کراچی 5ریونیو اضلاع پر مشتمل ہوگا آرڈیننس کا مسودہ جاری
میٹروپولیٹن کارپوریشنز کو منتقل کیے گئے محکمے صوبائی پالیسی پر عملدرآمد کے پابند ہونگے
سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس پی ایل جی او ) 2012ء کا مسودہ جاری کردیا گیا ہے۔
جس کے سیکشن 8 میں بلدیاتی مقاصد کے لیے کراچی کو ایک ضلع قرار دیا گیا ہے اور یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ضلع کراچی موجودہ 5 ریونیو اضلاع پر مشتمل ہوگا جو آرڈیننس کے نفاذ سے پہلے موجود تھے۔ آرڈیننس کے مطابق سندھ کے پانچ ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز والے اضلاع میں ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز قائم کی گئی ہیں اور دیگر 18 اضلاع میں ڈسٹرکٹ کونسلز ہوں گی۔ آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کسی بھی ضلع میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن قائم کرسکتی ہے اور اس کے آرڈیننس میں کوئی معیارات مقرر نہیں کیے گئے ہیں۔ آرڈیننس کے سیکشن 4 میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ لوکل کونسلز صوبائی حکومت کی مجموعی نگرانی میں کام کریں گی۔
وہ صوبائی فریم ورک میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں گی اور وفاقی اور صوبائی قوانین پر عملدرآمد کی پابند ہوں گی۔ آرڈیننس کے مطابق بلدیاتی اداروں کا 3 سطحوں والا ڈھانچہ وہی ہے جو سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس ایل جی او ) 2001 ء میں ضلعی اور شہری حکومتوں میں تھا، صرف نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔ شہری اور ضلعی حکومتوں کے بجائے میٹرو پولیٹن کارپوریشنز اور ڈسٹرکٹ کونسلز ہوں گی۔ تعلقہ \ ٹاؤن میونسپل کونسلز اور یونین کونسلز بھی 2001 ء والے نظام کی طرح ہوگی البتہ نئے بلدیاتی اداروں کے فرائض اور اختیارات مختلف ہوں گے۔
میٹرو پولیٹن کونسلز کے سربراہ منتخب میئر اور ڈپٹی میئر ہوں گے۔ کونسل میں ایک اپوزیشن لیڈر بھی ہوگا۔ اس طرح ڈسٹرکٹ کونسلز ، تعلقہ / ٹاؤن کونسلز اور یونین کونسلز میں منتخب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین ہوں گے۔ نئے بلدیاتی اداروں (کونسلز ) کے انتخابات کا طریقہء کار بھی وہی ہے جو 2001 ء والے مقامی حکومتوں کے نظام میں تھا۔ یونین کونسلز کے ارکان، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین براہ راست انتخابات سے آئیں گے۔ یونین کونسلز کے ڈپٹی چیئرمین متعلقہ تحصیل / تعلقہ / ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان بھی ہوں گے اور وہ تحصیل / تعلقہ / ٹاؤن کونسل کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا بھی انتخاب کریں گے ۔
یونین کونسلز کے چیئرمین متعلقہ میٹرو پولیٹن کونسل / ضلع کونسل کے ارکان بھی ہوں گے اور ان کونسلز کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا بھی انتخاب کریں گے۔ تمام کونسلز میں خواتین کی 33 فیصد نشتیں مقرر کی گئی ہیں۔ اقلیتوں کے لیے بھی مخصوص نشتیں مقرر کی گئی ہیں۔ ان کے انتخاب کا طریقہء کار بھی پرانا ہے۔ آرڈیننس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کونسلز کے میئرز / ڈپٹی میئرز ، چیئرمین / ڈپٹی چیئرمین صوبائی حکومت کے کسی معاملے پر مداخلت نہیں کرسکیں گے۔ ایس ایل جی او 2001 ء کی طرح نئے آرڈیننس میں بھی پراونشل فنانس کمیشن (پی ایف سی )، لوکل گورنمنٹ کمیشن، مصالحتی کمیٹیاں، سٹیزنز کمیونٹی بورڈز، پڑوسی کونسلز بھی قائم کی گئی ہیں۔
صوبائی لوکل گورنمنٹ کمیشن کی سفارش پر کونسلز کے میئرز، ڈپٹی میئرز، چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین کو وزیراعلیٰ سندھ برطرف کرسکے گا۔ آرڈیننس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ بعض صوبائی امور صرف میٹرو پولیٹن کارپوریشنز کو منتقل کیے گئے ہیں اور منتقل کیے گئے محکمے صوبائی حکومت کی پالیسی پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہوں گے۔ اگر حکومت یہ محسوس کرے گی کہ صوبائی حکومت کے احکام پر عملدرآمد نہیں ہو رہا تو وہ چیف سیکریٹری سندھ، آئی جی سندھ پولیس اور چیف آفیسرز سے ان احکام پر عملدرآمد کرائے گی۔ کونسلز کی مدت چار سال ہوگی۔
صوبائی وزیر بلدیات لوکل گورنمنٹ کمیشن کے سربراہ ہوں گے اور صوبائی وزیر خزانہ پی ایف سی کے سربراہ ہوں گے۔ آرڈیننس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ میٹروپولیٹن کارپوریشنز اور ڈسٹرکٹ کونسل نئی بھرتیاں نہیں کرسکیں گے۔ صرف وہ اسامیاں جن سے افسران ریٹائر یا انتقال کرجائیں گے ان پر بھرتیاں ہوسکیں گی دیگر بھرتیوں کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہوگا۔
