رُہتکی رانگھڑی یا ہریانوی یعنی کھڑی بولی اُردو کی ماں
صوبہ پنجاب اور سندھ میں مقیم، قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے آنے والے بہت سے لوگ آج بھی ہریانوی بولتے ہیں۔
زباں فہمی نمبر98
واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں کبھی کبھی محض اتفاقاً کوئی ایسی بحث چھِڑ جاتی ہے کہ سبھی اراکین بشمول خاکسار کے لیے تحقیق کا دفتر کھُل جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں انجینئر احمد سجاد بابر صاحب (مقیم گاؤں ڈانوراں، لودھراں، پاکستان) ، پہلی مرتبہ لب کُشا ہوئے تو ایک ایسے موضوع پر ہم سب کی معلومات میں بیش بہا اضافہ کیا جو ہماری غفلت کی وجہ سے، ایک طویل عمر سے، تحریروتقریر میں نظرانداز ہورہا تھا۔
ہم میں جس کسی نے ایم اے (اردو) میں ''کھڑی بولی'' کے بارے میں پڑھا ہے، وہ یقیناً اس بابت دیگر کی نسبت، بہتر رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔ یہ اور بات کہ ہم نے پڑھ لکھ کر...........پر لاد دیا۔ (معذرت خواہ ہوں کہ اُس مظلوم جانور کا نام نہیں لکھ سکتا جس کو، کچھ عرصے سے بلاوجہ ہر طرح کے طعن وتشنیع اور تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے)۔
ہند آریائی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والی، بولی ہریانوی بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ ہریانوی کو ہندوستان میں باقاعدہ زبان کا درجہ مل چکا ہے۔ یہ ہریانہ، کرنال، روہتک، حصار، دادری، فتح آباد، نارنول، جھجر، ہانسی، بھوانی، دوجانہ، مہم، کلانور، پٹیالہ، سہارنپور، دہلی اور یوپی (اُتّر پردیش) میں بولی جاتی ہے۔
بعض مقامات پر اسے آج بھی ''کھڑی بولی'' کہا جاتا ہے۔ اس کا رسم الخط دیوناگری ہے یعنی وہی ہندی والا، مگر پاکستان میں فی الحال یہ اردو رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور اس کے ایک متفق علیہ نام کے لیے پیش رفت ہونا ابھی باقی ہے۔ اکثر لوگ اسے رانگھڑی (رانگڑی) اور بعض رُہتکی کہنا پسند کرتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں، خصوصاً صوبہ پنجاب اور سندھ میں مقیم، قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے آنے والے بہت سے لوگ آج بھی ہریانوی بولتے ہیں۔
ہریانوی کے ایک پُرجوش محرّک، گل ساج کا کہنا ہے کہ''میرے خیال میں رانگھڑی کہنے سے اس زبان کا کینوس محدود ہوجاتا ہے۔ چونکہ ہریانوی اردو سے زیادہ مماثل ہے اس لیے شروع میں ہم لوگ اسے 'گلابی اردو' بھی کہتے رہے، رفتہ رفتہ یہ اردو میں ہی ڈھل گئی۔ رانگھڑی، کھڑی، گلابی اردو یا برج اردو اور اب ہریانوی ایک ہی زبان کے مختلف نام ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہریانوی کے معنی ہیں سرسبزوشاداب، گویا یہ نام اپنانے سے ناصرف ایک وسیع خطے میں تمام اہل زبان کا اشتراک بڑھ جائے گا، بلکہ رانگھڑی جیسا سخت نام بھی ترک ہوجائے گا جو جنگ جُو پس منظر رکھتا ہے۔
ماہرین لسانیات بشمول پروفیسر حافظ محمود شیرانی، ٹی۔ گراہم بیلی[Bailey, Thomas Grahame: 1872-1942]، جارج ابراہم گریرسن[George Abraham Grierson
:7 January 1851 - 9 March 1941]، مسعود حسین خاں، گیان چند جین، ڈاکٹرشوکت سبزواری، ڈاکٹر سہیل بخاری، مرزا خلیل احمد بیگ اور انصاراللہ اس بات پر متفق ہیں کہ کھڑی بولی یا موجودہ ہریانوی ہی اردو کی اصل بنیاد ہے۔ (پروفیسر شیرانی نے اسے ہریانی کا نام دیا۔ اُن کے مقالات مرتبہ مظہر محمود شیرانی بھی)۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے بجا طور پر لکھا کہ ''دراصل اردو اور ہندی ایک ہی زبان کے دو روپ ہیں جسے ماہرین زبان نے کھڑی بولی کا نام دیا ہے۔'' انھوں نے لکھا ہے کہ ''ہندی کے مؤرخین کی اس غلط فہمی سے قطع نظر، آج کل جس زبان کو عرفِ عام میں ہندی کہا جاتا ہے اور جو بھارت کی سرکاری بولی مانی گئی ہے، اُس کا پرانا نام کھڑی بولی ہے، جو دنیا کی ہر زبان کی طرح اپنی جنم بھوم (جائے پیدائش) ''کھڑ'' سے منسوب ہے اور جس کے معنی ہیں، علاقہ کھڑ کی بولی۔''
انھوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ ''جس طرح اردو ادب والے اردو میں کھڑی بولی کے ساتھ ساتھ ہریانی (ہریانوی)، پنجابی اور دکنی وغیرہ کئی زبانوں کا شامل کرلیتے ہیں، اُسی طرح ہندی والے بھی ہندی میں کھڑی بولی کے ساتھ ساتھ، بِہاری، پُوربی (اَوَدھی)، برج بھاشا، راجستھانی، مرہٹی، گجراتی وغیرہ کتنی ہی زبانوں کو لپیٹ لیتے ہیں، چنانچہ سِدّھوں کی ماگدھی (مگدھی) یا بِہاری، ناتھ پَنتھیوں کی سدھکڑی اور جنگ ناموں کی راجستھانی اور پنجابی بھی ہندی ہی میں شمار ہوتی ہیں۔'' (ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ)۔ یہاں خاکسار کا خیال ہے کہ دیگر ضمنی نکات میں راجستھانی اور میواتی سے متعلق تحقیق ابھی تک تشنہ ہے۔ یہ دونوں بولیاں بھی ہریانوی کا حصہ ہیں۔
ہمارے بزرگ معاصر محترم مسعود اشعر کی ایک تحریر بعنوان ''نوبیل انعام اور ہریانوی زبان'' (مطبوعہ روزنامہ جنگ، مؤرخہ 10 اکتوبر، 2017) سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے:''انوار احمد ملتان سے ادبی رسالہ ''پیلوں'' نکالتے ہیں۔ یہ عام ادبی رسالوں کے مقابلے میں تین زبانوں کا ادب شائع کرتا ہے۔ اردو، پنجابی اور سرائیکی۔ اب تک یہی تینوں زبانیں اس رسالے کی زینت بنتی تھیں۔ لیکن اس بار اس میں ہریانوی ادب و شعر بھی موجود ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ آزادی کے بعد جب دونوں ملکوں میں فسادات ہو ئے تو رہتک، حصار کے رہنے والے مہاجر ملتان میں آباد ہوئے۔
یہ رہتکی کہلاتے تھے۔ بہت ہی جاںفشاں قسم کے لوگ۔ لڑنے جھگڑنے والے۔ نئی سے نئی گالیاں ایجاد کرنے والے۔ جو خاندانی جھگڑے وہ اپنے ساتھ ہندوستان سے لائے تھے وہ ملتان میں بھی پروان چڑھتے رہے۔ ہم معافی چاہتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ملتان میں انہیں بہت ہی اجڈ قوم سمجھا جاتا تھا۔ لیکن وہ شاعری بھی کرتے تھے اور اپنی زبان میں کرتے تھے۔ اس کا علم ہمیں اس وقت ہوا جب ہمارے مرحوم دوست حشمت وفا ہمیں ان کے ایک مشاعرے میں لے گئے تھے۔
اس مشاعرے میں شاعروں کے لئے کوئی اسٹیج نہیں سجایا گیا تھا۔ فرش پر کوئی چاندنی یا قالین بھی نہیں بچھایا گیا تھا۔ چند چارپائیاں پڑی تھیں۔ اور شاعروں کے ساتھ ان کے سامعین بھی ان چارپائیوں پر ہی بیٹھے تھے۔ مشاعرہ ہوا۔ شاعروں نے اپنا کلام سنایا۔ بہت واہ واہ بھی ہوئی۔ ہماری سمجھ میں کچھ آیا کچھ نہیں آیا۔ مگر اس مشاعرے سے ہم محظوظ بہت ہوئے۔'' محترم مسعوداشعر صاحب نے بجا طور پر یہ خیال ظاہر فرمایا تھا کہ ''لیکن یہ چالیس پچاس سال پہلے کی بات ہے۔ ظاہر ہے اس عرصے میں ان کی نئی نسلیں پڑھ لکھ کر اس قابل ہوگئی ہیں کہ وہ اپنی زبان میں ایسا ادب تخلیق کرنے لگیں جسے دوسری زبانوں کے ادب کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔'' ہمارے اس بزرگ معاصر نے رسالہ 'پِیلوں' (مدیر ڈاکٹر انواراحمد) سے معروف ہریانوی شاعر اختر دولتالوی کی مندرجہ ذیل غزل نقل فرمائی:
رستے کد پتھریلے تھے.........لوگ چلن میں ڈھیلے تھے
یوہ سب کچھ تو ہونا تھا.........دودھ کے راکھی بِلّے تھے
بھوت بگڑ کے بھاجے نھی.........گھر تو ہم نے کیلے تھے
اخترؔ آنجھو سوکے نھی.........موسم گیلے گیلے تھے
{میرا خیال ہے کہ اس شاعر نے بجائے 'سے' کہنے کے اُس کی جدید اردو شکل 'تھے' استعمال کی تاکہ شعر عام فہم ہوجائے۔ س ا ص}
اور پھر آخر میں محترم مسعود اشعر نے بجا فرمایا کہ ''دیکھئے، یہ قدیم اردو ہی تو ہے۔'' بالکل ایسا ہی ہے۔ یہ وہی بولی ہے جسے ماضی میں کھڑی بولی اور دیگر زبانوں سے آمیزش کے بعد، مِلواں یعنی مخلوط بولی ہونے کے ناتے، ریختہ بھی کہا جاتا تھا۔ امیر خسرو سے لے کر غالب ؔتک یہ نام زندہ رہا۔ {آج بھی بطور ایک صنف سخن 'ریختہ ' (مخلوط زبان میں کہی گئی غزل) کہنے والے کچھ لوگ پائے جاتے ہیں، جیسے ہمارے بزرگ معاصر صابر ظفر اور ہمارے خورد معاصر، حسنین ساحر (مقیم بھارہ کہو، اسلام آباد)}۔ ہریانوی کے ادبی سرمائے میں پاکستان کے اہل قلم نے خوب اضافہ کیا ہے۔ اور اَب یہ دیکھیے کہ ہمارے واٹس ایپ دوست انجینئر احمدسجاد بابر صاحب کس طرح اپنی مادری بولی میں غزل کہتے ہیں:
غزل.... احمد سجاد بابر
ٹھا کے اپنے بھانڈے چار.........بگ جاں گے ہم دُنیا پار
بات سے مانس مرجے سے .........اینٹ نہ ٹھاوے، تیں مَریار
دکھ بتلان سے مٹ جیں گے.........کیوں ٹھا رہیا سے کلّا بھار؟
کھیل کھلونے برگے ساں.........اور کِتے سے مھاری تار
دل میں دھر لے یار مڑا.........یوئے اپنا سے گھر بار
چکّر چُوندھا سانبھے گا.........جس کے ہاتھ میں سے پرکار
سارے کُکرم دل کے سیں.........پہلے بابر دل نے مار
اور اب ملاحظہ فرمائیے، پاکستانی ہریانوی کے ایک اور اہم شاعرنوشاد قاصر کاکلام:
رچنا۔۔نوشاد قاصر
دیکھد ے اُس نیں گال کے مانہہ.........دل پھنس گیا جِنجال کے مانہہ
گات مینھ آگ سی لاگے سے.........ٹھنڈی ٹھنڈی بال کے مانہہ
گئے دناں کی یاد بھی تھی.........آنگن آلی جال کے مانہہ
دو ایک بول بھی پیار بھرے.........دھر لے نیں اِس مال کے مانہہ
کچھ تو آنجھو سانبھ کے راکھ.........کام آنویں گے کال کے مانہہ
سب تھے نیارا دکھے تھا.........واہ پردیسی گال کے مانہہ
کس کے آنجھو رچ رھے سیں .........سیلھی سیلھی بال کے مانہہ
لاڈ کا رس بھی تھا قاؔصر.........باپو کی ہر گال کے مانہہ
برِصغیر پاک و ہند کے ہریانوی کے مشہور شعرا میں رانا وکیل انجم، کنور واجد علی، رانا معین اختر، منگت رام شاشتری کھڑتل، مہاویر دکھی، انگریز سنگھ، بندر دنودا، سریش بھانا، کنور کیسوریا، شانی راجپوت، تاج مرسلین، فرمان راؤ، زاہد وارثی، اکمل رانا، شاہد جامی اور صابر علی صابر شامل ہیں۔
انجینئر احمد سجاد بابر صاحب اردو اور ہریانوی کے شاعر، ادیب ومحقق ہیں۔ اُن کا حمدیہ مجموعہ کلام 'رِدائے شب پر ستارہ جھلمل' کے عنوان سے منظرعام پر آچکا ہے۔ وہ نوہرہ کے 'ہریانوی قاعدہ بورڈ' کے فعال رکن ہیں۔ انجینئر احمد سجاد بابر صاحب کے والد کُنور نثار احمد ایڈووکیٹ ایک قابل قانون داں اور محقق و ادیب تھے، جنھوں نے گاؤں ڈانوراں، لودھراں میں ہریانہ اردو اکیڈمی قایم کرکے مختلف کتب اور تقاریب کا اہتمام کیا۔
اُن کی کتب میں 'جب پاکستان بنا' (قیام پاکستان کے وقت کے مصائب کی کہانی)، پھر ساون آیا رے (راجپوتی ثقافت کی معلومات پر مبنی)، ان مول رتن (نامور دوہا نگاروں کا کلام نیز ہریانوی ضرب الامثال اور محاورے مع تشریح)، راجپوتی رسم ورواج اور تاریخ بوانی کھیڑہ، ڈانوراں، بلیالی، سوانی مع مستند شجرہ جات شامل ہیں۔ انھوں نے ہریانوی گیتوں اور ڈراموں کو وڈیو کی شکل میں محفوظ کرکے 'امر گیت ' کے نام سے جاری کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ِذکر ہے کہ نوشاد قاصر صاحب ہریانوی قاعدے کی تشکیل میں بھی کنورنثار احمد ایڈووکیٹ کے شانہ بشانہ کام کرچکے ہیں اور ماقبل 1996میں ہریانوی قاعدے کی ابتدائی اور مجوزہ شکل بھی طے کر چکے ہیں۔ ان کا اردو مجموعہ کلام 'طلسم خواب' شایع ہوچکا ہے۔
انھوں نے ہریانوی گیت اور غزل کے فروغ میں اہم کردارادا کیا۔ اُن کا نمایاں کارنامہ ہریانوی شعراء کی ایک پوری کھیپ تیار کرنا ہے۔ کلور کوٹ میں ایک اور ادیب، جمیل احمد رانا مرحوم ہوتے تھے جو ہریانوی کے بڑے محقق تھے، وہ تقریباً ہر راجپوتی میگزین کے مشاورتی بورڈ میں شامل ہوتے تھے، ان کے مضامین جمیل نامہ کے نام سے شائع ہوئے۔ کراچی سے پیام راجپوت نامی رسالہ، رفاقت کریمی صاحب کی ادارت میں نکلتا تھا جس کا دفتر ٹاور کے مقام پر تھا۔ ایک معیاری رسالہ راجپوت فیملی، کُنور عبدالمجید صاحب نکالتے تھے جس میں ہریانوی کا صفحہ مختص تھا، اس کا دفتر فردوس مارکیٹ، لس بیلہ میں تھا۔
پاکستان میں ہریانوی زبان وادب سے متعلق مطبوعہ کتب:
۱۔مراڑ...ہریانوی افسانوں کا مجموعہ... راؤ رحمت علی، احمد پور شرقیہ
۲۔بوڈھے ہوگے ہون تے پہلے.... شاعری.... کشور لودھراں، لودھراں
۳۔ہیرے اور کنکر.... ہریانوی راگنیوں اور ضرب الامثال....... کنوریاسین قائم خانی... بستی ملوک، ملتان
۴۔گاؤں کی گوری... ناول... کرنل مہدی حسن راؤ
۵۔گام کی چھوری... ناول... کرنل مہدی حسن راؤ
