کمانڈنٹ ایف سی ڈیرہ بگٹی پیش نہ ہوں تو کورٹ مارشل کیا جائے چیف جسٹس

دس روزمیں جج،2ایس پی سمیت سیکڑوں افراد مارے گئے،اس سے پہلے اقوام متحدہ آئے معاملہ نمٹالیں،عدالت

ملکی مفادمیں کام کررہے ہیں،کسی کواچھالگے یابرا،ہمیں فرق نہیں پڑتا،دس روزمیں جج،2ایس پی سمیت سیکڑوں افراد مارے گئے،اس سے پہلے اقوام متحدہ آئے معاملہ نمٹالیں،عدالت۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے بلوچستان امن وامان کیس میں پولیس اورایف سی کوراہداریوں کے حامل اسلحے اورگاڑیوںکیخلاف3روزمیں کریک ڈائون کرنے کاحکم دیاہے۔

جبکہ کمانڈنٹ ایف سی ڈیرہ بگٹی کے پیش نہ ہونے پرریمارکس میں چیف جسٹس نے کہاکہ کمانڈنٹ عدالت میں پیش نہ ہوں توان کاکورٹ مارشل کیا جائے،عدالت نے تحریری فیصلے میں چیف سیکریٹری بلوچستان کی جانب سے بتائے گئے حقائق اورعدالت کے فیصلوں پرعمل نہ ہونے کی تمام صورتحال وزیراعظم،گورنر بلوچستان اورخفیہ ایجنسیوں کے سربراہوںکے علم میں لے آنے کی ہدایت کی ہے اوران سے کہاہے کہ وہ اس ضمن میں ہونے والی میٹنگ سے عدالت کو19ستمبر کی سماعت پرآگاہ کریں،3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔جسٹس جوادخواجہ نے استفسارکیاکہ ہم نے کہاتھا کہ کب اور کس کوراہداریاں جاری کی گئیں اس کی تفصیلات کہاں ہیں۔

جسٹس خلجی عارف نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جھوٹ نہ بولیں، سب سے پہلے یہ بتائیں کہ راہداریاں کس نے جاری کیں اورکتنی جاری کیں،چیف جسٹس نے کہاکہ ہماری ساری کارروائی ملکی مفادمیں ہے،کسی کواچھا لگتا ہے یا برا، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا،جوکام شروع کیا اسے مکمل کرینگے،جتنی جلدہوسکے معاملے کونمٹائیں،انسانی حقوق والے یہاں آکرجوکچھ کریں گے وہ سب کوپتہ ہے، کمشنراور ڈپٹی کمشنر کی ضرورت نہیں،کام چاہیے،سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ ہم حالات میں بہتری کی کوشش کررہے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ دس دن میں ایک جج،2ایس پی سمیت سیکڑوں افراد مارے گئے،یہ آپ لوگوں کی کمزوری کی واضح نشانی ہے۔


جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ ہم حالات کی بہتری کے خواہاں ہیں لیکن بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں ہم ان کے معاملات میں مداخلت کررہے ہیں، جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ بلوچستان میں اتنا بڑا واقعہ ہوالیکن ایف آئی آرتک درج نہیں ہوئی، چیف جسٹس نے ایف سی کے وکیل سے ڈیرہ بگٹی کے کمانڈنٹ کے بارے میں استفسار کیا،راجہ ارشاد نے بتایاکہ کمانڈنٹ مالا کنڈ گئے ہوئے تاہم آئی جی ایف سی کے حکم پران کی چھٹی منسوخ کردی گئی،وہ سفر میں ہیں، چیف جسٹس نے انہیں منسوخی کاحکمنامہ پیش کرنے کاحکم دیتے ہوئے کہاکہ اگرکمانڈنٹ نہیں آتے توکورٹ مارشل کردیں،چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع سے استفسارکیاکہ آپ توآگئے ہیں بڑے صاحب کہاں ہیں، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایاکہ بھارتی وفدسے ان کی اہم ملاقات ہے جس کی وجہ سے وہ نہیں آسکے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ سیکریٹری دفاع بتائیںکیا قانونی طور پرایجنسیاں راہداریاں جاری کرسکتی ہیں،یہ ہمارے ملک کی ایجنسیاں ہیں، ذاتی مفاد کیخلاف تو کام نہیں کریں گی،سیکریٹری دفاع نے کہاکہ ہم نے آئی جی پولیس سے بات کی ہے کہ جن کے پاس راہداریاں موجودہیں انہیں گرفتار کیاجائے،ایشوپراعلیٰ سطح کااجلاس بلائیںگے۔چیف جسٹس کی جانب سے 3روزمیں راہداری کی حامل گاڑیوں کیخلاف کریک ڈائون کے حکم پرسیکریٹری دفاع نے مہلت کی استدعاکی، چیف جسٹس کے اس استفسار پرکہ کون سی ایجنسی کہاں راہداری جاری کرتی ہے،سی سی پی اوکوئٹہ میر زبیر نے بتایاکہ اسپیشل برانچ اورپولیس راہداری جاری نہیں کرسکتی۔

بعد ازاں عدالت نے تحریری فیصلہ جاری کردیاجس میں چیف سیکریٹری بلوچستان کی جانب سے بتائے گئے حقائق اور عدالت کے فیصلوں پر عمل نہ ہونے کی تمام صورتحال وزیراعظم،گورنر بلوچستان اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کے علم میں لے آنے کی ہدایت کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں ہونے والی میٹنگ سے عدالت کو19ستمبرکوہونے والی اگلی سماعت پر آگاہ کریں۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 31جولائی کو صوبائی اور وفاقی حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے تحریری بیان میں آرٹیکل 9کے تحت اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن ہلاکتوں اوراغوا کاسلسلہ بدستور جاری ہے ، ہوم سیکریٹری نے بتایا کہ بھر پور کوشش کے باوجود فرحان آغا کو برآمد نہیں کیا جاسکا،تمام شہریوں پرلازم ہے کہ قانون اور آئین کی تابعداری کریں۔

Recommended Stories

Load Next Story