بیل کبھی نہیں سو چتے
اصل میں ہمیں بڑی خوبصورتی سے سوچنے کے عمل سے محروم کردیا گیا ہے۔
انسان کے تمام جذبات ، احساسات اور خیالات سوچنے کے عمل سے پیدا ہوتے ہیں۔ سوچنے کا عمل ہمیں زندہ رکھتا ہے جب ہم سوچنا چھوڑ دیتے ہیں تو ہماری ذہنی موت واقع ہو جاتی ہے۔
اسی سوچ کی وجہ سے انسان نے عظمت کی معراج کو چھوا ہے ، اسی سو چ کی وجہ سے صدیوں قبل کے انسان اورکردار آج بھی زندہ ہیں وہ ہم سے باتیں کرتے ہیں ہم ان کا ذکرکرتے ہیں ہم انھیں محسوس کرتے ہیں وہ ہمیں ہمارے اردگرد اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ذرا سوچیں، اگر سوچیں نہ ہوتیں تو انسان کیسے ہوتے ۔
496 قبل مسیح کے عظیم المیہ نگار سو فیکلیزکا ڈرامہ '' اٹنگنی'' باہمت اٹنگنی کی جرأت اور بہادری کا ڈرامہ ہے '' ایک کم عمر لڑکی کے بھائی کو بغاوت اور غداری کے الزام میں قتل کی سزا ہوتی ہے، لڑکی کو اطلاع ملتی ہے کہ اس کے بھائی کی بے گوروکفن لاش ویرانے میں گلنے سڑنے اور بھیڑیوں اورگدھوں کی خوراک بننے کے لیے پھینک دی گئی ہے اور بادشاہ کی طرف سے لاش کو دفن کر نے کی ممانعت ہوچکی ہے اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والا مجرم سمجھا جائے گا اور مجرم کے لیے اس کے جرم کی سزا بھی موت رکھی گئی ہے۔ درد و کرب کے عالم میں لڑکی اپنے دل کو ٹٹولتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ اس قانون کو توڑنا میرا فرض ہے چاہے اس کا نتیجہ یہ ہوکہ مجھے اپنی زندگی اور اپنی مسرتوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اس خطرناک ارادے کی تکمیل میں ا س کی بہن بھی معاونت سے انکارکردیتی ہے وہ رو رو کر اسے اس کام سے باز رکھنے کی کو شش کرتی ہے لیکن وہ اپنی دہشت ناک منزل کی طرف روانہ ہوجاتی ہے کہ یہ ایک اعتبار سے جلیل القدر بھی ہے تھوڑی دیر بعد ایک سپاہی ہانپتا کانپتا داخل ہوتا ہے اور اطلاع دیتا ہے کہ نئے سرکاری اعلان اور زبردست پہرے کے باوجود کسی نے لاش کو دفنا دیا ہے۔
بادشاہ اپنے رعب واقتدار کی اس توہین پر آگ بگولا ہو کر احکام صادرکرتا ہے کہ علاقے بھر میں مجرم کی تلاش کی جائے اور اسے پکڑکر فورا کیفرکردار کو پہنچایا جائے۔ شہریوں کا ایک گروہ یہ خبر سنتا ہے اور حیرت اور خوف سے لرزہ بر اندام ہو جاتا ہے اور پھر انسان کی بے قیا س ذہانت کی تعریف میں ایک درد و اثر میں ڈوبا ہو ا گیت گانے لگتا ہے ۔
'' حیرت انگریز چیزوں کی کوئی کمی نہیں ، مگر کوئی چیز خود انسان سے بڑھ کر حیرت انگیز نہیں ہے ۔ انسان ہواؤں اور طوفانوں کو سہارا بنا کر ، کف آلود خاکستری سمندروں پر رواں ہوتا ہے۔ گہرائیو ں اور بلند موجوں سے لڑ جاتا ہے '' اس گیت میں انھوں نے اس ذہن کی تعریف کی جو غور و فکر کرتا ہے جو اپنی بے شمار سرگرمیو ں کے علاوہ قوت ارادی کا مسکن ہے۔
