاک کا نمونہ بنی رہی، انسانی جان کی اہمیت اور انسانی خون کی حرمت پامال ہوتی رہی۔ مقدس مذہبی جنگیں ہوں یا عصر حاضر کی نام نہاد مہذب اقوام کی جنگیں سب میں یہی تماشا جاری رہا۔


خلیجی جنگوں کے اعداد و شمار دیکھیے صلیبیوں کے ہاتھوں کس قدر مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور آج بھی ان کے ہاتھوں مسلم امہ کا خون ارزاں ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں بھی جس قدر قتل و غارت گری ہوئی اسے بھی پیش نظر رکھیے۔ 28 جولائی 1914ء کو جنگ عظیم اول کا آغاز ہوا، 51 ماہ یہ جنگ جاری رہی۔ 14 ممالک اس جنگ میں باہم دست و گریباں ہوئے، ساڑھے چھ کروڑ افراد براہ راست اس جنگ میں ملوث تھے۔ 85 لاکھ سے زائد لقمہ اجل بن گئے، 2 کروڑ 20 لاکھ زخمی ہوئے، 85 لاکھ افراد لاپتہ ہوئے، 4 کھرب ڈالر کا نقصان ہوا، سب ملیا میٹ ہو گیا۔ دوسری جنگ عظیم 1939ء سے 1945ء تک جاری رہی، 28 ممالک شریک ہوئے، ایک کروڑ 50 لاکھ ہلاکتیں ہوئیں، بے شمار زخمی و لاپتہ ہوئے۔ ہیروشیما و ناگاساکی میں جو قیامت صغریٰ برپا ہوئی یہ سب غارت گری تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے، جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد 1945ء سے اب تک 180 سے زائد خوفناک جنگیں ہو چکی ہیں، 8کروڑ 90 لاکھ 73 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، 68 ممالک آج بھی جنگ زدہ ہیں۔ 46 بڑے تنازعات آج بھی مختلف ممالک کے درمیان چل رہے ہیں جن پر سالانہ 18 ہزار ایک سو ملین ڈالر خرچ ہوئے ہیں اور 1 لاکھ 94 ہزار 5 سو 7 ملین ڈالر اب تک خرچ ہو چکے ہیں۔

یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ آسمانی مذاہب میں اسلام نہ پہلا مذہب ہے اور نہ ہی رسول انقلابؐ پہلے پیغمبر ہیں جن پر جہاد فرض تھا اور جنہوں نے جہاد کی دعوت دی اور عملی طور پر خود جہاد کر کے بھی دکھایا بلکہ نبی رحمتؐ نے عقیدے و مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے اور باطل مذاہب پر حق مذہب کی بالادستی کے لیے عسکری جنگ لڑنے کے حوالے سے تاریخ میں کسی نئے عمل اور اسلوب کا اضافہ کرنے کے بجائے آسمانی ادیان کی ایک مسلسل روایت کو برقرار رکھا۔ چنانچہ جس طرح قرآن کریم میں جہاد اور مجاہدین کا تذکرہ پایا جاتا ہے اسی طرح بائبل میں بھی مجاہدین اور مذہبی جنگوں کا ذکر موجود ہے، جو بنی اسرائیل نے اپنے مذہب کے دفاع اور اپنی آزادی و تشخص کے تحفظ کے لیے لڑیں۔ مثال کے طور پر قرآن حکیم نے فلسطین کی سرزمین پر لڑی جانے والی مقدس جنگ کا سورۃ البقرہ میں تذکرہ کیا ہے جو جالوت جیسے ظالم بادشاہ کے خلاف حضرت طالوت کی قیادت میں لڑی گئی اور اس میں حضرت داؤدؑ کے ہاتھوں جالوت بادشاہ کا معجزانہ طور پر خاتمہ ہوا۔ اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے اور اس میں حضرت طالوت کو ساؤل بادشاہ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح بنی اسرائیل کے حوالے سے سورۃ المائدہ میں بھی جہاد کے ایک حکم کا تذکرہ ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ فرعون کے چنگل سے بنی اسرائیل کو نکال کر صحرائے سینا میں خیمہ زن ہوئے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو حکم ملا کہ وہ بیت المقدس کو عمالقہ سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کریں اور آگے بڑھ کر حملہ آور ہوں مگر غلامی کے دائرے سے تازہ تازہ نکلنے والی مرعوب قوم کو اس کا حوصلہ نہ ہوا اور پھر چالیس برس بعد بنی اسرائیل کی نئی نسل نے حضرت یوشع بن نونؑ کی قیادت میں جنگ لڑ کر بیت المقدس آزاد کرایا۔ اس لیے اگر آج کی جدید دانش کو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے پر اعتراض ہے تو اس کا ہدف صرف اسلام، قرآن، مسلمان اور جناب نبی کریمؐ کی ذات گرامی نہیں بلکہ اصولی و تاریخی طور پر بائبل و بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ کی ماضیٔ بعید و حال پر مبنی ایک پوری تاریخ اس کی زد میں ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہود و نصاریٰ نے خدا کے عملی احکام اور اپنے ماضی سے دست برداری کا اعلان کر دیا جب کہ قرآن حکیم پر ایمان رکھنے والے اپنے ماضی اور اﷲ کے احکام و تعلیمات سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔

اسلام کی نظر میں ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک بے گناہ انسان کی زندگی کو بچانا ساری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے لیکن اسلام کی نظر میں فساد قتل سے زیادہ شدید تر ہے لہٰذا اسلام فساد کو برداشت ہرگز نہیں کرتا۔ اسی لیے ہی تو اسلام میں دین کی سربلندی، تحفظ و دفاع اور فساد و فسادیوں کے خاتمے کے لیے جہاد کا حکم ہے تا کہ سارے جہاں میں ہر چہار سو امن و امان قائم ہو جائے کیوں کہ یہ اسلام ہی ہے جو کہ امن و آشتی، صبر و برداشت، دینی بصیرت، رواداری، اعتدال، میانہ روی، انتہا پسندی کے خاتمے، تحریم انسانیت و احترام آدمیت، مساوات، بالغ نظری اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی دینی عزت و وقار، قومی سلامتی کے تحفظ اور پرامن بقائے باہمی کے تحت ہر دور کے حالات کے تناظر میں مسائل اور چیلنجز کا پرامن حل تلاش کرنے کا سچا اور حقیقی علمبردار ہے اور رسول انقلابؐ نے دنیا کا وہ واحد کامل ترین انقلاب برپا فرمایا جسے دنیا کا پرامن ترین انقلاب قرار دیا جائے تو یقیناً غلط نہ ہوگا۔ متذکرہ اعداد و شمار اور تاریخی حقائق و شواہد اس کے بخوبی گواہ ہیں اور تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی لیکن جھوٹ اور جھوٹوں کو بے نقاب اور بے آبرو ضرور کرتی ہے۔
Load Next Story