عجب رستے کے مسافر ہیں

قلم کار ہمیشہ نئے موضوعات کا انتخاب کرتا ہے، نئے مسائل پر توجہ دیتا ہے اور تجزیاتی جائزہ لینے کے ۔۔۔

KARACHI:
قلم کار ہمیشہ نئے موضوعات کا انتخاب کرتا ہے، نئے مسائل پر توجہ دیتا ہے اور تجزیاتی جائزہ لینے کے بعد اپنی رائے کی شمولیت کے ساتھ اپنی تحریر کو منظر عام پر لاتا ہے۔ ہونا بھی یہی چاہیے۔ کیوں کہ ایک ہی ڈش یا کھانے کا ذائقہ مستقل قابل قبول نہیں ہوتا اور اپنی لذت کھو دیتا ہے۔ مرجھائے ہوئے پھول کی جگہ تازہ پھول لے لیتے ہیں۔ ہر شب کے بعد نئی صبح کا آغاز ہوتا ہے۔ مجھے بھی نئے موضوع، نئے مسئلے کی تلاش تھی، میرے اندر کا تخلیق کار بے قرار تھا۔ مگر جب میں نے اپنے گرد و نواح پر نظر ڈالی تو وہی پرانے مسئلے، پرانی باتیں اور پرانے موضوع یہاں تک کے چہرے بھی سب پرانے پرانے، بعض چہروں پر مجھے نئے چہروں کا شک ہوا، خوشی بھی ہوئی، نیا چہرہ ہو گا، نئے خیالات و افکار ہوں گے، نئی بات ہو گی، نئی روشنی ہو گی، لیکن جب اپنے اطراف نظر ڈالی تو مجھے یقین ہو گیا کہ خواب خواہش روشنی سراب ہیں۔

ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا کہ ہم بند گلی میں آ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو پتھر بن جائیں گے، آگے بڑھیں گے تو ٹکرا جائیں گے۔ چوٹ کھائیں گے، کوئی روشنی نہیں، دروازہ نہیں، کھڑکی نہیں، تازہ ہوا کا جھونکا، روح کی تازگی کب میسر آئے گی۔ لیکن یہ تو صرف میری سوچ تھی کیا سب سوچ رہے ہیں نہیں، میرے پیٹ میں روٹی ہے اس لیے میں سوچ رہی ہوں، ان چیزوں کے بارے میں جو ملک کی سلامتی اور بقاء کے لیے ضروری ہیں اور ان لوگوں کے بارے میں جو ملک کی بقاء کے لیے کوئی مثبت کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔ مگر جن کے پیٹ میں روٹی نہیں ہے ان کی سوچ آٹا، دال کے حصول کے طریقوں تک محدود ہے۔ شاید مہنگائی اور عوامی مسائل کا سبب بھی یہی ہے کہ ہم جیسے غریب اور متوسط طبقے کے لوگ مسئلوں میں الجھے رہیں اور کھلاڑی اپنی چالیں چلتے رہیں۔

سوچ سوچ کر دماغ گرم ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایسے موقعے پر ٹھنڈا پانی سکون بخش ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں مٹکے اور صراحی کا پانی فرحت بخش ہوتا تھا۔ پھر کولر اور فریج آ گئے اور ہم بجلی کے محتاج ہو گئے، برف اور فریج کے پانی کے لیے بجلی ضروری ہے، بجلی کو اپنی اہمیت کا احساس ہے اس لیے وہ آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے، بھلا ہو موسم کا، قانون فطرت کے تحت تبدیل ہو رہا ہے، کم از کم بغیر پنکھے کے تو سو جاتے ہیں مگر کہاں؟

عوام کی قسمت میں بھلا نیند کہاں، بے چینی اور بے قراری تو جیسے گھٹی میں پلائی گئی ہے، اتنے موٹے موٹے مچھر توبہ! دنیا کی دی ہوئی اذیتیں شاید کم تھیں اسی لیے مچھر وہ کمی پوری کر رہے تھے، ہائے اندھیرے میں تو شناخت بھی مشکل ہوتی ہے، ڈینگی نہ ہو۔ جنریٹر بے چارہ بھی تو گیس و پیٹرول سے چلتا ہے اور آواز الامان۔ اب ایک مچھر کی شناخت کے لیے اٹھ کر جنریٹر کون چلائے، خیر آثار خود انکشاف کر دیں گے کہ مچھر خطرناک نہ تھا۔ اگر خطرناک ہوا تو توبہ توبہ انسان کھائے یا علاج کرائے دو میں سے ایک کام ہو سکتا ہے۔

