آئی ایم ایف سے ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کو زیرو ریٹ قرار دینے پر بات چیت
جی ایس پی پلس سے فائدے کیلئے مشرقی یورپ میںروڈشو،اسٹیک ہولڈرز کا مشترکہ اجلاس،برآمدات کی یومیہ نگرانی ہو گی
ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹرکو زیرو ریٹ قرار دینے کے لیے آئی ایم ایف اور ایف بی آر سے بات چیت جاری ہے۔
جی ایس پی پلس کی سہولت سے بھرپور استفادہ کے لیے مارچ میں مشرقی یورپ میں روڈ شو منعقد کیا جائے گا۔ یہ بات وفاقی سیکریٹری ٹیکسٹائل انڈسٹری رخسانہ شاہ نے گزشتہ روز ایچ ایم اے ہائوس میں پاکستان اپیرل فورم کے زیراہتمام ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر سے وابستہ صنعتکاروں وبرآمدکنندگان سے خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ جی ایس پی پلس کا حصول بڑا معرکہ ہے اور اس پر عملدرآمد کے بعد ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا جبکہ حکومت بھی جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھانے کے لیے سنجیدہ ہے، رواں سال مارچ کے اختتام پر وزیر مملکت تجارت خرم دستگیر کی قیادت میں روڈ شو کے لیے پاکستان کا وفد مشرقی یورپ کے لیے روانہ ہوگاجس کا مقصد ملکی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے۔ اس موقع پر پاکستان اپیرل فورم کے چیئرمین جاوید بلوانی، پی ایچ ایم اے کے مرکزی چیئرمین شہزاد عالم، پریگمیا کے چیئرمین ارشد عزیز، ٹاول مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سینئر رہنما مزمل حسین، عرفان، خواجہ عثمان، پاکسی کے سینئر رہنما رفیق گوڈیل، بیڈویئرایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین نقی باڑی اور جنید ماکڈا نے بھی خطاب کیا اور ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔
وفاقی سیکریٹری رخسانہ شاہ نے کہا کہ ویلیوایڈڈٹیکسٹائل سیکٹر کو زیروریٹنگ کے لیے آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے اور ایوان صدر بھی اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے، ملکی ایکسپورٹ کی روزانہ بنیادوں پر مانیٹرنگ کی جائے گی جبکہ کسٹم کے اہم ترین شعبہ پرال سے ایکسپورٹ کا ڈیٹا یومیہ بنیادوں پرحاصل کیا جائے گا، اسی طرح ٹی ڈی اے پی کے ڈیٹا سے بھی مدد لی جائے گی، اس کے ساتھ ہی تمام ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز کو بھی مانیٹرنگ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں امن وامان کی خراب صورتحال کے باوجود برآمدی آرڈرز میں اضافہ ہوا، صنعت کار آرینڈ ڈی اور اسکل ڈیولپمنٹ میں سرمایہ کاری کریں، ہماری کوشش ہے کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کو عام صنعتی شعبے سے علیحدہ سیکٹر قرار دیا جائے اور اس سلسلے میں سمری وزیراعظم کو بھیجی جائے گی۔ رخسانہ شاہ نے کہا کہ پاکستانی ایکسپورٹ کا دائرہ زیادہ تر13 مصنوعات کے گرد ہی گھومتا ہے حالانکہ 940 مزید مصنوعات ہیں جن کی برآمدات ہوسکتی ہیں، حکومت جلد ہی اس بارے میں روڈ میپ دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی ٹیکسٹائل کی 14 فیصد ایکسپورٹ مکس فائبر پر مبنی ہے جبکہ دنیا بھر میں 60 فیصد مارکیٹ مکس فائبر پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی تمام ایسوسی ایشنز اپنے اختلافات بھلا کر ہی جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھا سکیں گی اور اپٹما سمیت تمام ایسوسی ایشنز کا ایک مشترکہ اجلاس ہوگا تاکہ ہر کوئی الگ الگ باتیں نہ کرسکے اور جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔ انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ ای او بی آئی اور سیسی سمیت 29 ایجنسیوں کو یکجا کرنے کے سلسلے میں صوبائی حکومت سے بات کی جائیگی تاکہ ایک ہی ایجنسی فیکٹریوں میں جاسکے اور صنعتکاروں میں خوف کی فضا کم ہوسکے۔