سو فیکلیز نے ایک قدیم کہانی کے جزو سے کام لیا جو بھولے بسرے زمانوں کی ظلمات کو خلیج کی طر ح پاٹ کر اس کے پاس پہنچی تھی۔ اس نے کہانی کے واقعات اور کرداروں کو ایک نئی اور عظیم الشان المیہ ڈرامے کی صورت میں پیش کیا۔ سو فیکلیز مرچکا ہے اس کے ایکٹر مرچکے ہیں وہ سب لوگ جنہوں نے چوبیس صدی پیشتر ایتھنز میں '' اٹنگنی '' کا المیہ دیکھا تھا ، مر چکے ہیں ، تھیٹر آج کھنڈر ہے اور مدت سے وہ زبان بھی جس میں سو فیکلیز شعرکہتا تھا متروک ہوچکی ہے لیکن سو فیکلیزکے الفاظ اور خیالات مٹ نہیں سکتے۔
آج بھی لوگ شدید محنت سے اس کی زبان سیکھتے ہیں ، اس کا کلام پڑھتے ہیں اپنے تصور میں اس کے کرداروں کی آوازیں سنتے ہیں لوگ آج بھی اٹنگنی کی بہادری اور بادشاہ کی سخت گیر ی کا فیصلہ اپنی آنکھوں کے سامنے لاتے ہیں اور انسانی ذہن کے کارناموں پر محو حیرت ہوجاتے ہیں۔
اس المیہ شاہکارکو پڑھتے ہوئے لوگ پھر ایک بار اس کے مفہوم کی صداقت کو محسوس کرتے ہیں کہ ہر انسان یعنی مرد اور عورت کے لیے سوچنا ایک ناگزیر عمل ہے۔ انسان کی بدنصیبی کی انتہا غلامی ہے اور غلامی کی بدترین شکل جسمانی نہیں بلکہ ذہنی غلامی ہے انسانی تہذیب کی کہانی کا آغاز تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح کے یونانیوں سے ہوتا ہے۔
ان سے بہت سے پہلے اور ان کے زمانے میں اور بھی تہذیبیں موجود تھیں جو ان سے زیادہ عظیم الشان اور جلیل القدر تھیں لیکن اس زمانے میں صرف یونانی ہی تھے جو ''سوچتے '' تھے ان کی سوچ گہری اور مسلسل تھی ۔ سقراط بار بارکہتا تھا ''سوچو''۔ دانتے کی ڈیوائن کامیڈی میں شاعر تصور میں دوزخ کی سیرکرتا ہے ، اس دوزخ میں تین طبقے ہیں جن میں بے اعتدالی کرنے والوں ، ظلم و ستم کرنے والوں اور فریب کاروں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ دانتے کا یہ تصور ارسطو کے اخلاقی نظام پر مبنی ہے۔
شیکسپیئر کے المیہ '' میکبتھ '' کو پڑھ کر لامحالہ ہم سوچتے ہیں کہ المیے کی ہیئت اور اس کی بنیادی معنویت یونانی شاعروں کی تخلیق ہے۔ توازن قوت کا نظریہ جس پر امریکی آئین کی بنیاد رکھی گئی ہے ، سب سے پہلے ایک یونانی مورخ نے مرتب کیا تھا۔ یونانی معلموں ہی نے سب سے پہلے انسانی اخوت کا شاندار نصب العین دنیا کے سامنے رکھا تھا۔ انسان کے سارے کے سارے کارنامے ، ساری کامیابیاں صرف اور صرف سوچ کا نتیجہ ہیں۔
کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ ہم آخر پوری دنیا کے مقابلے میں کیوں اتنے مفلس ، لاچار ، غریب ، بھوکے ، جاہل ، بیمار، گنوار ، بے بس ، بے کس ، فقیر اور قلاش ہیں۔ کیا پوری دنیا ہمارے مقابلے میں زیادہ طاقتور ، بہادر ہے اورکیا پوری دنیا کے انسانوں کو خدا نے ہم سے بہتر بنایا ہے ہم سے زیادہ کہیں زیادہ قابلیت اور صلاحیت دی ہے کیا وہ ہم سے زیادہ عقل مند ، ہوشیار اور ذہین ہیں۔
کیا وہ خدا کے پسندیدہ انسان ہیں اور ہم خدانخواستہ ناپسندیدہ انسان ہیں۔ آیا ہم پیدائشی طور پر ایسے ہی پیدا ہوتے ہیں یا پھر یہ کہ ہمارے سماج نے ہمیں ایسا بنا دیتا ہے۔
