بیوہ و مطلقہ خواتین کی اجیرن زندگی
کہیں صنفی امتیاز کے سبب عورت کو زندہ دفن کیا گیا تو کہیں شوہر کی وفات پر ستّی کے لیے مجبور کیا گیا۔
آج کے معاشرے میں بیوہ و مطلقہ خواتین کی زندگی کس قدر مشکل و پُرخار ہے، اس کا اندازہ وہی خاتون کرسکتی ہے جو اس کرب سے گزر رہی ہے، یا وہ لوگ جن کی کوئی قریبی عزیزہ اس دُکھ کو جھیل رہی ہے کہ کس طرح جب ایک جیون ساتھی داغ مفارقت دے جائے تو دوسرا معاشرے کے رحم و کرم پر رہ جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کو عزت و احترام اور جینے کا مناسب حق دینے کے بہ جائے انہیں کہیں منحوس خیال کرتے ہوئے در بہ در کردیا جاتا ہے تو کہیں انہیں مورد الزام ٹھہرا کر ان کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے۔ خواتین یا نوجوان لڑکیوں کی طلاق و خلع ظاہر ہے کہ انتہائی ناگزیر صورت حال میں ہی واقع ہوتی ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ ایسا کیوں ہوا اور کس کا قصور تھا، عام طور پر انہیں مختلف نوعیت کے منفی اور روایتی رویّوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں ایک طرف گھر بسانے کی اہلیت نہ ہونے کے طعنے ہوتے ہیں، اور دوسری طرف ترس بھری نظریں اور سب سے زیادہ تکلیف دہ ذاتی معاملات سے متعلق پرتجسس سوالات جو ان خواتین کی زندگی کی مشکلات کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
اور پھر ایسی خواتین سے ہم دردی کے نام پر جنسی درندے ان کی عزت نفس تک کو مجروح کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اس طرح انہیں ذہنی مریض بناکر رکھ دیا جاتاہے۔ نور اسلام سے پہلے مظلومی اور محکومی عورت کا مقدر رہی ہے، وہ اذیت اور ذلت کا بوجھ اٹھائے تاریک جنگلوں میں بھٹکتی رہی ہے۔
کہیں صنفی امتیاز کے سبب عورت کو زندہ دفن کیا گیا تو کہیں شوہر کی وفات پر ستّی کے لیے مجبور کیا گیا، اس طرح بہ حیثیت انسان اسے اس کے جائز مقام اور حقوق سے ہمیشہ محروم رکھا گیا۔ لیکن جب اسلام کا مہرِ تاباں طلوع ہوا تو اس کی بے نُور زندگی عفو و کرم، رحمت و مودت، حسن سلوک سے منور ہوگئی۔ بلاشبہ اسلام دین فطرت ہے جو کہ عورت کو بہ حیثیت انسان تمام فطری اور جائز حقوق عطا کرتا ہے۔
خاتم النبیین رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بعد خواتین نے ایک نئی تاریخ رقم کی جس کی مثال پہلے کبھی موجود نہ تھی، خود رسول کریم ﷺ کی مکمل زندگی شان دار اور امت کے لیے بہترین اسوہ ہے۔ آپ ﷺ نے جہاں خواتین کو معاشرے میں باعزت زندگی اور اعلیٰ مقام عطا کیا، خواتین کو منحوس، کم تر اور اس جیسے ہر قسم کے بے بنیاد الزامات و اتہامات سے بَری قرار دیا اور طنز و تشنیع کا نشانہ بننے سے ان کا تحفظ کیا۔ جو مختلف معاشروں، طبقات اور اقوام میں ان کی تحقیر و تذلیل، رسوائی اور حقوق سے محرومی کا سبب بن رہے تھے یا آج تک بنتے چلے آرہے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کے ہدایت یافتہ معاشرے میں کسی بیوہ کو مرد کے سہارے کے بغیر تنہا چھوڑ دینا ناپسندیدہ تھا، آپ ﷺ نے بیوگی اور طلاق کی صورت میں بے بسی و بے کسی کی زندگی گزارنے کے مسائل سے بھی ان کی حفاظت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ اور مسکین کی خبرگیری کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
