برف کے فرشتے
ہماری آبادی کی شرح نمو 2.03 فیصد ہے جب کہ معذور بچوں کی شرح 2.65 فیصد ہے۔
گوادر سے خنجراب تک آپ کو اَن گنت لوگ کاروبار زندگی میں مصروف نظر آئینگے۔ یہ لوگ ہر طرح کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ کوئی سفر میں مشغول تو کوئی خرید و فروخت میں مگن، کوئی کارزار سیاست میں گامزن تو کوئی اپنی مسلسل بے کاری میں مصروف کار، لیکن یہ ہمارے ملک کی مکمل عددی تعداد نہیں ہے۔
یہ تمام اٹھارہ کروڑ لوگ بھی نہیں ہیں۔ جب ہم اپنے ملک کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو اس لہر کے کچھ حصہ کو بھول جاتے ہیں۔ شائد ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہمارے ملک کے 55 لاکھ باسی ہمارے ساتھ نہیں چل پا رہے۔ وہ بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ یہ پچپن لاکھ اس ملک کے وہ شہری ہیں جو کسی نہ کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ یہ ہماری کل آبادی کا تقریباً تین فیصد حصہ ہیں۔ بعض ماہرین اس تعداد کو سات سے دس فیصد تک بتاتے ہیں جو کہ ہمارے ملک کے 1.1 سے 1.8 کڑوڑ لوگ بنتے ہیں۔ آپ یقین فرمائیے، کسی بھی سطح پر یعنی سرکاری اور غیر سرکاری، ہمیں ان لوگوں کی مصدقہ تعداد کا کوئی علم نہیں ہے۔ یہ تعداد دنیا کے کئی ممالک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ کویت، لبنان، ناروے اور نیوزی لینڈ آبادی کے لحاظ سے ہمارے معذور لوگوں سے کم ہیں۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ معذور بچوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری آبادی کی شرح نمو 2.03 فیصد ہے جب کہ معذور بچوں کی شرح 2.65 فیصد ہے۔ اگر ہم اس مسئلہ پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کراچی ایسٹ اور ضلع آواران میں یہ تعداد خوفناک حد تک زیادہ ہے۔ ڈیڑھ لاکھ بچے عمر کے اس حصہ میں ہیں جو اسکول جاتے ہیں یا اسکول جا سکتے ہیں۔ ان میں سے چھ لاکھ بچیاں ہیں۔ ان تمام بچوں سے تقریباً تین کڑوڑ افراد متاثر ہوتے ہیں۔ یہ ان کے اہل خانہ اور نزدیک ترین رشتہ دار ہیں۔ ایک سے پندرہ سال کے بچوں کی تعداد اکیس لاکھ ہے۔ یہ دیہی علاقے میں 65 فیصد جب کہ شہری علاقے میں پینتیس فیصد ہیں۔ معذوری کا شکار لوگوں میں 58 فیصد مرد اور 42 فیصد خواتین ہیں۔
آپ ہمارے الیکڑونک میڈیا کو دیکھیں۔ آپ کو ہر موضوع پر انتہائی سنجیدہ بحث سننے اور دیکھنے کو ملے گی۔ کسی بھی واقعہ کو بڑھا چڑھا کر اس جذباتیت سے بیان کیا جاتا ہے گویا پاکستان کا اصل مسئلہ صرف یہی ہے۔ چینلز پر لوگوں کی ذاتی زندگی کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ انتہائی بازاری طریقے سے شادی بیاہ کی تقریبات آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ نقال اور مسخرے آپ کو ملک کے مسائل پر بھر پور روشنی ڈالتے نظر آتے ہیں مگر آج تک، جی صاحبان! آج تک میں نے ان 55 لاکھ لوگوں کی موثر آواز کہیں نہیں سنی۔ میں نے کسی جگہ بھی ان کے مسائل، ان کی خوشیاں، ان کے غم، ان کی محرومیاں اور ان کی مجموعی زندگی کو سنجیدگی سے زیر موضوع نہیں دیکھا۔ کیا یہ لوگ بے زبان ہیں؟ کیا یہ سانس نہیں لے رہے؟ کیا ان کے دل میں عام آدمی کی طرح زندہ رہنے کی امنگ نہیں ہے؟ کیا یہ ہمارے ملک کے شہری نہیں ہیں؟ میری دانست میں "ہیں" بلکہ بالکل"ہیں"۔
