معاشی ترقی پر خوشی منائیے مگر
حکومت چاہے زرداری کی ہو، میاں صاحبان کی ہو یا پھر غریب عوام کے ہمدرد عمران خان کی، یہ لوگ ہر دور میں فائدے میں ہی رہے
میراثی نے خوشی خوشی اپنی ماں کو آکر بتایا کہ ماں چوہدری کا بھائی فوت ہوگیا ہے۔ ماں نے افسوس کا اظہار کیا اور دعائے مغفرت کی۔ کچھ دن کے بعد میراثی نے چوہدری کے ایک اور قریبی عزیز کے فوت ہونے کی اطلاع ماں کو دی۔ ماں نے پھر یہی عمل دہرایا۔ مزید کچھ دن کے بعد پھر ایسی ہی اطلاع دی۔ ماں نے تنگ آکر کہا کہ بیٹا اگر چوہدری کا پورا خاندان بھی فوت ہوجائے تو پھر بھی تم چوہدری نہیں بن سکتے۔ یہ لطیفہ ہے یا حکایت مگر یہ موجودہ حکومت کے موجودہ معاشی ترقی کے دعوے پر خوش ہونے والوں پر صادق آتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیز میں ہر طرف غربت، بھوک، افلاس، مہنگائی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، پی ٹی آئی سرکار کا دعوی ہے کہ معیشت 4 فیصد کے حساب سے ترقی کرے گی۔ اگرچہ اپوزیشن کو حکومت کے اس دعوے میں صداقت نظر نہیں آتی، لیکن اگر کچھ دیر کےلیے ہم اس دعوے کو درست مان بھی لیں تو جب تک عام آدمی تک اس ترقی کے ثمرات نہیں پہنچیں گے تو معاشی ترقی 4 کے بجائے 8 فیصد ہی کیوں نہ ہوجائے تو پھر بھی بقول جالب ''دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے'' خواص کی حالت تو بدل جائے گی، لیکن عوام حسب روایت مسیحا کے منتظر رہیں گے۔
کیونکہ 2008 میں مجموعی قرض 6000 ارب تھا، جو 2013 تک 13500 ارب، 2018 میں 25000 ارب اور 2020 تک 36000 ارب تک پہنچ گیا۔ یعنی ہر آنے والی حکومت عوام کےلیے معاشی بدحالی کی ایک نئی تاریخ رقم کرتی چلی گئی۔ ایسا شاید ہی کبھی ہوا کہ عوام کا معیار زندگی پستی کی جانب گیا ہو اور حکومت کی کامیاب معاشی پالیسی کی بدولت اس میں بہتری آئی ہو۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ خواص کے اثاثے، ان کا معیار زندگی ہر دور میں ترقی کی جانب گامزن رہا۔ حکومت چاہے زرداری کی ہو، میاں صاحبان کی ہو یا پھر غریب عوام کے ہمدرد عمران خان کی، یہ لوگ ہر دور میں فائدے میں ہی رہے۔ ان کے گنے کی ایک ٹرالی بھی نہیں رکی۔ (یاد رہے کہ جب میاں صاحبان جدہ میں جلاوطن تھے اور کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان سے آنے والے فون تک نہیں سنتے تھے، وطن عزیز سے اس قدر رابطے منقطع ہونے کے باوجود ان کے کارخانے پوری طرح کام کررہے تھے) اور بقول ترین صاحب جس قدر سبسڈی مجھے موجودہ حکومت نے دی، اس سے زیادہ تو میں نے گزشتہ حکومت سے حاصل کی تھی۔ یعنی آپ اندازہ کیجئے ایک جانب ترین صاحب دھرنوں کے ذریعے گزشتہ حکومت کا تراہ نکال رہے تھے، دوسری جانب سبسڈی لے رہے تھے۔
غور طلب امر یہ ہے جب ہر حکومت اپنا اور اپنے چاہنے والوں کا ہی بھلا چاہے تو عام آدمی کیا کرے؟ میرے جیسے عام آدمی کےلیے ضروری ہے کہ اب جبکہ میڈیا کی آزادی، معلومات کی فراوانی کی بدولت یہ معلوم ہوچکا ہے کہ حکومت بدلے یا حکومتیں بدلیں، اس کے حالات نہیں بدلنے والے، ایسے میں ہمیں خود میدان عمل میں نکلنا ہوگا۔ ہمیں حکومتوں سے توقع چھوڑ کر اپنی معاشی حالت کو سادگی، کفایت شعاری، ذرائع آمدن کی بڑھوتری کو اپناتے ہوئے بہتر کرنا ہوگا۔ اگر کسی جنس کی قلت پیدا ہوجائے تو بجائے اسے زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کے اس کا استعمال ترک یا کم سے کم کردیا جائے۔ آج ہماری حالت الٹ ہے، بازار میں کسی جنس کی قلت ہوجائے تو عوام کی کوشش ہوتی ہے کہ آنے والی نسلوں کےلیے بھی اسے جمع کرلیا جائے۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال آٹے کی قلت پیدا ہوئی تو حکومت نے ٹرکوں کے ذریعے آٹا سپلائی کرکے آٹے کی قلت دور کرنے کی کوشش کی۔ مگر قلت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میں نے جب اس سلسلے میں حاجی صاحب سے پوچھا، جو گزشتہ 40 سال سے آٹا فروخت کررہے ہیں تو انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ بیٹا جی یہ لوگ کورونا سے بچ جائیں گے لیکن آٹے کے نیچے دب کر مر جائیں گے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ بحثیت مجموعی ہمارا تقریباً ہر جنس کے بارے میں یہی رویہ ہے۔
