اقبال علوی جدوجہدکا ورثہ چھوڑ گئے
اقبال علوی اور ان کے ساتھیوں نے پاک سوویت یونین کلچرل ایسوسی ایشن بنائی۔
40ء کی دہائی کے آخری عشرہ میں ہندوستان میں انگریزی سامراج کے خلاف مزاحمتی تحریکیں فعال ہوئیں۔ ان میں سے کئی تحریکوں میں عظیم فلسفی کارل مارکس کے فلسفہ سے متاثر ہونے والے نوجوان اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
حیدرآباد دکن میں معروف شاعر مخدوم محی الدین تلنگانہ ،کسانوں کو استحصال سے خاتمے کی جدوجہد کے اہم رہنماؤں میں شامل تھے، آپ محض ایک کمیونسٹ وادی نہیں بلکہ اردو کے خوبصورت شاعر بھی تھے۔ اقبال علوی حیدرآباد کے علاقہ اورنگ آباد میں پیدا ہوئے، ان کے خاندان کا شمارکاکوری کے تعلیم یافتہ خاندانوں میں ہوتا تھا۔ اس خاندان کے نوجوانوں نے انگریزی تعلیم کو ترقی کا راستہ سمجھا تھا، یہ خاندان حیدرآباد منتقل ہوا۔ اقبال علوی ابھی ماں کی گود میں تھے کہ ان کے والد انتقال کرگئے۔
اقبال علوی کی والدہ ایک خود دار خاتون تھیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی پرورش اور زندگی کے مصارف کے لیے والد اور بھائیوں کی مدد نہیں لی اور خود گھر پر سلائی کرکے زندگی گزارنے لگیں۔ اقبال علوی جب سیکنڈری اسکول میں تھے تو تلنگانہ تحریک جو دیہاتوں میں چل رہی تھی کے اثرات شہروں میں نظر آنے لگے۔
اقبال علوی نے بھی اس تحریک کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت کی۔ اس زمانہ میں مخدوم محی الدین ایک دیو مالائی کردار کے طور پر سامنے آئے، وہ مسلسل زیر زمین رہ کر کمیونسٹ پارٹی کو منظم کرتے اور پھرکسی جلسے جلوس میں اچانک نمودار ہوتے، تقریر کرتے، نظم پڑھتے، پولیس اہلکار مخدوم محی الدین کو گرفتار کرنے کی کوشش کرتے۔ ہجوم رکاوٹ بن جاتا اور مخدوم محی الدین لاپتہ ہوجاتے۔
اقبال علوی مخدوم محی الدین کی جدوجہد سے متاثر ہونے لگے۔ علوی صاحب کا کہنا تھا کہ ان کی ایک دو دفعہ مخدوم سے سرسری سی ملاقات ہوئی۔ جب اقبال علوی نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو انڈیپنڈنٹ ایکٹ نافذ ہوچلا تھا۔ ہندوستان کے بٹوارے کا فیصلہ ہوگیا تھا۔ ریاست حیدرآباد کا شمار ہندوستان کی امیر ریاستوں میں ہوتا تھا، اس ریاست میں مسلمان اقلیت میں تھے۔
ہندوؤں کی آبادی زیادہ تھی۔ حیدرآباد دکن کے حکمراں خاندان نے مسلم لیگ کی بڑی مالیاتی مدد کی تھی ، یوں مسلم لیگی رہنماؤں نے عوام میں یہ تاثر دینا شروع کیا کہ حیدرآباد دکن ہزاروں میل دور قائم ہونے والے نئے ملک کا حصہ ہوگا۔ حیدرآباد کے وزیر اعظم قاسم رضوی نے اس مفروضہ کو خوب تقویت دی ، یوں حیدرآباد دکن نے آزاد ریاست کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ حیدرآباد دکن کی اپنی فوج بہت چھوٹی سی تھی، ہتھیار بھی نہ ہونے کے برابر تھے ، پولیس کی صورتحال بھی ناگفتہ بہ تھی۔
جب بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھارت میں تمام ریاستوں کے خاتمے کا فیصلہ کیا تو حیدرآباد دکن کو بھارت میں شامل ہونے کا الٹی میٹم دیا گیا۔ قاسم رضوی نے نوجوانوں کی رضاکار فورس بنائی۔ اقبال علوی اس فورس میں شامل تھے۔ انھیں لکڑی کی بندوقیں تھما دی گئیں اور کئی دن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر نہ آنے والے دشمن پرگولیاں چلانے کی مشق کرتے رہے مگر ان کے ایک عزیز نے اقبال علوی کو دیکھ لیا اور والدہ نے انھیں واپس بلالیا۔