انہوں نے کہاکہ ڈی ایل ٹی ایل کی مد میں واجبات کی اسی سال ادائیگی کیلیے وزارت خزانہ کو لکھ دیا گیا ہے جبکہ ڈی ٹی آر ای کے حوالے سے ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز آسان اسکیم بنا کر وزارت ٹیکسٹائل کو دیں تاکہ ہم حکومت سے اس پر بات کر سکیں۔ قبل ازیں جاوید بلوانی نے کہا کہ ڈی ایل ٹی ایل کی مد میں واجب الادا رقم ایکسپورٹرز کو دلوائی جائے، مانیٹرنگ سیل بنا کر ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز کو بھی آن بورڈ لیا جائے۔
جی ایس پی پلس کا موثر انداز میں فائدہ اٹھانے کے لیے پیداواری لاگت کم کی جائے، بجلی سمیت تمام یوٹیلٹی کی لاگت کو کم کیا جائے اور انفرااسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔شہزاد عالم نے کہا کہ وزارت ٹیکسٹائل ویلیوایڈڈ سیکٹر کے مسائل کو حل کرے تب ہی جی ایس پی پلس سے فائدہ ممکن ہوسکے گا،دھاگہ فروخت کرنے والے ٹیکسائل انڈسٹری کے نمائندہ نہیں، اپٹما اپنے آپ کو ٹیکسٹائل کا گاڈ فادر کہنا بند کرے، حکومت کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ مزمل حسین نے کہا کہ حکومت نے انڈسٹری میں 162 قوانین لاگو کررکھے ہیں جن کا ازسرنو جائزہ لینا ضروری ہے۔ رفیق گوڈیل نے کہا کہ ای او بی آئی اور سیسی سمیت لیبر اداروں کا ایک افسر ڈھائی کروڑ روپے کی لینڈ کروزرمیں بیٹھ کر فیکٹریوں میں آکر اپنا رعب جھاڑ کر چلا جاتا ہے، سندھ میں بھی ایسے قوانین بنائے جائیں کہ صرف ایک ہی ایجنسی انسپکشن کرسکے۔ نقی باڑی نے کہا کہ 2009 میں ٹیکسٹائل پالیسی آئی مگر2011 سے اس پر عملدرآمد رکا ہوا ہے، ہمارا مقابلہ بھارت اور چین سے ہے اور یہ دونوں ملک ویلیو ایڈیڈٹیکسٹائل سیکٹر کو بھرپور سہولتیں دے رہے ہیں، اگر ہماری حکومت بھی یہ سہولتیں دے تو ہم جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
جی ایس پی پلس کی سہولت سے بھرپور استفادہ کے لیے مارچ میں مشرقی یورپ میں روڈ شو منعقد کیا جائے گا۔ یہ بات وفاقی سیکریٹری ٹیکسٹائل انڈسٹری رخسانہ شاہ نے گزشتہ روز ایچ ایم اے ہائوس میں پاکستان اپیرل فورم کے زیراہتمام ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر سے وابستہ صنعتکاروں وبرآمدکنندگان سے خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ جی ایس پی پلس کا حصول بڑا معرکہ ہے اور اس پر عملدرآمد کے بعد ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا جبکہ حکومت بھی جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھانے کے لیے سنجیدہ ہے، رواں سال مارچ کے اختتام پر وزیر مملکت تجارت خرم دستگیر کی قیادت میں روڈ شو کے لیے پاکستان کا وفد مشرقی یورپ کے لیے روانہ ہوگاجس کا مقصد ملکی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے۔ اس موقع پر پاکستان اپیرل فورم کے چیئرمین جاوید بلوانی، پی ایچ ایم اے کے مرکزی چیئرمین شہزاد عالم، پریگمیا کے چیئرمین ارشد عزیز، ٹاول مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سینئر رہنما مزمل حسین، عرفان، خواجہ عثمان، پاکسی کے سینئر رہنما رفیق گوڈیل، بیڈویئرایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین نقی باڑی اور جنید ماکڈا نے بھی خطاب کیا اور ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔
وفاقی سیکریٹری رخسانہ شاہ نے کہا کہ ویلیوایڈڈٹیکسٹائل سیکٹر کو زیروریٹنگ کے لیے آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے اور ایوان صدر بھی اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے، ملکی ایکسپورٹ کی روزانہ بنیادوں پر مانیٹرنگ کی جائے گی جبکہ کسٹم کے اہم ترین شعبہ پرال سے ایکسپورٹ کا ڈیٹا یومیہ بنیادوں پرحاصل کیا جائے گا، اسی طرح ٹی ڈی اے پی کے ڈیٹا سے بھی مدد لی جائے گی، اس کے ساتھ ہی تمام ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز کو بھی مانیٹرنگ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں امن وامان کی خراب صورتحال کے باوجود برآمدی آرڈرز میں اضافہ ہوا، صنعت کار آرینڈ ڈی اور اسکل ڈیولپمنٹ میں سرمایہ کاری کریں، ہماری کوشش ہے کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کو عام صنعتی شعبے سے علیحدہ سیکٹر قرار دیا جائے اور اس سلسلے میں سمری وزیراعظم کو بھیجی جائے گی۔ رخسانہ شاہ نے کہا کہ پاکستانی ایکسپورٹ کا دائرہ زیادہ تر13 مصنوعات کے گرد ہی گھومتا ہے حالانکہ 940 مزید مصنوعات ہیں جن کی برآمدات ہوسکتی ہیں، حکومت جلد ہی اس بارے میں روڈ میپ دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی ٹیکسٹائل کی 14 فیصد ایکسپورٹ مکس فائبر پر مبنی ہے جبکہ دنیا بھر میں 60 فیصد مارکیٹ مکس فائبر پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی تمام ایسوسی ایشنز اپنے اختلافات بھلا کر ہی جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھا سکیں گی اور اپٹما سمیت تمام ایسوسی ایشنز کا ایک مشترکہ اجلاس ہوگا تاکہ ہر کوئی الگ الگ باتیں نہ کرسکے اور جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔ انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ ای او بی آئی اور سیسی سمیت 29 ایجنسیوں کو یکجا کرنے کے سلسلے میں صوبائی حکومت سے بات کی جائیگی تاکہ ایک ہی ایجنسی فیکٹریوں میں جاسکے اور صنعتکاروں میں خوف کی فضا کم ہوسکے۔انہوں نے کہاکہ ڈی ایل ٹی ایل کی مد میں واجبات کی اسی سال ادائیگی کیلیے وزارت خزانہ کو لکھ دیا گیا ہے جبکہ ڈی ٹی آر ای کے حوالے سے ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز آسان اسکیم بنا کر وزارت ٹیکسٹائل کو دیں تاکہ ہم حکومت سے اس پر بات کر سکیں۔ قبل ازیں جاوید بلوانی نے کہا کہ ڈی ایل ٹی ایل کی مد میں واجب الادا رقم ایکسپورٹرز کو دلوائی جائے، مانیٹرنگ سیل بنا کر ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز کو بھی آن بورڈ لیا جائے۔
جی ایس پی پلس کا موثر انداز میں فائدہ اٹھانے کے لیے پیداواری لاگت کم کی جائے، بجلی سمیت تمام یوٹیلٹی کی لاگت کو کم کیا جائے اور انفرااسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔شہزاد عالم نے کہا کہ وزارت ٹیکسٹائل ویلیوایڈڈ سیکٹر کے مسائل کو حل کرے تب ہی جی ایس پی پلس سے فائدہ ممکن ہوسکے گا،دھاگہ فروخت کرنے والے ٹیکسائل انڈسٹری کے نمائندہ نہیں، اپٹما اپنے آپ کو ٹیکسٹائل کا گاڈ فادر کہنا بند کرے، حکومت کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ مزمل حسین نے کہا کہ حکومت نے انڈسٹری میں 162 قوانین لاگو کررکھے ہیں جن کا ازسرنو جائزہ لینا ضروری ہے۔ رفیق گوڈیل نے کہا کہ ای او بی آئی اور سیسی سمیت لیبر اداروں کا ایک افسر ڈھائی کروڑ روپے کی لینڈ کروزرمیں بیٹھ کر فیکٹریوں میں آکر اپنا رعب جھاڑ کر چلا جاتا ہے، سندھ میں بھی ایسے قوانین بنائے جائیں کہ صرف ایک ہی ایجنسی انسپکشن کرسکے۔ نقی باڑی نے کہا کہ 2009 میں ٹیکسٹائل پالیسی آئی مگر2011 سے اس پر عملدرآمد رکا ہوا ہے، ہمارا مقابلہ بھارت اور چین سے ہے اور یہ دونوں ملک ویلیو ایڈیڈٹیکسٹائل سیکٹر کو بھرپور سہولتیں دے رہے ہیں، اگر ہماری حکومت بھی یہ سہولتیں دے تو ہم جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