ہوگیا مانند ِ آب ارزاں مسلماں کا لہو

مظلوم فلسطینیوں کے مکان ملبے کے ڈھیر بن چکے ہیں جن کے نیچے سے پھول جیسے بچوں کے لاشے نکالے جارہے ہیں۔

zulfiqarcheema55@gmail.com

پیغمبروں کی سرزمین فلسطین بے کس اور بے بس انسانوں کے لہو سے رنگین ہے، مسجدِ اقصیٰ میں 27رمضان المبارک کی رات نماز پڑھتے ہوئے مسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ غزہ میں آگ اور بارود کی بارش برسائی جارہی ہے۔

مظلوم فلسطینیوں کے مکان ملبے کے ڈھیر بن چکے ہیں جن کے نیچے سے پھول جیسے بچوں کے لاشے نکالے جارہے ہیں۔ ایسی بربریّت کہ مظلوموں کی آہ و زاری سے زمین کانپ اٹھے اور آسمان لرزجائیں۔ ملبے کے ڈھیر پر کھڑی دس سالہ فلسطینی بچی دنیا کے سات ارب انسانوں سے مخاطب ہے کہ ''میں اس ملبے کو دیکھ کر سوائے چیخنے کے کچھ نہیں کر سکتی، ہم بچوں کو قتل کرنے کے لیے میزائل اور راکٹ مارے جاتے ہیں، آخر کیوں؟ میرے والدین بتاتے ہیں کہ وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔کیا یہ جائز ہے؟ کیایہ انصاف ہے۔''

فلسطین کی مظلوم بیٹی کی تیس سیکنڈ کی گفتگو کی دنیا بھر کے ایوانوں میں بازگشت سنائی دے رہی ہے، مگر اس کے سوالوں کا جواب کوئی نہیں دے گا کہ دنیا کا ضمیر مر چکا ہے، مسلمان نسلوں اور فرقوں میں تقسیم ہوکر راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں اور دنیا کے چوہدری ظالموں کی پشت پر کھڑے ہیں۔

فلسطینی بچی کے سوالوں کا جواب دانائے راز آج سے سو سال پہلے دے چکے ہیںکہ دنیا کے مسلمانوں کے اندر حریت اور اسلامی اخوّت کا جذبہ اور شعلہ سرد ہوچکا ہے ،انھیں عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار کرنے والی عشق کی آگ بجھ چکی ہے، جسکا نتیجہ یہ ہے کہ

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے

مسلماںنہیں راکھ کا ڈھیر ہے

آج سے سو سال پہلے جب یہودی ابھی با اثر نہیں تھے اور یورپ اور امریکا میں سیاسی اورمالی اداروں اور میڈیا ہاؤسز پر قابض نہیں ہوئے تھے، مگر اقبالؒ نے بھانپ لیا تھام اس لیے اُس وقت فلسطینی مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مغربی طاقتوں اور ان کے ذیلی اداروں سے خیر کی توقع مت رکھو۔

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

میں جانتاہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

ترا علاج جنیوا میں ہے نہ لندن میں

فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

اسکرینوں پر اُبھرنے والے منظرنامے دیکھ کر کوئی انسان نہیں جس کی آنکھیں نمناک نہ ہوجاتی ہوں۔ اس موقعے پر پھر دانائے راز یاد آتے ہیںجنھوں نے یہ کہہ کر اسرائیلی دعوے کے پرخچے اُڑا دیے تھے:

ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر، حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا

عینی شاہدوں نے لکھا ہے کہ آج سے قریباً سو سال پہلے جب دنیائے اسلام کے مفکر اعظم ڈاکٹر محمد اقبالؒ انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں اپنی طویل نظم ''خضرِراہ '' سنارہے تھے جس میں شاعر (خود اقبالؒ) حضرتِ خضر سے اُن سوالوں کے جواب پوچھتا ہے جو اُس وقت دنیا بھر کے محکوم مسلمانوں کے ذہنوںمیں کلبلاتے تھے۔

