تم کتنے بچے مارو گے

کس کس واقعہ کی یاد دہانی کراوں، ایک ہو تو بتاؤں، ہمارے یہاں تو بچے مفت ہیں۔ بڑوں کا خون تو ارزاں ہے ہی بچے توکوڑیوں۔۔۔

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

مجھے نواب شاہ اور مورو کے سنگم پر جاں بحق ہونے والے بچوں اور بڑوں پر پروگرام کرنا چاہیے تھا۔ نہ کر سکا، اس کا مجھے ہمیشہ رنج رہے گا۔ مجھے دولت پور اور اِس کے گرد و نواح میں بسنے والی چھوٹی بڑی قبریں اور اِن پر نوحہ خوانوں کے غم کو کیمرہ بند کرنا تھا نہ کر سکا، اس کا بوجھ میرے ضمیر پر ہمیشہ رہے گا۔

میں درجن سے زیادہ وجوہات سوچ سکتا ہوں جن کے باعث میں اس سانحہ کے مختلف پہلووں کا احاطہ کرنے سے قاصر رہا۔ جب یہ دردناک سانحہ پیش آیا میں اُس دن سوات میں تھا۔ واپس آ کر کراچی کی آخری پرواز ہمارے ہوائی نظام کی قابل رحم حالت کی نذر ہو گئی۔ صبح ڈیڑھ بجے منزل پر پہنچے۔ وقوعہ کراچی سے دس گھنٹے کی دوہری مسافت پر تھا۔ اُس سڑک پر رات کو سفر کرنے پر کوئی ذی ہوش ڈرائیور تیار نہیں تھا۔ اگلے روز طے شدہ انٹرویوز کرنے تھے وغیرہ وغیرہ۔ وجہ جو بھی ہو نتیجہ وہی نکلا، میں وہ نہ کر سکا جو مجھے کرنا چاہیے تھا لہذا دل کو ہلکا کرنے کے لیے میں نے کالم لکھ ڈالا کچھ بوجھ تو کم ہوگا۔

کچھ دبی دبی سسکیاں تو باہر آئیں گی۔ میں کم از کم اگلے روز اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے سندھ میں دفنائے ہوئے ہم عمروں کی شکلیں آنکھوں کے سامنے سے تو ہٹا سکوں گا۔ کچھ تو بہتر ہو گا۔ میں بھی ہر پاکستانی کی طرح متاثرہ خاندانوں کے عذاب کو قریب سے جانے بغیر آرام دہ ماحول میں بیٹھے بانٹ کر خود کو اچھا انسان ثابت کر پاؤں گا۔ یہ بڑے فائدے ہیں۔ اگر ایک کالم تحریر کر کے میں خود پر طاری کرب کی معیاد مزید کم کر لوں تا کہ اپنی دھن میں پھر سے مگن ہو جاؤں، تو گھاٹے کا سودا ہے کیا؟ ہر گز نہیں۔

ویسے میں وہاں پر پہنچ بھی جاتا تو کیا ہو جاتا۔ جگر گوشے زمین سے ہنستے کھیلتے باہر آ جاتے؟ اُن کے ساتھ رخصت ہونے والے استاد پھر سے علم بانٹنے لگتے۔ بھنگ پینے والے حکمران آنکھیں کھول کر اپنی کوتاہیوں کے انجام دیکھ کر لرزتے۔ دوسروں کا خون پی کر جینے والے توبہ کرتے، گناہوں کی معافی مانگتے۔ کیا رقص وسرور کی محفلیں، بے حیائی کی خواب گاہیں، صفوں میں تبدیل ہو جاتیں۔ عیش وعشرت و بے لگام طعام کے لمبے دسترخوان جائے نماز بن جاتے۔ کیا ہر وقت بھونکنے والوں کے منہ بند ہو جاتے، جانور انسان بن جاتے۔ کیا ہو جاتا؟ پہلے کیا ہوا تھا جو اب ہو جاتا۔ جب اسکول کے بچے ویگن میں بھسم ہو کر کوئلہ ہو گئے تھے تو نیچے کی کتنی مٹی گھوم کر اُوپر آ گئی تھی۔ اب بھی وہی سلنڈروں والی ویگنیں ہیں۔


وہی لڑکھڑاتے ہوئے رکشے ہیں۔ وہی کال کوٹھریوں جیسی بسیں اور ویگنیں فرشتہ اجل کر طرح بچوں کو اسکول کے بجائے قبل از وقت موت کی طرف لے جا رہی ہیں۔ نادان والدین روزانہ اپنے ہاتھوں سے اپنی اولادوں کو اجل کے حوالے کرتے ہیں۔ ریلوے پھاٹک پر پھنس جانے والے طلباء اور طالبات کو ٹرینیوں کے نیچے آتے ہوئے دیکھنے کے بعد بھی ہم نے کیا کر لیا تھا۔ فیکٹریوں میں سیکڑوں کی تعداد میں جل کر مرنے والوں پر ہم نے کونسی پالیسی مرتب کرلی تھی۔ کس کس واقعہ کی یاد دہانی کراوں۔ ایک ہو تو بتاؤں۔ ہمارے یہاں تو بچے مفت ہیں۔ بڑوں کا خون تو ارزاں ہے ہی بچے تو کوڑیوں کے بھاؤ بھی نہیں ہیں۔ دہشت گردوں سے پوچھ لیں۔ سات سے لے کر چودہ سال تک کے انسانی بم اتنے ہیں کہ گنے نہیں جاتے۔

