عفو و درگذر کے پیکر ﷺ
اﷲ تعالیٰ، صاحب خلق عظیم ﷺ کے خلق کی مدح کرتے ہوئے یوں فرماتا ہے کہ یقینا آپ ﷺ خلق کے انتہائی ارفع مقام پر فائز ہیں۔
لاہور:
حضور نبی کریم، صاحب خلق عظیم ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے پوری دنیا میں کفر و شرک کا راج، جہالت کا غلبہ، ضلالت کا تسلط اور ظلم و استبداد کا دور دورہ تھا۔
قتل و غارت کا بازار گرم تھا، ایمان و عرفان کا بحران اور اخلاق حسنہ کا فقدان تھا، تکریم انسانیت معدوم، صداقت ناپید، عدل مفقود، خلوص عنقاء اور وفاداری نادر الوجود تھی، غرض یہ کہ انسان حیوان بن چکا تھا۔ انسانیت کی تذلیل آخری حد کو پہنچ چکی تھی، اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا تھا۔
اﷲ نے ا نسانوں کی رشد وہدایت اور فلاح وبہبود کے لیے مختلف زمانوں میں انبیاء کرام اور صلحاء بھیجے، ان عظیم راہ نمائوں نے ہدایت کی جو شمعیں روشن کیں، وہ گل ہوچکی تھیں اور ساری دنیا جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکی تھی۔ دنیا کا ہر خطہ تاریکی کی چادر میں لپٹا ہوا تھا، روئے ارض پر کوئی طاقت ایسی نہ تھی جو انسانیت کو سہارا دے سکے۔ انسان اﷲ کو چھوڑ کر لاتعداد معبودوں میں گم ہو چکا تھا، کوئی خطہ ایسا نہ تھا، جہاں انسانیت کے صحیح خدوخال دکھائی دیتے اور انسانی قدروں کی نشوونما کی کوئی صورت موجود ہو۔ انسانیت گندگی اور غلاظت میں رینگ رہی تھی، اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل گیا تھا۔ انسانیت سکون قلب سے محروم ہو چکی تھی۔ ایسے عالم میں ضرورت تھی کہ کوئی ایسا راہ بر آئے، جو نہ صرف انسانی اخلاق و اقدار کا احیاء کرے بلکہ انہیں نئی جہتوں کے ساتھ متعارف کرائے، فروغ دے اور بام عروج پر پہنچا دے۔ اﷲ نے انسانیت پر اپنا خاص لطف وکرم فرماتے ہوئے حضور اقدس ﷺ کو معلم اخلاق بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ کی ذات والا صفات نے نہ صرف انسانی اقدار کا احیاء کیا بلکہ انہیں ایک نیا اور جدید روپ، مثالی رنگ، منفرد جہت اور جداگانہ روح بخشی، خوبی سے نکھارا، بڑی عمدگی سے سنوارا اور اخلاقی اقدار کو بام عروج پر پہنچا دیا۔
اﷲ تعالیٰ، صاحب خلق عظیم ﷺ کے خلق کی مدح کرتے ہوئے یوں فرماتا ہے کہ یقینا آپ ﷺ خلق کے انتہائی ارفع مقام پر فائز ہیں۔ معلم اخلاق ﷺ نے اپنی بعثت کے مرکزی مقصد اور ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے دنیا میں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں مکارم اخلاق کو درجۂ کمال تک پہنچا دوں۔ ذرا غور کیجئے جس الوالعزم ہستی کو عالم رنگ و بو میں اس لیے بھیجا گیا ہو کہ وہ اخلاقی مکارم و محاسن کو نقطہ ٔ عروج پر پہنچا دے تو کیا رب العالمین نے ایسے جلیل القدر معلم، مربی، محسن اور مشفق کی ذات بابرکات میں اخلاقی محاسن و مکارم کے حوالے سے کوئی کمی رکھی ہوگی؟ ہر گز نہیں، بلکہ اس حقیقت کو حضور ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے اس طرح بیان فرمایا، کہ مجھے میرے رب نے خلق کی تعلیم دی اور خلق کی اعلیٰ تعلیم دینے میں اکمل کر دیا۔ سیدہ عائشہ ؓ سے جب پیکر اخلاق ﷺ کے خلق عظیم کے بارے میں استفسار کیا جاتا، تو آپ نہایت مختصر مگر جامع جواب دیتیں، کہ آپ ﷺ کا خلق قرآن کریم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حکیم نے جن مکارم اخلاق اور اوصاف کو اپنانے کا حکم اور ترغیب دی ہے، مرقع اخلاق جمیلہ ﷺ ان سے بدرجہ کمال متصف تھے اور جن باتوں اورکاموں سے احتراز کرنے اور دامن کش رہنے کی تلقین کی ان سے کامل مجتنب تھے۔ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کا ہر گوشہ اور سیرت طیبہ کا ہر پہلو قرآن کریم سے پوری طرح ہم آہنگ اور کلی طور پر مطابقت و موافقت رکھتا ہے، جو سر بسر ہے کلام ربی، وہ میرے آقا ﷺ کی زندگی ہے ۔
صاحب لولاک ﷺ نے اپنے خلق عظیم، حسن سیرت اور قابل رشک کردار سے صداقت و امانت، عفو و درگزر، رحم و کرم، فیاضی وسخاوت، احسان و ایثار، شرم و حیا، عدل و انصاف، ہمت و شجاعت، تواضع و انکساری، فقر و سادگی، استغنا، خود داری، تحمل و بردباری، صلۂ رحمی و ہم دردی، غیرت و حمیت، انسان دوستی، تکریم انسانیت، ایفائے عہد، غریب پروری، یتیم کی خبر گیری، حقوق کی پاس داری اور فرائض کی ادائیگی غرض تمام اخلاقی خوبیوں کو کمال پر پہنچا دیا۔ وہ مخالفین جنھوں نے پیکر خلق عظیم ﷺ کو اذیت پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا، وہ بھی آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ اور بلند کردار کی عظمت و برتری کو تسلیم کرتے اور آپ ﷺ کو صادق و امین کہتے ہیں۔ سرکار دوعالم ﷺ کی صداقت کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ کے دشمن آپ ﷺ کو (معاذاﷲ) ساحر، شاعر، مجنون جیسے نازیبا الفاظ سے پکارتے، مگر آپ ﷺ کو کاذب کہنے کی جرات نہیں کر سکتے اور کرتے بھی کیسے؟ انھوں نے کبھی آپ ﷺ کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا، ابوجہل کی عداوت سے کون واقف نہیں، مگر وہ بھی ایک روز حضور اقدس ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محمد ﷺ ہم آپ کو کاذب نہیں کہتے، البتہ آپ کے دین کو سچا نہیں سمجھتے، اس پر اﷲ نے فرمایا کہ اے محمد ﷺ وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اﷲ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔
بدر کے مقام پر اُخنس بن شریک نے ابوجہل سے پوچھا، اے ابا الحکم! سچ بتا کہ محمد ﷺ صادق ہیں یا کاذب ؟ ابو جہل نے آپ ﷺ کی صداقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا، خدا کی قسم محمد ﷺ امین اور صادق ہیں۔ آپ ﷺ نے جھوٹ کی تاریکی میں سچائی کے چراغ روشن کیے۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ صداقت کا علم بلند رکھنے کی تلقین فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا سچ بولنا نیکی کے راستے پر چلنا ہے اور نیکی جنت کو لے جاتی ہے آدمی سچ بولتا جاتا ہے اور سچ بولتے بولتے وہ صدیق ہو جاتا ہے اور جھوٹ بدکاری کا راستہ بتاتا ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے یہاں تک کہ جھوٹ بولتے بولتے وہ خدا کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔
جب تک مسلمان سچ کے علم بردار رہے، دنیا کی امامت و قیادت ان کے پاس رہی اور جب سے اجتماعی طور پر سچ کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ہے، ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی ہے۔ اگر ہم آج اپنے اسلاف و اکابر کی طرح اجتماعی طور پر سچائی کو زندگی کا نصب العین بنا لیں تو عظمت رفتہ پھر بحال ہو سکتی، امامت اور قیادت پھر مل سکتی ہے۔