نظم میں حضرتِ خضر تمام الجھنوں کے جواب دیتے ہیں اور ' صحرانوردی' 'زندگی' 'سلطنت' 'سرمایہ و محنت' اور 'دنیائے اسلام' کے عنوانات سے فلسفہء حیات ، اقتصادیات اور عالمی سیاست کے رموز بتانے کے بعد مسلمانوں کی موجودہ حالتِ زار کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ یہ سب کچھ اقبالؒ کی فکرِر سا سے تخلیق ہوا اس لیے ہر مصرع بے مثال اور ہر شعر لازوال ہے اور آج کے حالات کے عین مطابق۔ بہت سوں نے لکھاہے کہ مظلوم اور محکوم مسلمانوں کے زوال کانوحہ پڑھتے ہوئے علاّمہ اقبالؒ کی زبان سے یہ اشعار نکلے تو ہزاروں کا مجمع زاروقطار رو رہا تھا :

حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی

ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز


اور جب یہ مصرع ادا ہوا ۔ 'ہوگیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو' تو علامہ اقبال کئی منٹوں تک اپنے آنسوبھی پونچھتے رہے۔ اقبالؒ چونکہ شاعرِ امید تھے، اس لیے انھوں نے مسلمانوں کی ذلّت اور پستی کے مرثیے تو لکھے مگر ساتھ امید اور حوصلہ بھی دیا اور روشن مستقبل کی نوید بھی سنائی ۔ اسی نظم میں اقبالؒ نے حضرتِ خضر کی زبان سے مسلمانوں کو اسلاف کا قلب و جگر ڈھونڈکر لانے یعنی وہ جذبے پیدا کرنے اور نیل کے ساحل سے کاشغر تک متحد ہوجانے کی تلقین کی، مگر ساتھ یہ وارننگ بھی دی کہ اگر تمہاری نسل، زبان، رنگ یا علاقہ تمہارے نظریہء حیات پر مقدم ہوگیا تو پھر 'اُڑ گیا دنیا سے تو مانندِ خاکِ رہگذر'۔ اور فرقہ واریت کے مضر اثرات سے ہوشیار رہنے کی بھی ہدایت کی۔ہم نے ان کی کسی ہدایت پر عمل نہیں کیا اس لیے خاکِ راہ گذر ہوگئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کو بھلا کر ہماری بقا ہی ممکن نہیں کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، مگر الاقصٰی، توحید کا دوسرا بڑا مرکزجو ہمارے نبیؐ کریم کا قِبلہ رہا ہے اور پیغمبروں کی سرزمین۔ فلسطین.... ہمارا اُس سے بہت گہرا جذباتی رشتہ ہے، یہ رشتہ نہ عربوں کی فرمائش پر استوار ہوا ہے اور نہ ہی یہ عرب ملکوں کی تبدیل شدہ پالیسیوں سے کمزور ہوسکتا ہے۔

موجودہ مسلم قیادت کو اس کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس معاملے میں بانیٔ پاکستان کا موقّف بڑا واضح اور سخت تھا۔ قائد نے فروری 1946 میں نیویارک ٹائمز کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہم فلسطینیوں کی مددکے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔'' صحافی نے جب قائد سے "go to any length" کی وضاحت پوچھی تو غیر مبہم انداز میں جواب دیا گیا کہ ''ہم جو بھی کرسکے'' پھر مختصر توقف کے بعد فرمایا "violance..if necessary"''یعنی''ضرورت پڑنے پر ہم فوجی طاقت کا بھی استعمال کریں گے"

پیپلز پارٹی جس شخص کی زندگی اور موت کے باعث آج تک زندہ ہے اور جس کے نام پر ووٹ لے کر اقتدار کے مزے لُوٹتی ہے، اس کا نام ذوالفقار علی بھٹو ہے۔ بھٹو صاحب اپنے وارثوں سے کہیں زیادہ بہادر، محب وطن اور مسلم دنیا سے گہرے رشتوں کے پاسبان تھے۔لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کی سالگرہ کی تقریب میں ان کی جاندار اور روح پرور تقریر کی آڈیوآج ہی سنی ہے، کہتے ہیں ،''ہم غریب قوم ہیں، ہمارے پاس دولت نہیں ہے مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اسلام کے لیے اپنا خون دیں گے۔

