جمہوری بادشاہی سے شہنشاہیت تک
ملک میں کہنے کو جمہوریت ہے جس سے آمریت بھی شرمندہ ہوگی۔
نادر شاہی کام ملک میں پہلی بار نہیں ہو رہے بلکہ ماضی کے ستر سالوں سے یہی ہوتا آ رہا ہے۔ ہر دور میں حکمرانوں کے چہرے ضرور بدلتے رہے مگر اطوار یہی چلے آ رہے ہیں۔ ملک کی بدقسمتی تھی کہ ملک کا بانی اور قوم کا قائد صرف ایک سال بعد ہی ہم سے جدا ہو گیا تھا اور ملک میں جمہوریت کی بنیاد بھی نہ ڈالی جا سکی تھی۔
1956ء میں عوامی حکمرانوں نے جمہوریت کے لیے ایک آئین بنایا تھا جسے 1958 میں غیر عوامی حکمران نے منسوخ کردیا تھا۔ ان کے دس سالوں میں ملک مستحکم تھا جس نے ترقی بھی کی تھی مگر وہ غیر جمہوری دور میں ہونے والی واحد حقیقی ترقی تھی۔ اس غیر عوامی حکمران کے وزیر خارجہ نے 1967 میں جمہوریت کا نعرہ لگایا اور اس نے اپنی پارٹی بنا کر 1970 کے عام انتخابات میں سندھ اور پنجاب میں اکثریت حاصل کی تھی مگر مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت لینے والے کو جمہوریت کے مطابق اقتدار منتقل نہیں ہونے دیا گیا بلکہ ملک کا دولخت ہونا گوارا کرلیا گیا۔
قائد اعظم کے ملک کے دو ملک بن جانے کے بعد 1973 میں متفقہ سیاسی حمایت سے ملک کو جمہوریت کے نام پر آئین تو دیا گیا مگر جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط رکھی گئی۔ مخالف سیاستدانوں سے انتقام لینے، ان کی تذلیل کے باوجود جمہوری کہلانے والے منتخب وزیر اعظم بادشاہ نہیں بنے اور انھوں نے اپنی ضرورت پر اپنے سیاسی مخالفین پر اپنے دروازے بند نہیں کیے تھے۔
دس سال اقتدار میں رہنے والے غیر جمہوری حکمران نے بھی اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات ضرورکیے تھے جن کے کامیاب نہ ہونے پر وہ اقتدار دوسرے جنرل کو دے کر گھر چلے گئے تھے مگر اپنے اقتدارکے آغاز پر انھوں نے متحدہ پاکستان کو ایک بنیادی جمہوریت کا نظام ضرور دیا تھا۔ ان کے بعد آنے والے دو غیر جمہوری حکمرانوں نے اپنے مفاد کے لیے ہی سہی مگر نچلی سطح پر اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق 5 بار دیا اور انتخابات کے ذریعے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرائے تھے جو جمہوریت کی حقیقی بنیاد قرار دیے جاتے ہیں اور آج ملک کی متعدد اہم سیاسی شخصیات بلدیاتی انتخابات کے نتیجے ہی میں آج سیاست میں اہمیت کی حامل ہیں۔
دوسرے غیر جمہوری حکمران گیارہ سال اور آخریغیر جمہوری صدر نو سال اقتدار میں رہے مگر ان کے ادوار میں مخالف سیاستدانوں کو رگڑے ضرور لگے مگر بعد کے 24 سالوں میں جمہوریت کے نام پر باری باری اقتدار میں رہنے والوں کے ساتھ موجودہ شہنشاہیت میں جو سلوک ہو رہا ہے اس کا انھوں نے اپنے جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والے بادشاہی ادوار میں بھی نہیں سوچا ہوگا جو ان پر پونے 3 سالوں پر گزری ہے اور شہنشاہ معظم کا رویہ ان کے ساتھ غیر جمہوریصدور سے بھی بدتر ہے اور وہ اپنے مخالف سیاستدانوں سے ملنا کو تیار نہیں ہیں اور اسی جمہوری پارلیمنٹ میں بھی نہیں آتے جہاں ملک ہی نہیں بلکہ فلسطین جیسے اہم مسئلے پر ان کی موجودگی ضروری تھی۔
