نئے ویزا نظام کے معاہدے پر دستخط ماضی کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنیں گے پاکستان بھارت

دہشت گردی،ممبئی حملہ ٹرائل،سرکریک، سیاچن، کشمیر سمیت امن وسلامتی اور دوستانہ تبادلوں کےفروغ پر بات ہوئی مشترکہ اعلامیہ

اسلام آباد: وزیرخارجہ حنا ربانی کھرپاک بھارت مذاکرات کے دوران اپنے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا سے مصافحہ کررہی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان اور بھارت کے درمیان وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات میں فریقین نے تمام مسائل کے پرامن طریقے سے حل کیلیے کام کرنے اور باہمی مفاد واعتماد پرمبنی تعلقات قائم کرنے کے عزم کا اعادہ کیاہے۔

دفتر خارجہ میںوزیرخارجہ حناربانی کھر اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشناکی سربراہی میں ہونے والے مذاکرات میں دونوں وفود نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران مختلف سطحوں پر ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا۔ زیربحث امور میں سیاچن گلیشیئر،سرکریک، ویزوں کے اجرأ میں نرمی، قیدیوں کی رہائی، تجارت اور عوامی رابطے بڑھانے کے معاملات شامل تھے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے پاک بھارت مشترکہ کمیشن کے اجلاس کی سربراہی بھی کی جس میں مستقبل کے روابط سے متعلق ایک روڈمیپ تیار کرنے پر تجاویز کا تبادلہ کیا گیا۔

ویزے میں نرمی سے متعلق ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے جس میں شہریوں اور تاجر برادری کیلیے سفری سہولت کے مختلف اقدامات شامل ہیں، نئے آزادانہ ویزا نظام میں6ماہ کا نیاسیاحتی ویزا جاری کرنے اور36 گھنٹے کا ٹرانزٹ ویزا اور پانچ مقامات کا سیاحتی ویزوںکا اجرأ بھی شامل ہے۔ معاہدے پر وزارت داخلہ میں بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا اوروزیر داخلہ رحمٰن ملک نے دستخط کیے۔ دونوں ملکوںکے تاجروں کومزید رعایات دی گئی ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ شہروں کیلیے ایک سال کاملٹی پل ویزادینا اور پولیس رپورٹنگ سے استثنیٰ شامل ہیں۔

سیاحوںکے گروپ ویزاکی ایک نئی قسم متعارف کرائی گئی ہے جس کے تحت10 سے50 افرادتک کاگروپ ،سیاحوںکا گروپ ویزا حاصل کرسکے گا جو 30 روزکیلیے کارآمدہوگا۔ معاہدے کے تحت سفارتی وغیر سفارتی، سرکاری اور بزنس ویزہ سمیت9 مختلف کیٹیگریوں کے ویزوں کے حصول کی شرائط میں نرمی کی گئی ہیں، وزرائے خارجہ مذاکرات میں پاکستان اور بھارت نے بحال شدہ جامع مذاکرات کے تمام8 نکات پر بات چیت آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، جوہری اور روایتی شعبے میں اعتمادسازی کے اقدامات پر مذاکرات دسمبر میں کیے جائیں گے۔ وزرائے خارجہ کے آئندہ مذاکرات 2013 میں نئی دہلی میں ہوںگے۔


دونوں ملکوں نے سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کے عزم کا اظہارکیا ہے۔ مذاکرات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہاکہ پاکستان ، بھارت کے ساتھ تعلقات آگے بڑھاناچاہتا ہے اورسمجھتا ہے کہ تاریخ کے ہاتھوں یرغمال بننے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا، پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات کو مکمل تبدیل شدہ سوچ کے ساتھ دیکھ رہا ہے، ہمیں ماضی کی طرح اب مسائل حل کرنے کا موقع نہیںکھوناہے، راجیوگاندھی اور بینظیر بھٹو نے سیاچن پر معاہدے کا موقع کھودیا تھا، گیاری میں100سے زائد پاکستانی سپاہیوںکی موسمی حالات کے ہاتھوں موت کے بعد بھی ہمیںموقع تھاکہ یہ معاملہ حل کرتے لیکن پھر ہم نے موقع کھودیا۔پاکستان نئے مواقع پیداکرناچاہتاہے اورانھیںکھونا نہیں چاہتا۔