آج جب ہم اپنے چاروں طرف نگاہیں دوڑاتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے چاروں طرف وہ انسان چل پھر اور رہ رہے ہیں جو ذہنی طور پر مردہ ہیں جو ہر اذیت ، تکلیف ، مصیبت ، زیادتی،گالیاں چپ چاپ سہے جارہے ہیں ہم اگر اس صورتحال اور منظر اور منظرکی جڑ اور تہہ پر پہنچنے کی جدوجہد کریں تو ہم باآسانی وہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ہمیں یہ پتہ چل جائے گا کہ ہماری ساری بدنصیبوں کی اصل وجہ ہمارا '' نہ سوچنے '' کا عمل ہے جو ہم نجانے کب سے ترک کیے بیٹھے ہیں۔
اصل میں ہمیں بڑی خوبصورتی سے سوچنے کے عمل سے محروم کردیا گیا ہے جب آپ سوچنا چھوڑ دیتے ہیں تو آپ جینا ترک کردیتے ہیں کیونکہ پھر آپ کے پاس جینے کی کوئی بھی وجہ باقی نہیں بچتی ہے پھر آپ صرف بیل بن جاتے ہیں طاقتوروں ، با اختیاروں اور اشرافیہ کے بیل ، جوان کے گناہ اور ان کے بوجھ اٹھائے اٹھائے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ آپ کو تسلیم کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ آپ انسان نہیں بلکہ بیل ہیں گردن جھکائے زمین کو تکتے ہوئے منوں بوجھ لادے بیل ، خاموش ، لاچار ، بے بس ، بے کس ، مجبور ، کمزور ، ڈرپوک ، مارکھانے والے گالیاں سننے والے بھوکے پیاسے بیل۔
ساری زندگی ان ہی کے گھروں کے باہر بندھے رہتے ہیں چاہے انھیں زنجیروں میں جکڑ دو چاہے رسے سے باندھ لو ، چاہے کھلا چھوڑ دو۔ وہ انھیں چھوڑ کر کہیں دورکبھی بھی بھاگنے والے نہیں ہیں کیو نکہ وہ انسان نہیں صرف بیل ہیں اور بیل کبھی سوچتے نہیں ہیں۔
اسی سوچ کی وجہ سے انسان نے عظمت کی معراج کو چھوا ہے ، اسی سو چ کی وجہ سے صدیوں قبل کے انسان اورکردار آج بھی زندہ ہیں وہ ہم سے باتیں کرتے ہیں ہم ان کا ذکرکرتے ہیں ہم انھیں محسوس کرتے ہیں وہ ہمیں ہمارے اردگرد اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ذرا سوچیں، اگر سوچیں نہ ہوتیں تو انسان کیسے ہوتے ۔
496 قبل مسیح کے عظیم المیہ نگار سو فیکلیزکا ڈرامہ '' اٹنگنی'' باہمت اٹنگنی کی جرأت اور بہادری کا ڈرامہ ہے '' ایک کم عمر لڑکی کے بھائی کو بغاوت اور غداری کے الزام میں قتل کی سزا ہوتی ہے، لڑکی کو اطلاع ملتی ہے کہ اس کے بھائی کی بے گوروکفن لاش ویرانے میں گلنے سڑنے اور بھیڑیوں اورگدھوں کی خوراک بننے کے لیے پھینک دی گئی ہے اور بادشاہ کی طرف سے لاش کو دفن کر نے کی ممانعت ہوچکی ہے اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والا مجرم سمجھا جائے گا اور مجرم کے لیے اس کے جرم کی سزا بھی موت رکھی گئی ہے۔ درد و کرب کے عالم میں لڑکی اپنے دل کو ٹٹولتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ اس قانون کو توڑنا میرا فرض ہے چاہے اس کا نتیجہ یہ ہوکہ مجھے اپنی زندگی اور اپنی مسرتوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اس خطرناک ارادے کی تکمیل میں ا س کی بہن بھی معاونت سے انکارکردیتی ہے وہ رو رو کر اسے اس کام سے باز رکھنے کی کو شش کرتی ہے لیکن وہ اپنی دہشت ناک منزل کی طرف روانہ ہوجاتی ہے کہ یہ ایک اعتبار سے جلیل القدر بھی ہے تھوڑی دیر بعد ایک سپاہی ہانپتا کانپتا داخل ہوتا ہے اور اطلاع دیتا ہے کہ نئے سرکاری اعلان اور زبردست پہرے کے باوجود کسی نے لاش کو دفنا دیا ہے۔
