فضیلت و آدابِ تلاوت قرآن حکیم
رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔‘‘
خالقِ کائنات اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، اس نے صرف انسانوں کی تخلیق ہی نہیں کی بل کہ ان کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے الہامی کتب اور صحیفے اپنے برگزیدہ بندوں پر بھیجے تاکہ انسان ان پرعمل کرکے کام یاب زندگی گزار سکیں۔
قرآنِ مجید آخری الہامی کتاب ہے جو خاتم المرسلین ﷺ پر نازل ہوئی۔ یہ دائمی سرچشمۂ ہدایت، مینار نور اور منبع علوم ہے۔ یہی وہ صحیفۂ ہدایت ہے جو انسانوں کی مادّی، روحانی، فکری، تہذیبی، تمدنی، معاشی، سیاسی، انفرادی اور اجتماعی معاملات میں راہ نمائی کا اصل ماخذ ہے۔ رمضان المبارک کی ایک مبارک رات میں قرآنِ مجید کو لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل کیا گیا۔
''بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا۔'' ''ہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں اتارا۔'' ''رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا۔ جس کا ایک وصف یہ ہے کہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔''
سیّدالمرسلین رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔'' یعنی اس شخص کو افضل قرار دیا جو قرآنِ پاک کو درست تلفظ کے ساتھ سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ جس گھر میں قرآنِ پاک کی تلاوت کی جاتی ہے وہاں اﷲ کی رحمت و سکینت نازل ہوتی ہے اور جس گھر میں قرآنِ کی تلاوت نہیں کی جاتی وہ اجاڑ گھر کی مانند ہے۔ تلاوتِ قرآن کی ایسی کشش ہے کہ اگر درست مخارج اور رموز و اوقاف کی پابندی کرتے ہوئے بلند اور اچھی آواز میں تلاوت کی جائے تو فرشتے اس کی سماع کے لیے بالکل قریب آجاتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کردہ رسول کریم ﷺ کے فرمان کا مفہوم: ''جب بھی کچھ لوگ اﷲ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکھٹے ہوتے اور کتاب الہی کی تلاوت کرتے ہیں۔ آپس میں درس و تدریس کا اہتمام کرتے ہیں تو انہیں اﷲ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے۔ فرشتے چاروں طرف سے گھیرلیتے ہیں اور ان کا تذکرہ اﷲ اپنے پاس فرشتوں میں فرماتا ہے۔''
تلاوتِ قرآن نماز کا جزو اعظم ہے۔ تلاوتِ قرآن مجید کی فضیلت و ترغیب حفاظتِ قرآن میں بڑی حد تک ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔ قرآنِ پاک کے سوا کائنات ارض کی کسی کتاب کو زبانی یاد نہیں کیا جاتا، یہ صرف قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ یہ دنیا میں لاکھوں مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔ تلاوتِ قرآن کی فضیلت و اہمیت واضح ہونے کے بعد ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ اس مقدس اور بابرکت کتاب کو پڑھنے کے چند مخصوص آداب ہیں جن کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ انہیں مختصراً بیان کیا جاتا ہے۔
٭پاکیزگی: اس کتاب کو ہاتھ لگانے سے پہلے پاک و صاف ہونا ضروری ہے۔ اﷲ کا فرمان ہے: ''اسے سوائے پاک لوگوں کے اور کوئی نہ چھوئے۔'' تلاوت کے وقت جگہ بھی پاک و صاف ہونی چاہیے۔
٭تعوذ اور تسمیہ: تلاوت کرنے سے پہلے اعوذباﷲمن الشیطان الرجیم اور بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم پڑھ لینا چاہیے۔ سورہ النحل میں ارشاد ربانی ہے: ''پس جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اﷲ کی پناہ مانگ لیا کرو۔''
٭تلاوتِ قرآن کریم کے دوران کسی سے گفت گو کرنا مناسب نہیں البتہ کسی خاص ضرورت کے تحت بات کی جاسکتی ہے لیکن دوبارہ تعوذ اور بسم اﷲ پڑھ کر دوبارہ تلاوت شروع کرنی چاہیے۔
٭ترتیل: قرآن مجید کو اطمینان اور آرام کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے اس طرح کہ ایک ایک حرف صحیح طریقے سے ادا ہوجائے۔ حکم خداوندی ہے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے۔
٭احتیاط: قرآن کریم کو زیر زبر پیش یعنی اعراب کے مطابق پڑھیں، کیوں کہ بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں حرکات کی تبدیلی سے معنی اس قدر تبدیل ہوجاتے ہیں کہ نوبت کفر و شرک تک جا پہنچتی ہے۔
٭رموز و اوقاف: اعراب کی احتیاط کے علاوہ قرآن میں ایک ضروری امر یہ بھی ہے کہ کہاں رکنا ضروری ہے اور کہاں نہ رکا جائے۔ کس مقام پر سانس توڑے بغیر تلاوت جاری رکھی جائے اور کس مقام پر سانس توڑ دینی ضروری ہے۔ تلاوتِ قرآن کے لیے ان رموز و اوقاف کو سمجھنا اور ان کی پابندی کرنا ضروری ہے ورنہ معنی بدل جانے کا احتمال ہوتا ہے۔
