پولیو سے پاک پاکستان

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق پاکستان میں پولیو کے مریضوں کی تعداد میں...

shaikhjabir@gmail.com

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق پاکستان میں پولیو کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اعدادوشمار کے مطابق 2012میں پولیو کے58رجسٹرڈ کیسز سامنے آئے تھے جب کہ2013 میں پولیو کے سامنے آنے والے کیسز کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ بڑھ کر 83تک جا پہنچی۔جب کہ 2013میں افغانستان میں پولیو کے صرف 11کیس سامنے آئے، نائیجیریا میں 2012کے مقابلے میںیہ تعداد نصف ہوگئی،لیکن ارضِ پاک میں یہ تعداد40فی صدتک بڑھ گئی۔یہ یقیناً ایک خطرناک رجحان ہے۔یہ تعداد 2010 اور 2011کے مقابلے میں کم ہے جب پولیو نے زور پکڑا تھا اور علی الترتیب پولیو کے 144اور 198کیس سامنے آئے تھے۔

بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں سے ایک ہے کہ جہاں پولیوایک وبائی،مقامی اور متعدی مرض کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔اگرچہ پولیو سے بچائو کی مہم 1974ہی میں شروع ہو گئی تھی لیکن اسے باقاعدہ سرکاری سر پرستی 1993میں حاصل ہوئی اور2007سے قبل تک انسدادِ پولیو مہم کے60دور مکمل کر لیے گئے۔محکمہ صحت کے ایک اہم اہل کار نے انگریزی روزنامے ''ایکسپریس ٹریبیون''کو بتایا کہ پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز کی بنا پر امداد دینے والے اداروں نے متنبہ کیا کہ اگر انسدادِ پولیو مہم میں تیزی نہیں لائی جاتی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔جس میں مختلف پابندیوںسے لے کر سفری پابندیاں شامل ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے رُکن نے بتایا کہ یہ پابندیاں پنجاب تک محدود نہیں ہوں گی۔بھارت اس سے قبل ہی یہ اعلان کر چکا ہے کہ وہ تمام پاکستانی جو 30جنوری کے بعد بھارت کا سفر کریں گے انھیں اپنی سفری دستاویزات کے ساتھ ''پولیو ویکسی نیشن '' کا ریکارڈ بھی فراہم کرنا ہوگا۔اگرانسدادِ پولیو میں کوئی پیش رفت نہ کی گئی تو دیگر ممالک بھی سفری پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔بعد ازاں 14فروری تک اس تاریخ میں توسیع کی گئی۔واقعہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ خبریں گردش میں ہیں کہ پاکستان سے پولیو کا وائرس 23دیگر ممالک تک ہلاکت خیزی پھیلا چکا ہے۔

برطانوی طبی جریدے '' لینسٹ'' نے بھی خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان سے سفر کرتا ہوا یہ مرض یورپ میں بھی داخل ہو سکتا ہے۔ایسی ہی بات پشاور سے وہاں کے گورنر شوکت اللہ نے کی ہے ۔آپ نے بھی متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرانسدادِ پولیو مہم جنگی بنیادوں پر نہ چلائی گئی اور کیسز اسی طرح سامنے آتے رہے تو سعودی عرب اور دیگر ممالک پاکستان پر سفری پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔پولیو ایک متعدی اور مہلک مرض ہے۔ یہ تین مختلف اقسام کے وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے۔ انھیں ''وائلڈ پولیو وائرس'' ، ڈبلیو پی وی ون،ڈبلیو پی وی ٹو ا ور ڈبلیو پی وی تھری کہا جاتا ہے۔ان میں سے کوئی ایک وائرس بھی پانی یا غذا کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوسکتا ہے ۔وہاں سے یہ ہمارے نظامِ انہضام میں جذب ہو کر خون میں شامل ہو جاتا ہے ۔ خون سے یہ ہمارے اُن اعصاب تک رسائی حاصل کرتا ہے جو ہمارے جسم کی حرکات کو کنٹرول کرتے ہیں۔ وائرس اُن اعصاب کو تباہ کر دیتا ہے۔ نتیجتاًجسم کا وہ حصہ مفلوج ہو جاتا ہے اور مریض زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ یہ وائرس مریض کے فضلے سے خارج ہو تا ہے۔ اگر فضلے کومناسب طریقے سے تلف کرنے کے انتظامات نہ ہوںتو اس سے غذا اور پانی آلودہ ہو جاتے ہیں۔ یوں ہر وہ بچہ پولیو کی زد میں ہوتا ہے جو ان اشیاء کو استعمال کرتاہے۔اگر مریض رفع حاجت کے بعد ہاتھوں کو صاف نہ کریں توہاتھوں میں لگے ہوئے جراثیم بھی اس مرض کے پھیلنے کا باعث بنتے ہیں۔ چیچک ، خناق، کالی کھانسی ، ٹیٹنس کی طرح یہ بھی ایک متعدی مرض ہے۔ (یعنی ایک سے دوسرے کو لگ سکنے والا)۔ خوش قسمتی سے ویکسین کے ذریعے پولیو کا سدِ باب کیا جا سکتا ہے۔