بادشاہ اپنے رعب واقتدار کی اس توہین پر آگ بگولا ہو کر احکام صادرکرتا ہے کہ علاقے بھر میں مجرم کی تلاش کی جائے اور اسے پکڑکر فورا کیفرکردار کو پہنچایا جائے۔ شہریوں کا ایک گروہ یہ خبر سنتا ہے اور حیرت اور خوف سے لرزہ بر اندام ہو جاتا ہے اور پھر انسان کی بے قیا س ذہانت کی تعریف میں ایک درد و اثر میں ڈوبا ہو ا گیت گانے لگتا ہے ۔
'' حیرت انگریز چیزوں کی کوئی کمی نہیں ، مگر کوئی چیز خود انسان سے بڑھ کر حیرت انگیز نہیں ہے ۔ انسان ہواؤں اور طوفانوں کو سہارا بنا کر ، کف آلود خاکستری سمندروں پر رواں ہوتا ہے۔ گہرائیو ں اور بلند موجوں سے لڑ جاتا ہے '' اس گیت میں انھوں نے اس ذہن کی تعریف کی جو غور و فکر کرتا ہے جو اپنی بے شمار سرگرمیو ں کے علاوہ قوت ارادی کا مسکن ہے۔
سو فیکلیز نے ایک قدیم کہانی کے جزو سے کام لیا جو بھولے بسرے زمانوں کی ظلمات کو خلیج کی طر ح پاٹ کر اس کے پاس پہنچی تھی۔ اس نے کہانی کے واقعات اور کرداروں کو ایک نئی اور عظیم الشان المیہ ڈرامے کی صورت میں پیش کیا۔ سو فیکلیز مرچکا ہے اس کے ایکٹر مرچکے ہیں وہ سب لوگ جنہوں نے چوبیس صدی پیشتر ایتھنز میں '' اٹنگنی '' کا المیہ دیکھا تھا ، مر چکے ہیں ، تھیٹر آج کھنڈر ہے اور مدت سے وہ زبان بھی جس میں سو فیکلیز شعرکہتا تھا متروک ہوچکی ہے لیکن سو فیکلیزکے الفاظ اور خیالات مٹ نہیں سکتے۔
آج بھی لوگ شدید محنت سے اس کی زبان سیکھتے ہیں ، اس کا کلام پڑھتے ہیں اپنے تصور میں اس کے کرداروں کی آوازیں سنتے ہیں لوگ آج بھی اٹنگنی کی بہادری اور بادشاہ کی سخت گیر ی کا فیصلہ اپنی آنکھوں کے سامنے لاتے ہیں اور انسانی ذہن کے کارناموں پر محو حیرت ہوجاتے ہیں۔
اس المیہ شاہکارکو پڑھتے ہوئے لوگ پھر ایک بار اس کے مفہوم کی صداقت کو محسوس کرتے ہیں کہ ہر انسان یعنی مرد اور عورت کے لیے سوچنا ایک ناگزیر عمل ہے۔ انسان کی بدنصیبی کی انتہا غلامی ہے اور غلامی کی بدترین شکل جسمانی نہیں بلکہ ذہنی غلامی ہے انسانی تہذیب کی کہانی کا آغاز تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح کے یونانیوں سے ہوتا ہے۔
ان سے بہت سے پہلے اور ان کے زمانے میں اور بھی تہذیبیں موجود تھیں جو ان سے زیادہ عظیم الشان اور جلیل القدر تھیں لیکن اس زمانے میں صرف یونانی ہی تھے جو ''سوچتے '' تھے ان کی سوچ گہری اور مسلسل تھی ۔ سقراط بار بارکہتا تھا ''سوچو''۔ دانتے کی ڈیوائن کامیڈی میں شاعر تصور میں دوزخ کی سیرکرتا ہے ، اس دوزخ میں تین طبقے ہیں جن میں بے اعتدالی کرنے والوں ، ظلم و ستم کرنے والوں اور فریب کاروں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ دانتے کا یہ تصور ارسطو کے اخلاقی نظام پر مبنی ہے۔