دو میں سے ایک کام سے یاد آیا کہ واقعی دو میں سے ایک کام ہی ہو سکتا ہے کہ انسان یا تو منفی سوچے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے یا پھر مثبت سوچ اپنے لیے دوسروں کے لیے۔ اگر آپ مثبت سوچتے ہیں تو آپ کی سوچ ایک صحت مند اور پر امن معاشرے کو جنم دے سکتی ہے اور اگر آپ کی سوچ منفی ہے تو معاشرے کو بدامنی سے کوئی بھی محفوظ نہیں رکھ سکتا۔بد امنی ایک لعنت ہے، معاشرے کے تمام شعبوں کو تباہ کر دیتی ہے، ذہنی سکون، ذہنی یکسوئی ترقی کی ضمانت ہے، بد امنی کی اس فضا میں امتحانوں کا موسم اور خدشات لیجیے، صاحب بے شمار مسائل کے ساتھ ہمارا طالب علم نتائج لمحہ فکریہ، لیجیے صاحب الزام ایک پارٹی کو دے دیجیے، لیکن کیا یہ ظلم نہیں کہ ہم ہمیشہ الزام کی ایک فریق پر ڈال دیتے ہیں۔ مثلاً کہ خراب نتائج کے ذمے دار اساتذہ ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اساتذہ بری الذمہ قرار نہیں دیے جا سکتے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اساتذہ مکمل ذمے دار نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے کہ اساتذہ ان کو پڑھائیں گے جو کہ کلاس میں موجود ہوں گے اگر طالب علم کلاس میں موجود ہی نہ ہوں تو گھر سے پکڑ پکڑ کر لانے سے رہے۔ یہ تو والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ گھر سے بچوں کو درسگاہ بھیجیں۔ ارے صاحب والدین پیٹ کی آگ بجھانے کا فریضہ انجام دیں یا تعلیمی اخراجات کا فیس ہو یا کرایہ بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑے چلے جا رہے ہیں، گھوڑے تو دوڑ رہے ہیں مگر انسان سست ہو گئے ہیں، موسم جو بدل گیا ہے۔ موسم سرد ہے، جذبے اور ذہن دونوں متاثر ہو رہے ہیں، موسم خواہ کتنا ہی سرد ہو گرمی گرم خبریں موسم سرما کو گرماتی رہتی ہیں۔ پہلے لوگ لکڑیاں جلا کر ہاتھ تاپتے تھے مگر اب دل جلا کر جیبیں گرم ہوتی ہیں، ویسے بیماری پرانی ہے یہ دوسری بات ہے کہ وقت کے ساتھ جڑ پکڑ لیتی ہے۔


ہائے یہ جڑیں ہی تو کمزور ہوتی جا رہی ہیں، پہلے لوگ شاخیں کاٹ رہے تھے اور اب جڑوں پر حملہ ہے، بے چارہ تنا وہ کیونکر بچ سکتا ہے۔ دیکھیں درخت کا کیا ہوتا ہے جس درخت کا ہم پھل کھاتے ہیں جس درخت کے سائے میں بیٹھتے ہیں اسی درخت کی شاخیں جلا جلا کر توڑ توڑ کر موسم کی شدت سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بدلتے موسموں کے اب تو عادی ہوتے جا رہے ہیں مگر میرے شہر میں تو ایک ہی موسم آ کر ٹھہر سا گیا ہے ''شدت پسندی کا موسم۔''

ہر شخص شدت پسند ہوتا جا رہا ہے، میانہ روی تو جیسے ختم ہی ہو چکی ہے، برداشت، صبر، تحمل اپنے معنی کھو چکے ہیں۔ اپنے دوست دشمن اور دشمن دوست نظر آنے لگے ہیں۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے شناخت، پہچان، آگہی توازن سب رخصت ہوئے باقی صرف ایک چیز بچی ہے وہ ہے بد گمانی، بد زبانی۔