انھوں نے مذاکراتی عمل کے ناقدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ ایک سال میں ہی کافی پیشرفت ہوئی ہے۔ مشترکہ کمیشن کودوبارہ فعال بنایاگیا اور یہ عمل بغیر رکاوٹ کے جاری رہے گا،صدرآصف زرداری اوروزیراعظم منموہن سنگھ کے درمیان سال رواں میںدو ملاقاتیںہوچکی ہیں۔پاکستان بھارت کے ساتھ کوئی بھی چیز منفی نظر سے دیکھنے کے بجائے مثبت انداز میں دیکھ رہا ہے، ہم نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی40سالہ سوچ تبدیل کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا، دسمبر2012کے بعد تجارتی تعلقات بہت تیزی سے آگے بڑھیں گے۔

بھارتی تاجر اسی طرح سے یہاں تجارتی سرگرمیاں کرسکیںگے جیسے پاکستان میںکسی دوسرے ملک کے تاجر کرتے ہیں۔ یہ دونوں اطراف کی ذمے داری ہے کہ جو عناصر مخالفانہ سوچ پیدا کرتے ہیں اس کا تدارک کریں۔ جموں وکشمیر، سیاچین سرکریک سب ایشوز پر پیشرفت کرنا ہوگی، کشمیری عوام کی خواہشات کومدنظر رکھنا ہوگا اور انھیں مذاکراتی عمل میں شامل کرنا ہوگا۔ اس موقع پر بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ملک تمام تصفیہ طلب معاملات حل کرنے پر متفق ہیں۔ معاملات کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک دن میں حل نہیں ہوںگے، یہ بتدریج پیشرفت کی طرف بڑھیں گے۔

دہشت گردی خطے کے امن وسلامتی کیلیے خطرہ ہے، اس سے موثر اور درست طریقہ سے نمٹنا ہوگا۔ پاکستان نے ممبئی دہشت گردی کے واقعات کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچانے کا وعدہ کیا ہے۔ انھوں نے تمام بھارتی ماہی گیروں چھوڑنے کے صدر پاکستان کے اعلان پر شکریہ ادا کیا اور اس امید کا اظہارکیاکہ ان ماہی گیروںکی کشتیاں اور فشنگ ٹرالر بھی لوٹادیے جائیں گے۔ باہمی تعلقات کیلیے ماحول میںمثبت تبدیلی آئی ہے،ہمیں پیچھے کی طرف نہیں دیکھنابلکہ آگے بڑھناہے، ماضی میںجوہوا اس کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننا۔

انھوںنے کہاکہ منموہن سنگھ نے دورہ پاکستان کیلیے کوئی پیشگی شرط عائد نہیںکی ہے، وہ مناسب ماحول میں پاکستان آئیںگے، میں واپس دہلی جاکرانھیںصورتحال کے بارے میں اپنا تجزیہ بتاؤںگا جس کو دیکھ کر وہ دورے کا فیصلہ کریں گے، اس پر حنا ربانی کھر نے کہاکہ امیدہے یہ تجزیہ مثبت ہو گا۔ ایس ایم کرشنا نے کہا کہ منموہن سنگھ کوپاکستان آنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے،وہ تعلقات آگے بڑھانا چاہتے ہیںتاہم ٹائم فریم کے بارے میں نہیں بتاسکتا۔ میں نے کبھی نہیںکہا کہ بعض امور پرفیصلے ممبئی واقعات پر پاکستانی طرزعمل سے منسلک ہیں۔ بھارت قدم بہ قدم اپروچ پر یقین رکھتا ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story