فاروق قیصر
مجھے بار بار یہ خیال آرہا ہے کہ بعض اوقات کچھ الفاظ بغیر کچھ بتائے بھی اپنے معنی سے کٹ جاتے ہیں۔
پچھلے چند ماہ میں اس قدر احباب کے تعزیت نامے لکھے ہیں کہ کبھی کبھی سب کچھ ایک خواب کی طرح لگنے لگتا ہے کہ ابھی آنکھیں کھلیں گی اور یہ منحوس منظر ہمیشہ کے لیے ایک واہمہ بن کر بے نام و نشان ہوجائے گا۔
دوسری طرف اس دوران میں بار بار کورونا پر لعنت بھی بھیجی ہے کہ اس کی وجہ سے بعض ایسے جنازوں میں بھی شمولیت نہ ہوسکی جن کے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ تھا اور جن میں سے کئی ایک کو رب کریم نے اپنی نوازشات کا سفیر بنا کر بھیجا تھا اور جن کی موجودگی سے زندگی پر ٹوٹتا ہوا اعتماد بحال ہوجاتا تھا۔
فاروق قیصر ایسا ہی ایک آکسیجن کا سلنڈر تھا جس کی وجہ سے معاشرے کی ٹوٹتی ہوئی سانسوں میں اعتدال ، توازن ، حرارت اور زندگی پھر سے پائوں جمانے لگتے تھے اور جس کا لکھا اور بولا ہرہر لفظ ایک اینٹی باڈی کی شکل اختیار کر جاتا تھا ۔
پی ٹی وی کی ابتداء یعنی 1964 سے لے کر اس کے کوما میں جانے تک کے درمیان تقریباً چالیس برسوں میں طنزو مزاح کے میدان میں یوں تو کئی لوگوں نے اپنا اپنا رنگ جمایا اور کمال کی تحریریں لکھیں مگر ان میں سے کمال احمد رضوی، اطہر شاہ خان، فاروق قیصر اور انور مقصود چار ایسے غیر معمولی باکمال فنکار ہوئے ہیں جنھوں نے لکھنے کے ساتھ ساتھ پرفارمنس کی مختلف سطحوں اور صورتوں میں بھی اپنے جوہر دکھائے ان میں بھی فاروق قیصر کو یہ استثنا حاصل ہے کہ وہ بہت کم اپنی اصل صورت اور شخصیت کے ساتھ سامنے آئے اُن کا کمال انکل سرگم کے پپٹ کو وہ آواز دینا تھا جسے بیشتر لوگ اُس فنکار کی آواز سے ہی تعبیر کرتے تھے جس نے سرگم کا گیٹ اَپ کیا ہوتا تھا۔
پی این سی اے کی ڈی جی ڈاکٹر فوزیہ سے ایک طویل انٹرویو کے دوران فاروق قیصر نے تفصیل سے بتایا کہ اس کردار کا حُلیہ اور تحریک اُس کا رومانیہ کا ایک استاد تھا اور اس لائف سائز پپٹ کا کردار مختلف اوقات میں مختلف اداکار کرتے رہے ہیں۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں فاروق قیصر کی ابتدائی ٹریننگ بطور اداکار، مصنف اور گیت نگار شعیب ہاشمی صاحب کے ''اَکڑبکڑ'' سے ہوئی جب کہ پُتلیوں کے ساتھ اُس کے بے مثال تعلق کا آغاز انکل سرگم ہی کی معرفت بچوں کے ایک پروگرام ''کلیاں'' سے ہوا اور پھر نہ صرف یہ خود بڑا ہوتا گیا بلکہ اس میں ہیگا، رولا، ماسی مصیبتے اور بہت سے کردار آتے اور چھاتے چلے گئے طنز یعنی Satireایک ا یسی صنفِ ادب ہے جس میں تندی، تیزی ، کاٹ اور بے ساختگی کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص نوع کی کڑواہٹ ، غصہ اور ہرِخند بھی موجود ہوتے ہیں۔
میری ذاتی رائے میں فاروق قیصر واحد مزاح نگار ہے جس کے طنز میں اور تو سب کچھ ہوتاہے مگر کڑواہٹ کو کبھی رستہ نہیں مل پاتا کہ وہ سخت سے سخت اور نوکیلی سے نوکیلی بات کو بھی ایک بے ساختہ قہقہے میں لپیٹنے کا حیرت انگیز گُر اور کمال جانتا تھا ایسے موقعوں پر وہ عام طور سے انگریزی کے BlackاورAbsurd مزاح کے ساتھ ساتھ پنجابی کی جُگت سے بھی کمال کام لیتا تھا۔
