تلخ لیکن سچ

یہ دنیا دارالعمل ہے یہاں ہم جو عمل کرتے ہیں اسے قدرت ہمارے کھاتے میں لکھ دیتی ہے ...

shehla_ajaz@yahoo.com

یہ دنیا دارالعمل ہے یہاں ہم جو عمل کرتے ہیں اسے قدرت ہمارے کھاتے میں لکھ دیتی ہے اگر عمل نیکی کا ہو تو نیکی کے خانے میں ورنہ دوسرا خانہ تو سب ہی جانتے ہیں خیر۔۔۔۔لیکن ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جنھیں اس دوسرے خانے کی فکر ہے کہ اس میں کیا کچھ لکھا جا چکا ہے اور کتنا لکھنا باقی ہے، اکثر کو یہ ہی کہتے دیکھا ہے کہ جب مریں گے تب کی تب دیکھی جائے گی اسی تب نے ہماری دنیا اور آخرت میں ایسے ایسے انگار بوٹے پیدا کردیے ہیں جو ہم اکثر اس روئے زمین پر مختلف عذاب کی صورت میں دیکھتے رہتے ہیں لیکن سبق سیکھنا تو اب ہماری سرشت میں رہا نہیں۔

کسی کا مال ہڑپ کرلینا، یتیموں کا حق غصب کرلینا، بیوہ کے حصے کو ڈکار جانا، غریبوں کی زکوٰۃ کھا لینا اب کوئی اہم بات نہیں رہا کہ جسے سن کر کسی کا دل تڑپ کر رہ جائے اگر اوپر سے لے کر نیچے تک کے شعبوں پر نظر ڈالیں تو سارے بھائی بندے اپنی اپنی جگہ اپنے مقام کے حساب سے خوب کھا پی رہے ہیں جب مریں گے تو دیکھ لیا جائے گا۔ لیکن ہم اس عذاب کے خوف سے ذرا بھی نہیں ڈرتے جو تلوار لے کر ہم پر ہر وقت کھڑا رہتا ہے لیکن ہم اپنی ہی خواہشات کے گھیروں میں قید لمحہ بھر رک کر بھی نہیں سوچتے اور اگر نیکی کا کوئی عنصر دل کے کسی کونے سے ابھرتا بھی ہے تو سارے وجود میں کرختگی اور گناہ کے کیڑے اسے تھپک تھپک کر سلا دیتے ہیں، لیکن عذاب پھر عذاب ہوتا ہے خدا کرے ہم اس کے مفہوم کو ہی جان سکیں۔

حضرت مصعب رضی اللہ عنہ اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ دونوں صحابی تھے اور آپس میں گہرے دوست بھی۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور انتقال کی پہلی رات خواب میں وہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کو نظر آئے۔ آپ نے پوچھا کہ بتاؤ رات کیسی گزری؟ اللہ تعالیٰ کے سامنے کیسے پیشی ہوئی۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ بڑی مشکل اور بڑی دشواری کے بعد اب نجات ہوئی ہے۔ بات کرتے کرتے عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کی گردن پر جلنے کا سیاہ داغ دیکھا تو پوچھا کہ یہ داغ کیسا ہے؟ آپؓ نے جواب دیا کہ دراصل میں نے ایک ضرورت کے لیے ایک یہودی سے دس دینار قرض لیے تھے اور وہ قرض ابھی ادا نہ کرسکا تھا کہ میرا انتقال ہوگیا ان دس دیناروں کے ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ دینار مجھے داغے گئے یہ سیاہ داغ جو تم دیکھ رہے ہو یہ اسی کے داغے جانے کا نشان ہے وہ دس دینار اب بھی میرے ترکش کے اندر رکھے ہوئے ہیں تم صبح سویرے میرے گھر جاکر گھر والوں سے ترکش لے لینا اور اس میں سے دس دینار نکال کر فلاں شخص کو ادا کردینا تاکہ میری تکلیف ختم ہوجائے۔ لہٰذا آپ صبح اٹھے اور سب سے پہلے ان کے گھر گئے ترکش مانگا تو واقعی اس میں دس دینار رکھے تھے اور وہ ابھی استعمال میں نہیں آئے تھے پھر جاکر ان کا قرض ادا کیا۔

دوسری رات آپؓ پھر حضرت عوفؓ کو خواب میں نظر آئے اور ان کی گردن کا داغ دور ہوچکا تھا۔ یہ واقعہ کسی عام انسان کا نہیں تھا بلکہ ایک صحابی رسول کا تھا جن کا انتقال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی ہوا تھا انھیں بھی یہ خواب سنایا گیا تھا اور آپؐ نے ان کے حق میں بھی دعا فرمائی تھی، حالانکہ بات صرف دس دینار کی تھی لیکن آج کل ہم کیسے مزے سے دوسروں کے لاکھوں کروڑوں روپے ہضم کرلیتے ہیں اور ہمارے چہرے ایسے کھلے ہوتے ہیں کہ جیسے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر آئے ہیں شرمندگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ابھی کچھ روز پہلے ہی خیبر پختونخوا کے ایک سابق وزیر کے ایک عزیز کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے مسکراتے سگریٹ کے کش لگاتے دیکھا یہ فوٹیج تھی عدالت کے احاطے کی قانون کے رکھوالوں کے ہمراہ صاحب بہادر کا صرف اتنا ہی قصور تھا کہ انھوں نے اسلحے کی خرید و فروخت میں کروڑوں روپے کی خورد برد کی تھی اور بس۔۔۔۔اس سے آگے کیا کہیے؟