٭جہرواخفا: یہ تلاوت کرنے والے کی مرضی پر منحصر ہے کہ تلاوت باآواز بلند کرے یا دھیمی آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کرے لیکن جب قران پاک بلند آواز میں پڑھا جائے تو دوسرے لوگوں پر اس کا سننا اور خاموش رہنا ضروری ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہی آیا ہے اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش ہوجاؤ تاکہ تم پر بھی رحمت ہو۔'' (الاعراف)
اگر قریب میں کوئی شخص ایسے کام میں مصروف ہے کہ وہ چھوڑ کر قرآن کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا تو پھر بہتر ہے کہ اتنی دھیمی آواز میں تلاوت کی جائے کہ خود آپ کے کانوں میں آواز جائے۔
٭ خوش الحانی: تلاوتِ قرآن کو درست مخارج اور تجوید کے تمام اصولوں کو مدِنظر رکھ کر قرأت کی جائے تو خوش الحانی پیدا ہوجاتی ہے اور سننے والوں کو دل کش لطف و سرور اور سکون ملتا ہے۔
٭مقدار تلاوت: تلاوت تھوڑی ہی سہی مگر باقاعدگی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ سورۃ المزمل میں خود اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''جس قدر آسانی کے ساتھ پڑھا جاسکے پڑھو۔''
٭غور و فکر اور تدبّر: ان ظاہری آداب کے علاوہ قرآنِ مجید کا حقیقی فائدہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس کے معنی و مطالب پر غور کیا جائے۔ بصیرت حاصل کی جائے۔ قرآن علم و دانش کی کتاب ہے اس کا موضوع انسان ہے۔ متعدد مقامات پر قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے خود غور و غوض اور تدّبر کی دعوت دی ہے۔ ہم میں سے ہر مسلمان کے اندر وہ صلاحیتیں نہیں ہوتی کہ وہ قرآن میں غور و غوض کرے، معنی و مطالب کو سمجھے بل کہ ہمیں کسی ماہرِ قرآن کی خدمات حاصل کرنی پڑے گی۔ حضور ﷺ نے ماہرینِ قرآن کی فضیلت بیان فرمائی ہے: ''قرآنِ مجید میں مہارت رکھنے والا صاحبِ عزت نیک لکھنے والوں کے ساتھ ہے۔''
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دنیا و آخرت میں کام یاب ہونے کے لیے اپنی زندگی کو قرآنی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ دوسروں کو بھی قرآن کا پیغام پہنچانے اور عمل کرنے کی ترغیب دیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس کوشش میں کام یابی دے۔ آمین
قرآنِ مجید آخری الہامی کتاب ہے جو خاتم المرسلین ﷺ پر نازل ہوئی۔ یہ دائمی سرچشمۂ ہدایت، مینار نور اور منبع علوم ہے۔ یہی وہ صحیفۂ ہدایت ہے جو انسانوں کی مادّی، روحانی، فکری، تہذیبی، تمدنی، معاشی، سیاسی، انفرادی اور اجتماعی معاملات میں راہ نمائی کا اصل ماخذ ہے۔ رمضان المبارک کی ایک مبارک رات میں قرآنِ مجید کو لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل کیا گیا۔
''بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا۔'' ''ہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں اتارا۔'' ''رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا۔ جس کا ایک وصف یہ ہے کہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔''
سیّدالمرسلین رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔'' یعنی اس شخص کو افضل قرار دیا جو قرآنِ پاک کو درست تلفظ کے ساتھ سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ جس گھر میں قرآنِ پاک کی تلاوت کی جاتی ہے وہاں اﷲ کی رحمت و سکینت نازل ہوتی ہے اور جس گھر میں قرآنِ کی تلاوت نہیں کی جاتی وہ اجاڑ گھر کی مانند ہے۔ تلاوتِ قرآن کی ایسی کشش ہے کہ اگر درست مخارج اور رموز و اوقاف کی پابندی کرتے ہوئے بلند اور اچھی آواز میں تلاوت کی جائے تو فرشتے اس کی سماع کے لیے بالکل قریب آجاتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کردہ رسول کریم ﷺ کے فرمان کا مفہوم: ''جب بھی کچھ لوگ اﷲ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکھٹے ہوتے اور کتاب الہی کی تلاوت کرتے ہیں۔ آپس میں درس و تدریس کا اہتمام کرتے ہیں تو انہیں اﷲ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے۔ فرشتے چاروں طرف سے گھیرلیتے ہیں اور ان کا تذکرہ اﷲ اپنے پاس فرشتوں میں فرماتا ہے۔''