بیوہ اور مسکین کی خبرگیری کرنے والا ایسے تہجد گزار کی طرح ہے جو سست نہیں ہوتا اور ایسے روزے دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا۔ رسول کریم ﷺ نے اس امر کی تاکید فرمائی اور عملی نمونہ پیش کیا کہ کوئی عورت بیوہ ہو جائے کہ اس کا شوہر انتقال کر جائے اور اپنے پیچھے یتیم بچے چھوڑ جائے یا کوئی مرد طلاق دیدے تو ایسی عورتوں کی دل جوئی کریں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں، ان سے نکاح کرلیں اور ان کے بچوں کی پرورش کریں۔ خود رسول کریمؐ نے کئی مطلقہ اور بیوہ خواتین سے نکاح کیے اور ان خواتین کا سہارا بننے کے ساتھ دین اسلام کی تبلیغ و دعوت کے کاموں میں مدد لی۔ رسول کریم ﷺ کی بیویوں میں صرف ایک حضرت عائشہؓ کے علاوہ سب مطلقہ اور بیوہ تھیں اور ان تمام نکاحوں کی بنیاد اسلام کا فروغ، بہترین ملکی و ملی مصالح اور مسلمانوں کے لیے مقاصد حسنہ پر تھی۔
قرآن کریم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم: ''اے لوگو! جو عورتیں تمہیں اچھی لگیں دو۔ دو، تین۔ تین، چار۔ چار سے نکاح کر لو اور اگر یہ خطرہ ہو کہ عورتوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام نہ لے سکو گے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرو۔'' (سورۃ النساء)
ایک نکاح کا حکم صرف ایسے مردوں کے لیے ہے جو عدل و انصاف نہ کرسکتے ہوں۔ جب ایک جیون ساتھی داغ مفارقت دے جائے تو دوسرا معاشرے کے رحم و کرم پر رہ جاتا ہے، جانے والے کی کمی تو سارا زمانہ مل کر بھی پوری نہیں کرسکتا لیکن کم از کم حقوق و فرائض کی ادائی میں تو تعاون کرنا انسانیت کے اعلیٰ ترین تقاضوں میں سے ایک ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے اور بیوہ و مطلقہ خواتین کا سہارا، اور خوشیوں کے لیے ان کا ساتھی بننا چاہیے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کو عزت و احترام اور جینے کا مناسب حق دینے کے بہ جائے انہیں کہیں منحوس خیال کرتے ہوئے در بہ در کردیا جاتا ہے تو کہیں انہیں مورد الزام ٹھہرا کر ان کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے۔ خواتین یا نوجوان لڑکیوں کی طلاق و خلع ظاہر ہے کہ انتہائی ناگزیر صورت حال میں ہی واقع ہوتی ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ ایسا کیوں ہوا اور کس کا قصور تھا، عام طور پر انہیں مختلف نوعیت کے منفی اور روایتی رویّوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں ایک طرف گھر بسانے کی اہلیت نہ ہونے کے طعنے ہوتے ہیں، اور دوسری طرف ترس بھری نظریں اور سب سے زیادہ تکلیف دہ ذاتی معاملات سے متعلق پرتجسس سوالات جو ان خواتین کی زندگی کی مشکلات کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
اور پھر ایسی خواتین سے ہم دردی کے نام پر جنسی درندے ان کی عزت نفس تک کو مجروح کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اس طرح انہیں ذہنی مریض بناکر رکھ دیا جاتاہے۔ نور اسلام سے پہلے مظلومی اور محکومی عورت کا مقدر رہی ہے، وہ اذیت اور ذلت کا بوجھ اٹھائے تاریک جنگلوں میں بھٹکتی رہی ہے۔