ہمارے کتنے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ اربوں کروڑوں روپوں کے قرضے اور خردبرد کے ناتے جڑے ہیں لیکن آپ ان کے چہرے دیکھیے کھلے کھلے، نکھرے نکھرے ایسی بشاشت کے نہ پوچھیے۔ یہ اجلاپن اگر اپنی کمائی سے چہرے پر لے آتے تو بات ہی کیا تھی لیکن مار کے ہڑپ کرلینے میں جتنا سکون ملتا ہے یہ وہی جانتے ہیں۔

ابھی کچھ روز قبل ہی ایک جاننے والے نے اپنے پڑوس کا سچا قصہ سنایا۔ وہ صاحب اس علاقے میں بیس سال سے رہائش پذیر ہیں ان کے پڑوس میں ایک سنگل اسٹوری گھر ہے جو کئی بار فروخت ہوچکا ہے۔ اب پھر فروخت کے لیے مالک سرگرداں ہیں۔ اب سے تقریباً دس پندرہ سال قبل کوئی صاحب اس گھر میں رہائش پذیر تھے ڈیمارکشن والوں کی کرم نوازی سے ان کے ایک سو بیس گز کے گھر میں سو گز زیادہ جگہ آگئی تھی۔ انھوں نے اسے بھی اپنے مصرف میں لے لیا اور اسے بیچنے کے پروگرام بنانے لگے۔ ایک جوان جوڑا جسے حال ہی میں اپنے گھر کی وراثت کے سلسلے کا پیسہ ملا تھا اس سو گز کو خریدنے کا ارادہ کیا اور انھوں نے اس گھر کے سلسلے میں تقریباً ڈھائی لاکھ روپے دیے کیونکہ مالک مکان کی بیٹی کی شادی بھی تھی اور انھیں سردست پیسوں کی ضرورت بھی تھی لہٰذا طے پایا کہ شادی کے بعد قبضہ دے دیا جائے گا۔ شادی گزر گئی لیکن جب قبضہ دینے کی باری آئی تو مالک مکان کی بیگم صاف مکر گئیں وہ خاتون اپنے گھر شوہر کے مقابلے میں آگے رہتی تھیں ان کے ہی حکم پر میاں صاحب چلتے ہیں بیگم نے منع کردیا کہ کیسے پیسے؟ ہم نے کوئی پیسے نہیں لیے جاؤ! اور میاں صاحب نے بیگم کی بات پر لبیک کہا۔ دونوں میاں بیوی خوب روئے پیٹے پڑوسیوں سے کہا سنا لیکن بیگم صاحبہ اپنی بات پر اٹل رہیں۔ مہینہ بھر بھی نہ گزرا تھا کہ مالک مکان اپنے دفتر جانے کے لیے گھر سے باہر نکلے کچھ آگے ہی چلے تھے کہ زمین پر گرگئے اور ان کا انتقال ہوگیا۔

محلے بھر میں شور مچ گیا بہرحال ان کے انتقال کے کچھ روز بعد ہی شام کو محلے والوں نے ان کے گھر سے شور کی آوازیں سنیں پریشان ہوکر سب پڑوسی اپنے گھر سے نکلے تو دیکھا کہ ان کے گھر والے گھر سے باہر نکلے ہوئے ہیں ان کا کہنا تھا کہ گھر میں بھوت ہے، اس کے بعد اکثر ایسا ہونے لگا کہ گھر کے مکین شور مچاتے باہر نکل آتے کیونکہ مرحوم مالک مکان کی روح ان سب کو تنگ کرتی آخر تنگ آکر ان کی بیگم نے وہ گھر چھوڑ کر قریب ہی گھر کرائے پر حاصل کرلیا لیکن روح نے پیچھا نہ چھوڑا۔ روح کا مطالبہ تھا کہ وہ بہت تکلیف میں ہیں ان لوگوں کے پیسے واپس کردیے جائیں لیکن شاباش ان کی بیگم کو کہ انھوں نے خوب برداشت کیا بہرحال ان لوگوں نے مقدمہ دائر کردیا اور بیگم صاحبہ کو عدالت میں اقرار کرنا ہی پڑا کہ انھوں نے ان سے ڈھائی لاکھ روپے ایڈوانس لیے تھے آخر کار پیسے واپس کرنے پڑے یوں مالک مکان کے انتقال کے دس مہینے بعد پیسے ادا کیے گئے اور اس پیشی کے بعد یعنی گیارہویں مہینے ان صاحبہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد ان کے بچوں نے وہ گھر بیچ دیا جس بیٹی کی شادی ہوئی تھی وہ بھی گھر بیٹھ گئی ، بچے بھی ادھر ادھر خوار ہوتے رہے اب وہ لوگ کہاں ہیں کس حال میں ہیں خدا جانے۔

پہلا واقعہ چودہ سو سال پہلے کا تھا اور دوسرا اس دور کا ۔ اور اس کا نچوڑ ہے کہ زندگی صرف مزے کا نام نہیں اس کے پورے حقوق ہیں جس کو ادا کرنا انسان کا فرض ہے اور ایک انسان اگر اپنی انسانیت سے گر جائے تو پھر نہ مسلمان رہتا ہے نہ عیسائی اور نہ ہی کسی اور مذہب کا پیروکار۔ کیونکہ ہر مذہب کی اپنی حدود انسانیت سے بنی ہوتی ہیں۔ اس پر کون کس طرح چلتا ہے یہ اس کا اپنا عمل ہے۔
Load Next Story