غزہ کی غمزدہ مائیں

مغربی دنیا کی ہمدردی اسرائیل کے ساتھ ہے اور وہ ہر طرح سے اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔

shabnumg@yahoo.com

LONDON:
ایک چھوٹی بچی تباہ شدہ عمارت کے ملبے پرکھڑی ہے۔ اس کے ہاتھوں میں خوبصورت گڑیا ہے جسے اس نے سینے سے بھینچ رکھا ہے۔ یہ تصویر بھی دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ غزہ کے بچے غیر محفوظ ہیں اور ماؤں کی آنکھوں سے نیند اڑ چکی ہے۔

موجودہ دنیا جس نہج پرکھڑی ہے ، اس کے پیچھے ماضی کے واقعات اور اثرات ہیں۔ وقت کی تاریخ جنگوں ، نسلی و مذہبی تنازعات اور نو آبادیاتی نظام کی تباہی کاریوں سے عبارت ہے۔ فلسطین کے موجودہ حالات برطانوی نو آبادیاتی کڑی سے جا ملتے ہیں۔

جسے آبادکار نو آبادیاتی (settler colonialism) نفسیات کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ آباد کار نوآبادیات کا طریقہ کار ، دیسی آبادیوں کو ایک حملہ آور آباد کار معاشرے کے ساتھ تبدیل کرنے کے ذریعے عمل وجود میں لایا جاتا ہے۔ یہ نظریہ وقت گزرنے کے ساتھ ، باہر سے آئے ہوئے آباد کار کو ایک الگ شناخت دینے کے ساتھ اس کی خود مختاری کو فروغ دیتا ہے۔ آبادکار نو آبادیاتی ریاستوں میں کینیڈا ، ریاست ہائے متحدہ ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ ان ملکوں میں انسانی حقوق کی بالادستی قائم رکھنے کی لڑائی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور یہ نظریہ اسرائیل ، کینیا اور ارجنٹائن جیسی جگہوں پر تنازعات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

فلسطین بھی آبادکار نو آبادیاتی تضاد کا شکار رہا ہے، جو وقت گذرنے کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ فلسطین ، دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ خطہ مذہبی ، ثقافتی اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ جس کا بیشتر حصہ اسرائیل کے زیر تسلط ہے۔ فلسطین کا وجود خلافت عثمانیہ میں قائم رہا مگر انگریز اور فرانس کے قبضے کے بعد فلسطینی آج تک وجود کی بقا کی جنگ لڑتے آرہے ہیں ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودی دنیا کے مختلف مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ جنھیں برطانیہ نے 1948 میں فلسطین میں لے جاکر آباد کروا دیا۔

اس وقت اسرائیل کے پناہ گزینوں کو شہر کے مغربی حصے میں منتقل کیا گیا تھا۔ یہودی ، فلسطین کے اصلی باشندوں کو بے گھر کرنے کی سازش میں مستقل کوشاں رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یرو شلم پر بھی قبضہ کر لیا۔ یرو شلم مختلف مذاہب کے لوگوں مسیحی ، اسلامی ، یہودی اور ارمینیائی میں منقسم ہے۔ اس علاقے میں کئی مقدس مقامات واقع ہیں۔

رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اسرائیلی فوجیوں کی فلسطین کے شہر غزہ پر فضائی جارحیت ، انسانی اقدار کی پامالی کا ثبوت ہے۔ اس سے پہلے 2014 میں غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں غزہ کے شعر الشجاعیہ ، الشاف اور آلتوفہ تباہ ہوکر رہ گئے تھے۔ اسی دوران حماس کے رہنما خلیل الحیا کے اہل خانہ بھی شہید ہو گئے تھے۔

اب ایک بار پھر اسرائیلی فوج نے غزہ پر قیامت ڈھا دی۔ اسرائیلی طیارے غزہ پر وحشیانہ بمباری کرتے رہے، کئی رہائشی عمارتیں منہدم ہوگئیں۔ درجنوں خاندان ہلاک ہو گئے ، کئی لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ جس میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ لاتعداد افراد زخمی ہیں ، اسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں اور شہر تباہی کا منظر پیش کررہا ہے۔ اسرائیلی فضائی حملوں کے دوران گھروں اور بلند و بالا عمارتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔


یہ جھڑپیں بیت المقدس میں حالیہ کشیدگی کی وجہ سے پیش آئی ہیں۔ اسرائیلی عدالتوں کے ذریعے فلسطینیوں کو اُن کی گھروں سے بیدخل کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں فلسطینی شہری خوف و بے یقینی کی زندگی گذارنے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ مغربی دنیا کی ہمدردی اسرائیل کے ساتھ ہے اور وہ ہر طرح سے اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی مفصل رپورٹ میں اسرائیل پر الزامات لگاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ '' اسرائیل اپنی غلط پالیسیوں کے ذریعے فلسطینیوں کے ساتھ نسلی امتیاز کرتے ہوئے انھیں تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے'' نیو یارک میں قائم اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم اس تنظیم نے دو سو تیرہ صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ '' اسرائیل اپنی سرحدوں کے اندر اور اپنے زیر قبضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے ساتھ جن رویوں کا مرتکب ہو رہا ہے ، وہ بین الاقوامی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔'' یہ حقیقت ہے کہ اس وقت اسرائیلی فوج جدید اسلحے سے مزین ہے اور اس کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے۔ دوسری جانب حماس کے پاس نہ وسائل ہیں اور نہ ہی جنگی سازو سامان لہذا دفاع کے آڑ میں نہتے فلسطینیوں پر مسلسل حملوں کو غیر انسانی فعل قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ رویہ نسلی صفائی (Ethnic cleansing) جیسے گھناؤنے عمل سے بھی منسوب کیا جا رہا ہے۔

معاملے کی سنگینی کو محسوس کرنے کے باوجود عرب دنیا ، فرانس ، یورپی یونین ، یورپ و امریکا کی معنی خیز خاموشی یہ بتا رہی ہے کہ فی الوقت اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے لیکن اگر کوئی حل مل سکتا ہے تو وہ امن پسند لوگوں کے آواز اٹھانے سے مل سکتا ہے جو دنیا کو نسلی تضادات اور جنگوں سے ماورا دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس حوالے سے مغربی میڈیا کا جانبدار کردار رہا ہے۔ غزہ کی حالیہ صورتحال دنیا کے سامنے ہے مگر بین الاقوامی پرنٹ میڈیا ، ٹویٹر ، انسٹا گرام اور فیس بک پر فلسطین کی خبریں روکی جارہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے صارفین کی تعداد 53.6 فیصد ہے، جس میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ یعنی دنیا کی آدھی آبادی کا ذہن سوشل میڈیا کے زیر اثر پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بھی دنیا بھر میں فلسطین پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج جاری ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دنیا ایک ایسے غیر انسانی شکنجے میں آچکی ہے جو فقط مفادات اور طاقت جیسے الفاظ کو سمجھتا ہے۔ سرمایہ داری سماج میں انسانی و اخلاقی اقدار کو کم اہمیت دی جاتی ہے، لیکن فلسطین میں ڈیجیٹل ایکٹو ازم کے ذریعے نوجوان کئی تلخ حقائق کو سامنے لے کر آرہے ہیں۔

اسرائیلی فوجیوں کے مظالم کی تصاویر وائرل ہورہی ہیں۔ تباہ شدہ مکان اور بین کرتی زخمی مائیں ، پناہ کی تلاش میں سرگرداں بے گھر فلسطینی ، خوبصورت بچوں کی مسخ لاشیں دیکھ کر امن پسند اقوام کے جذبات بری طرح سے مجروح ہورہے ہیں۔ بمباری سے متاثر فلسطینیوں کی رونگھٹے کھڑے کرنے والی کہانیاں سن کر امن پسند لوگ افسردہ ہیں۔ نئی نسل کے ذہنوں پر ان واقعات کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ دنیا کو نسلی و مذہبی تنازعات کے جہنم میں دھکیلا جا رہا ہے۔ خوف اور عدم تحفظ کا احساس مستقل بڑھ رہا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی بے بس نظر آتا ہے، جو امن کی بحالی جنگوں کے خاتمے کے لیے عمل وجود میں آیا تھا۔
Load Next Story