زبان کی کسی زمانے میں بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی اب تو زبان بے چاری ماری ماری پھرتی ہے۔ کوئی پرسان حال ہی نہیں، زبان دے کر لوگ اسی طرح بھول جاتے ہیں کہ جیسے بیچاری کی کوئی اوقات ہی نہ تھی۔ زبان سے پھر جانا تو معمولات زندگی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، زبان درازی اور لہجے کی تلخی کلچر کا حصہ بنتی جا رہی ہے، جب ہمارے پاس دلائل نہیں بچتے تو ہم اپنے تیز لہجے کے ذریعے لوگوں کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ چیخ چیخ کر بولنا اور دوسرے کو بولنے کا موقع نہ دینا کیا اسی کے ذریعے ہم کسی خاص منطق یا نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔ نہیں۔ ہماری پہنچ تو صرف اسی حد تک ہے کہ ہم دوسروں پر کیچڑ اچھالیں، خود اپنا دامن بھی داغدار ہو اور دوسروں کو بھی داغدار کریں۔ داغ دھونے کی فکر کسی کو بھی نہیں اور فکر بھی کیوں ہو، شرم آئے بھی کیوں کو اکیلے تھوڑی ہیں، اسی حمام میں تو سب ہی ... خیر اب تو حمام کے نل بھی خشک ہو گئے ہیں۔ اپنے بجٹ میں ٹینکر کے لیے بھی الگ رقم مختص کر کے رکھ لیں۔

توبہ توبہ چھوٹی سی تنخواہ اور اخراجات کی طویل فہرست بندہ کرے تو کیا کرے کہاں جائے۔

اب تو گھبرا کر یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔

لوگ ایسے ہی کہتے ہیں کہ شاعر مبالغہ سے کام لیتے ہیں۔ شاعر تو زندگی کی سچائیوں اور تلخ حقیقتوں کو بے نقاب کرتے ہیں، بات ہے سمجھ کی اور ہم کچھ زیادہ ہی نا سمجھ ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم سے تو بچے ہی سمجھ دار ہوتے ہیں۔ لڑتے ہیں اور پھر مل جاتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں معلوم ہے کہ کل پھر اسی جگہ اسی مقام اور اسی گلی میں ایک ساتھ کھیلنا ہے، پھر کھیل میں لڑائی کیسی۔ مگر بڑے کھیل میں شکست برداشت نہیں کر پاتے اور ناراض ہو جاتے ہیں مگر ہمیشہ کے لیے نہیں، تھوڑی دیر کے لیے، بس وقفہ اتنا ہوتا ہے کہ کوئی سمجھوتہ ہو جائے۔ پس پردہ کیا ہے یہ تو آپ خود پردہ اٹھائیں گے تو نظر آ جائے گا نظر تو بہت کچھ آتا ہے مگر دستور زباں بندی بھی خوب ہے۔ جہاں یہ دستور نہیں ہے وہاں بند زبان ایسی کھلتی ہے گویا سیلاب کا ریلا سب کچھ بہا کر لے جائے۔ تباہ کاریاں ہی تباہ کاریاں، خیر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کوئی بولتا ہے تو بولتا رہے۔ سنتا کون ہے، چیخ دھاڑ کر سب خاموش ہو جاتے ہیں۔ سب چیزیں ہماری عادتوں میں شامل ہو گئی ہیں۔ اب نہ وہ صاحب گفتار رہے اور نہ ہی صاحب کردار۔ انھیں تلاش بھی کریں تو کہاں۔ نہ ٹھکانے کا پتہ نہ منزل کا، عجب رستہ کے مسافر ہیں۔ معلوم نہیں ہمارا سفر صحیح سمت ہے کیا غلط آنکھیں بند کر کے چلے جا رہے ہیں۔ آگے منزل ہے یا دلدل کچھ خبر نہیں۔ منجھدار کشتی، ملاح، مسافر، اب ساری اصطلاحیں، علامتیں اور اشارے سمجھ میں آنے لگے ہیں، کیا آپ بھی اشاروں کی زبان سمجھتے ہیں تو پھر سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم نے قلم کی زبان سے کیا کچھ کہا ہے اگر سمجھ گئے تو ہماری تحریر کا مقصد پورا ہو گیا۔ ورنہ...!!
Load Next Story