ایس او پیز کی آڑ میں سندھ حکومت کی ’’کورونا گردی‘‘

افواہ گرم ہے کہ کورونا ایس او پیز کی آڑ میں سندھ پولیس کو کراچی سے 11 ارب روپے بھتہ وصول کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے

اگر آپ پولیس کی مٹھی گرم کرسکتے ہیں تو کورونا لاک ڈاؤن آپ کے لیے نہیں ہے۔ (فوٹو: فائل)

لیجئے جناب! حکومت سندھ نے ایک بار پھر پورے صوبے میں رات 8 بجے کے بعد شہریوں کے گھروں سے غیر ضروری نکلنے پر پابندی عائد کردی ہے۔

جب سے کورونا وائرس کا پاکستان میں ''ظہور'' ہوا ہے، عوام کی ''خیرخواہ'' سندھ حکومت نے بہت زیادہ ہی پھرتیاں دکھائی ہیں۔ سال گزشتہ جب پورے ملک میں بشمول وفاقی حکومت کی لاک ڈاؤن مخالفت جاری تھی، سندھ حکومت اس وقت بھی بارہا مکمل لاک ڈاؤن پر زور دیتی رہی۔ اور بالآخر پورے ملک میں ہی مکمل لاک ڈاؤن نافذ ہوگیا۔ اس لاک ڈاؤن کی اذیت صرف غریب اور متوسط طبقے کو ہی اٹھانا پڑی، اس لیے ہمارے ارباب اختیار مکمل ''سکون'' میں رہے کہ آئندہ بھی کبھی کورونا حملے کا زور ہوا تو لاک ڈاؤن کرکے جان چھڑا لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا کی تیسری لہر کے آتے ہی دوبارہ لاک ڈاؤن کی باتیں شروع ہوگئیں۔

مانا کہ لاک ڈاؤن اس وبا کے تشویشناک حد تک پھیلاؤ کو روکنے میں معاون ہوگا۔ لیکن کیا لاک ڈاؤن ہی واحد حل ہے؟ عوام کی بے احتیاطی اور کورونا کے معاملے میں غیر سنجیدگی اگر حالات کو کشیدہ کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں تو کیا لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی باقاعدہ پلان ترتیب نہ دینے پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں قصوروار نہیں ہیں؟

بظاہر تو سندھ حکومت لاک ڈاؤن کرکے عوام کی خیر خواہ نظر آرہی ہے لیکن کیا حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے؟ ابھی پاکستانیوں کےلیے سب سے ''نفع بخش'' اور ''کاروباری'' مہینے کا اختتام ہوا ہے، جس کے اختتامی عشرے میں سندھ حکومت نے بے جا پابندیاں عائد کرکے تاجروں کے پیٹ پر لات مارنے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن اس دوران اگر دیکھا جائے تو لاک ڈاؤن اور پابندیوں کی آڑ میں حکومت سندھ کی پروردہ سندھ پولیس نے خوب پھرتیاں دکھاتے ہوئے اپنا کاروبار چمکایا۔

سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز وائرل ہوئیں جس میں کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر عوام اور دکانداروں کے خلاف ایکشن میں نظر آنے والی سندھ پولیس خود ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتی نظر آئی۔ یہاں تک کہ کئی دکانداروں کا پولیس سے اس بات پر جھگڑا رہا کہ خود پولیس والوں کا ماسک کہاں ہے۔

دوسری جانب یہ مزاحیہ پوسٹیں بھی گردش کرتی رہیں کہ اگر آپ پولیس کی مٹھی گرم کرسکتے ہیں تو کورونا لاک ڈاؤن میں بھی کاروبار جاری رکھ سکتے ہیں۔

لیکن اس تناظر میں کراچی کے طول وعرض سے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کے بھتے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔یہاں تک کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی کے نام پر یہ بھتہ چھوٹے چھوٹے پتھارے داروں، ٹھیلے والوں، یا آلو چھولے، سموسے بیچنے والے پھیری والوں سے بھی وصول کیا جارہا ہے۔ جو بے چارے اتنے سخت حالات میں بھی اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کےلیے حلال کمانے نکلنے ہوئے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ مختلف علاقوں کے دکاندار ہفتہ یا ماہانہ بنیاد پر پولیس کو بھتہ دے رہے ہیں تاکہ اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم جرمانے کی مد میں وصول نہیں کی جارہی کہ اس کا کوئی ریکارڈ ہو، بلکہ یہ وہی ''روایتی بھتہ'' ہے جو ایک جیب سے دوسری جیب میں منتقل ہوجاتا ہے اور ''کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا''۔