شیکسپیئر کے المیہ '' میکبتھ '' کو پڑھ کر لامحالہ ہم سوچتے ہیں کہ المیے کی ہیئت اور اس کی بنیادی معنویت یونانی شاعروں کی تخلیق ہے۔ توازن قوت کا نظریہ جس پر امریکی آئین کی بنیاد رکھی گئی ہے ، سب سے پہلے ایک یونانی مورخ نے مرتب کیا تھا۔ یونانی معلموں ہی نے سب سے پہلے انسانی اخوت کا شاندار نصب العین دنیا کے سامنے رکھا تھا۔ انسان کے سارے کے سارے کارنامے ، ساری کامیابیاں صرف اور صرف سوچ کا نتیجہ ہیں۔
کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ ہم آخر پوری دنیا کے مقابلے میں کیوں اتنے مفلس ، لاچار ، غریب ، بھوکے ، جاہل ، بیمار، گنوار ، بے بس ، بے کس ، فقیر اور قلاش ہیں۔ کیا پوری دنیا ہمارے مقابلے میں زیادہ طاقتور ، بہادر ہے اورکیا پوری دنیا کے انسانوں کو خدا نے ہم سے بہتر بنایا ہے ہم سے زیادہ کہیں زیادہ قابلیت اور صلاحیت دی ہے کیا وہ ہم سے زیادہ عقل مند ، ہوشیار اور ذہین ہیں۔
کیا وہ خدا کے پسندیدہ انسان ہیں اور ہم خدانخواستہ ناپسندیدہ انسان ہیں۔ آیا ہم پیدائشی طور پر ایسے ہی پیدا ہوتے ہیں یا پھر یہ کہ ہمارے سماج نے ہمیں ایسا بنا دیتا ہے۔
آج جب ہم اپنے چاروں طرف نگاہیں دوڑاتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے چاروں طرف وہ انسان چل پھر اور رہ رہے ہیں جو ذہنی طور پر مردہ ہیں جو ہر اذیت ، تکلیف ، مصیبت ، زیادتی،گالیاں چپ چاپ سہے جارہے ہیں ہم اگر اس صورتحال اور منظر اور منظرکی جڑ اور تہہ پر پہنچنے کی جدوجہد کریں تو ہم باآسانی وہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ہمیں یہ پتہ چل جائے گا کہ ہماری ساری بدنصیبوں کی اصل وجہ ہمارا '' نہ سوچنے '' کا عمل ہے جو ہم نجانے کب سے ترک کیے بیٹھے ہیں۔
اصل میں ہمیں بڑی خوبصورتی سے سوچنے کے عمل سے محروم کردیا گیا ہے جب آپ سوچنا چھوڑ دیتے ہیں تو آپ جینا ترک کردیتے ہیں کیونکہ پھر آپ کے پاس جینے کی کوئی بھی وجہ باقی نہیں بچتی ہے پھر آپ صرف بیل بن جاتے ہیں طاقتوروں ، با اختیاروں اور اشرافیہ کے بیل ، جوان کے گناہ اور ان کے بوجھ اٹھائے اٹھائے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ آپ کو تسلیم کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ آپ انسان نہیں بلکہ بیل ہیں گردن جھکائے زمین کو تکتے ہوئے منوں بوجھ لادے بیل ، خاموش ، لاچار ، بے بس ، بے کس ، مجبور ، کمزور ، ڈرپوک ، مارکھانے والے گالیاں سننے والے بھوکے پیاسے بیل۔
ساری زندگی ان ہی کے گھروں کے باہر بندھے رہتے ہیں چاہے انھیں زنجیروں میں جکڑ دو چاہے رسے سے باندھ لو ، چاہے کھلا چھوڑ دو۔ وہ انھیں چھوڑ کر کہیں دورکبھی بھی بھاگنے والے نہیں ہیں کیو نکہ وہ انسان نہیں صرف بیل ہیں اور بیل کبھی سوچتے نہیں ہیں۔