ماضی میں تین بار وزیر اعظم کی شکل میں ملک میں ساڑھے نو سال تک بادشاہت برقرار رکھنے والے اسی وجہ سے ملک سے باہر ہیں۔ اقتدار میں انھیں بھی پارلیمنٹ صرف ضرورت پر یاد آتی تھی اور وہ اپنی کچن کیبنٹ کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے مگر پھر بھی وہ کسی اہم موقع پر اپنے مخالف سیاسی رہنماؤں سے اے پی سی بلا کر ضرور مل لیتے تھے مگر پونے 3 سال سے ملک میں قائم جمہوری شہنشاہیت میں اپوزیشن کا وہ حشر کیا گیا ہے کہ جمہوریت بھی شرما گئی ہے کیونکہ اس کے نام پر ملک میں صرف ایماندار شہنشاہ نے اپنوں کو نوازا ہے یا اپوزیشن کو اپنے کیے گئے انتقام کا نشانہ بنایا ہے۔
انھوں نے اپنے مخالفین ہی نہیں میڈیا کو بھی وہ رگڑا دیا ہے کہ اقتدار سے قبل ان کی واہ واہ کرنے والا میڈیا بھی کراہ رہا ہے۔ ماضی کی بادشاہت میں پارلیمنٹ کی کچھ تو اہمیت تھی مگر شہنشاہیت میں وہ بھی باقی نہیں رہی۔
ملک میں کہنے کو جمہوریت ہے جس سے آمریت بھی شرمندہ ہوگی۔ اس نام نہاد جمہوریت میں یہ ضرور ہوا ہے کہ اپوزیشن کو این آر او نہ دینے کے بار بار اعلان کرنے والے شہنشاہ کو اپنی ہی پارٹی کے ایک گروپ سے معاملات طے کرنا پڑگئے ہیں کیونکہ اس نام نہاد جمہوریت میں بھی بجٹ اسمبلیوں سے ہی منظور کرنے کی مجبوری ہے جو شہنشاہیت خود منظور نہیں کرسکتی اور یہی جمہوریت آمریت سے بہتر قرار دی جاتی ہے۔
1956ء میں عوامی حکمرانوں نے جمہوریت کے لیے ایک آئین بنایا تھا جسے 1958 میں غیر عوامی حکمران نے منسوخ کردیا تھا۔ ان کے دس سالوں میں ملک مستحکم تھا جس نے ترقی بھی کی تھی مگر وہ غیر جمہوری دور میں ہونے والی واحد حقیقی ترقی تھی۔ اس غیر عوامی حکمران کے وزیر خارجہ نے 1967 میں جمہوریت کا نعرہ لگایا اور اس نے اپنی پارٹی بنا کر 1970 کے عام انتخابات میں سندھ اور پنجاب میں اکثریت حاصل کی تھی مگر مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت لینے والے کو جمہوریت کے مطابق اقتدار منتقل نہیں ہونے دیا گیا بلکہ ملک کا دولخت ہونا گوارا کرلیا گیا۔
قائد اعظم کے ملک کے دو ملک بن جانے کے بعد 1973 میں متفقہ سیاسی حمایت سے ملک کو جمہوریت کے نام پر آئین تو دیا گیا مگر جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط رکھی گئی۔ مخالف سیاستدانوں سے انتقام لینے، ان کی تذلیل کے باوجود جمہوری کہلانے والے منتخب وزیر اعظم بادشاہ نہیں بنے اور انھوں نے اپنی ضرورت پر اپنے سیاسی مخالفین پر اپنے دروازے بند نہیں کیے تھے۔