حکام دکن نے بھارت سے مصالحت کرلی اور جب ہندوستان کی فوج اورنگ آباد میں داخل ہونے والی تھی تو اقبال علوی کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ ایک گاڑی میں لاؤڈ اسپیکر پر گلی گلی اعلان کریں کہ کوئی شخص انتہاپسندی کا مظاہرہ نہ کرے اور قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔
اقبال علوی نے اکیلے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ اقبال علوی کے ماموں نقی علی علوی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے، انھوں نے ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی۔ وہ مولانا مودودی کے افکار سے متاثر تھے اور اپنی 800 روپے کی ملازمت چھوڑ کر مولانا مودودی کے قائم کردہ مرکز دارالسلام پٹھان کوٹ چلے گئے۔
پاکستان بننے کے بعد جماعت اسلامی کے پہلے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے اور لاہور میں مقیم ہوئے۔ اقبال علوی پہلے لکھنوگئے اور وہاں سے لاہور اپنے ماموں کے پاس آگئے۔ نقی علی علوی کی خواہش تھی کہ بھانجا ان کی پیروی کرے مگر اقبال علوی ماموں کے ساتھ کام کرنے پر تیار نہ ہوئے اور کراچی جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اقبال علوی کراچی میں کمیونسٹ پارٹی کے باقاعدہ ہمدرد بن گئے۔ اس وقت رتن تلاؤ میں کمیونسٹ پارٹی کا دفتر تھا۔ اقبال علوی کمیونسٹ پارٹی کے دفتر باقاعدہ سے جانے لگے۔ اسی دفتر میں ان کی ملاقات حسن ناصر سے ہوئی۔
اقبال علوی کو اورینٹ ایئر ویز میں ملازمت مل گئی۔ اورینٹ ایئر ویز بعد میں پی آئی اے بن گئی۔ اقبال علوی اورینٹ ایئرویز میں مزدور تنظیم کے بانیوں میں سے تھے ، انھوں نے پھر پی آئی اے میں طفیل عباس اور آفریدی وغیرہ کے ساتھ مل کر ایئرویز ایمپلائز یونین کو منظم کرنے میں اہم کردار اد ا کیا۔
اقبال علوی اور ان کے ساتھیوں نے پاک سوویت یونین کلچرل ایسوسی ایشن بنائی۔ معروف قوم پرست رہنما جی ایم سید اس کے پہلے صدر اور اقبال علوی پہلے سیکریٹری تھے۔ علوی بتاتے تھے کہ اس دوران ان کی والدہ بھی کراچی آگئیں۔ انھوں نے لالوکھیت کے قریب ایک مکان کرائے پر لے لیا۔ کمیونسٹ پارٹی کی خفیہ میٹنگ ان کے گھر پر ہوتی تھی۔ حسن ناصر ان میٹنگوں میں شرکت کرتے مگر اقبال علوی کیونکہ مکمل رکن کے درجہ پر فائز نہیں ہوئے تھے ، اس بناء پر انھیں میٹنگوں میں شرکت کی اجازت نہیں تھی ۔
50ء کی دہائی کے آغاز پر پاکستان امریکا کا اتحادی بن گیا اور سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کا حصہ ہوا۔ کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں ، مزدور رہنماؤں، ادیبوں، صحافیوں اور طالب علموں کے خلاف آپریشن شروع ہوا۔ اقبال علوی بار بارگرفتار ہونے لگے ، وہ ڈی ایس ایف کے رہنماؤں، مزدوروں اور کارکنوں کے ساتھ نظربند رہے۔
گرفتار ہونے والوں میں منہاج برنا اور حسن ناصر بھی شامل تھے۔ بی بی سی سے ریٹائر ہونے والے معروف صحافی آصف جیلانی اس زمانہ میں کراچی میں روزنامہ امروز میں رپورٹر تھے، وہ خبروں کے حصول کے لیے روزانہ جیل جاتے تھے۔ انھوں نے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ اقبال علوی کی والدہ سے ملاقات ہوئی، یوں اقبال علوی کی مسلسل اسیری کی داستان امروز میں شایع ہوئی۔
