خدا ہم سب کی حفاظت فرمائے

افغان جنگ اب ایک نئے فیز میں داخل ہو رہی ہے جو خونی اور تہ در تہ ثابت ہو سکتی ہے۔

امریکا نے گیارہ ستمبر تک افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد سے افغانستان کے مختلف صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ خبر ہے کہ جس نے لوگوں کے دل دہلا دیے۔

جب کابل کے ایک اسکول کے باہر بم دھماکا ہوا ، یہ اس قدر شدید تھا کہ جس سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور ان میں معصوم بچیوں کی تعداد زیادہ ہے، افغانستان میں تعلیم کے حوالے سے صورتحال خاصی ابتر ہے، خاص کر خواتین کی تعلیمی حالت بہت تکلیف دہ ہے۔ یاد رہے کہ طالبان کے دور حکومت میں خواتین کی تعلیمی سرگرمیوں کو معطل کردیا گیا تھا ، تعلیمی سلسلے کی بندش سے صنف نازک میں بے چینی پائی گئی تھی لیکن ان کے دور حکومت کے بعد خواتین کی تعلیم اور درسگاہوں کے ممکنہ بحالی اقدام کو ملکی اور غیر ملکی طور پر سراہا گیا ہے۔

سید ال شہدا اسکول بھی ایک ایسا ہی اسکول ہے جہاں تین شفٹوں میں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے، یہ دھماکا عین اس وقت ہوا جب لڑکیوں کی شفٹ ختم ہوئی تھی اور بچیاں اپنے اسکول سے نکل رہی تھیں۔ آٹھ مئی کا دن ان بچیوں کے لیے ایک تکلیف دہ یاد بن کر رہ گیا جو اس تکلیف دہ حادثے میں زخمی ہوئیں یا جنھوں نے اپنی پیاری سہیلیوں کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔

اسکول کی پرنسپل عقیلہ توکمی نے واشنگٹن پوسٹ کے نمایندے کو اس دھماکے کے کچھ دیر بعد فون پر بتایا کہ زوردار دھماکے کی آواز پر وہ بیرونی دروازے کی جانب لپکی ، یہ چھٹی کا وقت تھا اور وہ جانتی تھیں کہ ان کی بہت سی بچیاں ابھی باہر سڑک پر ہی ہوں گی اور پھر انھوں نے جیسے وہ قیامت خیز منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ، بچیاں دوڑ کر اسکول میں واپس آئی تھیں ، وہ رو رہی تھیں اور چیخ رہی تھیں، اور پھر لوگوں نے آگ اور دھوئیں میں بچیوں کے بستے اور کتابیں کاپیاں بکھری دیکھیں۔ بم پھٹنے کا یہ وقت ظاہر کرتا ہے کہ جان بوجھ کر بچیوں کو ٹارگٹ کے لیے منتخب کیا گیا۔

یکم مئی کو امریکا اور نیٹوکے درمیان افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کے فیصلے کے بعد سے بم دھماکوں کی یہ کارروائیاں زیادہ دیکھی جا رہی ہیں اس خوفناک تباہی کی ذمے داری ابھی تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ،ذبیح اللہ مجاہد طالبان کے ترجمان نے اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے اس حملے کی مذمت کی، جب کہ ابھی پچھلے ہی ہفتے ٹرک کے ذریعے بم دھماکے کی کارروائی بھی ایک تعلیمی درسگاہ کے باہر ہوئی جب طالب علم اپنی یونی ورسٹی کے امتحانات کی تیاری کی وجہ سے زیادہ متحرک تھے۔ یہاں تک کہ گزشتہ روز بھی افغانستان کے دو صوبوں میں بم دھماکوں سے ہلاکتیں اور زخمی افراد کی خبریں ملی ہیں۔

امریکی افواج کے انخلا اور افغانستان کی بگڑتی صورتحال پر پاکستان کی سلامتی پر سوال اٹھ سکتے ہیں، پڑوسی ملک ہونے کے ناتے دہشت گردی کی لہر کو روکنا اور اس کے سدباب کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے اس کے لیے پاکستانی اعلیٰ افواج کے ارکان اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔


ایک ایسے وقت میں جب کابل کی غیر یقینی صورتحال بڑی طاقتوں کے لیے بھی تشویش کا باعث بن رہی ہے پاکستان آرمی اور سرکار کی پیش رفت یقینا بہت سے ان نادیدہ ہاتھوں کے لیے رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہے جو افغانستان کو کمزور ریاست خیال کرکے خونی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان حملوں کو افغان جوان نسل کو تباہی اور تعلیم سے دوری پر اکسانے کا حربہ شاید خیال کیا جائے، کیونکہ رمضان المبارک کے اس مقدس عشرے میں ایسا کرنا اور سوچنا ایک مسلمان کے لیے ممکن نہیں۔

ادھر یہ بھی خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ افغان جنگ اب ایک نئے فیز میں داخل ہو رہی ہے جو خونی اور تہ در تہ ثابت ہو سکتی ہے، یہ کہنا ہے '' تمیم ایسے'' (Tamim Asey) کا جوکہ ایگزیکٹیو چیئرمین ہیں کابل بیس تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف وار اینڈ پیس کی، وہ مزید کہتی ہیں کہ اس نئے فیز میں پراکسی وار اور سول وار کے بہت سے عناصر ہو سکتے ہیں۔

اس تشویش ناک صورتحال سے پہلے ہی امریکی فوج کی مرکزی کمانڈ کے سربراہ جنرل کیتھ ایف میکنری نے افغانستان میں القاعدہ اور داعش کے دوبارہ فعال ہوجانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے، کیا یہ ان کے خدشات ہی تھے یا ان کے علم میں ایسا کچھ ضرور تھا جو اب ہو رہا ہے؟

ادھر مسجد اقصیٰ میں رمضان المبارک کے آخری اہم عشرے میں اسرائیلی فوج کی نہتے شہریوں پر فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ نے ایک غدر مچا دیا جو کھل کر یہ ظاہر کر رہا ہے کہ چند مہینے پہلے اسرائیل مختلف پلیٹ فارمز سے اپنے آپ کو مہذب، بااخلاق اور دوست نما بتا کر جو مہم چلا رہا تھا وہ صرف اچھا بننے کا ایک ڈرامہ ہی تھا جس کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ اس کے اندر اور باہر میں کوئی فرق نہیں، وہ فلسطینیوں سے عناد رکھتا ہے، نفرت کرتا ہے، انھیں کسی بھی صورت میں ملک بدرکرنا چاہتا ہے، چاہے اس کے لیے انھیں ان کی نسل کشی ہی کیوں نہ کرنا پڑے ، اس کھلے دشمن سے تو دنیا پہلے ہی واقف تھی لیکن مادی دباؤ کے تحت لب مقفل تھے اور اب بھی نوحہ کنائی تو دل رکھنے والے ہی کر رہے ہیں۔

تیسری صورتحال فرانس میں دیکھی جاسکتی ہے جب فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کو فرانس کی گمنام آرمی یعنی وہ لوگ جو آرمی کا حصہ تو ہیں لیکن اپنا نام اور عہدہ سامنے نہیں لانا چاہتے بذریعہ خط متنبہ کیا ہے کہ اگر اسلام پسندوں کے ساتھ نرمی برتی گئی تو فرانس کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی ، یہ خط اتوار کو ایک ویب سائٹ پر شایع ہوا ، خط میں کہا گیا ہے کہ اگر خانہ جنگی کا آغاز ہوتا ہے تو فوج اپنی سرزمین پر امن قائم رکھے گی۔ دائیں بازو کے حامیوں کی اس ویب سائٹ پر شایع ہونے والے خط کی مذمت کی گئی ہے اور اسے بزدل سیاسی اسکیم کا حصہ قرار دے کر مسترد کردیاگیا ہے۔

ان تین قسم کی صورتوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مختلف ناموں کے ساتھ ایک جیسی طاقتیں کارفرما ہیں ، جو دنیا میں اسلام کو شدت پسندی کے غلاف میں ملفوف رکھ کر اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتی ہیں۔

جو یہ قطعی نہیں چاہتیں کہ دنیا میں حالات پر امن رہیں اس کے لیے چاہے داعش کا نام اختیار کیا جائے یا القاعدہ کا۔ جب کہ افغانستان میں طالبان نے پہلے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان تنظیموں کو افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے پاکستانی اعلیٰ افواج کے عمل کو سراہا اور یقینا یہ نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ افغانستان کے امن عامہ کے لیے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ اتفاق اور اتحاد میں ہی کامیابی ہے۔ خدا ہم سب کو نیک ہدایت سے نوازے۔(آمین)
Load Next Story