پولیو ویکسین 1952 میں تیارکی گئی۔ 1962 میں اس کو انسانی استعمال کی اجازت ملی۔ یہ دو طرح سے استعمال ہوتی ہے۔ قطرے والی ویکسین جو منہ سے پلائی جاتی ہے، انجکشن کے ذریعے دی جانے والی ویکسین۔ ابتداء میںقطرے والی پولیو ویکسین پولیو کے تینوں زندہ وائرسوں کا مجموعہ ہوا کرتی تھی اور تین مرکبات کا مجموعہ کہلاتی تھی۔ لیکن دنیا بھرسے 1999میںپولیو وائرس نمبر2 کا خاتمہ ہو گیا۔جب سے آج تک پولیو ویکسین یا تو ان دونوں زندہ وائرسوں یعنی ڈبلیو پی وی ون اور ڈبلیو پی وی تھری کا مجموعہ ہوتی ہے اور دو مرکبات کا مجموعہ کہلاتی ہے یا پھر ان دونوں کو الگ الگ پلا یا جاتا ہے۔


پولیو ویکسین کی تخلیق اس کے موجد نے بندر کے گردے میں کی جس کی وجہ سے پولیو ویکسین میں بندر کے وائرس سیمین وائرس فورٹی(SV40) کی آمیزش ہوگئی۔ یہ وائرس کئی سرطانوں کا مثلاًمیسو تھیلیو ما (پھیپڑوں کی جھلی کاکینسر) ،دماغی سرطان ، ہڈیوں کے سرطان اور خون کے سرطان لیمفو ما وغیرہ کا باعث بنتا ہے۔ اگرچہ اس بات کی تحقیق ابتداء ہی میں ہوگئی تھی کہ ویکسین میں وائرس کی آمیزش ہے جو کہ انسانی استعمال کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ لیکن صحت عامہ کے امریکی ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ اوف ہیلتھ (این آئی ایچ)نے یہ ساری تحقیقا ت مخفی رکھیں۔جس کے نتیجے میں لاکھوں امریکی اس ویکسین اور وائرس کا شکار ہوئے۔ اس کی تفصیلات ڈیبی بک چِن اور جم شو ماخرکی کتاب'' دی وائرس اینڈ دی ویکسین:دی ٹرو اسٹوری اوف کینسر کازنگ منکی وائرس،کنٹی مینیٹڈ پولیو ویکسین اینڈ ملین اوف امیرکنز ایکس پوزڈ''(29اپریل 2004) میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

طبی دنیا میں اس طرح کے جرائم کی خبریں آتی ہی ہیں۔ البتہ امریکا میں ویکسین کی تیاری کے طریقہ کار کو تبدیل کردیا گیا یا ویکسین میں موجود وائرس کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے گئے۔قطروں والی پولیو ویکسین 2000سے امریکا میں استعمال نہیں کی جارہی۔ غالباًاتنے ہی عرصے سے برطانیہ میں بھی اس کا استعمال متروک ہے۔

جب قطرے والی پولیو ویکسین بچوں کو پلائی جاتی ہے تو اس میں موجود وائرس پیٹ میں بچے کے مدافعتی نظام کو فعال کرتا ہے۔یوں بچے کا جسم اس وائرس کے خلاف ہتھیار(اینٹی باڈیز) یامدافعتی خلیے بنا لیتا ہے اور پیٹ میں موجود پولیو ویکسین کے وائرس دو ہفتہ میں ختم ہو جاتے ہیں۔اور مستقبل میں جب بھی بچے پر حقیقی پولیووائرس حملہ آور ہوتا ہے تو پہلے سے موجود ہتھیار یامدافعتی خلیے اس وائرس کو تباہ کردیتے ہیں یوں یہ بچہ پولیو کی بیماری سے محفوظ رہتا ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ وہ بچے جو کمزور ہوتے ہیں، غذائی قلت کا شکار ہوتے ہیں یا کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جس میں جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے ان بچوں میں قطرہ پلانے کے بعد یہ وائرس ان کے نظام انہضام میں زندہ رہتے ہیں اور ان کے فضلے سے خارج ہوتے رہتے ہیں اور بیماری اس دوا کے وائرس سے پھیلنا شروع ہو جاتی ہے۔ اور وہ بچہ خود اور دوسرے بچے بھی حقیقی پولیو وائرس کا نہیں بلکہ دوا والے پولیو وائرس ''وی ڈی پی ویز''کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقی پولیو کی طرح معذوری کا سبب بنتی ہے۔ بچوں میں جو پہلے سے قطرہ پی چکے ہوتے ہیں اس بیماری کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔

اخبارات میں یہ خبریں آتی رہتی ہیں مثلاًہمسایہ ملک بھارت کا روزنامہ ''دی ہندو''30جولائی 2013کو ایک ایسی ہی خبر شایع کرتا ہے ،عنوان ہے۔''ممبئی چائلڈ بی کمس فورتھ انڈین ٹو گیٹ پولیو فرام ویکسین''۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت نے حقیقی وائرس اور ویکسین وائرس کے نا ختم ہونے والے سلسلے کے لیے 1997 میں ایک جامع پالیسی مرتب کی اور پوری قوم کو بتدریج قطرے والی دوا سے انجکشن والی دوا کی طرف منتقل کیا اور اس طرح امریکا میں دونوں اقسام کی پولیو کا خاتمہ ممکن ہو سکا ۔
Load Next Story