امریکی مفادات اور مظالم سے چشم پوشی
طاقتور کا مفاد اصل میں اس کی پالیسی اور اصول ہوتا ہے۔ کتابی اصولوں کو وہ دوسروں کو بلیک میل کرنے کےلیے استعمال کرتا ہے
GILGIT:
امریکی صدر جوبائیڈن اپنی پہلی پریس کانفرنس کے اس بیانیے سے منحرف نظر آتے ہیں کہ یہ دور جمہوریت اور مطلق العنانیت کے درمیان مبارزت کا دور ہے اور ہمیں ثابت کرنا ہے کہ جمہوریت آج بھی اتنی ہی کارآمد ہے جتنی یہ پہلے تھی۔
صدر جوبائیڈن کے عہدہ سنبھالنے سے لے کر اب تک اگر عالمی حالات پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسی کوئی بات بھی جمہوریت کے حق میں نظر نہیں آتی، بلکہ وہی پرانی روش نہایت واضح ہے کہ امریکی مفاد کو ترجیح دی جائے۔ جمہوریت کے تمام اصولوں پر بات کی جاتی ہے اور ان کی پامالی پر واویلا بھی کیا جاتا ہے مگر اپنے حساب سے۔ امریکا اور مغرب، چین اور روس کے حوالے سے انسانی حقوق کا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ وہاں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ انہیں مغرب میں اپنے ہی ممالک میں ہوتی ہوئی انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی۔ یورپی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف منظم مہمات اور مسلمانوں کا کشت و خون ان انسانی حقوق کے چیمپئنز کو کبھی نظر نہیں آتا۔ جہاں انہوں نے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہو اور اپنی بڑائی ثابت کرنا مقصود ہو وہاں سارے اصول بیان کیے جاتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر ہر طرف سے شور کروایا جاتا ہے۔
وہی امریکا جو ٹرمپ کے دور میں سعودی عرب کے یمن پر حملوں کی حمایت کرتا رہا، اب جوبائیڈن کے دور میں سعودی عرب پر دباؤ بڑھانے کےلیے ان حملوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہہ رہا ہے۔ کیونکہ امریکا چاہتا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے اور ساتھ میں عرب ممالک جیسے قطر، وغیرہ کے ساتھ بھی تعلقات استوار کرے۔ کیونکہ نئے اتحاد بنانے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
صدر ٹرمپ ہو یا کوئی اور، پالیسی ہمیشہ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی ہی چلتی ہے۔ اس کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ اب ٹرمپ کاروباری معاہدات پر زور دیتا رہا اور جان بوجھ کر اخلاقیات کو نظر انداز کرتا رہا تاکہ مخالف کچھ ایسی غیر اخلاقی حرکات کے مرتکب ہوں کہ مستقبل میں کسی بھی وقت انہیں ان حرکات کی وجہ سے نچایا جاسکے۔ جنگوں میں کتنے سویلین مرے، کتنے افراد بے گھر ہوئے یا کتنے صحافی مارے گئے یا قید ہوئے، یہ بڑی طاقتوں کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ ان کے اعداد و شمار اپنے پاس جمع کرنا اور بوقت ضرورت انہیں استعمال کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے۔
ان بڑی طاقتوں کے صدور اور سربراہان بڑے لچھے دار اور پرکشش بیان جاری کرتے ہیں جیسے کہ جارج ڈبلیو بش نے اپنی دوسری بار صدر بننے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری سرزمین کی آزادی کا قائم رہنا دوسری سرزمینوں کی آزادی سے مشروط ہے اور اسی نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔
صدر بارک اوباما نے ظلم روکنے کا بوڑڈ قائم کیا، جس کا نام اٹراسٹیز پریوینشن بورڈ تھا۔ مگر شام میں اور جنوبی سوڈان میں گھرے لوگ جو ظلم کا شکار تھے اس بورڈ کو کبھی نظر نہ آئے۔
اپنی پالیسی آگے بڑھانے اور اپنے مفادات کے تحفظ کےلیے مظالم سے چشم پوشی کرنا خود ایک پالیسی بن چکا ہے۔ بڑے بڑے اصولوں کے بھاشن دینا اور جب اپنا مفاد سامنے آئے تو اسی اصول سے صرف نظر کرلینا یا یوٹرن لے لینا آج کل ہی نہیں عرصہ دراز سے ممالک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا اہم جز رہے ہیں۔
ابھی حال ہی کے فلسطینی حالات کو دیکھیں تو یہ پالیسی واضح طور پر سمجھ میں آجاتی ہے، بلکہ ایک دفعہ پھر اس کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ طاقتور کا مفاد ہی اصل میں اس کی پالیسی اور اصول ہوتا ہے۔ باقی کتابی اصولوں کو وہ صرف دوسروں کو بلیک میل کرنے کےلیے استعمال کرتا ہے۔
مظالم سے چشم پوشی اب بھی اتنی ہی شدت سے جاری ہے، جتنی کہ یہ پہلے تھی۔ سعودی عرب سے یمنی اسکول بس پر بمباری ہوجائے یا صدر بشارالاسد اسپتالوں پر حملے کروائے یا اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر حملے کرکے ان کے گھر، اسکول، اسپتال سب کچھ تباہ کررہا ہو، یہ چشم پوشی جاری ہے۔ اس چشم پوشی اور نظرانداز کرنے کی پالیسی کی وجہ سے معصوم انسانی جانوں کا نقصان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ آرمڈ کونفلیکٹ اینڈ ایونٹ ڈیٹا پروجیکٹ کے مطابق 2016 سے لے کر 2020 کے درمیان سینتیس ہزار سویلین مارے گئے۔ کوئی 80 ملین لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اسپتالوں پر حملے بھی بڑھ گئے ہیں اور امدادی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو جان سے مارنے کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ مگر صاحبان اقتدار کی ذاتی مفاد پر مبنی چشم پوشی جاری رہی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن اپنی پہلی پریس کانفرنس کے اس بیانیے سے منحرف نظر آتے ہیں کہ یہ دور جمہوریت اور مطلق العنانیت کے درمیان مبارزت کا دور ہے اور ہمیں ثابت کرنا ہے کہ جمہوریت آج بھی اتنی ہی کارآمد ہے جتنی یہ پہلے تھی۔
