انتشار

اقوام متحدہ امریکی حکومت کی مرضی کے خلاف نہیں جاسکتی وہ وہی کرے گی جس کا امریکا اسے حکم دے گا۔

usmandamohi@yahoo.com

ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ جو رویہ اختیارکیا تھا اب لگتا ہے وہ غلط نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ قوم شروع سے ہی خدا کے عذاب کا شکار رہی ہے۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ یہ نبیوں تک کو قتل کراتے رہے اور خدا کے احکامات کے خلاف عمل پیرا رہے ہیں۔

اسی قوم نے حضرت عیسیٰؑ کو سولی پر چڑھوایا تھا۔ حیرت ہے کہ آج طاقتور عیسائی ممالک ان کے ہمدرد اور طرف دار بنے ہوئے ہیں مگر یہودی محض اپنے مفاد کی خاطر ان کے خدمت گار بنے ہوئے ہیں۔ اس قوم نے کبھی کسی سے وفا نہیں کی ، یہ کمزوروں پر ظلم کرتے رہے اور طاقتور کے آگے جھکتے رہے۔

پہلی جنگ عظیم سے قبل تک ان کا اپنا کوئی ملک نہیں تھا یہ در در مارے پھر رہے تھے پھر انھوں نے مغربی ممالک کی خدمت گزاری کر کے اور دونوں عالمی جنگوں میں مغربی ممالک کے لیے مخبر کا کردار ادا کرکے ان کے دلوں کو جیت لیا اور جس کے انعام کے طور پر اسرائیل جیسی متنازعہ ریاست حاصل کر لی مگر یہ کسی طرح بھی مستقل ریاست نہیں ہے۔ اس لیے کہ ابھی تک اس کی سرحدوں کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی خنجر نما ریاست دراصل عرب کیا عالم اسلام کے سینے میں خنجرکی طرح چبھو دی گئی ہے۔

افسوس کہ عربوں نے اسے اکھاڑ پھینکنے کے بجائے امریکا بہادر کے خوف سے خوب پنپنے کا موقعہ میسر کر دیا ہے۔ آج اس ریاست کی طاقت کا یہ حال ہے کہ اس کے خوف کی وجہ سے کئی عرب ممالک اس ناجائز ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں اور کچھ اسے تسلیم کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔

ٹرمپ اگر دوبارہ الیکشن جیت جاتا تو یقیناً وہ اپنی ڈراؤنی ڈپلومیسی کے ذریعے دیگر عرب ریاستوں کو بھی اسرائیل کے قدموں میں ڈال دیتا۔ اسرائیل نے ابھی بھی اپنے مسلم کش ایجنڈے سے دست برداری اختیار نہیں کی ہے بلکہ اب وہ پہلے سے زیادہ خون خوار ہو گیا ہے ۔

بعض مسلم ممالک نے بڑے فخر سے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا کہ امریکا اسے F-35 جہاز دے دے گا مگر کیا ہوا نہ جہاز ملے نہ تجارت بڑھی اور نہ ہی سیاحت کو فروغ حاصل ہوا بلکہ پوری ریاست یہودی جاسوسوں کی آماج گاہ بن گئی ہے۔ وہاں کے عوام اسرائیل کو تسلیم کرنے سے سخت پریشان ہیں ، اس لیے کہ انھیں مالی فوائد کے عوض فلسطینیوں سے غداری ہرگز قبول نہیں ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان فلسطینیوں پر اسرائیل کی بربریت پر سخت غم و غصے میں ہیں مگر مسلم حکمرانوں کا رویہ عوام سے بہت مختلف ہے۔ وہ اپنی کرسی بچانے کے لیے امریکا کی خیر خواہی سے دست بردار نہیں ہوسکتے جب کہ امریکا کے نزدیک اسرائیل کے آگے کسی مسلم ملک کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس وقت اسرائیل کے غزہ میں فضائی حملوں سے سیکڑوں فلسطینی مرد ، عورتیں اور بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔

او آئی سی سے لے کر عرب لیگ تک اقوام متحدہ سے اسرائیل کو حملوں سے باز رہنے کے لیے درخواست کر رہے ہیں مگر اقوام متحدہ امریکی حکومت کی مرضی کے خلاف نہیں جاسکتی وہ وہی کرے گی جس کا امریکا اسے حکم دے گا۔ اس وقت مسلمانوں کے حقیقی ہمدرد کے طور پر چین اور روس سامنے آئے ہیں ، انھوں نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف متفقہ قرارداد کو امریکا کی جانب سے ویٹوکرنے کی سخت مذمت کی ہے ، انھوں نے امریکا کو انسانی حقوق کا قاتل قرار دیا ہے ، صدر پیوٹن نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ سے دور رہے۔

امریکا اگر چاہتا تو اسرائیل فوراً ہی غزہ پر فضائی حملے روک دیتا مگر لگتا ہے امریکا کی جانب سے اسے فلسطینیوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ نیتن یاہو نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہٹلر سے زیادہ ظالم و جابر ہے اور مودی سے بھی بڑا مسلمانوں کا دشمن ہے۔ تاہم وہ فلسطینیوں کا قتل عام ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کر رہا ہے۔ اس میں سیاسی حکمت عملی شامل ہے۔ وہ ایک کرپٹ سیاستدان ہے اس پر کرپشن کے کئی مقدمات چل رہے ہیں اور اس کی کرپشن ثابت بھی ہو چکی ہے۔

اس کی عوام میں مقبولیت اتنی کم ہو گئی ہے ، حالیہ الیکشن میں وہ اسمبلی میں مطلوبہ نشستیں حاصل نہیں کرسکا۔ اب وہ فلسطینیوں کا قتل عام کرکے اپنے عوام کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر پھر سے الیکشن ہوا تو اسرائیلی عوام اسے اپنا نجات دہندہ خیال کرکے اسے بڑی اکثریت سے کامیاب کرا سکتے ہیں۔

او آئی سی اسرائیل کے خلاف ایک نئی قرارداد پاس کرچکی ہے مگر اس کی قراردادوں کا نہ پہلے کوئی اثر دکھائی دیا نہ اس دفعہ کچھ ہونے والا ہے۔ اس لیے کہ یہ تنظیم اب بے اثر ہو چکی ہے۔ اس میں شامل کئی مسلم ممالک اب اسرائیل سے اپنا رشتہ استوار کرنے کے لیے بے چین ہیں ، چنانچہ فلسطینیوں کے لیے ان کی ہمدردی محض دکھاوا لگتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کئی مسلم ملک فلسطین ہی کیا اب وہ مسلمانوں کے تمام ہی مسائل سے بے زار ہیں ، ان مسائل میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے صد افسوس کہ وہ اب کشمیریوں کو بھی بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب مسئلہ فلسطین ان کے لیے کچھ نہیں ہے تو وہ مسئلہ کشمیر کو کیا اہمیت دے سکتے ہیں۔ اب ان کے لیے اسرائیل اور بھارت معتبر بن چکے ہیں اس لیے کہ ان سے ان کے مالی مفادات وابستہ ہیں۔

ہمارے حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ وہ فلسطینیوں کے لیے جاری کی گئی قرارداد میں کشمیریوں کی بھی حالت زار کا ذکر بھی شامل کرا دیتے لیکن ہم میں اتنی ہمت کہاں کہ ان کے سامنے اپنی زبان کھول سکیں اس لیے کہ وہ ہمارے ان داتا ہیں لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اگر مودی کی فیور کر رہے ہیں اور کشمیر کو مسلم امہ کا مسئلہ نہیں مان رہے تو ہم خود بھی کشمیریوں کے کاز سے کتنے مخلص ہیں؟
Load Next Story