اور آخری بات کہ زیر نظر تحریر کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ حکومتی خوشخبریوں پر یقین نہ کریں۔ حکومت کی بات پر یقین کیجئے، حکومت کو سپورٹ کیجئے، حکومت کے خلاف کسی قسم کے پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیے، بغیر تحقیق و تصدیق کے کچھ بھی نہ پھیلائیے، مگر ماضی اور حال سے سیکھتے ہوئے اپنے اور اپنے اہل خانہ کی حالت زار سنوارنے کےلیے خود محنت کیجیے اور اس سلسلے میں دنیاوی طور پر جس شعبے میں ہیں، وہیں پر ایمانداری سے کام کرتے ہوئے ترقی کی راہیں تلاش کیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیز میں ہر طرف غربت، بھوک، افلاس، مہنگائی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، پی ٹی آئی سرکار کا دعوی ہے کہ معیشت 4 فیصد کے حساب سے ترقی کرے گی۔ اگرچہ اپوزیشن کو حکومت کے اس دعوے میں صداقت نظر نہیں آتی، لیکن اگر کچھ دیر کےلیے ہم اس دعوے کو درست مان بھی لیں تو جب تک عام آدمی تک اس ترقی کے ثمرات نہیں پہنچیں گے تو معاشی ترقی 4 کے بجائے 8 فیصد ہی کیوں نہ ہوجائے تو پھر بھی بقول جالب ''دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے'' خواص کی حالت تو بدل جائے گی، لیکن عوام حسب روایت مسیحا کے منتظر رہیں گے۔
کیونکہ 2008 میں مجموعی قرض 6000 ارب تھا، جو 2013 تک 13500 ارب، 2018 میں 25000 ارب اور 2020 تک 36000 ارب تک پہنچ گیا۔ یعنی ہر آنے والی حکومت عوام کےلیے معاشی بدحالی کی ایک نئی تاریخ رقم کرتی چلی گئی۔ ایسا شاید ہی کبھی ہوا کہ عوام کا معیار زندگی پستی کی جانب گیا ہو اور حکومت کی کامیاب معاشی پالیسی کی بدولت اس میں بہتری آئی ہو۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ خواص کے اثاثے، ان کا معیار زندگی ہر دور میں ترقی کی جانب گامزن رہا۔ حکومت چاہے زرداری کی ہو، میاں صاحبان کی ہو یا پھر غریب عوام کے ہمدرد عمران خان کی، یہ لوگ ہر دور میں فائدے میں ہی رہے۔ ان کے گنے کی ایک ٹرالی بھی نہیں رکی۔ (یاد رہے کہ جب میاں صاحبان جدہ میں جلاوطن تھے اور کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان سے آنے والے فون تک نہیں سنتے تھے، وطن عزیز سے اس قدر رابطے منقطع ہونے کے باوجود ان کے کارخانے پوری طرح کام کررہے تھے) اور بقول ترین صاحب جس قدر سبسڈی مجھے موجودہ حکومت نے دی، اس سے زیادہ تو میں نے گزشتہ حکومت سے حاصل کی تھی۔ یعنی آپ اندازہ کیجئے ایک جانب ترین صاحب دھرنوں کے ذریعے گزشتہ حکومت کا تراہ نکال رہے تھے، دوسری جانب سبسڈی لے رہے تھے۔
غور طلب امر یہ ہے جب ہر حکومت اپنا اور اپنے چاہنے والوں کا ہی بھلا چاہے تو عام آدمی کیا کرے؟ میرے جیسے عام آدمی کےلیے ضروری ہے کہ اب جبکہ میڈیا کی آزادی، معلومات کی فراوانی کی بدولت یہ معلوم ہوچکا ہے کہ حکومت بدلے یا حکومتیں بدلیں، اس کے حالات نہیں بدلنے والے، ایسے میں ہمیں خود میدان عمل میں نکلنا ہوگا۔ ہمیں حکومتوں سے توقع چھوڑ کر اپنی معاشی حالت کو سادگی، کفایت شعاری، ذرائع آمدن کی بڑھوتری کو اپناتے ہوئے بہتر کرنا ہوگا۔ اگر کسی جنس کی قلت پیدا ہوجائے تو بجائے اسے زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کے اس کا استعمال ترک یا کم سے کم کردیا جائے۔ آج ہماری حالت الٹ ہے، بازار میں کسی جنس کی قلت ہوجائے تو عوام کی کوشش ہوتی ہے کہ آنے والی نسلوں کےلیے بھی اسے جمع کرلیا جائے۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال آٹے کی قلت پیدا ہوئی تو حکومت نے ٹرکوں کے ذریعے آٹا سپلائی کرکے آٹے کی قلت دور کرنے کی کوشش کی۔ مگر قلت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میں نے جب اس سلسلے میں حاجی صاحب سے پوچھا، جو گزشتہ 40 سال سے آٹا فروخت کررہے ہیں تو انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ بیٹا جی یہ لوگ کورونا سے بچ جائیں گے لیکن آٹے کے نیچے دب کر مر جائیں گے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ بحثیت مجموعی ہمارا تقریباً ہر جنس کے بارے میں یہی رویہ ہے۔
اور آخری بات کہ زیر نظر تحریر کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ حکومتی خوشخبریوں پر یقین نہ کریں۔ حکومت کی بات پر یقین کیجئے، حکومت کو سپورٹ کیجئے، حکومت کے خلاف کسی قسم کے پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیے، بغیر تحقیق و تصدیق کے کچھ بھی نہ پھیلائیے، مگر ماضی اور حال سے سیکھتے ہوئے اپنے اور اپنے اہل خانہ کی حالت زار سنوارنے کےلیے خود محنت کیجیے اور اس سلسلے میں دنیاوی طور پر جس شعبے میں ہیں، وہیں پر ایمانداری سے کام کرتے ہوئے ترقی کی راہیں تلاش کیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