وہ چونکہ ایک باقاعدہ سند یافتہ پینٹر اور کارٹونسٹ بھی تھا اس لیے اُسے ون لائنر پر کمانڈ کے ساتھ Visual پر بھی غیر معمولی گرفت حاصل تھی اُس کے بقول اُس کے کرداروں کے چہروں پر موجود پپٹ کی آڑ نے اُسے سماجی، سیاسی اور بعض صورتوں میں بعض بہت سنجیدہ شعبوں کے مختلف کرداروں کو بھی Upside down کرنے کی جو رعایت ملی اُس سے اُس نے خوب خوب فائدہ اُٹھایا اور یوں اُس کے کردار پُتلیاں ہوتے ہوئے بھی عام زندہ کرداروں سے زندہ موثر ٹھہرے اس کا مشاہدہ بیک وقت گہرا بھی تھا اور وسیع اور انوکھا بھی یہی وجہ ہے کہ وہ جس بھی موضوع پر ہاتھ ڈالتا بہت جلد اس کا ''پتلی تماشا'' ''انسانی تماشا'' بن جاتا اور وہ اپنے کرداروں کے منہ سے ایسی باتیں بھی آسانی سے نکلوا دیتا جن کے ایک چوتھائی حصے کے لیے بھی ہمیں اپنے ڈراموںکے اسکرپٹس میں دس دس قلابازیاں کھانا پڑتی تھیں۔
ذاتی زندگی میں وہ مبالغے کی حد تک Down to Earth تھا میں نے اُسے ہمیشہ اپنے ہر ہم عصر کے اچھے کام کی تعریف کرتے ہی پایا، چاہے وہ اس انداز ہی میں کیوں نہ ہو کہ ''یار ایک بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی کہ ایسا فضول اور تھرڈ کلاس شخص ایسے اچھے جملے کیسے لکھ لیتا ہے'' جس باقاعدگی اکثریت، معیار اور تسلسل کے ساتھ اس نے اپنی پُتلیوںکے ساتھ ٹی وی اسکرین اور ناظرین کو فتح کیے رکھا ہے شائد صرف بھائی انور مقصور اور عزیزی یونس بٹ ہی اس کی صف اور کلاس میں آتے ہوں۔ اُس نے زندگی بھر جس قدر جی لگا کر سیکھا اس سے بھی زیادہ محبت اور ذمے داری سے سکھانے کا کام بھی کیا۔
پی ٹی وی پر ہم دونوں نے لکھنا کم کردیا تھا اور ہماری باہمی ملاقاتوں میں بھی بوجوہ کچھ کمی آگئی تھی مگر وہ ہمیشہ مجھ سمیت اپنے تمام دوستوں سے رابطے میں رہا وہ ان چند لوگوں میں سے تھا جو ہمیشہ حق اور خیر کی بات کرتے تھے۔ اس نے اپنے کرداروں کے ذریعے لوگوںکے ہونٹوں پر تو ہنسی بکھیری مگر اس کے ساتھ ساتھ برداشت ، خوشدلی اور معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی اورزندگی کی مثبت اقدار کا پرچار بھی کیا بلاشبہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو عادتاً خیر بانٹتے ہیں اور یہ خیر عطا کرنے والے کے سوا کسی کی طرف بھی نہیں دیکھتے۔
ان ہی دنوں میں پشاور سے بیگم نسیم ولی خان اور سلیم رائو کی رحلت کی خبریں بھی ملیں جو یقیناً تکلیف دہ تھیں مگر جس خبر نے بالکل ہی ہلا کے رکھ دیا وہ پیارے بھائی اور دوست امتیاز پرویز صاحب کی شریک حیات اور ہماری غزالہ بھابھی کی رحلت کی خبر تھی کہ جو تین ہفتے کورونا سے لڑنے کے بعد ہار گئیں، اُن سے 25برس قبل بحرین میں ہونے والی پہلی ملاقات سے اب تک ایک ایسا محبت کا رشتہ بن گیا تھا کہ اب وہ اور امتیاز بھائی ہمیں اپنے خونی رشتے داروں ہی کی طرح عزیزہوگئے تھے۔
رب کریم سے دُعا ہے کہ وہ اُن تمام مرحومین کی روحوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور اُن کے لواحقین بالخصوص امتیاز پرویز بھائی کو اپنی تقدیرکے اس فیصلے پر صبر کی توفیق عطا فرمائے ۔یہ جملہ لکھتے وقت پتا نہیں کیوں مجھے بار بار یہ خیال آرہا ہے کہ بعض اوقات کچھ الفاظ بغیر کچھ بتائے بھی اپنے معنی سے کٹ جاتے ہیں۔