جذبات میں قلم بھی نجانے کہاں کہاں بھٹک جاتا ہے، بات ہورہی تھی سندھ حکومت کے حالیہ فیصلے کی، جس کی تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے کورونا وائرس کی صوبائی ٹاسک فورس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کےلیے سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ (گویا اب تک تو عوام پر پھول برسائے جارہے تھے)۔ صوبائی حکومت نے صوبہ سندھ میں 25 مئی کی رات 8 بجے کے بعد شہریوں کے گھروں سے غیر ضروری نکلنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی پولیس کو ہدایت جاری کی ہے کہ شہریوں کو غیر ضروری طور پر گاڑیوں میں گھومنے سے بھی روکا جائے۔ جب کہ پارکس کی لائٹس بھی مغرب کے بعد بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اب ذرا ایک اور لطیفہ دیکھئے۔ محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق کراچی سمیت سندھ میں کاروباری اوقات صبح 5 بجے سے شام 6 بجے ہوں گے۔ ڈپارٹمنٹل اور سپر اسٹورز شام 6 بجے تک، تاہم بیکری اور دودھ کی دکانیں رات 12 بجے تک کھلی رہیں گی۔
اب بھلا بتائیے کہ کون سے شہر یا گاؤں میں کاروباری مراکز صبح 5 بجے کھل جاتے ہیں۔ اور جب شہریوں کا رات آٹھ بجے کے بعد گھر سے نکلنا بند ہے تو رات 12 بجے تک کھلنے والی ان بیکریوں اور دودھ کی دکانوں پر کیا جنات خریداری کرنے جائیں گے۔ جب کہ ریسٹورینٹس اور ہوٹلز پر اِن ڈور ڈائننگ پر پابندی اور صرف ٹیک اوے کی اجازت اور آن لائن ڈلیوری بھی اسی زمرے میں آتی ہے کہ اس طرح متضاد پابندیوں پر کیا سنجیدگی سے عمل پیرا ہوا جاسکے گا؟ ٹیک اوے لینے والے شہری یا آن لائن ڈیلیوری پہنچانے والے کیا انسان نہیں ہوں گے؟ کیا یہ عوامل سندھ پولیس کی ''کمائی'' کو مزید مہمیز نہ دیں گے؟

سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والے بڑے بے باک ہیں اور جس بے خوفی سے حکومتوں اور ''اداروں'' کی ناقص پالیسیوں، کج رویوں اور متضاد قوانین کے بخیے ادھیڑتے ہیں، ہم صحافی تو شاید مروت میں کبھی کر بھی نہ پائیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ سوشل میڈیا صارفین اس بات پر ٹھٹھے مار رہے ہیں کہ یہ کون سا کورونا ہے جو صرف رات کے آٹھ بجے چہل قدمی کےلیے نکلے گا جس کےلیے شہریوں کو گھروں میں محصور کیا جارہا ہے کہ ''با ادب باملاحظہ ہوشیار، ظل سبحانی کورونا سلامت شہر کے دورے پر تشریف لاتے ہیں''۔ مزے کی بات یہ ہے ہفتے کے پانچوں دن، صبح سے شام کے اوقات میں محو استراحت کورونا صاحب ہفتہ اور اتوار کو مکمل متحرک رہیں گے، اس لیے ہفتہ اور اتوار کو تو شہریوں کو مکمل نظر بند ہی سمجھئے۔

سوچنے کی بات ہے کہ کیا سندھ حکومت نے کورونا کی کوئی ایسی کِل پکڑ لی ہے کہ یہ حضرت سورج ڈھلنے کے بعد ہی متحرک ہوتے ہیں، پورے دن کورونا اضمحلال کا شکار ہوتا ہے اس لیے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرپاتا۔ اور تو اور ہفتہ اتوار کورونا کی تفریح کے خاص دن ہیں، جن پر عوام پر لازمی پابندی ہونی چاہیے۔

سندھ حکومت کے یہ لایعنی اور مضحکہ خیز فیصلے جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس بات سے تو انکار کیا ہی نہیں جاسکتا کہ لاک ڈاؤن یا تو مکمل ہو یا پھر نہ ہو۔ کیونکہ کورونا کا پھیلاؤ کسی ایک وقت سے مخصوص نہیں ہے۔ جتنا کورونا دن کے اوقات میں خطرناک ہے اتنا ہی رات کو بھی متاثر کن ہے۔ اگر لاک ڈاؤن لگانا ہی ہے تو مکمل لگایا جائے۔ رات کے وقت سختی کرنے کی وجہ سمجھ سے باہر ہے کیونکہ اس وقت تو شرفا ویسے ہی اپنے اپنے گھروں میں ہوتے ہیں، لیکن دن کا وہ غالب حصہ جب سب لوگ اپنے کام کاج پر روانہ ہوں، بازاروں میں بغیر احتیاطی تدابیر شاپنگ کررہے ہوں، پبلک ٹرانسپورٹ میں گنجائش سے زیادہ بھر کر سفر کررہے ہوں، ایسے حالات میں کورونا کے پھیلنے کے خدشات سو فیصد بڑھ جاتے ہیں۔ سندھ حکومت فیصلے تو کر رہی ہے لیکن معذرت کے ساتھ کہ ان فیصلوں کی آڑ میں سندھ پولیس کو ''کمائی'' کا مزید موقع فراہم کیا جارہا ہے، عوام کی فلاح مدنظر نہیں رکھی جارہی۔

سندھ حکومت کے لایعنی فیصلوں اور سندھ پولیس کے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے کئی واقعات ابھی باقی ہیں، لیکن بلاگ کی طوالت کے پیش نظر پھر کبھی سہی۔ بس اس بات پر بلاگ کا اختتام کرتے ہیں کہ کورونا پاکستانی عوام کو متاثر کرے یا نہ کرے، لیکن لگتا یونہی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ''کورونا گردی'' عوام کو نہیں چھوڑے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story