حضور ﷺ کے عفو و کرم کا یہ مقام کہ کانٹے بچھانے والوں، پتھر برسانے والوں، گالیاں دینے والوں، خون کے پیاسوں اور ہر طرح کی اذیت پہنچانے والوں کو انتقام کی پوری قدرت و طاقت رکھنے کے باوجود معاف فرما دیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر عفو و کرم کی کوئی اور مثال کیا پیش کی جاسکتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد وہ تمام اعداء اور مجرمین ایک ایک کر کے فاتح مکہ ﷺ کے حضور حاضر ہیں، پوری طرح گرفت میں ہیں اور آپ سرکار ﷺ پورے وقار اور کامل جذبات تشکر کے ساتھ بیت اﷲ کے دروازے پر کھڑے ہیں، تمام مخالفین اپنے اپنے جرم و ظلم کو یاد کر کے لرزہ براندام اور سر جھکائے انجام کے منتظر ہیں، کہ اب انجام سے دوچار ہونے کے لیے آپ ﷺ کے اشارہ ء ابرو کی دیر ہے لیکن ایسے عالم میں رحمت عالم ﷺ نے فرمایا کہ اے قریش! تمھارا کیا خیال ہے، کہ میں تمھارے بارے میں کیا فیصلہ کرنے والا ہوں؟ سب نے بیک زبان کہا، ہم آپ ﷺ سے کرم کی امید رکھتے ہیں۔
رحمت عالم ﷺ نے فرمایا کہ میں وہی بات کہتا ہوں کہ جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو پوری طرح گرفت میں پاکر کہی تھی کہ تم پر آج کے دن کوئی سرزنش اور مواخذ ہ نہیں، اﷲ تمھاری مغفرت فرمائے، وہ سب سے بڑھ کر رحم و کرم کرنے والا ہے۔ ان کلمات طیبہ کے بعد پیکر عفو و کرم ﷺ نے فرمایا جائو تم سب آزاد ہو۔ عفوو درگزر کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اجسام کو فتح کرنے والا، قلوب و اذہان کو بھی اپنے خلق عظیم سے مسخر اور فتح کر لیتا ہے، سب کے سب حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے ہیں۔
امن و آشتی کے پیغمبر ﷺ فتح مکہ کے موقع پر اعلان کرتے ہیں کہ جو مسجد حرام میں داخل ہو جائے اس کے لیے امن ہے، جو ہتھیار ڈال دے اس کے لیے امن ہے اور جو اپنا دروازہ بند کر لے وہ امن میں ہے۔ آپ ﷺ نے اس وقت کے سب سے بڑے جانی دشمن کے گھر کو بھی جائے امان قرار دیا۔ اس عورت کو جس نے آپ ﷺ کے محبوب چچا سید الشہداء حضرت امیر حمزہ ؓ کے کلیجے کو چبا یا تھا، اسے بھی معاف فرما دیا اور اس وحشی جس نے حضرت امیر حمزہ ؓ کو شہید کیا تھا، اسے بھی چھوڑ دیا۔ وہ ہبار بن اسود جس نے آپ ﷺ کی صاحب زادی کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا، جس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہوا تھا اور اس سانحہ کے باعث ان کا وصال بھی ہوا، اسے بھی رسول کونین ﷺ نے اپنے دامن رحمت میں پناہ دی اور وہ یہودی عورت جس نے خیبر کے موقع پر زہر آلود کھانا پیش کیا تھا، اسے بھی آپ ﷺ نے معاف فرما دیا۔ حضور ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں قدم قدم پر نہ صرف عفوو درگزر کا مظاہرہ فرمایا بلکہ اپنے ماننے والوں کو بار بار اس کی تلقین فرمائی۔ ایک موقع پر بطور خاص اس کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو ! ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو، اس سے تمھارا باہمی کینہ اور کدورت دور ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ جس معاشرے میں ایک دوسرے کو خلوص سے معاف کرنے کا عمل جاری ہو تو اس سے نہ صرف دلوں کی زمین سے نفرت کے خاردار جنگل کا خاتمہ ہو گا، بلکہ اس سے باہمی اخوت و محبت کا گلشن مہکے گا۔