دوسری طرف اس دوران میں بار بار کورونا پر لعنت بھی بھیجی ہے کہ اس کی وجہ سے بعض ایسے جنازوں میں بھی شمولیت نہ ہوسکی جن کے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ تھا اور جن میں سے کئی ایک کو رب کریم نے اپنی نوازشات کا سفیر بنا کر بھیجا تھا اور جن کی موجودگی سے زندگی پر ٹوٹتا ہوا اعتماد بحال ہوجاتا تھا۔
فاروق قیصر ایسا ہی ایک آکسیجن کا سلنڈر تھا جس کی وجہ سے معاشرے کی ٹوٹتی ہوئی سانسوں میں اعتدال ، توازن ، حرارت اور زندگی پھر سے پائوں جمانے لگتے تھے اور جس کا لکھا اور بولا ہرہر لفظ ایک اینٹی باڈی کی شکل اختیار کر جاتا تھا ۔
پی ٹی وی کی ابتداء یعنی 1964 سے لے کر اس کے کوما میں جانے تک کے درمیان تقریباً چالیس برسوں میں طنزو مزاح کے میدان میں یوں تو کئی لوگوں نے اپنا اپنا رنگ جمایا اور کمال کی تحریریں لکھیں مگر ان میں سے کمال احمد رضوی، اطہر شاہ خان، فاروق قیصر اور انور مقصود چار ایسے غیر معمولی باکمال فنکار ہوئے ہیں جنھوں نے لکھنے کے ساتھ ساتھ پرفارمنس کی مختلف سطحوں اور صورتوں میں بھی اپنے جوہر دکھائے ان میں بھی فاروق قیصر کو یہ استثنا حاصل ہے کہ وہ بہت کم اپنی اصل صورت اور شخصیت کے ساتھ سامنے آئے اُن کا کمال انکل سرگم کے پپٹ کو وہ آواز دینا تھا جسے بیشتر لوگ اُس فنکار کی آواز سے ہی تعبیر کرتے تھے جس نے سرگم کا گیٹ اَپ کیا ہوتا تھا۔
پی این سی اے کی ڈی جی ڈاکٹر فوزیہ سے ایک طویل انٹرویو کے دوران فاروق قیصر نے تفصیل سے بتایا کہ اس کردار کا حُلیہ اور تحریک اُس کا رومانیہ کا ایک استاد تھا اور اس لائف سائز پپٹ کا کردار مختلف اوقات میں مختلف اداکار کرتے رہے ہیں۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں فاروق قیصر کی ابتدائی ٹریننگ بطور اداکار، مصنف اور گیت نگار شعیب ہاشمی صاحب کے ''اَکڑبکڑ'' سے ہوئی جب کہ پُتلیوں کے ساتھ اُس کے بے مثال تعلق کا آغاز انکل سرگم ہی کی معرفت بچوں کے ایک پروگرام ''کلیاں'' سے ہوا اور پھر نہ صرف یہ خود بڑا ہوتا گیا بلکہ اس میں ہیگا، رولا، ماسی مصیبتے اور بہت سے کردار آتے اور چھاتے چلے گئے طنز یعنی Satireایک ا یسی صنفِ ادب ہے جس میں تندی، تیزی ، کاٹ اور بے ساختگی کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص نوع کی کڑواہٹ ، غصہ اور ہرِخند بھی موجود ہوتے ہیں۔
میری ذاتی رائے میں فاروق قیصر واحد مزاح نگار ہے جس کے طنز میں اور تو سب کچھ ہوتاہے مگر کڑواہٹ کو کبھی رستہ نہیں مل پاتا کہ وہ سخت سے سخت اور نوکیلی سے نوکیلی بات کو بھی ایک بے ساختہ قہقہے میں لپیٹنے کا حیرت انگیز گُر اور کمال جانتا تھا ایسے موقعوں پر وہ عام طور سے انگریزی کے BlackاورAbsurd مزاح کے ساتھ ساتھ پنجابی کی جُگت سے بھی کمال کام لیتا تھا۔