مظہر علی خان کی زیر ادارت لاہور سے شایع ہونے والے انگریزی کے اخبار پاکستان ٹائمز میں اقبال علوی کی مسلسل گرفتاری پر ادارتی نوٹ شایع ہوا، یوں یہ انسانی حقوق کی پامالی کی مثال بن گیا۔ ایوب خان کے دور تک اقبال علوی کا جیل جانا معمول تھا۔ انھوں نے ایئرویز ایمپلائز یونین کے صدر طفیل عباس سے اصولی اختلاف کی بناء پر یونین سے علیحدگی کی۔ پی آئی اے کے آفیسرزکی بہبود کی یونین کو متحرک کرنے میں اہم کردار اد اکیا۔
اقبال علوی گزشتہ تیس برسوں سے ترقی پسند نظریات کی ترویج کرنے والے اداروں کے لیے وقف تھے، وہ ارتقاء سیکیولر فورم اور تاریخ فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے بانیوں میں تھے اور اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ان اداروں کو فعال کرنے میں خرچ کرتے تھے۔ اسی طرح وہ روٹری کلب میں فعال ہوکر سماجی خدمت انجام دیتے تھے۔
علوی صاحب کی اہلیہ معروف گائناکالوجسٹ تھیں، ان کے بچے امریکا چلے گئے تھے۔ اہلیہ کے انتقال کے بعد وہ کراچی میں تنہا تھے۔ ان کے بیٹے اور دو بیٹیوں کی خواہش تھی کہ وہ امریکا منتقل ہوجائیں ، بچوں کے اصرار پر وہ امریکا جاتے مگر جلد واپس آجاتے۔ علوی صاحب کہتے تھے کہ وہ آخری وقت تک متحرک رہنا چاہتے ہیں۔ اس بناء پر وہ پاکستان میں رہنا چاہتے تھے۔
علوی صاحب نے کینسر کے مرض کو شکست دی تھی وہ 89سال کی عمر میں ذہنی اور جسمانی طور پر فعال تھے اور موت کے چند دن قبل انجمن ترقی پسند مصنفین کے سید سبط حسن کے بارے میں ہونے والے سیمینار میں شرکت کے لیے کراچی کے ٹریفک میں کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے کلفٹن سے ناظم آباد پہنچے تھے۔ اقبال علوی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے، وہ نوجوانوں کے لیے جدوجہد کا راستہ ورثہ کے طور پر چھوڑ گئے۔
حیدرآباد دکن میں معروف شاعر مخدوم محی الدین تلنگانہ ،کسانوں کو استحصال سے خاتمے کی جدوجہد کے اہم رہنماؤں میں شامل تھے، آپ محض ایک کمیونسٹ وادی نہیں بلکہ اردو کے خوبصورت شاعر بھی تھے۔ اقبال علوی حیدرآباد کے علاقہ اورنگ آباد میں پیدا ہوئے، ان کے خاندان کا شمارکاکوری کے تعلیم یافتہ خاندانوں میں ہوتا تھا۔ اس خاندان کے نوجوانوں نے انگریزی تعلیم کو ترقی کا راستہ سمجھا تھا، یہ خاندان حیدرآباد منتقل ہوا۔ اقبال علوی ابھی ماں کی گود میں تھے کہ ان کے والد انتقال کرگئے۔
اقبال علوی کی والدہ ایک خود دار خاتون تھیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی پرورش اور زندگی کے مصارف کے لیے والد اور بھائیوں کی مدد نہیں لی اور خود گھر پر سلائی کرکے زندگی گزارنے لگیں۔ اقبال علوی جب سیکنڈری اسکول میں تھے تو تلنگانہ تحریک جو دیہاتوں میں چل رہی تھی کے اثرات شہروں میں نظر آنے لگے۔
اقبال علوی نے بھی اس تحریک کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت کی۔ اس زمانہ میں مخدوم محی الدین ایک دیو مالائی کردار کے طور پر سامنے آئے، وہ مسلسل زیر زمین رہ کر کمیونسٹ پارٹی کو منظم کرتے اور پھرکسی جلسے جلوس میں اچانک نمودار ہوتے، تقریر کرتے، نظم پڑھتے، پولیس اہلکار مخدوم محی الدین کو گرفتار کرنے کی کوشش کرتے۔ ہجوم رکاوٹ بن جاتا اور مخدوم محی الدین لاپتہ ہوجاتے۔
