اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے

انھیں دنوں کراچی میں سائوتھ ایشین سٹیز کانفرنس منعقد ہوئی ہے۔ جہاں جنوبی ایشیا کے شہروں کا احوال زیربحث تھا۔

rmvsyndlcate@gmail.com

انھیں دنوں کراچی میں سائوتھ ایشین سٹیز کانفرنس منعقد ہوئی ہے۔ جہاں جنوبی ایشیا کے شہروں کا احوال زیربحث تھا۔ اس کانفرنس کی کارروائی ہم پڑھتے جاتے تھے اور ورطۂ حیرت و افسوس میں غرق ہوتے جاتے تھے۔ ارے صاحب حیرت سی حیرت۔ کراچی میں درختوں اور پرندوں پر کیا گزری ہے' اس پر کراچی کی ایک خاتون مندوب گفتگو کر رہی تھیں۔ گفتگو انگریزی میں تھی۔ مگر گفتگو میں ایک ایسا مقام آ گیا کہ ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ انگریزی میں اپنا ماضی الضمیر کیسے بیان کریں یا یوں کہہ لیں کہ دل پر جو گزرتی ہے اسے انگریزی میں کیسے ادا کریں۔ سو پھر انھوں نے اردو کا سہارا لیا اور بولیں کہ ارے جب میں نیم کے پیڑ کے نیچے بیٹھتی تھی تو چڑیوں کے چہکنے کی آوازیں کتنی سنائی دیتی تھیں۔ اب وہ سماں کہاں۔ ہم اب چڑیوں کی چہک مہک کو ترستے ہیں۔

بھلا کیوں۔ اس لیے کہ شہر میں کتنے درخت تھے اور اب کتنے رہ گئے ہیں۔ سب کٹ کٹا گئے۔ اور پھر اس بی بی نے یہ لرزہ خیز انکشاف کیا کہ بھلے زمانے میں لیاری کے نواح میں ایک ہزار ایکڑ کے علاقہ میں ایک گھنا جنگل سنسنا رہا تھا۔ اب کٹ چھنٹ کر چھ سو ایکڑ کے علاقہ تک محدود رہ گیا ہے۔ اور یہ ساری قیامت پچھلی حکومت کے دور میں اس علاقہ پر ٹوٹی ہے اور پرندوں پر کیا افتاد پڑی کہ ان کی چہکار اب اس نواح میں سنائی نہیں دیتی۔ بتانے والے نے بتایا کہ کراچی کے نواح میں جنگل اگانے کا ایک منصوبہ تیار ہوا تھا۔ اس کے لیے آٹھ اعشاریہ تین ارب کی رقم مختص کی گئی تھی۔ اس میں سے صرف چھ ملین کی رقم خرچ کی گئی ہے۔ اور درخت کونسے لگائے گئے ہیں۔ صرف ایک بدیشی درخت انگریزی میں جس کا نام ہے Concarpus۔ اس درخت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی ہوا سے دمہ کا عارضہ جنم لیتا ہے۔ اور اتنا اکل کھرا درخت ہے کہ اپنے سوا کسی دوسرے درخت کا وجود اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اس لیے وہ اپنے آس پاس کسی دوسرے درخت کو پنپنے ہی نہیں دیتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ درخت اور جھاڑیاں جن میں پرندوں کا بسیرا تھا۔ وہ سب برباد ہو گئے۔ مطلب یہ کہ پرندوں کے بسیرے اجڑ گئے اور آشیانے برباد ہو گئے۔ اور اب ہمیں یہاں ناصرؔ کاظمی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے ؎

اڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور

اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے

رافع عالم صاحب اس بحث میں موڈریٹر کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ وہ بولے کہ درختوں کے کاٹ ڈالنے سے زیادہ مجرمانہ فعل بھی کوئی ہو سکتا ہے' یہ بات میرے تصور میں نہیں آتی۔ شہر میں درخت کتنے کم رہ گئے ہیں۔ جب ہی تو اس شہر میں انسانیت کا فقدان نظر آتا ہے۔