۶۔پھر ساون آیا رے.... ساون بارے ہریانوی گیت... کنور نثار احمد، ڈانوراں، لودھراں
۷۔انمول رتن.... ہریانوی دوہے، ہریانوی ضرب الامثال... کنور نثار احمد، ڈانوراں، لودھراں
۸۔دوہا نگاری میں اردو اور ہریانوی کا لسانی اشتراک... ایم فل تھیسس.... صابر علی صابر، ڈانوراں، لودھراں
اب کچھ ہریانوی بول چال کے نمونے پیش کرتاہوں:
میں /ماں،وہ (مذکر)،وا (مؤنث)، تُو (تم)، یہ، ایک، آ(آؤ)، آیا، آئی، آوے گا/وہ آوا گا /آوے گی (آئے گا/گی)، کھول، کھُل گیا، کھُلا گا (کھُلے گا)، بیٹھ، چال (چلنا، چہل قدمی)، کھا، پی، جیت، جا، بھاگ، وہ سیو کھان لگ ریا ہے (وہ سیب کھارہا ہے)، اُن نے سیوکھالیا (اُس نے سیب کھالیا)،وہ کھالیا، اُس نے کھالیا تھا، وہ کھاوا گا، من نے پچھلے ہفتہ پھِلم دیکھی تھی (میں نے پچھلے ہفتے فلم دیکھی تھی)، تیرا نام کے ہے؟، تن نے کے کریا (تم کیا کرتے ہو؟)، تُوکھانا کھالیا کیا؟ (تو نے کھانا کھالیا کیا؟)، تُو کیسا ہے ؟، ماں (میں) ٹھیک ہوں۔
اردو کے بے شمار الفاظ ہریانوی میں آج بھی مستعمل ہیں، جبکہ ہمیں اردو ادب میں بھی اس کی مثالیں مل جاتی ہیں، جیسے: بھیتر(اندر)، جِیب /جِیبھ یعنی زبان (عضوِ بدن)، عِجّت یعنی عزت، کھاج یعنی خارش، کھُجلی، مرد یعنی شوہر، لُگائی یعنی بیوی، کھاٹ یعنی چارپائی، گات یعنی جسم، کہبت یعنی کہاوت، تالی یعنی چابی، لاکڑی یعنی لکڑی، پیاج یعنی پیاز، تاجایعنی تاذہ ، بِیر/ بِیرایعنی بھائی (پنجابی میں وِیر) باہن/ بَوبَویعنی بہن، گام یعنی گاؤں (قدیم املاء: گانوں)، کواڑ یعنی دروازہ یا اُس کا ایک پَٹ، بالک یعنی بچہ، چھورایعنی لڑکا۔
پاکستان میں ہریانوی کے فروغ کے لیے 'نوہرہ پاکستان' نامی تنظیم کا قیام 2017ء میں عمل میں آیا۔ تصویر محل، ملتان میں اس کا صدر دفتر ہے۔ اس تنظیم کے زیراہتمام پہلا ہریانوی مشاعرہ 23 ستمبر 2017 کو ملتان ٹی ہاؤس ملتان میں منعقد ہوا جس میں اختر دولتالوی، رانا نوشاد قاصر، راؤ فرمان ٹھاکر اور احمد سجاد بابر سمیت متعدد ہریانوی شعراء نے شرکت کی۔ یہ مشاعرہ سوشل میڈیا کے توسط سے دنیا بھر میں دیکھا گیا۔مارچ 2018 میں منعقدہونے والے چہارلسانی( چار زبانوں کے) مشاعرے میںنوہرہ کی طرف سے ہریانوی شعراء رانا نوشاد قاصر، اختر دولتالوی، راؤ مشتاق ظفر اور راؤ فرمان ٹھاکر نے شرکت کی۔
اسی تنظیم کے زیرِاہتمام پہلی ہریانوی کانفرنس آگست 2018 میں تصویر محل ملتان میں منعقد ہوئی اور 10 نومبر 2018 کو آرٹس کونسل ملتان میں ہریانوی کلچرل شو منعقد ہوا، جس میں ہریانوی راگنی، گیت، قوالی، نوہرہ خاکہ اورOne-man show پیش کیا گیا۔ اس کے بعد نوہرہ نے اپریل 2019 میں ہڈالی، ضلع خوشاب میں ہریانوی مشاعرہ منعقد کرایا۔ اب یہ تنظیم تحقیقی مقالات اور دوسری کانفرنس کے انعقاد کے لیے منصوبہ بندی کررہی ہے اور یہ تمام معلومات فیس بک پر موجود ہیں۔
جناب احمد سجاد بابر نے سولہ اپریل سن دوہزار اکیس کو منعقد ہونے والے آن لائن ہریانوی مشاعرے میں خاکسار کو بطور سامع شرکت کی دعوت دی، جو بوجہ مصروفیت، قبول نہ کرسکا۔ ایک اہم اطلاع یہ بھی ہے کہ اس تنظیم کے سربراہ رانا تصویر احمد اور جنرل سیکریٹری محمد اختر مرزا نے 27جون 2020 کوپاکستان ٹیلی وژن کے پروگرامBrunch-at-Home میں ہریانوی زبان، ادب، تہذیب وثقافت کی نمائندگی کی، اپنی ماں بولی ہریانوی میں ہی بات کرتے ہوئے اپنے کلچر، ڈرامہ و پارفامنگ آرٹ، ہریانوی قاعدے کا اجراء، رہن سہن، شادی بیاہ کی رسومات، کڑہی، کھنڈلی، بیسن کے گولے اور گُلگَلے، ہاتھ سے بنی ہوئی سویاں، شیرمال جیسے لذیذ پکوان سمیت مختلف امور پر روشنی ڈالی۔ ہندوستان میں ہریانوی کی ترقی کی رفتار قدرے تیز رہی۔ وہاں تو اس بولی میں فلمیں بنائی جارہی ہیں، مگر ہمارے یہاں چونکہ فلم کا شعبہ زوال کا شکارہے ، لہٰذا اس بابت کچھ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے۔
اظہار تشکر: میں اپنے واٹس ایپ دوست انجینئر احمد سجاد بابر صاحب کا صمیم قلب سے شکر گزار ہوں جن کی تحریک اور بھرپور تعاون سے یہ کالم لکھا جاسکا۔ اس کی حیثیت تعارفی مضمون سے زیادہ نہیں، مگر خدا نے چاہا تو مستقبل میں تحقیقی مقالہ بھی سپردقلم کروں گا۔
واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں کبھی کبھی محض اتفاقاً کوئی ایسی بحث چھِڑ جاتی ہے کہ سبھی اراکین بشمول خاکسار کے لیے تحقیق کا دفتر کھُل جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں انجینئر احمد سجاد بابر صاحب (مقیم گاؤں ڈانوراں، لودھراں، پاکستان) ، پہلی مرتبہ لب کُشا ہوئے تو ایک ایسے موضوع پر ہم سب کی معلومات میں بیش بہا اضافہ کیا جو ہماری غفلت کی وجہ سے، ایک طویل عمر سے، تحریروتقریر میں نظرانداز ہورہا تھا۔
ہم میں جس کسی نے ایم اے (اردو) میں ''کھڑی بولی'' کے بارے میں پڑھا ہے، وہ یقیناً اس بابت دیگر کی نسبت، بہتر رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔ یہ اور بات کہ ہم نے پڑھ لکھ کر...........پر لاد دیا۔ (معذرت خواہ ہوں کہ اُس مظلوم جانور کا نام نہیں لکھ سکتا جس کو، کچھ عرصے سے بلاوجہ ہر طرح کے طعن وتشنیع اور تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے)۔
ہند آریائی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والی، بولی ہریانوی بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ ہریانوی کو ہندوستان میں باقاعدہ زبان کا درجہ مل چکا ہے۔ یہ ہریانہ، کرنال، روہتک، حصار، دادری، فتح آباد، نارنول، جھجر، ہانسی، بھوانی، دوجانہ، مہم، کلانور، پٹیالہ، سہارنپور، دہلی اور یوپی (اُتّر پردیش) میں بولی جاتی ہے۔
بعض مقامات پر اسے آج بھی ''کھڑی بولی'' کہا جاتا ہے۔ اس کا رسم الخط دیوناگری ہے یعنی وہی ہندی والا، مگر پاکستان میں فی الحال یہ اردو رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور اس کے ایک متفق علیہ نام کے لیے پیش رفت ہونا ابھی باقی ہے۔ اکثر لوگ اسے رانگھڑی (رانگڑی) اور بعض رُہتکی کہنا پسند کرتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں، خصوصاً صوبہ پنجاب اور سندھ میں مقیم، قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے آنے والے بہت سے لوگ آج بھی ہریانوی بولتے ہیں۔
ہریانوی کے ایک پُرجوش محرّک، گل ساج کا کہنا ہے کہ''میرے خیال میں رانگھڑی کہنے سے اس زبان کا کینوس محدود ہوجاتا ہے۔ چونکہ ہریانوی اردو سے زیادہ مماثل ہے اس لیے شروع میں ہم لوگ اسے 'گلابی اردو' بھی کہتے رہے، رفتہ رفتہ یہ اردو میں ہی ڈھل گئی۔ رانگھڑی، کھڑی، گلابی اردو یا برج اردو اور اب ہریانوی ایک ہی زبان کے مختلف نام ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہریانوی کے معنی ہیں سرسبزوشاداب، گویا یہ نام اپنانے سے ناصرف ایک وسیع خطے میں تمام اہل زبان کا اشتراک بڑھ جائے گا، بلکہ رانگھڑی جیسا سخت نام بھی ترک ہوجائے گا جو جنگ جُو پس منظر رکھتا ہے۔
ماہرین لسانیات بشمول پروفیسر حافظ محمود شیرانی، ٹی۔ گراہم بیلی[Bailey, Thomas Grahame: 1872-1942]، جارج ابراہم گریرسن[George Abraham Grierson
:7 January 1851 - 9 March 1941]، مسعود حسین خاں، گیان چند جین، ڈاکٹرشوکت سبزواری، ڈاکٹر سہیل بخاری، مرزا خلیل احمد بیگ اور انصاراللہ اس بات پر متفق ہیں کہ کھڑی بولی یا موجودہ ہریانوی ہی اردو کی اصل بنیاد ہے۔ (پروفیسر شیرانی نے اسے ہریانی کا نام دیا۔ اُن کے مقالات مرتبہ مظہر محمود شیرانی بھی)۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے بجا طور پر لکھا کہ ''دراصل اردو اور ہندی ایک ہی زبان کے دو روپ ہیں جسے ماہرین زبان نے کھڑی بولی کا نام دیا ہے۔'' انھوں نے لکھا ہے کہ ''ہندی کے مؤرخین کی اس غلط فہمی سے قطع نظر، آج کل جس زبان کو عرفِ عام میں ہندی کہا جاتا ہے اور جو بھارت کی سرکاری بولی مانی گئی ہے، اُس کا پرانا نام کھڑی بولی ہے، جو دنیا کی ہر زبان کی طرح اپنی جنم بھوم (جائے پیدائش) ''کھڑ'' سے منسوب ہے اور جس کے معنی ہیں، علاقہ کھڑ کی بولی۔''
انھوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ ''جس طرح اردو ادب والے اردو میں کھڑی بولی کے ساتھ ساتھ ہریانی (ہریانوی)، پنجابی اور دکنی وغیرہ کئی زبانوں کا شامل کرلیتے ہیں، اُسی طرح ہندی والے بھی ہندی میں کھڑی بولی کے ساتھ ساتھ، بِہاری، پُوربی (اَوَدھی)، برج بھاشا، راجستھانی، مرہٹی، گجراتی وغیرہ کتنی ہی زبانوں کو لپیٹ لیتے ہیں، چنانچہ سِدّھوں کی ماگدھی (مگدھی) یا بِہاری، ناتھ پَنتھیوں کی سدھکڑی اور جنگ ناموں کی راجستھانی اور پنجابی بھی ہندی ہی میں شمار ہوتی ہیں۔'' (ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ)۔ یہاں خاکسار کا خیال ہے کہ دیگر ضمنی نکات میں راجستھانی اور میواتی سے متعلق تحقیق ابھی تک تشنہ ہے۔ یہ دونوں بولیاں بھی ہریانوی کا حصہ ہیں۔
ہمارے بزرگ معاصر محترم مسعود اشعر کی ایک تحریر بعنوان ''نوبیل انعام اور ہریانوی زبان'' (مطبوعہ روزنامہ جنگ، مؤرخہ 10 اکتوبر، 2017) سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے:''انوار احمد ملتان سے ادبی رسالہ ''پیلوں'' نکالتے ہیں۔ یہ عام ادبی رسالوں کے مقابلے میں تین زبانوں کا ادب شائع کرتا ہے۔ اردو، پنجابی اور سرائیکی۔ اب تک یہی تینوں زبانیں اس رسالے کی زینت بنتی تھیں۔ لیکن اس بار اس میں ہریانوی ادب و شعر بھی موجود ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ آزادی کے بعد جب دونوں ملکوں میں فسادات ہو ئے تو رہتک، حصار کے رہنے والے مہاجر ملتان میں آباد ہوئے۔
یہ رہتکی کہلاتے تھے۔ بہت ہی جاںفشاں قسم کے لوگ۔ لڑنے جھگڑنے والے۔ نئی سے نئی گالیاں ایجاد کرنے والے۔ جو خاندانی جھگڑے وہ اپنے ساتھ ہندوستان سے لائے تھے وہ ملتان میں بھی پروان چڑھتے رہے۔ ہم معافی چاہتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ملتان میں انہیں بہت ہی اجڈ قوم سمجھا جاتا تھا۔ لیکن وہ شاعری بھی کرتے تھے اور اپنی زبان میں کرتے تھے۔ اس کا علم ہمیں اس وقت ہوا جب ہمارے مرحوم دوست حشمت وفا ہمیں ان کے ایک مشاعرے میں لے گئے تھے۔
اس مشاعرے میں شاعروں کے لئے کوئی اسٹیج نہیں سجایا گیا تھا۔ فرش پر کوئی چاندنی یا قالین بھی نہیں بچھایا گیا تھا۔ چند چارپائیاں پڑی تھیں۔ اور شاعروں کے ساتھ ان کے سامعین بھی ان چارپائیوں پر ہی بیٹھے تھے۔ مشاعرہ ہوا۔ شاعروں نے اپنا کلام سنایا۔ بہت واہ واہ بھی ہوئی۔ ہماری سمجھ میں کچھ آیا کچھ نہیں آیا۔ مگر اس مشاعرے سے ہم محظوظ بہت ہوئے۔'' محترم مسعوداشعر صاحب نے بجا طور پر یہ خیال ظاہر فرمایا تھا کہ ''لیکن یہ چالیس پچاس سال پہلے کی بات ہے۔ ظاہر ہے اس عرصے میں ان کی نئی نسلیں پڑھ لکھ کر اس قابل ہوگئی ہیں کہ وہ اپنی زبان میں ایسا ادب تخلیق کرنے لگیں جسے دوسری زبانوں کے ادب کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔'' ہمارے اس بزرگ معاصر نے رسالہ 'پِیلوں' (مدیر ڈاکٹر انواراحمد) سے معروف ہریانوی شاعر اختر دولتالوی کی مندرجہ ذیل غزل نقل فرمائی:
رستے کد پتھریلے تھے.........لوگ چلن میں ڈھیلے تھے
یوہ سب کچھ تو ہونا تھا.........دودھ کے راکھی بِلّے تھے
بھوت بگڑ کے بھاجے نھی.........گھر تو ہم نے کیلے تھے
اخترؔ آنجھو سوکے نھی.........موسم گیلے گیلے تھے
{میرا خیال ہے کہ اس شاعر نے بجائے 'سے' کہنے کے اُس کی جدید اردو شکل 'تھے' استعمال کی تاکہ شعر عام فہم ہوجائے۔ س ا ص}
اور پھر آخر میں محترم مسعود اشعر نے بجا فرمایا کہ ''دیکھئے، یہ قدیم اردو ہی تو ہے۔'' بالکل ایسا ہی ہے۔ یہ وہی بولی ہے جسے ماضی میں کھڑی بولی اور دیگر زبانوں سے آمیزش کے بعد، مِلواں یعنی مخلوط بولی ہونے کے ناتے، ریختہ بھی کہا جاتا تھا۔ امیر خسرو سے لے کر غالب ؔتک یہ نام زندہ رہا۔ {آج بھی بطور ایک صنف سخن 'ریختہ ' (مخلوط زبان میں کہی گئی غزل) کہنے والے کچھ لوگ پائے جاتے ہیں، جیسے ہمارے بزرگ معاصر صابر ظفر اور ہمارے خورد معاصر، حسنین ساحر (مقیم بھارہ کہو، اسلام آباد)}۔ ہریانوی کے ادبی سرمائے میں پاکستان کے اہل قلم نے خوب اضافہ کیا ہے۔ اور اَب یہ دیکھیے کہ ہمارے واٹس ایپ دوست انجینئر احمدسجاد بابر صاحب کس طرح اپنی مادری بولی میں غزل کہتے ہیں:
غزل.... احمد سجاد بابر
ٹھا کے اپنے بھانڈے چار.........بگ جاں گے ہم دُنیا پار
بات سے مانس مرجے سے .........اینٹ نہ ٹھاوے، تیں مَریار
دکھ بتلان سے مٹ جیں گے.........کیوں ٹھا رہیا سے کلّا بھار؟
کھیل کھلونے برگے ساں.........اور کِتے سے مھاری تار
دل میں دھر لے یار مڑا.........یوئے اپنا سے گھر بار
چکّر چُوندھا سانبھے گا.........جس کے ہاتھ میں سے پرکار
سارے کُکرم دل کے سیں.........پہلے بابر دل نے مار
اور اب ملاحظہ فرمائیے، پاکستانی ہریانوی کے ایک اور اہم شاعرنوشاد قاصر کاکلام:
رچنا۔۔نوشاد قاصر
دیکھد ے اُس نیں گال کے مانہہ.........دل پھنس گیا جِنجال کے مانہہ
گات مینھ آگ سی لاگے سے.........ٹھنڈی ٹھنڈی بال کے مانہہ
گئے دناں کی یاد بھی تھی.........آنگن آلی جال کے مانہہ
دو ایک بول بھی پیار بھرے.........دھر لے نیں اِس مال کے مانہہ
کچھ تو آنجھو سانبھ کے راکھ.........کام آنویں گے کال کے مانہہ
سب تھے نیارا دکھے تھا.........واہ پردیسی گال کے مانہہ
کس کے آنجھو رچ رھے سیں .........سیلھی سیلھی بال کے مانہہ
لاڈ کا رس بھی تھا قاؔصر.........باپو کی ہر گال کے مانہہ
برِصغیر پاک و ہند کے ہریانوی کے مشہور شعرا میں رانا وکیل انجم، کنور واجد علی، رانا معین اختر، منگت رام شاشتری کھڑتل، مہاویر دکھی، انگریز سنگھ، بندر دنودا، سریش بھانا، کنور کیسوریا، شانی راجپوت، تاج مرسلین، فرمان راؤ، زاہد وارثی، اکمل رانا، شاہد جامی اور صابر علی صابر شامل ہیں۔
انجینئر احمد سجاد بابر صاحب اردو اور ہریانوی کے شاعر، ادیب ومحقق ہیں۔ اُن کا حمدیہ مجموعہ کلام 'رِدائے شب پر ستارہ جھلمل' کے عنوان سے منظرعام پر آچکا ہے۔ وہ نوہرہ کے 'ہریانوی قاعدہ بورڈ' کے فعال رکن ہیں۔ انجینئر احمد سجاد بابر صاحب کے والد کُنور نثار احمد ایڈووکیٹ ایک قابل قانون داں اور محقق و ادیب تھے، جنھوں نے گاؤں ڈانوراں، لودھراں میں ہریانہ اردو اکیڈمی قایم کرکے مختلف کتب اور تقاریب کا اہتمام کیا۔
اُن کی کتب میں 'جب پاکستان بنا' (قیام پاکستان کے وقت کے مصائب کی کہانی)، پھر ساون آیا رے (راجپوتی ثقافت کی معلومات پر مبنی)، ان مول رتن (نامور دوہا نگاروں کا کلام نیز ہریانوی ضرب الامثال اور محاورے مع تشریح)، راجپوتی رسم ورواج اور تاریخ بوانی کھیڑہ، ڈانوراں، بلیالی، سوانی مع مستند شجرہ جات شامل ہیں۔ انھوں نے ہریانوی گیتوں اور ڈراموں کو وڈیو کی شکل میں محفوظ کرکے 'امر گیت ' کے نام سے جاری کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ِذکر ہے کہ نوشاد قاصر صاحب ہریانوی قاعدے کی تشکیل میں بھی کنورنثار احمد ایڈووکیٹ کے شانہ بشانہ کام کرچکے ہیں اور ماقبل 1996میں ہریانوی قاعدے کی ابتدائی اور مجوزہ شکل بھی طے کر چکے ہیں۔ ان کا اردو مجموعہ کلام 'طلسم خواب' شایع ہوچکا ہے۔
انھوں نے ہریانوی گیت اور غزل کے فروغ میں اہم کردارادا کیا۔ اُن کا نمایاں کارنامہ ہریانوی شعراء کی ایک پوری کھیپ تیار کرنا ہے۔ کلور کوٹ میں ایک اور ادیب، جمیل احمد رانا مرحوم ہوتے تھے جو ہریانوی کے بڑے محقق تھے، وہ تقریباً ہر راجپوتی میگزین کے مشاورتی بورڈ میں شامل ہوتے تھے، ان کے مضامین جمیل نامہ کے نام سے شائع ہوئے۔ کراچی سے پیام راجپوت نامی رسالہ، رفاقت کریمی صاحب کی ادارت میں نکلتا تھا جس کا دفتر ٹاور کے مقام پر تھا۔ ایک معیاری رسالہ راجپوت فیملی، کُنور عبدالمجید صاحب نکالتے تھے جس میں ہریانوی کا صفحہ مختص تھا، اس کا دفتر فردوس مارکیٹ، لس بیلہ میں تھا۔
پاکستان میں ہریانوی زبان وادب سے متعلق مطبوعہ کتب:
۱۔مراڑ...ہریانوی افسانوں کا مجموعہ... راؤ رحمت علی، احمد پور شرقیہ
۲۔بوڈھے ہوگے ہون تے پہلے.... شاعری.... کشور لودھراں، لودھراں
۳۔ہیرے اور کنکر.... ہریانوی راگنیوں اور ضرب الامثال....... کنوریاسین قائم خانی... بستی ملوک، ملتان
۴۔گاؤں کی گوری... ناول... کرنل مہدی حسن راؤ
۵۔گام کی چھوری... ناول... کرنل مہدی حسن راؤ
۶۔پھر ساون آیا رے.... ساون بارے ہریانوی گیت... کنور نثار احمد، ڈانوراں، لودھراں