جس گھر میں ذہنی یا جسمانی معذور بچہ پیدا ہو جائے، اہل خانہ اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کو بتانے سے گریز کیا جاتا ہے کہ نوزائیدہ بچہ ہاتھ ٹانگوں یا بینائی کے بغیر ہے۔ تھوڑا سا بڑا ہو کر اگر بچہ ذہنی طور پر کمزور نکل آئے تو اکثر اوقات اس کو تعلیم سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اس بچہ کو اس درجہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہونا پڑتا ہے کہ کچھ سال میں وہ زندگی کی کسی بھی رمق سے عاری نظر آتا ہے۔ اسے گھر سے باہر نہیں جانے دیا جاتا۔ اگر گھر میں مہمان آئیں تو ان بچوں کو اکثر کسی الگ کمرے میں چھپا دیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں یہ بے چارے نظر نہیں آتے۔ یہ گھر کے کسی اجنبی سے کمرے میں محصور رہتے ہیں۔ ان کی ذہانیت، بچپن، خواہشات اور حسِ مزاح کو پتھر کی سِل سے کچل دیا جاتا ہے۔ میں نے بہت کم ایسے والدین دیکھے ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو سب کے سامنے سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔ اکثر والدین حوصلہ ہار جاتے ہیں۔
ان بچوں کے لیے کھیل کے میدان، اچھے اسکول، کالج، درسگاہیں اور وسائل بہت کم ہیں۔ بڑے ہونے پر انکو معاشرہ کا فعال حصہ بنانے پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ ملازمتوں میں برائے نام کوٹہ اور اس کے بعد دفاتر میں مسلسل تضحیک ان کا مقدر بن جاتی ہے۔کئی بار وہ نوکری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کی شادیاں بھی ایک مسئلہ بن کر رہ گئی ہیں۔ ان کو گھر میں وہ حیثیت حاصل نہیں ہوتی جو عام مرد یا عورت کو میسر ہے۔ ان بچوں کے لیے تفریح گاہوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔
آپ ہماری عمارتوں کی بناوٹ دیکھیں، آپ ہمارے ٹرانسپورٹ کے نظام پر غور فرمائیے، آپ ہمارے ہوٹل دیکھیں، کسی جگہ بھی ان لوگوں کے آرام سے بیٹھنے یا سواری پر چڑھنے یا اترنے کا باقاعدہ انتظام نہیں ہے۔ ان کے لیے علیحدہ واش رومز بھی نہیں ہیں۔ اگر ان کی مدد بھی کی جاتی ہے تو اس میں بھی کسی N.G.O یا ادارے کی تشہیر کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ لوگ ان کی ا مداد کرتے ہوئے تصویریں بنواتے ہیں۔ پھر ان تصویروں کو اخباروں میں ذاتی شہرت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وہیل چیئر دیتے ہوئے صاحب محفل کی تصویر کو دیکھنے والوں کے لیے نمایاں کیا جاتا ہے۔ وہ بد قسمت جو کئی گھنٹوں سے تین چار ہزار روپے کی ویل چیئر کا انتظار کر رہا ہوتا ہے، وہ صرف ایک شو پیس کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