پاکستان کے عوام اسلام کے سپاہی ہیں اور پاکستان کی افواج اسلام کی افواج ہیں۔'' پھر وہ عرب رہنماؤں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں،'' مجھے اس پر ندامت ہے کہ آپ کی گزشتہ جنگ میں ہم اس طرح آپ کی مدد نہ کرسکے جس طرح کرنی چایئیے تھی۔ اگر آیندہ آپ کی اسرائیل سے جنگ ہوئی تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوںگے اور بیت المقدس میں ہم (تمام مسلمانانِ عالم) ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر داخل ہوںگے۔''کل پارلیمنٹ میں وزیرِاعظم کو موجود ہونا چاہیے تھامگر قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف صاحب نے اقبالؒ کے انتہائی مناسب اشعار کے ساتھ جچی تلی تقریر کی۔ انھوں نے یہ شعر بھی پڑھا کہ

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

مگر اقبالؒ مسلمانوں کو اپنے ضعف اور کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے علم اور تحقیق کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کرتے رہے، کبھی دل گرفتگی میں کہا کہ

لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل

خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز

اور کبھی ناراضگی میں مسلمان اساتذہ اور طلباء سے یہ پوچھتے رہے کہ

کس طرح ہوا کُند ترا نشترِ تحقیق

ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک

مہرو ماہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں

کیوں تری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک

امریکا اور یورپ کے سیکڑوں شہروں میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میںبہت بڑے جلوس نکلے ہیں لیکن پاکستان کے مسلمان خدا سے ابابیلیں بھیجنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں، ترک لیڈر نجم اربکان نے کہا تھا،''اب اگر ابابیلیں آئیں تو وہ اپنے کنکر یہودیوں پر نہیں مسلمانوں پر گرائیں گی۔'' آئن اسٹائن درست کہہ گیا کہ ظلم ظالم کی طاقت سے نہیں اکثریّت کی خاموشی سے قائم رہتا ہے۔

آسمان کی جانب ہاتھ بلند کرکے ملبے پر کھڑی ایک اور فلسطینی خاتون کی آوازضمیر کو کچوکے لگارہی ہے "میں فلسطین کی رہائشی ہوں مگر میں اس دنیا کی بھی تو شہری ہوں، کیا ہمیںزندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، میرے تین معصوم اور بے گناہ بچوں کا کیا قصور تھا کہ ان کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا، کیا دنیا کے کسی حصے میں ایسے انسان ہیں جو ہم مظلوموں کو انصاف دے سکیں؟ہمیں مظلوم فلسطینیوں کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ تین کام بہت ضروری ہیں۔

انھیں مصریا اردن کے ذریعے خوراک اور دوائیاں بھیجی جائیں۔ پاکستان اور ترکی کے بہترین تعلیمی اداروں میں فلسطینی طلبا کے لیے سیٹیں مخصوص کرکے مفت تعلیم کا انتظام کیا جائے ۔ امریکی رائے عامہ تیزی سے بدل رہی ہے، پہلے ناممکن تھا مگر اب وہاں سوشل میڈیا پر اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، کیس مضبوط ہے حالات سازگار ہورہے ہیں، دنیا کی بااثرقوموں کا ضمیر جگانا ہے مگر اس کے لیے عرق ریزی کی ضرورت ہے، مختلف زبانوں پر عبور رکھنے والے دلائل اور فصاحت کے حامل انتہائی موثر مقررین پر مشتمل وفود طاقتور قوموں کے بااثر طبقوں تک بھیجے جائیں۔ کبھی یہ کام ڈھنگ اور لگن سے ہوا ہی نہیں۔ کشمیر کے لیے بھی یہی نسخہ کارگرہوگا۔
Load Next Story