غزہ پر اسرائیلی حملے جنگی جرائم ہوسکتے ہیں سربراہ اقوام متحدہ انسانی حقوق
اسرائیلی حملوں میں بڑے پیمانے پر عام فلسطینی شہریوں کی جانیں گئیں اور بہت تباہی ہوئی، مشیل باشیلے
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل باشیلے نے کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آسکتے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق جنیوا میں اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہائی کمشنر مشیل باشیلے نے کہا کہ اگر غزہ پر اسرائیل نے بلاامتیاز اور اندھادھند بمباری اور فضائی حملے کیے ہیں تو یہ جنگی جرائم ہوسکتے ہیں، ان حملوں میں بڑے پیمانے پر عام فلسطینی شہریوں کی جانیں گئیں اور بہت تباہی ہوئی۔
انہوں نے نشان دہی کی کہ 20 لاکھ کی آبادی والے چھوٹے سے علاقے غزہ میں سرکاری عمارتوں، رہائشی گھروں، بین الاقوامی امدادی انجمنوں، طبی مراکز اور میڈیا دفاتر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
مشیل باشیلے نے کہا کہ مجھے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں تباہ کی گئی عمارتوں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا تھا، اگر یہ حملے بلاامتیاز کیے گئے تو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
انہوں نے غزہ کی حکمراں جماعت حماس پر بھی اسرائیل پر بلاامتیاز راکٹ حملے نہ کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اسرائیل نے مبینہ طور پر غزہ میں مسلح گروپس اور ان کے عسکری نظام کو نشانہ بنایا، لیکن ان حملوں میں بڑے پیمانے پر عام شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے جبکہ بہت زیادہ تباہی مچی اور شہریوں کے ساز و سامان کو شدید نقصان پہنچا، جس طرح اسرائیل کو اپنے شہریوں کے دفاع کا حق ہے اس طرح فلسطینیوں کا بھی حق ہے۔
یہ خصوصی اجلاس او آئی سی کے ایما پر پاکستان اور فلسطین کی درخواست پر بلایا گیا تھا۔
غزہ پر حالیہ اسرائیلی بمباری میں 253 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 66 بچے تھے، جبکہ 1900 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ دوسری جانب حماس کے اسرائیل پر راکٹ حملوں میں 12 افراد ہلاک ہوئے جن میں 2 غیرملکی افراد اور 2 بچے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بھی کہا جاچکا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق جنیوا میں اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہائی کمشنر مشیل باشیلے نے کہا کہ اگر غزہ پر اسرائیل نے بلاامتیاز اور اندھادھند بمباری اور فضائی حملے کیے ہیں تو یہ جنگی جرائم ہوسکتے ہیں، ان حملوں میں بڑے پیمانے پر عام فلسطینی شہریوں کی جانیں گئیں اور بہت تباہی ہوئی۔
انہوں نے نشان دہی کی کہ 20 لاکھ کی آبادی والے چھوٹے سے علاقے غزہ میں سرکاری عمارتوں، رہائشی گھروں، بین الاقوامی امدادی انجمنوں، طبی مراکز اور میڈیا دفاتر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
مشیل باشیلے نے کہا کہ مجھے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں تباہ کی گئی عمارتوں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا تھا، اگر یہ حملے بلاامتیاز کیے گئے تو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
انہوں نے غزہ کی حکمراں جماعت حماس پر بھی اسرائیل پر بلاامتیاز راکٹ حملے نہ کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اسرائیل نے مبینہ طور پر غزہ میں مسلح گروپس اور ان کے عسکری نظام کو نشانہ بنایا، لیکن ان حملوں میں بڑے پیمانے پر عام شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے جبکہ بہت زیادہ تباہی مچی اور شہریوں کے ساز و سامان کو شدید نقصان پہنچا، جس طرح اسرائیل کو اپنے شہریوں کے دفاع کا حق ہے اس طرح فلسطینیوں کا بھی حق ہے۔
یہ خصوصی اجلاس او آئی سی کے ایما پر پاکستان اور فلسطین کی درخواست پر بلایا گیا تھا۔
غزہ پر حالیہ اسرائیلی بمباری میں 253 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 66 بچے تھے، جبکہ 1900 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ دوسری جانب حماس کے اسرائیل پر راکٹ حملوں میں 12 افراد ہلاک ہوئے جن میں 2 غیرملکی افراد اور 2 بچے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بھی کہا جاچکا ہے۔