کاش ہم نے سرکار ﷺ کی مقدس تعلیمات کو خضر راہ بنایا ہوتا اور عفوو درگزر کو شعار بنایا ہوتا تو آج ہمارا معاشرہ جہنم زار نہ ہوتا بلکہ جنت کا گہوارہ ہوتا۔ اسی طرح سرکار دوعالم ﷺ پیکر عدل و انصاف بھی تھے آپ ﷺ کا عدل ایسا تھا کہ تاریخ انسانی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ ﷺ نے عدل کو اس کی روح اور اس کے تمام تقاضوں کے ساتھ جاری فرمایا، آپ ﷺ نے اپنے طرز عمل سے عدل کا ایک ایسا معیار قائم کیا جو پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ ﷺ کے عدالتی فیصلوں پر کوئی فرد اور کوئی قبیلہ اثرانداز نہ ہو سکا۔ آپ ﷺ کی پوری حیات طیبہ عدل سے عبارت ہے۔ آج ہمارا معاشرہ جو انتہائی ٹوٹ پھوٹ اور فساد و بگاڑ کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ بلا امتیاز قیام عدل سے فرار ہے، یہاں طاقت ور اور دولت مند ہزار جرائم کے باوجود چھوٹ جاتا اور کمزور معمولی سی لغزش پر سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ اسی حکومت کو دوام ملا ہے جس نے اپنی حکومت کو عدل وانصاف پر استوار کیا، عدل سے عاری حکومت کو کبھی بھی استحکام نصیب نہیں ہوا۔ معلم مساوات ﷺ کے دربار کا یہ عالم ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں، کسی گورے کو کالے پر کسی کالے کو گورے پر کوئی برتری نہیں، وہاں کوئی طبقاتی نظام نہیں، ہم مسلمان انفرادی و اجتماعی طور پر اخلاق مصطفی ﷺ کو اپنا لیں تو ہر شعبۂ زندگی میں ایک مثالی انقلاب رونما ہوجائے۔
حضور نبی کریم، صاحب خلق عظیم ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے پوری دنیا میں کفر و شرک کا راج، جہالت کا غلبہ، ضلالت کا تسلط اور ظلم و استبداد کا دور دورہ تھا۔
قتل و غارت کا بازار گرم تھا، ایمان و عرفان کا بحران اور اخلاق حسنہ کا فقدان تھا، تکریم انسانیت معدوم، صداقت ناپید، عدل مفقود، خلوص عنقاء اور وفاداری نادر الوجود تھی، غرض یہ کہ انسان حیوان بن چکا تھا۔ انسانیت کی تذلیل آخری حد کو پہنچ چکی تھی، اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا تھا۔
اﷲ نے ا نسانوں کی رشد وہدایت اور فلاح وبہبود کے لیے مختلف زمانوں میں انبیاء کرام اور صلحاء بھیجے، ان عظیم راہ نمائوں نے ہدایت کی جو شمعیں روشن کیں، وہ گل ہوچکی تھیں اور ساری دنیا جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکی تھی۔ دنیا کا ہر خطہ تاریکی کی چادر میں لپٹا ہوا تھا، روئے ارض پر کوئی طاقت ایسی نہ تھی جو انسانیت کو سہارا دے سکے۔ انسان اﷲ کو چھوڑ کر لاتعداد معبودوں میں گم ہو چکا تھا، کوئی خطہ ایسا نہ تھا، جہاں انسانیت کے صحیح خدوخال دکھائی دیتے اور انسانی قدروں کی نشوونما کی کوئی صورت موجود ہو۔ انسانیت گندگی اور غلاظت میں رینگ رہی تھی، اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل گیا تھا۔ انسانیت سکون قلب سے محروم ہو چکی تھی۔ ایسے عالم میں ضرورت تھی کہ کوئی ایسا راہ بر آئے، جو نہ صرف انسانی اخلاق و اقدار کا احیاء کرے بلکہ انہیں نئی جہتوں کے ساتھ متعارف کرائے، فروغ دے اور بام عروج پر پہنچا دے۔ اﷲ نے انسانیت پر اپنا خاص لطف وکرم فرماتے ہوئے حضور اقدس ﷺ کو معلم اخلاق بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ کی ذات والا صفات نے نہ صرف انسانی اقدار کا احیاء کیا بلکہ انہیں ایک نیا اور جدید روپ، مثالی رنگ، منفرد جہت اور جداگانہ روح بخشی، خوبی سے نکھارا، بڑی عمدگی سے سنوارا اور اخلاقی اقدار کو بام عروج پر پہنچا دیا۔
