عید سعید مبارک
حقیقی عید اس خوش قسمت کی ہے جس نے رمضان المبارک میں اﷲ تعالیٰ کے احکامات کو مانا۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینہ کے بعد ''عیدالفطر'' کا مبارک دن بھی آ گیا ہے۔
حقیقی عید تو آج انہیں خوش نصیب لوگوں کی ہے جنھوں نے رمضان المبارک کی رحمت و بخشش اور مغفرت کے مہینے میں دن کو روزے رکھے رات کو تراویح میں قرآن مجید کو پڑھنے اور سننے کی سعادت حاصل کی۔
سحری و افطاری کے وقت اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ اس کے انوار و برکات کو خوب سمیٹا، اور پھر کتنے خوش نصیب اور حقیقی مبارک باد اور عید کی خوشیوں کے مستحق ہیں وہ لوگ جنھوں نے اس رمضان المبارک میں روزے رکھنے کے ساتھ اعتکاف میں بھی بیٹھے اور شبِ قدر جیسی بخشش و مغفرت کی عظیم رات کو پاکر اپنے لیے دنیا و آخرت کی کام یابی کو حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ کو جنّت کا مستحق بنالیا۔
کتنے لوگوں کی آنکھیں آج رمضان المبارک کی جدائی میں نم ہیں کہ وہ رمضان المبارک کا حق ادا نہ کرسکے اور اس مہینے میں بارش کی طرح برسنے والی رحمت و بخشش اور مغفرت کو اپنی غفلت و کوتاہی کی وجہ سے سمیٹ نہ سکے اور کتنے ہی سینے اس مقدس مہینہ کی جدائی پر غمگین ہیں جو نہ پروانہ مغفرت حاصل کرسکے اور نہ ہی انہیں سچی توبہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ نہ جانے اب زندگی میں دوبارہ اس مقدس مہینہ کو پانے کی بھی مہلت ملتی ہے کہ نہیں۔
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں امت محمدی ﷺ کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہؓ کرام نے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ! کیا یہ شب، شبِ قدر ہے۔۔۔؟
آپؐ نے فرمایا: نہیں بل کہ عمل کرنے کا اجر اس وقت پورا دے دیا جاتا ہے جب بندہ کام پورا کر دیتا ہے اور آخری شب میں عمل پورا ہو جاتا ہے لہذا بخشش کر دی جاتی ہے۔ اس رات کو آسمانوں پر ''لیلۃ الجائزۃ'' یعنی ''انعام کی رات'' کہا جاتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں۔ وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنّات اور انسانوں کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پکارتے ہیں کہ اے امت محمدی ﷺ! اس کریم کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے۔ پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ جل شانہ' فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کہ! کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو۔ وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری دے دی جائے۔ تو حق تعالیٰ جل شانہ' ارشاد فرماتے ہیں: اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان المبارک کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی ہے۔
اور بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے: اے میرے بندو! مجھ سے مانگو! میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم، آج کے دن اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا، اور دنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا، میری عزت کی قسم جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں کو چھپاتا رہوں گا، میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم میں تمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے ذلیل و رسوا نہیں کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو! تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔ فرشتے اس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو عیدالفطر کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں۔
عید کے دن سے پہلے ہی اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے۔ اگر پہلے ادا نہیں کرسکے تو عید کے دن اس کو ضرور ادا کریں۔ اس کے دو فائدے ہیں، ایک یہ کہ رمضان المبارک کے روزوں کی کوتاہیوں کی معافی کا ذریعہ ہے اور دوسرا یہ کہ غرباء و مساکین کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا سبب ہے۔ حضرت عبد اﷲ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ''صدقہ فطر'' مقرر فرمایا روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو روزی دینے کے لیے۔ (ابو دائود)
عید کے روز تیرہ چیزیں مسنون ہیں
٭ شرع کے موافق اپنی آرائش کرنا۔
٭ غسل کرنا۔
٭ مسواک کرنا۔
٭ عمدہ سے عمدہ کپڑے، جو پاس ہوں پہننا۔
٭ خوش بو لگانا۔
٭ صبح کو بہت سویرے اٹھنا۔
٭ عید گاہ بہت جلدی جانا۔
٭ عید گاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھجور، چھوہارے وغیرہ کھانا۔
٭ عید گاہ جانے سے قبل ہی صدقہ فطر ادا کرنا۔
٭ عید کی نماز عید گاہ میں جا کر پڑھنا۔
٭ ایک راستے سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔
٭ عید گاہ پیدل جانا۔