وہ چونکہ ایک باقاعدہ سند یافتہ پینٹر اور کارٹونسٹ بھی تھا اس لیے اُسے ون لائنر پر کمانڈ کے ساتھ Visual پر بھی غیر معمولی گرفت حاصل تھی اُس کے بقول اُس کے کرداروں کے چہروں پر موجود پپٹ کی آڑ نے اُسے سماجی، سیاسی اور بعض صورتوں میں بعض بہت سنجیدہ شعبوں کے مختلف کرداروں کو بھی Upside down کرنے کی جو رعایت ملی اُس سے اُس نے خوب خوب فائدہ اُٹھایا اور یوں اُس کے کردار پُتلیاں ہوتے ہوئے بھی عام زندہ کرداروں سے زندہ موثر ٹھہرے اس کا مشاہدہ بیک وقت گہرا بھی تھا اور وسیع اور انوکھا بھی یہی وجہ ہے کہ وہ جس بھی موضوع پر ہاتھ ڈالتا بہت جلد اس کا ''پتلی تماشا'' ''انسانی تماشا'' بن جاتا اور وہ اپنے کرداروں کے منہ سے ایسی باتیں بھی آسانی سے نکلوا دیتا جن کے ایک چوتھائی حصے کے لیے بھی ہمیں اپنے ڈراموںکے اسکرپٹس میں دس دس قلابازیاں کھانا پڑتی تھیں۔
ذاتی زندگی میں وہ مبالغے کی حد تک Down to Earth تھا میں نے اُسے ہمیشہ اپنے ہر ہم عصر کے اچھے کام کی تعریف کرتے ہی پایا، چاہے وہ اس انداز ہی میں کیوں نہ ہو کہ ''یار ایک بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی کہ ایسا فضول اور تھرڈ کلاس شخص ایسے اچھے جملے کیسے لکھ لیتا ہے'' جس باقاعدگی اکثریت، معیار اور تسلسل کے ساتھ اس نے اپنی پُتلیوںکے ساتھ ٹی وی اسکرین اور ناظرین کو فتح کیے رکھا ہے شائد صرف بھائی انور مقصور اور عزیزی یونس بٹ ہی اس کی صف اور کلاس میں آتے ہوں۔ اُس نے زندگی بھر جس قدر جی لگا کر سیکھا اس سے بھی زیادہ محبت اور ذمے داری سے سکھانے کا کام بھی کیا۔
پی ٹی وی پر ہم دونوں نے لکھنا کم کردیا تھا اور ہماری باہمی ملاقاتوں میں بھی بوجوہ کچھ کمی آگئی تھی مگر وہ ہمیشہ مجھ سمیت اپنے تمام دوستوں سے رابطے میں رہا وہ ان چند لوگوں میں سے تھا جو ہمیشہ حق اور خیر کی بات کرتے تھے۔ اس نے اپنے کرداروں کے ذریعے لوگوںکے ہونٹوں پر تو ہنسی بکھیری مگر اس کے ساتھ ساتھ برداشت ، خوشدلی اور معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی اورزندگی کی مثبت اقدار کا پرچار بھی کیا بلاشبہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو عادتاً خیر بانٹتے ہیں اور یہ خیر عطا کرنے والے کے سوا کسی کی طرف بھی نہیں دیکھتے۔
ان ہی دنوں میں پشاور سے بیگم نسیم ولی خان اور سلیم رائو کی رحلت کی خبریں بھی ملیں جو یقیناً تکلیف دہ تھیں مگر جس خبر نے بالکل ہی ہلا کے رکھ دیا وہ پیارے بھائی اور دوست امتیاز پرویز صاحب کی شریک حیات اور ہماری غزالہ بھابھی کی رحلت کی خبر تھی کہ جو تین ہفتے کورونا سے لڑنے کے بعد ہار گئیں، اُن سے 25برس قبل بحرین میں ہونے والی پہلی ملاقات سے اب تک ایک ایسا محبت کا رشتہ بن گیا تھا کہ اب وہ اور امتیاز بھائی ہمیں اپنے خونی رشتے داروں ہی کی طرح عزیزہوگئے تھے۔
رب کریم سے دُعا ہے کہ وہ اُن تمام مرحومین کی روحوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور اُن کے لواحقین بالخصوص امتیاز پرویز بھائی کو اپنی تقدیرکے اس فیصلے پر صبر کی توفیق عطا فرمائے ۔یہ جملہ لکھتے وقت پتا نہیں کیوں مجھے بار بار یہ خیال آرہا ہے کہ بعض اوقات کچھ الفاظ بغیر کچھ بتائے بھی اپنے معنی سے کٹ جاتے ہیں۔