اﷲ تعالیٰ، صاحب خلق عظیم ﷺ کے خلق کی مدح کرتے ہوئے یوں فرماتا ہے کہ یقینا آپ ﷺ خلق کے انتہائی ارفع مقام پر فائز ہیں۔ معلم اخلاق ﷺ نے اپنی بعثت کے مرکزی مقصد اور ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے دنیا میں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں مکارم اخلاق کو درجۂ کمال تک پہنچا دوں۔ ذرا غور کیجئے جس الوالعزم ہستی کو عالم رنگ و بو میں اس لیے بھیجا گیا ہو کہ وہ اخلاقی مکارم و محاسن کو نقطہ ٔ عروج پر پہنچا دے تو کیا رب العالمین نے ایسے جلیل القدر معلم، مربی، محسن اور مشفق کی ذات بابرکات میں اخلاقی محاسن و مکارم کے حوالے سے کوئی کمی رکھی ہوگی؟ ہر گز نہیں، بلکہ اس حقیقت کو حضور ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے اس طرح بیان فرمایا، کہ مجھے میرے رب نے خلق کی تعلیم دی اور خلق کی اعلیٰ تعلیم دینے میں اکمل کر دیا۔ سیدہ عائشہ ؓ سے جب پیکر اخلاق ﷺ کے خلق عظیم کے بارے میں استفسار کیا جاتا، تو آپ نہایت مختصر مگر جامع جواب دیتیں، کہ آپ ﷺ کا خلق قرآن کریم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حکیم نے جن مکارم اخلاق اور اوصاف کو اپنانے کا حکم اور ترغیب دی ہے، مرقع اخلاق جمیلہ ﷺ ان سے بدرجہ کمال متصف تھے اور جن باتوں اورکاموں سے احتراز کرنے اور دامن کش رہنے کی تلقین کی ان سے کامل مجتنب تھے۔ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کا ہر گوشہ اور سیرت طیبہ کا ہر پہلو قرآن کریم سے پوری طرح ہم آہنگ اور کلی طور پر مطابقت و موافقت رکھتا ہے، جو سر بسر ہے کلام ربی، وہ میرے آقا ﷺ کی زندگی ہے ۔
صاحب لولاک ﷺ نے اپنے خلق عظیم، حسن سیرت اور قابل رشک کردار سے صداقت و امانت، عفو و درگزر، رحم و کرم، فیاضی وسخاوت، احسان و ایثار، شرم و حیا، عدل و انصاف، ہمت و شجاعت، تواضع و انکساری، فقر و سادگی، استغنا، خود داری، تحمل و بردباری، صلۂ رحمی و ہم دردی، غیرت و حمیت، انسان دوستی، تکریم انسانیت، ایفائے عہد، غریب پروری، یتیم کی خبر گیری، حقوق کی پاس داری اور فرائض کی ادائیگی غرض تمام اخلاقی خوبیوں کو کمال پر پہنچا دیا۔ وہ مخالفین جنھوں نے پیکر خلق عظیم ﷺ کو اذیت پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا، وہ بھی آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ اور بلند کردار کی عظمت و برتری کو تسلیم کرتے اور آپ ﷺ کو صادق و امین کہتے ہیں۔ سرکار دوعالم ﷺ کی صداقت کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ کے دشمن آپ ﷺ کو (معاذاﷲ) ساحر، شاعر، مجنون جیسے نازیبا الفاظ سے پکارتے، مگر آپ ﷺ کو کاذب کہنے کی جرات نہیں کر سکتے اور کرتے بھی کیسے؟ انھوں نے کبھی آپ ﷺ کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا، ابوجہل کی عداوت سے کون واقف نہیں، مگر وہ بھی ایک روز حضور اقدس ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محمد ﷺ ہم آپ کو کاذب نہیں کہتے، البتہ آپ کے دین کو سچا نہیں سمجھتے، اس پر اﷲ نے فرمایا کہ اے محمد ﷺ وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اﷲ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔
بدر کے مقام پر اُخنس بن شریک نے ابوجہل سے پوچھا، اے ابا الحکم! سچ بتا کہ محمد ﷺ صادق ہیں یا کاذب ؟ ابو جہل نے آپ ﷺ کی صداقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا، خدا کی قسم محمد ﷺ امین اور صادق ہیں۔ آپ ﷺ نے جھوٹ کی تاریکی میں سچائی کے چراغ روشن کیے۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ صداقت کا علم بلند رکھنے کی تلقین فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا سچ بولنا نیکی کے راستے پر چلنا ہے اور نیکی جنت کو لے جاتی ہے آدمی سچ بولتا جاتا ہے اور سچ بولتے بولتے وہ صدیق ہو جاتا ہے اور جھوٹ بدکاری کا راستہ بتاتا ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے یہاں تک کہ جھوٹ بولتے بولتے وہ خدا کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔
جب تک مسلمان سچ کے علم بردار رہے، دنیا کی امامت و قیادت ان کے پاس رہی اور جب سے اجتماعی طور پر سچ کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ہے، ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی ہے۔ اگر ہم آج اپنے اسلاف و اکابر کی طرح اجتماعی طور پر سچائی کو زندگی کا نصب العین بنا لیں تو عظمت رفتہ پھر بحال ہو سکتی، امامت اور قیادت پھر مل سکتی ہے۔
حضور ﷺ کے عفو و کرم کا یہ مقام کہ کانٹے بچھانے والوں، پتھر برسانے والوں، گالیاں دینے والوں، خون کے پیاسوں اور ہر طرح کی اذیت پہنچانے والوں کو انتقام کی پوری قدرت و طاقت رکھنے کے باوجود معاف فرما دیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر عفو و کرم کی کوئی اور مثال کیا پیش کی جاسکتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد وہ تمام اعداء اور مجرمین ایک ایک کر کے فاتح مکہ ﷺ کے حضور حاضر ہیں، پوری طرح گرفت میں ہیں اور آپ سرکار ﷺ پورے وقار اور کامل جذبات تشکر کے ساتھ بیت اﷲ کے دروازے پر کھڑے ہیں، تمام مخالفین اپنے اپنے جرم و ظلم کو یاد کر کے لرزہ براندام اور سر جھکائے انجام کے منتظر ہیں، کہ اب انجام سے دوچار ہونے کے لیے آپ ﷺ کے اشارہ ء ابرو کی دیر ہے لیکن ایسے عالم میں رحمت عالم ﷺ نے فرمایا کہ اے قریش! تمھارا کیا خیال ہے، کہ میں تمھارے بارے میں کیا فیصلہ کرنے والا ہوں؟ سب نے بیک زبان کہا، ہم آپ ﷺ سے کرم کی امید رکھتے ہیں۔
رحمت عالم ﷺ نے فرمایا کہ میں وہی بات کہتا ہوں کہ جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو پوری طرح گرفت میں پاکر کہی تھی کہ تم پر آج کے دن کوئی سرزنش اور مواخذ ہ نہیں، اﷲ تمھاری مغفرت فرمائے، وہ سب سے بڑھ کر رحم و کرم کرنے والا ہے۔ ان کلمات طیبہ کے بعد پیکر عفو و کرم ﷺ نے فرمایا جائو تم سب آزاد ہو۔ عفوو درگزر کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اجسام کو فتح کرنے والا، قلوب و اذہان کو بھی اپنے خلق عظیم سے مسخر اور فتح کر لیتا ہے، سب کے سب حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے ہیں۔