۷۔انمول رتن.... ہریانوی دوہے، ہریانوی ضرب الامثال... کنور نثار احمد، ڈانوراں، لودھراں
۸۔دوہا نگاری میں اردو اور ہریانوی کا لسانی اشتراک... ایم فل تھیسس.... صابر علی صابر، ڈانوراں، لودھراں
اب کچھ ہریانوی بول چال کے نمونے پیش کرتاہوں:
میں /ماں،وہ (مذکر)،وا (مؤنث)، تُو (تم)، یہ، ایک، آ(آؤ)، آیا، آئی، آوے گا/وہ آوا گا /آوے گی (آئے گا/گی)، کھول، کھُل گیا، کھُلا گا (کھُلے گا)، بیٹھ، چال (چلنا، چہل قدمی)، کھا، پی، جیت، جا، بھاگ، وہ سیو کھان لگ ریا ہے (وہ سیب کھارہا ہے)، اُن نے سیوکھالیا (اُس نے سیب کھالیا)،وہ کھالیا، اُس نے کھالیا تھا، وہ کھاوا گا، من نے پچھلے ہفتہ پھِلم دیکھی تھی (میں نے پچھلے ہفتے فلم دیکھی تھی)، تیرا نام کے ہے؟، تن نے کے کریا (تم کیا کرتے ہو؟)، تُوکھانا کھالیا کیا؟ (تو نے کھانا کھالیا کیا؟)، تُو کیسا ہے ؟، ماں (میں) ٹھیک ہوں۔
اردو کے بے شمار الفاظ ہریانوی میں آج بھی مستعمل ہیں، جبکہ ہمیں اردو ادب میں بھی اس کی مثالیں مل جاتی ہیں، جیسے: بھیتر(اندر)، جِیب /جِیبھ یعنی زبان (عضوِ بدن)، عِجّت یعنی عزت، کھاج یعنی خارش، کھُجلی، مرد یعنی شوہر، لُگائی یعنی بیوی، کھاٹ یعنی چارپائی، گات یعنی جسم، کہبت یعنی کہاوت، تالی یعنی چابی، لاکڑی یعنی لکڑی، پیاج یعنی پیاز، تاجایعنی تاذہ ، بِیر/ بِیرایعنی بھائی (پنجابی میں وِیر) باہن/ بَوبَویعنی بہن، گام یعنی گاؤں (قدیم املاء: گانوں)، کواڑ یعنی دروازہ یا اُس کا ایک پَٹ، بالک یعنی بچہ، چھورایعنی لڑکا۔
پاکستان میں ہریانوی کے فروغ کے لیے 'نوہرہ پاکستان' نامی تنظیم کا قیام 2017ء میں عمل میں آیا۔ تصویر محل، ملتان میں اس کا صدر دفتر ہے۔ اس تنظیم کے زیراہتمام پہلا ہریانوی مشاعرہ 23 ستمبر 2017 کو ملتان ٹی ہاؤس ملتان میں منعقد ہوا جس میں اختر دولتالوی، رانا نوشاد قاصر، راؤ فرمان ٹھاکر اور احمد سجاد بابر سمیت متعدد ہریانوی شعراء نے شرکت کی۔ یہ مشاعرہ سوشل میڈیا کے توسط سے دنیا بھر میں دیکھا گیا۔مارچ 2018 میں منعقدہونے والے چہارلسانی( چار زبانوں کے) مشاعرے میںنوہرہ کی طرف سے ہریانوی شعراء رانا نوشاد قاصر، اختر دولتالوی، راؤ مشتاق ظفر اور راؤ فرمان ٹھاکر نے شرکت کی۔
اسی تنظیم کے زیرِاہتمام پہلی ہریانوی کانفرنس آگست 2018 میں تصویر محل ملتان میں منعقد ہوئی اور 10 نومبر 2018 کو آرٹس کونسل ملتان میں ہریانوی کلچرل شو منعقد ہوا، جس میں ہریانوی راگنی، گیت، قوالی، نوہرہ خاکہ اورOne-man show پیش کیا گیا۔ اس کے بعد نوہرہ نے اپریل 2019 میں ہڈالی، ضلع خوشاب میں ہریانوی مشاعرہ منعقد کرایا۔ اب یہ تنظیم تحقیقی مقالات اور دوسری کانفرنس کے انعقاد کے لیے منصوبہ بندی کررہی ہے اور یہ تمام معلومات فیس بک پر موجود ہیں۔
جناب احمد سجاد بابر نے سولہ اپریل سن دوہزار اکیس کو منعقد ہونے والے آن لائن ہریانوی مشاعرے میں خاکسار کو بطور سامع شرکت کی دعوت دی، جو بوجہ مصروفیت، قبول نہ کرسکا۔ ایک اہم اطلاع یہ بھی ہے کہ اس تنظیم کے سربراہ رانا تصویر احمد اور جنرل سیکریٹری محمد اختر مرزا نے 27جون 2020 کوپاکستان ٹیلی وژن کے پروگرامBrunch-at-Home میں ہریانوی زبان، ادب، تہذیب وثقافت کی نمائندگی کی، اپنی ماں بولی ہریانوی میں ہی بات کرتے ہوئے اپنے کلچر، ڈرامہ و پارفامنگ آرٹ، ہریانوی قاعدے کا اجراء، رہن سہن، شادی بیاہ کی رسومات، کڑہی، کھنڈلی، بیسن کے گولے اور گُلگَلے، ہاتھ سے بنی ہوئی سویاں، شیرمال جیسے لذیذ پکوان سمیت مختلف امور پر روشنی ڈالی۔ ہندوستان میں ہریانوی کی ترقی کی رفتار قدرے تیز رہی۔ وہاں تو اس بولی میں فلمیں بنائی جارہی ہیں، مگر ہمارے یہاں چونکہ فلم کا شعبہ زوال کا شکارہے ، لہٰذا اس بابت کچھ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے۔
اظہار تشکر: میں اپنے واٹس ایپ دوست انجینئر احمد سجاد بابر صاحب کا صمیم قلب سے شکر گزار ہوں جن کی تحریک اور بھرپور تعاون سے یہ کالم لکھا جاسکا۔ اس کی حیثیت تعارفی مضمون سے زیادہ نہیں، مگر خدا نے چاہا تو مستقبل میں تحقیقی مقالہ بھی سپردقلم کروں گا۔