جس کے سیکشن 8 میں بلدیاتی مقاصد کے لیے کراچی کو ایک ضلع قرار دیا گیا ہے اور یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ضلع کراچی موجودہ 5 ریونیو اضلاع پر مشتمل ہوگا جو آرڈیننس کے نفاذ سے پہلے موجود تھے۔ آرڈیننس کے مطابق سندھ کے پانچ ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز والے اضلاع میں ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز قائم کی گئی ہیں اور دیگر 18 اضلاع میں ڈسٹرکٹ کونسلز ہوں گی۔ آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کسی بھی ضلع میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن قائم کرسکتی ہے اور اس کے آرڈیننس میں کوئی معیارات مقرر نہیں کیے گئے ہیں۔ آرڈیننس کے سیکشن 4 میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ لوکل کونسلز صوبائی حکومت کی مجموعی نگرانی میں کام کریں گی۔
وہ صوبائی فریم ورک میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں گی اور وفاقی اور صوبائی قوانین پر عملدرآمد کی پابند ہوں گی۔ آرڈیننس کے مطابق بلدیاتی اداروں کا 3 سطحوں والا ڈھانچہ وہی ہے جو سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس ایل جی او ) 2001 ء میں ضلعی اور شہری حکومتوں میں تھا، صرف نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔ شہری اور ضلعی حکومتوں کے بجائے میٹرو پولیٹن کارپوریشنز اور ڈسٹرکٹ کونسلز ہوں گی۔ تعلقہ \ ٹاؤن میونسپل کونسلز اور یونین کونسلز بھی 2001 ء والے نظام کی طرح ہوگی البتہ نئے بلدیاتی اداروں کے فرائض اور اختیارات مختلف ہوں گے۔
میٹرو پولیٹن کونسلز کے سربراہ منتخب میئر اور ڈپٹی میئر ہوں گے۔ کونسل میں ایک اپوزیشن لیڈر بھی ہوگا۔ اس طرح ڈسٹرکٹ کونسلز ، تعلقہ / ٹاؤن کونسلز اور یونین کونسلز میں منتخب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین ہوں گے۔ نئے بلدیاتی اداروں (کونسلز ) کے انتخابات کا طریقہء کار بھی وہی ہے جو 2001 ء والے مقامی حکومتوں کے نظام میں تھا۔ یونین کونسلز کے ارکان، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین براہ راست انتخابات سے آئیں گے۔ یونین کونسلز کے ڈپٹی چیئرمین متعلقہ تحصیل / تعلقہ / ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان بھی ہوں گے اور وہ تحصیل / تعلقہ / ٹاؤن کونسل کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا بھی انتخاب کریں گے ۔
یونین کونسلز کے چیئرمین متعلقہ میٹرو پولیٹن کونسل / ضلع کونسل کے ارکان بھی ہوں گے اور ان کونسلز کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا بھی انتخاب کریں گے۔ تمام کونسلز میں خواتین کی 33 فیصد نشتیں مقرر کی گئی ہیں۔ اقلیتوں کے لیے بھی مخصوص نشتیں مقرر کی گئی ہیں۔ ان کے انتخاب کا طریقہء کار بھی پرانا ہے۔ آرڈیننس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کونسلز کے میئرز / ڈپٹی میئرز ، چیئرمین / ڈپٹی چیئرمین صوبائی حکومت کے کسی معاملے پر مداخلت نہیں کرسکیں گے۔ ایس ایل جی او 2001 ء کی طرح نئے آرڈیننس میں بھی پراونشل فنانس کمیشن (پی ایف سی )، لوکل گورنمنٹ کمیشن، مصالحتی کمیٹیاں، سٹیزنز کمیونٹی بورڈز، پڑوسی کونسلز بھی قائم کی گئی ہیں۔
صوبائی لوکل گورنمنٹ کمیشن کی سفارش پر کونسلز کے میئرز، ڈپٹی میئرز، چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین کو وزیراعلیٰ سندھ برطرف کرسکے گا۔ آرڈیننس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ بعض صوبائی امور صرف میٹرو پولیٹن کارپوریشنز کو منتقل کیے گئے ہیں اور منتقل کیے گئے محکمے صوبائی حکومت کی پالیسی پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہوں گے۔ اگر حکومت یہ محسوس کرے گی کہ صوبائی حکومت کے احکام پر عملدرآمد نہیں ہو رہا تو وہ چیف سیکریٹری سندھ، آئی جی سندھ پولیس اور چیف آفیسرز سے ان احکام پر عملدرآمد کرائے گی۔ کونسلز کی مدت چار سال ہوگی۔
صوبائی وزیر بلدیات لوکل گورنمنٹ کمیشن کے سربراہ ہوں گے اور صوبائی وزیر خزانہ پی ایف سی کے سربراہ ہوں گے۔ آرڈیننس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ میٹروپولیٹن کارپوریشنز اور ڈسٹرکٹ کونسل نئی بھرتیاں نہیں کرسکیں گے۔ صرف وہ اسامیاں جن سے افسران ریٹائر یا انتقال کرجائیں گے ان پر بھرتیاں ہوسکیں گی دیگر بھرتیوں کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہوگا۔