اقبال علوی مخدوم محی الدین کی جدوجہد سے متاثر ہونے لگے۔ علوی صاحب کا کہنا تھا کہ ان کی ایک دو دفعہ مخدوم سے سرسری سی ملاقات ہوئی۔ جب اقبال علوی نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو انڈیپنڈنٹ ایکٹ نافذ ہوچلا تھا۔ ہندوستان کے بٹوارے کا فیصلہ ہوگیا تھا۔ ریاست حیدرآباد کا شمار ہندوستان کی امیر ریاستوں میں ہوتا تھا، اس ریاست میں مسلمان اقلیت میں تھے۔
ہندوؤں کی آبادی زیادہ تھی۔ حیدرآباد دکن کے حکمراں خاندان نے مسلم لیگ کی بڑی مالیاتی مدد کی تھی ، یوں مسلم لیگی رہنماؤں نے عوام میں یہ تاثر دینا شروع کیا کہ حیدرآباد دکن ہزاروں میل دور قائم ہونے والے نئے ملک کا حصہ ہوگا۔ حیدرآباد کے وزیر اعظم قاسم رضوی نے اس مفروضہ کو خوب تقویت دی ، یوں حیدرآباد دکن نے آزاد ریاست کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ حیدرآباد دکن کی اپنی فوج بہت چھوٹی سی تھی، ہتھیار بھی نہ ہونے کے برابر تھے ، پولیس کی صورتحال بھی ناگفتہ بہ تھی۔
جب بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھارت میں تمام ریاستوں کے خاتمے کا فیصلہ کیا تو حیدرآباد دکن کو بھارت میں شامل ہونے کا الٹی میٹم دیا گیا۔ قاسم رضوی نے نوجوانوں کی رضاکار فورس بنائی۔ اقبال علوی اس فورس میں شامل تھے۔ انھیں لکڑی کی بندوقیں تھما دی گئیں اور کئی دن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر نہ آنے والے دشمن پرگولیاں چلانے کی مشق کرتے رہے مگر ان کے ایک عزیز نے اقبال علوی کو دیکھ لیا اور والدہ نے انھیں واپس بلالیا۔
حکام دکن نے بھارت سے مصالحت کرلی اور جب ہندوستان کی فوج اورنگ آباد میں داخل ہونے والی تھی تو اقبال علوی کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ ایک گاڑی میں لاؤڈ اسپیکر پر گلی گلی اعلان کریں کہ کوئی شخص انتہاپسندی کا مظاہرہ نہ کرے اور قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔
اقبال علوی نے اکیلے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ اقبال علوی کے ماموں نقی علی علوی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے، انھوں نے ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی۔ وہ مولانا مودودی کے افکار سے متاثر تھے اور اپنی 800 روپے کی ملازمت چھوڑ کر مولانا مودودی کے قائم کردہ مرکز دارالسلام پٹھان کوٹ چلے گئے۔
پاکستان بننے کے بعد جماعت اسلامی کے پہلے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے اور لاہور میں مقیم ہوئے۔ اقبال علوی پہلے لکھنوگئے اور وہاں سے لاہور اپنے ماموں کے پاس آگئے۔ نقی علی علوی کی خواہش تھی کہ بھانجا ان کی پیروی کرے مگر اقبال علوی ماموں کے ساتھ کام کرنے پر تیار نہ ہوئے اور کراچی جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اقبال علوی کراچی میں کمیونسٹ پارٹی کے باقاعدہ ہمدرد بن گئے۔ اس وقت رتن تلاؤ میں کمیونسٹ پارٹی کا دفتر تھا۔ اقبال علوی کمیونسٹ پارٹی کے دفتر باقاعدہ سے جانے لگے۔ اسی دفتر میں ان کی ملاقات حسن ناصر سے ہوئی۔
اقبال علوی کو اورینٹ ایئر ویز میں ملازمت مل گئی۔ اورینٹ ایئر ویز بعد میں پی آئی اے بن گئی۔ اقبال علوی اورینٹ ایئرویز میں مزدور تنظیم کے بانیوں میں سے تھے ، انھوں نے پھر پی آئی اے میں طفیل عباس اور آفریدی وغیرہ کے ساتھ مل کر ایئرویز ایمپلائز یونین کو منظم کرنے میں اہم کردار اد ا کیا۔