صدر جوبائیڈن کے عہدہ سنبھالنے سے لے کر اب تک اگر عالمی حالات پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسی کوئی بات بھی جمہوریت کے حق میں نظر نہیں آتی، بلکہ وہی پرانی روش نہایت واضح ہے کہ امریکی مفاد کو ترجیح دی جائے۔ جمہوریت کے تمام اصولوں پر بات کی جاتی ہے اور ان کی پامالی پر واویلا بھی کیا جاتا ہے مگر اپنے حساب سے۔ امریکا اور مغرب، چین اور روس کے حوالے سے انسانی حقوق کا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ وہاں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ انہیں مغرب میں اپنے ہی ممالک میں ہوتی ہوئی انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی۔ یورپی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف منظم مہمات اور مسلمانوں کا کشت و خون ان انسانی حقوق کے چیمپئنز کو کبھی نظر نہیں آتا۔ جہاں انہوں نے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہو اور اپنی بڑائی ثابت کرنا مقصود ہو وہاں سارے اصول بیان کیے جاتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر ہر طرف سے شور کروایا جاتا ہے۔
وہی امریکا جو ٹرمپ کے دور میں سعودی عرب کے یمن پر حملوں کی حمایت کرتا رہا، اب جوبائیڈن کے دور میں سعودی عرب پر دباؤ بڑھانے کےلیے ان حملوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہہ رہا ہے۔ کیونکہ امریکا چاہتا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے اور ساتھ میں عرب ممالک جیسے قطر، وغیرہ کے ساتھ بھی تعلقات استوار کرے۔ کیونکہ نئے اتحاد بنانے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
صدر ٹرمپ ہو یا کوئی اور، پالیسی ہمیشہ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی ہی چلتی ہے۔ اس کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ اب ٹرمپ کاروباری معاہدات پر زور دیتا رہا اور جان بوجھ کر اخلاقیات کو نظر انداز کرتا رہا تاکہ مخالف کچھ ایسی غیر اخلاقی حرکات کے مرتکب ہوں کہ مستقبل میں کسی بھی وقت انہیں ان حرکات کی وجہ سے نچایا جاسکے۔ جنگوں میں کتنے سویلین مرے، کتنے افراد بے گھر ہوئے یا کتنے صحافی مارے گئے یا قید ہوئے، یہ بڑی طاقتوں کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ ان کے اعداد و شمار اپنے پاس جمع کرنا اور بوقت ضرورت انہیں استعمال کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے۔
ان بڑی طاقتوں کے صدور اور سربراہان بڑے لچھے دار اور پرکشش بیان جاری کرتے ہیں جیسے کہ جارج ڈبلیو بش نے اپنی دوسری بار صدر بننے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری سرزمین کی آزادی کا قائم رہنا دوسری سرزمینوں کی آزادی سے مشروط ہے اور اسی نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔
صدر بارک اوباما نے ظلم روکنے کا بوڑڈ قائم کیا، جس کا نام اٹراسٹیز پریوینشن بورڈ تھا۔ مگر شام میں اور جنوبی سوڈان میں گھرے لوگ جو ظلم کا شکار تھے اس بورڈ کو کبھی نظر نہ آئے۔
اپنی پالیسی آگے بڑھانے اور اپنے مفادات کے تحفظ کےلیے مظالم سے چشم پوشی کرنا خود ایک پالیسی بن چکا ہے۔ بڑے بڑے اصولوں کے بھاشن دینا اور جب اپنا مفاد سامنے آئے تو اسی اصول سے صرف نظر کرلینا یا یوٹرن لے لینا آج کل ہی نہیں عرصہ دراز سے ممالک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا اہم جز رہے ہیں۔
ابھی حال ہی کے فلسطینی حالات کو دیکھیں تو یہ پالیسی واضح طور پر سمجھ میں آجاتی ہے، بلکہ ایک دفعہ پھر اس کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ طاقتور کا مفاد ہی اصل میں اس کی پالیسی اور اصول ہوتا ہے۔ باقی کتابی اصولوں کو وہ صرف دوسروں کو بلیک میل کرنے کےلیے استعمال کرتا ہے۔
مظالم سے چشم پوشی اب بھی اتنی ہی شدت سے جاری ہے، جتنی کہ یہ پہلے تھی۔ سعودی عرب سے یمنی اسکول بس پر بمباری ہوجائے یا صدر بشارالاسد اسپتالوں پر حملے کروائے یا اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر حملے کرکے ان کے گھر، اسکول، اسپتال سب کچھ تباہ کررہا ہو، یہ چشم پوشی جاری ہے۔ اس چشم پوشی اور نظرانداز کرنے کی پالیسی کی وجہ سے معصوم انسانی جانوں کا نقصان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ آرمڈ کونفلیکٹ اینڈ ایونٹ ڈیٹا پروجیکٹ کے مطابق 2016 سے لے کر 2020 کے درمیان سینتیس ہزار سویلین مارے گئے۔ کوئی 80 ملین لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اسپتالوں پر حملے بھی بڑھ گئے ہیں اور امدادی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو جان سے مارنے کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ مگر صاحبان اقتدار کی ذاتی مفاد پر مبنی چشم پوشی جاری رہی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