دس سال اقتدار میں رہنے والے غیر جمہوری حکمران نے بھی اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات ضرورکیے تھے جن کے کامیاب نہ ہونے پر وہ اقتدار دوسرے جنرل کو دے کر گھر چلے گئے تھے مگر اپنے اقتدارکے آغاز پر انھوں نے متحدہ پاکستان کو ایک بنیادی جمہوریت کا نظام ضرور دیا تھا۔ ان کے بعد آنے والے دو غیر جمہوری حکمرانوں نے اپنے مفاد کے لیے ہی سہی مگر نچلی سطح پر اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق 5 بار دیا اور انتخابات کے ذریعے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرائے تھے جو جمہوریت کی حقیقی بنیاد قرار دیے جاتے ہیں اور آج ملک کی متعدد اہم سیاسی شخصیات بلدیاتی انتخابات کے نتیجے ہی میں آج سیاست میں اہمیت کی حامل ہیں۔
دوسرے غیر جمہوری حکمران گیارہ سال اور آخریغیر جمہوری صدر نو سال اقتدار میں رہے مگر ان کے ادوار میں مخالف سیاستدانوں کو رگڑے ضرور لگے مگر بعد کے 24 سالوں میں جمہوریت کے نام پر باری باری اقتدار میں رہنے والوں کے ساتھ موجودہ شہنشاہیت میں جو سلوک ہو رہا ہے اس کا انھوں نے اپنے جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والے بادشاہی ادوار میں بھی نہیں سوچا ہوگا جو ان پر پونے 3 سالوں پر گزری ہے اور شہنشاہ معظم کا رویہ ان کے ساتھ غیر جمہوریصدور سے بھی بدتر ہے اور وہ اپنے مخالف سیاستدانوں سے ملنا کو تیار نہیں ہیں اور اسی جمہوری پارلیمنٹ میں بھی نہیں آتے جہاں ملک ہی نہیں بلکہ فلسطین جیسے اہم مسئلے پر ان کی موجودگی ضروری تھی۔
ماضی میں تین بار وزیر اعظم کی شکل میں ملک میں ساڑھے نو سال تک بادشاہت برقرار رکھنے والے اسی وجہ سے ملک سے باہر ہیں۔ اقتدار میں انھیں بھی پارلیمنٹ صرف ضرورت پر یاد آتی تھی اور وہ اپنی کچن کیبنٹ کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے مگر پھر بھی وہ کسی اہم موقع پر اپنے مخالف سیاسی رہنماؤں سے اے پی سی بلا کر ضرور مل لیتے تھے مگر پونے 3 سال سے ملک میں قائم جمہوری شہنشاہیت میں اپوزیشن کا وہ حشر کیا گیا ہے کہ جمہوریت بھی شرما گئی ہے کیونکہ اس کے نام پر ملک میں صرف ایماندار شہنشاہ نے اپنوں کو نوازا ہے یا اپوزیشن کو اپنے کیے گئے انتقام کا نشانہ بنایا ہے۔
انھوں نے اپنے مخالفین ہی نہیں میڈیا کو بھی وہ رگڑا دیا ہے کہ اقتدار سے قبل ان کی واہ واہ کرنے والا میڈیا بھی کراہ رہا ہے۔ ماضی کی بادشاہت میں پارلیمنٹ کی کچھ تو اہمیت تھی مگر شہنشاہیت میں وہ بھی باقی نہیں رہی۔
ملک میں کہنے کو جمہوریت ہے جس سے آمریت بھی شرمندہ ہوگی۔ اس نام نہاد جمہوریت میں یہ ضرور ہوا ہے کہ اپوزیشن کو این آر او نہ دینے کے بار بار اعلان کرنے والے شہنشاہ کو اپنی ہی پارٹی کے ایک گروپ سے معاملات طے کرنا پڑگئے ہیں کیونکہ اس نام نہاد جمہوریت میں بھی بجٹ اسمبلیوں سے ہی منظور کرنے کی مجبوری ہے جو شہنشاہیت خود منظور نہیں کرسکتی اور یہی جمہوریت آمریت سے بہتر قرار دی جاتی ہے۔