٭ عید گاہ جاتے ہوئے راستے میں ''اﷲ اکبر، اﷲ اکبر، لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر، اﷲ اکبر وﷲ الحمد'' آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا۔
حضور ﷺ سے دونوں عیدین میں غسل کرنا ثابت ہے۔
حضرت خالد بن سعیدؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ عیدالفطر، یوم النحر اور یوم عرفہ میں غسل فرمایا کرتے تھے۔
حضور ﷺ عید کے دن خوب صورت اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے۔ حضور ﷺ کی یہ بھی عادت مبارکہ تھی کہ عیدالفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل چند کھجوریں تناول فرماتے تھے اور ان کی تعداد طاق ہوتی یعنی تین، پانچ، سات وغیرہ (بخاری و طبرانی)
حضور ﷺ عید کی نماز عید گاہ (میدان) میں ادا فرماتے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابُوہریرہؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اپنی عیدین کو بہ کثرت تکبیر سے مزین کرو۔ حضور ﷺ عیدگاہ پیدل تشریف لے جاتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ)
حضور قدس ﷺ جس راستہ سے عید گاہ تشریف لے جاتے تو واپس اس راستے سے تشریف نہ لاتے بل کہ دوسرے راستے سے تشریف لاتے۔ (بخاری و ترمذی)
حضور ﷺ نماز عید، خطبہ سے پہلے پڑھتے اور جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے، لوگ صفوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ ﷺ ان کے سامنے وعظ فرماتے، وصیت کرتے اور ''امر و نہی'' فرماتے، اگر لشکر بھیجنا چاہتے تو اسی وقت بھیجتے یا کسی بات کا حکم کرنا ہوتا تو حکم فرماتے۔
عید گاہ میں منبر نہ ہوتا بل کہ آپ ﷺ زمین پر کھڑے ہو کر تقریر فرماتے۔
اہلِ زمین کے نزدیک عید صرف خوشی ہی نہیں بل کہ اﷲ تعالیٰ کی ''تکبیر و تہلیل'' اور عبادت کا خاص دن ہے، جس میں عبادت کی چھٹی نہیں بل کہ مزید ایک عبادت کا اضافہ کیا گیا ہے چناںچہ اس روز نمازِ عید کو واجب قرار دیا گیا ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھے روزے شوال کے رکھے تو اسے پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ہوگا اور اگر ہمیشہ ایسا ہی کیا کرے تو گویا اس نے ساری عمر روزے رکھے۔ (مسلم شریف)
حقیقی عید اسی خوش قسمت کی ہے جس نے رمضان المبارک میں اﷲ تعالیٰ کے احکامات کو مانا، توبہ و استغفار اور رو دھو کر، آہ و زاری کرکے اپنے گزشتہ گناہوں کا کھاتہ صاف کرلیا، اب اس کا نامۂ اعمال گناہوں کی سیاہی سے پاک ہو چکا ہے اور اب اس کے قلب پر گناہوں کا کوئی داغ دھبّا باقی نہیں رہا۔
رب تعالی ہمیں عید سعید کی عنایات و برکات سے مستفید فرمائے۔ آمین
حقیقی عید تو آج انہیں خوش نصیب لوگوں کی ہے جنھوں نے رمضان المبارک کی رحمت و بخشش اور مغفرت کے مہینے میں دن کو روزے رکھے رات کو تراویح میں قرآن مجید کو پڑھنے اور سننے کی سعادت حاصل کی۔
سحری و افطاری کے وقت اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ اس کے انوار و برکات کو خوب سمیٹا، اور پھر کتنے خوش نصیب اور حقیقی مبارک باد اور عید کی خوشیوں کے مستحق ہیں وہ لوگ جنھوں نے اس رمضان المبارک میں روزے رکھنے کے ساتھ اعتکاف میں بھی بیٹھے اور شبِ قدر جیسی بخشش و مغفرت کی عظیم رات کو پاکر اپنے لیے دنیا و آخرت کی کام یابی کو حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ کو جنّت کا مستحق بنالیا۔
کتنے لوگوں کی آنکھیں آج رمضان المبارک کی جدائی میں نم ہیں کہ وہ رمضان المبارک کا حق ادا نہ کرسکے اور اس مہینے میں بارش کی طرح برسنے والی رحمت و بخشش اور مغفرت کو اپنی غفلت و کوتاہی کی وجہ سے سمیٹ نہ سکے اور کتنے ہی سینے اس مقدس مہینہ کی جدائی پر غمگین ہیں جو نہ پروانہ مغفرت حاصل کرسکے اور نہ ہی انہیں سچی توبہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ نہ جانے اب زندگی میں دوبارہ اس مقدس مہینہ کو پانے کی بھی مہلت ملتی ہے کہ نہیں۔
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں امت محمدی ﷺ کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہؓ کرام نے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ! کیا یہ شب، شبِ قدر ہے۔۔۔؟
آپؐ نے فرمایا: نہیں بل کہ عمل کرنے کا اجر اس وقت پورا دے دیا جاتا ہے جب بندہ کام پورا کر دیتا ہے اور آخری شب میں عمل پورا ہو جاتا ہے لہذا بخشش کر دی جاتی ہے۔ اس رات کو آسمانوں پر ''لیلۃ الجائزۃ'' یعنی ''انعام کی رات'' کہا جاتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں۔ وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنّات اور انسانوں کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پکارتے ہیں کہ اے امت محمدی ﷺ! اس کریم کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے۔ پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ جل شانہ' فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کہ! کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو۔ وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری دے دی جائے۔ تو حق تعالیٰ جل شانہ' ارشاد فرماتے ہیں: اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان المبارک کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی ہے۔