تلاوتِ قرآن نماز کا جزو اعظم ہے۔ تلاوتِ قرآن مجید کی فضیلت و ترغیب حفاظتِ قرآن میں بڑی حد تک ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔ قرآنِ پاک کے سوا کائنات ارض کی کسی کتاب کو زبانی یاد نہیں کیا جاتا، یہ صرف قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ یہ دنیا میں لاکھوں مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔ تلاوتِ قرآن کی فضیلت و اہمیت واضح ہونے کے بعد ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ اس مقدس اور بابرکت کتاب کو پڑھنے کے چند مخصوص آداب ہیں جن کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ انہیں مختصراً بیان کیا جاتا ہے۔
٭پاکیزگی: اس کتاب کو ہاتھ لگانے سے پہلے پاک و صاف ہونا ضروری ہے۔ اﷲ کا فرمان ہے: ''اسے سوائے پاک لوگوں کے اور کوئی نہ چھوئے۔'' تلاوت کے وقت جگہ بھی پاک و صاف ہونی چاہیے۔
٭تعوذ اور تسمیہ: تلاوت کرنے سے پہلے اعوذباﷲمن الشیطان الرجیم اور بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم پڑھ لینا چاہیے۔ سورہ النحل میں ارشاد ربانی ہے: ''پس جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اﷲ کی پناہ مانگ لیا کرو۔''
٭تلاوتِ قرآن کریم کے دوران کسی سے گفت گو کرنا مناسب نہیں البتہ کسی خاص ضرورت کے تحت بات کی جاسکتی ہے لیکن دوبارہ تعوذ اور بسم اﷲ پڑھ کر دوبارہ تلاوت شروع کرنی چاہیے۔
٭ترتیل: قرآن مجید کو اطمینان اور آرام کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے اس طرح کہ ایک ایک حرف صحیح طریقے سے ادا ہوجائے۔ حکم خداوندی ہے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے۔
٭احتیاط: قرآن کریم کو زیر زبر پیش یعنی اعراب کے مطابق پڑھیں، کیوں کہ بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں حرکات کی تبدیلی سے معنی اس قدر تبدیل ہوجاتے ہیں کہ نوبت کفر و شرک تک جا پہنچتی ہے۔
٭رموز و اوقاف: اعراب کی احتیاط کے علاوہ قرآن میں ایک ضروری امر یہ بھی ہے کہ کہاں رکنا ضروری ہے اور کہاں نہ رکا جائے۔ کس مقام پر سانس توڑے بغیر تلاوت جاری رکھی جائے اور کس مقام پر سانس توڑ دینی ضروری ہے۔ تلاوتِ قرآن کے لیے ان رموز و اوقاف کو سمجھنا اور ان کی پابندی کرنا ضروری ہے ورنہ معنی بدل جانے کا احتمال ہوتا ہے۔
٭جہرواخفا: یہ تلاوت کرنے والے کی مرضی پر منحصر ہے کہ تلاوت باآواز بلند کرے یا دھیمی آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کرے لیکن جب قران پاک بلند آواز میں پڑھا جائے تو دوسرے لوگوں پر اس کا سننا اور خاموش رہنا ضروری ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہی آیا ہے اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش ہوجاؤ تاکہ تم پر بھی رحمت ہو۔'' (الاعراف)
اگر قریب میں کوئی شخص ایسے کام میں مصروف ہے کہ وہ چھوڑ کر قرآن کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا تو پھر بہتر ہے کہ اتنی دھیمی آواز میں تلاوت کی جائے کہ خود آپ کے کانوں میں آواز جائے۔
٭ خوش الحانی: تلاوتِ قرآن کو درست مخارج اور تجوید کے تمام اصولوں کو مدِنظر رکھ کر قرأت کی جائے تو خوش الحانی پیدا ہوجاتی ہے اور سننے والوں کو دل کش لطف و سرور اور سکون ملتا ہے۔
٭مقدار تلاوت: تلاوت تھوڑی ہی سہی مگر باقاعدگی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ سورۃ المزمل میں خود اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''جس قدر آسانی کے ساتھ پڑھا جاسکے پڑھو۔''
٭غور و فکر اور تدبّر: ان ظاہری آداب کے علاوہ قرآنِ مجید کا حقیقی فائدہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس کے معنی و مطالب پر غور کیا جائے۔ بصیرت حاصل کی جائے۔ قرآن علم و دانش کی کتاب ہے اس کا موضوع انسان ہے۔ متعدد مقامات پر قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے خود غور و غوض اور تدّبر کی دعوت دی ہے۔ ہم میں سے ہر مسلمان کے اندر وہ صلاحیتیں نہیں ہوتی کہ وہ قرآن میں غور و غوض کرے، معنی و مطالب کو سمجھے بل کہ ہمیں کسی ماہرِ قرآن کی خدمات حاصل کرنی پڑے گی۔ حضور ﷺ نے ماہرینِ قرآن کی فضیلت بیان فرمائی ہے: ''قرآنِ مجید میں مہارت رکھنے والا صاحبِ عزت نیک لکھنے والوں کے ساتھ ہے۔''
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دنیا و آخرت میں کام یاب ہونے کے لیے اپنی زندگی کو قرآنی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ دوسروں کو بھی قرآن کا پیغام پہنچانے اور عمل کرنے کی ترغیب دیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس کوشش میں کام یابی دے۔ آمین