اقبال علوی اور ان کے ساتھیوں نے پاک سوویت یونین کلچرل ایسوسی ایشن بنائی۔ معروف قوم پرست رہنما جی ایم سید اس کے پہلے صدر اور اقبال علوی پہلے سیکریٹری تھے۔ علوی بتاتے تھے کہ اس دوران ان کی والدہ بھی کراچی آگئیں۔ انھوں نے لالوکھیت کے قریب ایک مکان کرائے پر لے لیا۔ کمیونسٹ پارٹی کی خفیہ میٹنگ ان کے گھر پر ہوتی تھی۔ حسن ناصر ان میٹنگوں میں شرکت کرتے مگر اقبال علوی کیونکہ مکمل رکن کے درجہ پر فائز نہیں ہوئے تھے ، اس بناء پر انھیں میٹنگوں میں شرکت کی اجازت نہیں تھی ۔
50ء کی دہائی کے آغاز پر پاکستان امریکا کا اتحادی بن گیا اور سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کا حصہ ہوا۔ کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں ، مزدور رہنماؤں، ادیبوں، صحافیوں اور طالب علموں کے خلاف آپریشن شروع ہوا۔ اقبال علوی بار بارگرفتار ہونے لگے ، وہ ڈی ایس ایف کے رہنماؤں، مزدوروں اور کارکنوں کے ساتھ نظربند رہے۔
گرفتار ہونے والوں میں منہاج برنا اور حسن ناصر بھی شامل تھے۔ بی بی سی سے ریٹائر ہونے والے معروف صحافی آصف جیلانی اس زمانہ میں کراچی میں روزنامہ امروز میں رپورٹر تھے، وہ خبروں کے حصول کے لیے روزانہ جیل جاتے تھے۔ انھوں نے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ اقبال علوی کی والدہ سے ملاقات ہوئی، یوں اقبال علوی کی مسلسل اسیری کی داستان امروز میں شایع ہوئی۔
مظہر علی خان کی زیر ادارت لاہور سے شایع ہونے والے انگریزی کے اخبار پاکستان ٹائمز میں اقبال علوی کی مسلسل گرفتاری پر ادارتی نوٹ شایع ہوا، یوں یہ انسانی حقوق کی پامالی کی مثال بن گیا۔ ایوب خان کے دور تک اقبال علوی کا جیل جانا معمول تھا۔ انھوں نے ایئرویز ایمپلائز یونین کے صدر طفیل عباس سے اصولی اختلاف کی بناء پر یونین سے علیحدگی کی۔ پی آئی اے کے آفیسرزکی بہبود کی یونین کو متحرک کرنے میں اہم کردار اد اکیا۔
اقبال علوی گزشتہ تیس برسوں سے ترقی پسند نظریات کی ترویج کرنے والے اداروں کے لیے وقف تھے، وہ ارتقاء سیکیولر فورم اور تاریخ فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے بانیوں میں تھے اور اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ان اداروں کو فعال کرنے میں خرچ کرتے تھے۔ اسی طرح وہ روٹری کلب میں فعال ہوکر سماجی خدمت انجام دیتے تھے۔
علوی صاحب کی اہلیہ معروف گائناکالوجسٹ تھیں، ان کے بچے امریکا چلے گئے تھے۔ اہلیہ کے انتقال کے بعد وہ کراچی میں تنہا تھے۔ ان کے بیٹے اور دو بیٹیوں کی خواہش تھی کہ وہ امریکا منتقل ہوجائیں ، بچوں کے اصرار پر وہ امریکا جاتے مگر جلد واپس آجاتے۔ علوی صاحب کہتے تھے کہ وہ آخری وقت تک متحرک رہنا چاہتے ہیں۔ اس بناء پر وہ پاکستان میں رہنا چاہتے تھے۔
علوی صاحب نے کینسر کے مرض کو شکست دی تھی وہ 89سال کی عمر میں ذہنی اور جسمانی طور پر فعال تھے اور موت کے چند دن قبل انجمن ترقی پسند مصنفین کے سید سبط حسن کے بارے میں ہونے والے سیمینار میں شرکت کے لیے کراچی کے ٹریفک میں کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے کلفٹن سے ناظم آباد پہنچے تھے۔ اقبال علوی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے، وہ نوجوانوں کے لیے جدوجہد کا راستہ ورثہ کے طور پر چھوڑ گئے۔