کہیں صنفی امتیاز کے سبب عورت کو زندہ دفن کیا گیا تو کہیں شوہر کی وفات پر ستّی کے لیے مجبور کیا گیا، اس طرح بہ حیثیت انسان اسے اس کے جائز مقام اور حقوق سے ہمیشہ محروم رکھا گیا۔ لیکن جب اسلام کا مہرِ تاباں طلوع ہوا تو اس کی بے نُور زندگی عفو و کرم، رحمت و مودت، حسن سلوک سے منور ہوگئی۔ بلاشبہ اسلام دین فطرت ہے جو کہ عورت کو بہ حیثیت انسان تمام فطری اور جائز حقوق عطا کرتا ہے۔
خاتم النبیین رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بعد خواتین نے ایک نئی تاریخ رقم کی جس کی مثال پہلے کبھی موجود نہ تھی، خود رسول کریم ﷺ کی مکمل زندگی شان دار اور امت کے لیے بہترین اسوہ ہے۔ آپ ﷺ نے جہاں خواتین کو معاشرے میں باعزت زندگی اور اعلیٰ مقام عطا کیا، خواتین کو منحوس، کم تر اور اس جیسے ہر قسم کے بے بنیاد الزامات و اتہامات سے بَری قرار دیا اور طنز و تشنیع کا نشانہ بننے سے ان کا تحفظ کیا۔ جو مختلف معاشروں، طبقات اور اقوام میں ان کی تحقیر و تذلیل، رسوائی اور حقوق سے محرومی کا سبب بن رہے تھے یا آج تک بنتے چلے آرہے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کے ہدایت یافتہ معاشرے میں کسی بیوہ کو مرد کے سہارے کے بغیر تنہا چھوڑ دینا ناپسندیدہ تھا، آپ ﷺ نے بیوگی اور طلاق کی صورت میں بے بسی و بے کسی کی زندگی گزارنے کے مسائل سے بھی ان کی حفاظت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ اور مسکین کی خبرگیری کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
بیوہ اور مسکین کی خبرگیری کرنے والا ایسے تہجد گزار کی طرح ہے جو سست نہیں ہوتا اور ایسے روزے دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا۔ رسول کریم ﷺ نے اس امر کی تاکید فرمائی اور عملی نمونہ پیش کیا کہ کوئی عورت بیوہ ہو جائے کہ اس کا شوہر انتقال کر جائے اور اپنے پیچھے یتیم بچے چھوڑ جائے یا کوئی مرد طلاق دیدے تو ایسی عورتوں کی دل جوئی کریں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں، ان سے نکاح کرلیں اور ان کے بچوں کی پرورش کریں۔ خود رسول کریمؐ نے کئی مطلقہ اور بیوہ خواتین سے نکاح کیے اور ان خواتین کا سہارا بننے کے ساتھ دین اسلام کی تبلیغ و دعوت کے کاموں میں مدد لی۔ رسول کریم ﷺ کی بیویوں میں صرف ایک حضرت عائشہؓ کے علاوہ سب مطلقہ اور بیوہ تھیں اور ان تمام نکاحوں کی بنیاد اسلام کا فروغ، بہترین ملکی و ملی مصالح اور مسلمانوں کے لیے مقاصد حسنہ پر تھی۔
قرآن کریم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم: ''اے لوگو! جو عورتیں تمہیں اچھی لگیں دو۔ دو، تین۔ تین، چار۔ چار سے نکاح کر لو اور اگر یہ خطرہ ہو کہ عورتوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام نہ لے سکو گے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرو۔'' (سورۃ النساء)
ایک نکاح کا حکم صرف ایسے مردوں کے لیے ہے جو عدل و انصاف نہ کرسکتے ہوں۔ جب ایک جیون ساتھی داغ مفارقت دے جائے تو دوسرا معاشرے کے رحم و کرم پر رہ جاتا ہے، جانے والے کی کمی تو سارا زمانہ مل کر بھی پوری نہیں کرسکتا لیکن کم از کم حقوق و فرائض کی ادائی میں تو تعاون کرنا انسانیت کے اعلیٰ ترین تقاضوں میں سے ایک ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے اور بیوہ و مطلقہ خواتین کا سہارا، اور خوشیوں کے لیے ان کا ساتھی بننا چاہیے۔