اور بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے: اے میرے بندو! مجھ سے مانگو! میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم، آج کے دن اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا، اور دنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا، میری عزت کی قسم جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں کو چھپاتا رہوں گا، میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم میں تمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے ذلیل و رسوا نہیں کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو! تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔ فرشتے اس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو عیدالفطر کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں۔
عید کے دن سے پہلے ہی اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے۔ اگر پہلے ادا نہیں کرسکے تو عید کے دن اس کو ضرور ادا کریں۔ اس کے دو فائدے ہیں، ایک یہ کہ رمضان المبارک کے روزوں کی کوتاہیوں کی معافی کا ذریعہ ہے اور دوسرا یہ کہ غرباء و مساکین کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا سبب ہے۔ حضرت عبد اﷲ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ''صدقہ فطر'' مقرر فرمایا روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو روزی دینے کے لیے۔ (ابو دائود)
عید کے روز تیرہ چیزیں مسنون ہیں
٭ شرع کے موافق اپنی آرائش کرنا۔
٭ غسل کرنا۔
٭ مسواک کرنا۔
٭ عمدہ سے عمدہ کپڑے، جو پاس ہوں پہننا۔
٭ خوش بو لگانا۔
٭ صبح کو بہت سویرے اٹھنا۔
٭ عید گاہ بہت جلدی جانا۔
٭ عید گاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھجور، چھوہارے وغیرہ کھانا۔
٭ عید گاہ جانے سے قبل ہی صدقہ فطر ادا کرنا۔
٭ عید کی نماز عید گاہ میں جا کر پڑھنا۔
٭ ایک راستے سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔
٭ عید گاہ پیدل جانا۔
٭ عید گاہ جاتے ہوئے راستے میں ''اﷲ اکبر، اﷲ اکبر، لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر، اﷲ اکبر وﷲ الحمد'' آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا۔
حضور ﷺ سے دونوں عیدین میں غسل کرنا ثابت ہے۔
حضرت خالد بن سعیدؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ عیدالفطر، یوم النحر اور یوم عرفہ میں غسل فرمایا کرتے تھے۔
حضور ﷺ عید کے دن خوب صورت اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے۔ حضور ﷺ کی یہ بھی عادت مبارکہ تھی کہ عیدالفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل چند کھجوریں تناول فرماتے تھے اور ان کی تعداد طاق ہوتی یعنی تین، پانچ، سات وغیرہ (بخاری و طبرانی)
حضور ﷺ عید کی نماز عید گاہ (میدان) میں ادا فرماتے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابُوہریرہؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اپنی عیدین کو بہ کثرت تکبیر سے مزین کرو۔ حضور ﷺ عیدگاہ پیدل تشریف لے جاتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ)
حضور قدس ﷺ جس راستہ سے عید گاہ تشریف لے جاتے تو واپس اس راستے سے تشریف نہ لاتے بل کہ دوسرے راستے سے تشریف لاتے۔ (بخاری و ترمذی)
حضور ﷺ نماز عید، خطبہ سے پہلے پڑھتے اور جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے، لوگ صفوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ ﷺ ان کے سامنے وعظ فرماتے، وصیت کرتے اور ''امر و نہی'' فرماتے، اگر لشکر بھیجنا چاہتے تو اسی وقت بھیجتے یا کسی بات کا حکم کرنا ہوتا تو حکم فرماتے۔
عید گاہ میں منبر نہ ہوتا بل کہ آپ ﷺ زمین پر کھڑے ہو کر تقریر فرماتے۔
اہلِ زمین کے نزدیک عید صرف خوشی ہی نہیں بل کہ اﷲ تعالیٰ کی ''تکبیر و تہلیل'' اور عبادت کا خاص دن ہے، جس میں عبادت کی چھٹی نہیں بل کہ مزید ایک عبادت کا اضافہ کیا گیا ہے چناںچہ اس روز نمازِ عید کو واجب قرار دیا گیا ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھے روزے شوال کے رکھے تو اسے پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ہوگا اور اگر ہمیشہ ایسا ہی کیا کرے تو گویا اس نے ساری عمر روزے رکھے۔ (مسلم شریف)
حقیقی عید اسی خوش قسمت کی ہے جس نے رمضان المبارک میں اﷲ تعالیٰ کے احکامات کو مانا، توبہ و استغفار اور رو دھو کر، آہ و زاری کرکے اپنے گزشتہ گناہوں کا کھاتہ صاف کرلیا، اب اس کا نامۂ اعمال گناہوں کی سیاہی سے پاک ہو چکا ہے اور اب اس کے قلب پر گناہوں کا کوئی داغ دھبّا باقی نہیں رہا۔
رب تعالی ہمیں عید سعید کی عنایات و برکات سے مستفید فرمائے۔ آمین