درست کہا۔ جہاں درخت نہ ہوں جہاں چڑیوں کی چہچہاہٹ سنائی نہ دے وہاں انسانیت کس طرح پنپ سکتی ہے اور آدمی کس حد تک اپنی آدمیت کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ مگر یہ نیا زمانہ انسانیت دشمن زمانہ ہے۔ صنعتی عہد کا آدمی اتنا خود غرض اور خود پرست ہے کہ اسے اپنی ذات کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اس نے یہ حقیقت فراموش کر دی ہے کہ اس وسیع و عریض زمین پر صرف انسانی مخلوق ہی نہیں بستی۔ اور مخلوقات بھی ہیں جن کی رنگا رنگی سے اس کرہ ارض پر ایسی چہل پہل ہے کہ یہاں درخت قطار اندر قطار جھومتے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاخوں کے بیچ چڑیاں چہکتی ہیں' کوئلیں کو کتی ہیں' مور جھنکارتے ہیں' فاختائیں پھڑپھڑاتی ہیں اور کُوہُو کُوہُو کا دھیما راگ گاتی ہیں۔ باغ بغیچوں میں کلیاں چٹکتی ہیں۔ گل پھول مہتکے ہیں۔ جنگلوں میں درندے دندناتے ہیں۔ یہ رنگا رنگ مخلوقات ایک دوسرے سے الگ بھی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ کسی ان دیکھے رشتے سے پیوست بھی ہیں۔ اسی صورت تو اس کرہ ارض پر زندگی کا توازن برقرار ہے۔ کوئی ایک مخلوق اپنے آپ کو اشرف المخلوقات قرار دے کر یہ سمجھ بیٹھے کہ بس روئے ارض پر میں ہی میں ہوں اور دوسری مخلوقات کے لیے جینا اجیرن کر دے تو ایک وقت وہ آئے گا کہ خود انسانی زندگی کے لیے نت نئے خطرے پیدا ہو جائیں گے ع


حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

مگر یہ کون سوچتا ہے۔ جا بجا درخت بے دردی سے کاٹے جا رہے ہیں۔ جنگلوں کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ ہریالی کو تہس نہس کیا جا رہا ہے۔ اندھا دھند بڑھتے پھیلتے شہر سبزے کو روندتے چلے جا رہے ہیں؎

سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی

بن گیا روئے آب پر کائی

اس سے ماحولیات کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ سائنسی آلات کی جب بہتات ہو گی اور اسلحہ کی دوڑ زور پکڑے گی اور انسان اپنی سائنسی ترقی کے زعم میں اندھا ہو جائے گا تو پھر کیا ہو گا ع

صاحب نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک

ماحولیات میں فساد پیدا ہو گا تو پھر انسانیت بھی فساد کی زد میں آئے گی۔ اور آئے گی کیا۔ آ چکی ہے۔ کراچی کا نقشہ اگر اس کانفرنس کے شرکا کو پریشان کر رہا ہے تو بجا کر رہا ہے۔ وہ کہتے سنے گئے کہ آدمیوں کا جنگل جس طرح کراچی میں پھیلا اور پھیلتا چلا جا رہا ہے اور جس طرح یہاں آدمیت کا خون ہو رہا ہے اس کا ایک ہی توڑ ہے۔ ہریالی' ہریالی' ہریالی۔ آدمیوں کا جنگل بہت پھیل گیا ہے۔ اب اس کی تھوڑی روک تھام ہونی چاہیے۔ اور اصلی جنگل کو کسی صورت واپس لانا چاہیے۔ درخت اس زمین پر اور سب سے بڑھ کر اس سنگ دل شہر میں اپنے لیے جگہ مانگتے ہیں۔ اپنے لیے اور اپنی آغوش میں بسیرا کرنے والے پرندوں کے لیے۔ اگر ارباب شہر کی سماعت پر ابھی مہریں نہیں لگی ہیں تو انھیں اس مطالبے پر کان دھرنے چاہئیں۔
Load Next Story