بردہ فروشوں کا کاروبار سنار کی دکان سے بھی بہتر چلتا ہے۔ جنسی استحصال اور بچوں کو اس گھناؤنے کام میں استعمال کر نے والے بھی خوش و خرم ہیں۔ یہ سرزمین اُن کے لیے بڑی مددگار ہے، یہاں کا ماحول سازگار ہے۔ نظام موافق ہے۔ اور پھر یہ ہمارے بچے ہی تو ہیں جو دوست ممالک کے شہزادوں کی ریس کو اتنا دلچسپ بناتے ہیں۔ کم خوراک پر پلنے کے بعد وہ ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں تا کہ اونٹ کی کمر پر دباؤ نہ پڑے۔ کس کر بندھ جانے کے بعد ان کا کام خوف سے چیخیں مارنا ہوتا ہے۔ جو یہ خوب مارتے ہیں۔ مہنگے اونٹ اس واویلے پر بدکتے ہیں اور بگٹٹ بھاگتے ہیں۔

بہترین میلہ سجتا ہے۔ صحرا خوشیوں سے سراب ہو جاتا ہے۔ ایک آدھ بچہ مر جاتا ہے ،کچھ کی ہڈیوں ٹوٹ جاتی ہیں۔ مگر چونکہ ہمیں زرمبادلہ کمانا ہے لہذا ہم ہنسی خوشی ان مناظر سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ ویسے بھی ان ممالک سے احتجاج ہمارے قائدین کے کاروبار اور اُن کی اولادوں کی شاپنگ کے لیے مضر ہے۔ ایک چپ سو سکھ۔ خدا کا کرم ہے۔ پاکستان کے نقاد گونگے ہیں۔ اور غریب عورتیں بیشمار ہونٹ سلے رہیں گے بچے اور آ جائیں گے۔ ویسے بھی یہ جگہ سوئٹزر لینڈ یا ناروے تو ہے نہیں جہاں پر اسکول کے بچے کی حادثاتی موت قومی پرچم کو سرنگوں کر دیتی ہے۔

عسکری اور سیاسی قیادت اُن کی لاشوں کو قومی پرچم میں لپیٹ کر کندھوں پر اُٹھاتی ہیں۔ ہمارے یہاں حادثہ ہوا، ٹی وی چینل اور اخبارات نے ایک دن کی بکری کی اور بس۔ سوگوار، شہ سرخیاں، ریں ریں کرتا ہوا میوزک اور بس۔ ہمارے یہاں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔ گورے کے بچے قومی پرچم میں لپٹے ہوئے جچتے بھی زیادہ ہیں۔ کالے، میلے، پھوڑے پھنسیوں والوں کے لیے کیا خاص اہتمام کرے۔ یہ کون سی شہزادوں کی میت لگے گی لہذا مرنے دیں اِن کو، پڑیں رہے یہ سڑکوں پر۔

ابتدائی طبی امداد نہ مل سکی تو کیا غضب ہوا۔ نہ ملنے کی وجہ سے بچے، بچیاں مر گئے تو کیا نقصان ہوا۔ آصفہ بھٹو ٹویٹ کر دیں گی۔ عمران خان پریس ریلیز جاری کر دیگا۔ مریم نواز اگر کچھ بھی نہ کریں تو کافی ہے، نوجوانوں کے لیے قرض کا اہتمام تو کر رہی ہیں ناں۔ معاوضہ مل جائے گا۔ ماں باپ رو رو کر چپ کر جائیں گے۔ میں ایک کالم لکھ لوں گا۔ وہ دس روپے کی دو موم بتیاں جلا کر چار کالمی تصو یر بنا لے گا۔ ہم سب کچھ ایسا ویسا کر کے احساس زیاں کو معطل کر دینگے۔ کوئی یہ نہیں پوچھے گا کہ اگر جدید تحقیق یہ ثابت کر تی ہے کہ ٹریفک کا کوئی حادثہ، حادثہ نہیں ہوتا کوتاہی ہوتی ہے تو پھر ان جانوں کے زیاں کا ذمے دار کون ہے۔ ان بچے اور بچیوں کے خون سے کس کے ہاتھ رنگے ہیں۔ دو دن گزر چکے ہیں ہم سب مطمئن ہوگئے ہیں۔ دل ہلکے ہیں۔ ضمیر کے زخم مندمل ہے۔ ارض عالی شان کی وہی پرانی ڈگر ہے۔ ویگنوں میں بچے پہلے کی طرح انھیں سڑکوں پر اسکول کی طرف رواں دواں ہیں۔ ہمیں اپنے قومی ترانے میں اس نعرے کا اضافہ کر دینا چاہیے۔ تم کتنے بچے مارو گے ہر گھر سے بچے نکلیں گے۔
Load Next Story