امن و آشتی کے پیغمبر ﷺ فتح مکہ کے موقع پر اعلان کرتے ہیں کہ جو مسجد حرام میں داخل ہو جائے اس کے لیے امن ہے، جو ہتھیار ڈال دے اس کے لیے امن ہے اور جو اپنا دروازہ بند کر لے وہ امن میں ہے۔ آپ ﷺ نے اس وقت کے سب سے بڑے جانی دشمن کے گھر کو بھی جائے امان قرار دیا۔ اس عورت کو جس نے آپ ﷺ کے محبوب چچا سید الشہداء حضرت امیر حمزہ ؓ کے کلیجے کو چبا یا تھا، اسے بھی معاف فرما دیا اور اس وحشی جس نے حضرت امیر حمزہ ؓ کو شہید کیا تھا، اسے بھی چھوڑ دیا۔ وہ ہبار بن اسود جس نے آپ ﷺ کی صاحب زادی کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا، جس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہوا تھا اور اس سانحہ کے باعث ان کا وصال بھی ہوا، اسے بھی رسول کونین ﷺ نے اپنے دامن رحمت میں پناہ دی اور وہ یہودی عورت جس نے خیبر کے موقع پر زہر آلود کھانا پیش کیا تھا، اسے بھی آپ ﷺ نے معاف فرما دیا۔ حضور ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں قدم قدم پر نہ صرف عفوو درگزر کا مظاہرہ فرمایا بلکہ اپنے ماننے والوں کو بار بار اس کی تلقین فرمائی۔ ایک موقع پر بطور خاص اس کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو ! ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو، اس سے تمھارا باہمی کینہ اور کدورت دور ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ جس معاشرے میں ایک دوسرے کو خلوص سے معاف کرنے کا عمل جاری ہو تو اس سے نہ صرف دلوں کی زمین سے نفرت کے خاردار جنگل کا خاتمہ ہو گا، بلکہ اس سے باہمی اخوت و محبت کا گلشن مہکے گا۔
کاش ہم نے سرکار ﷺ کی مقدس تعلیمات کو خضر راہ بنایا ہوتا اور عفوو درگزر کو شعار بنایا ہوتا تو آج ہمارا معاشرہ جہنم زار نہ ہوتا بلکہ جنت کا گہوارہ ہوتا۔ اسی طرح سرکار دوعالم ﷺ پیکر عدل و انصاف بھی تھے آپ ﷺ کا عدل ایسا تھا کہ تاریخ انسانی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ ﷺ نے عدل کو اس کی روح اور اس کے تمام تقاضوں کے ساتھ جاری فرمایا، آپ ﷺ نے اپنے طرز عمل سے عدل کا ایک ایسا معیار قائم کیا جو پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ ﷺ کے عدالتی فیصلوں پر کوئی فرد اور کوئی قبیلہ اثرانداز نہ ہو سکا۔ آپ ﷺ کی پوری حیات طیبہ عدل سے عبارت ہے۔ آج ہمارا معاشرہ جو انتہائی ٹوٹ پھوٹ اور فساد و بگاڑ کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ بلا امتیاز قیام عدل سے فرار ہے، یہاں طاقت ور اور دولت مند ہزار جرائم کے باوجود چھوٹ جاتا اور کمزور معمولی سی لغزش پر سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ اسی حکومت کو دوام ملا ہے جس نے اپنی حکومت کو عدل وانصاف پر استوار کیا، عدل سے عاری حکومت کو کبھی بھی استحکام نصیب نہیں ہوا۔ معلم مساوات ﷺ کے دربار کا یہ عالم ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں، کسی گورے کو کالے پر کسی کالے کو گورے پر کوئی برتری نہیں، وہاں کوئی طبقاتی نظام نہیں، ہم مسلمان انفرادی و اجتماعی طور پر اخلاق مصطفی ﷺ کو اپنا لیں تو ہر شعبۂ زندگی میں ایک مثالی انقلاب رونما ہوجائے۔