حیدر آباد میں چند سال پہلے انکشاف ہوا کہ معذور بچوں کو ان کے والدین سے چند ہزار روپے میں خریدا جاتا ہے اور پھر منظم گروہ ان کو ایران لے جاتے ہیں جہاں ان سے بھیک مانگنے کا کام لیا جاتا ہے۔ ذہنی طور پر معذور بچیوں سے زیادتی بڑی عام سی چیز ہے مگر میں نے آج تک اس گھناونے جرم پر کسی طرف سے کوئی پکار نہیں سنی۔ کبھی بھی قانون کے بے رحم پہیے کو ان ظالموں کو کچلتے نہیں دیکھا۔ شائد یہ بچیاں شکایت ہی نہیں کر سکتیں یا شائد ان کو شکایت کا حق اور اختیار ہی نہیں ہے۔ شائد ان کے لواحقین ان کی بد قسمتی سے سمجھوتہ کر چکے ہیں۔
نعیم چشتی لاہور کا رہنے والا ہے۔ وہ مردانہ وجاہت کا ایک نمونہ ہے۔ چھ فٹ قد اور تیکھے نقش۔ پچاس سال کی عمر میں بھی وہ پنتیس برس کا معلوم ہوتا ہے۔ وہ لاہور میں مال روڈ پر واقع سب سے اچھے اسکول میں زیر تعلیم رہا۔ کھیلوں میں اس کی نمایاں کارگردگی نے بہت جلد اسے اسکول پریفکٹ بنا دیا۔ وہ فٹ بال کھیلتا تھا تو باقی بچے اسے صرف دیکھنے آتے تھے۔A لیول کے بعد اُس نے فیصلہ کیا وہ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے امریکا جائے گا۔ وہ 1980ء میں امریکا چلا گیا۔ تمام دوست اس پر رشک کرتے تھے اور اس جیسا بننا چاہتے تھے۔
امریکا جا کر اُس نے یونیورسٹی میں اپنی کارگردگی برقرار رکھی۔ وہاں وہ یونیورسٹی کی سوکر ٹیم میں آ گیا۔ اس کی ٹیوشن فیس معاف کر دی گئی۔ اچانک نعیم نے اپنے گھر والوں سے رابطہ ختم کر دیا۔ ایک دو ماہ تو اس کے والدین نے اس چیز کا نوٹس نہ لیا۔ مگر پھر وہ فکر مند ہو گئے۔ یونیورسٹی میں اس کے دوستوں سے معلوم کیا۔ پتہ چلا وہ تین چار ماہ سے کلاس میں نہیں آیا۔ والد اور بڑا بھائی اور فکر مند ہو گئے۔ بڑا بھائی اس کو تلاش کرنے امریکا چلا گیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ نعیم کئی ماہ سے اپنے کمرے میں بند ہے۔
اسکو ایک انجانا خوف لاحق ہو چکا تھا۔ اس کو ہر طرف تمام لوگ اپنے خلاف باتیں کرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ بڑے بھائی نے انتہائی مشکل سے نعیم کو لاہور آنے پر راضی کیا۔ نعیم لاہور آ گیا۔ پہلے تو اس کے والدین نے کسی کو بھی اس کی ذہنی حالت کے متعلق نہ بتایا مگر کچھ عرصے بعد مجبوراً اسے میو اسپتال کے سائیکٹری وارڈ میں داخل کروانا پڑا۔ نعیم کے پرانے دوستوں نے اس سے ملنا شروع کیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے دوست کا یہ حال ہو گا۔ نعیم کو Schizophrenia ہو چکا تھا۔ وہ ہر وقت باتیں کرتا رہتا تھا۔ پھر چند دنوں کے لیے خاموش ہو جاتا تھا۔ وہ وارڈ سے بھاگ جاتا تھا۔ چنانچہ کئی بار اس کی حفاظت کے لیے اس کو بیڈ سے باندھنا پڑتا تھا۔ دوائی کے باوجود اس کی ذہنی حالت اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ اس نے کئی بار خود کشی کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔
اب اسے پوری زندگی دوائی کھانی تھی اور بس سانس لینی تھی۔ اس کے چند دوست اس کو اپنے گھر لے گئے۔ مگر نعیم اس قدر بکھر چکا تھا کہ کہیں بھی ٹھہر نہ پایا۔ اب تو وہ گھر کے ادب آداب سے بھی عاری ہو چکا تھا چنانچہ بہت جلد اس کے تمام دوست اسے لاہور میں اُسکے آبائی گھر چھوڑ گئے۔ انتہائی تیز ہدف دوائیوں پر نعیم آج بھی زندہ ہے۔ وہ دیکھنے میں بالکل ٹھیک ہے۔ جب آپ بات کریں تو جلد معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے والدین اور اس کے بھائیوں نے اس کے لیے بے مثال جدوجہد اور عملی ہمت کی ہے مگر سب مریض اتنے خوش قسمت نہیں ہوتے۔
پتہ نہیں کیوں؟ میں ان تمام لوگوں کو معذور نہیں کہہ سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ خدا کی وہ مخلوق ہے جو اس کے نزدیک بہت خاص ہے مگر دنیاوی طور پر شائد کچھ کمی رہ گئی ہے۔ شائد کمی بھی مناسب لفظ نہیں! میری نظر میں تو یہ برف کے فرشتے ہیں۔ قدرت کی دھوپ سے ان کے بدن کے کچھ قیمتی اعضاء پگھل گئے ہیں مگر ہیں تو یہ برف کے فرشتے!
یہ تمام اٹھارہ کروڑ لوگ بھی نہیں ہیں۔ جب ہم اپنے ملک کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو اس لہر کے کچھ حصہ کو بھول جاتے ہیں۔ شائد ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہمارے ملک کے 55 لاکھ باسی ہمارے ساتھ نہیں چل پا رہے۔ وہ بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ یہ پچپن لاکھ اس ملک کے وہ شہری ہیں جو کسی نہ کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ یہ ہماری کل آبادی کا تقریباً تین فیصد حصہ ہیں۔ بعض ماہرین اس تعداد کو سات سے دس فیصد تک بتاتے ہیں جو کہ ہمارے ملک کے 1.1 سے 1.8 کڑوڑ لوگ بنتے ہیں۔ آپ یقین فرمائیے، کسی بھی سطح پر یعنی سرکاری اور غیر سرکاری، ہمیں ان لوگوں کی مصدقہ تعداد کا کوئی علم نہیں ہے۔ یہ تعداد دنیا کے کئی ممالک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ کویت، لبنان، ناروے اور نیوزی لینڈ آبادی کے لحاظ سے ہمارے معذور لوگوں سے کم ہیں۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ معذور بچوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری آبادی کی شرح نمو 2.03 فیصد ہے جب کہ معذور بچوں کی شرح 2.65 فیصد ہے۔ اگر ہم اس مسئلہ پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کراچی ایسٹ اور ضلع آواران میں یہ تعداد خوفناک حد تک زیادہ ہے۔ ڈیڑھ لاکھ بچے عمر کے اس حصہ میں ہیں جو اسکول جاتے ہیں یا اسکول جا سکتے ہیں۔ ان میں سے چھ لاکھ بچیاں ہیں۔ ان تمام بچوں سے تقریباً تین کڑوڑ افراد متاثر ہوتے ہیں۔ یہ ان کے اہل خانہ اور نزدیک ترین رشتہ دار ہیں۔ ایک سے پندرہ سال کے بچوں کی تعداد اکیس لاکھ ہے۔ یہ دیہی علاقے میں 65 فیصد جب کہ شہری علاقے میں پینتیس فیصد ہیں۔ معذوری کا شکار لوگوں میں 58 فیصد مرد اور 42 فیصد خواتین ہیں۔
آپ ہمارے الیکڑونک میڈیا کو دیکھیں۔ آپ کو ہر موضوع پر انتہائی سنجیدہ بحث سننے اور دیکھنے کو ملے گی۔ کسی بھی واقعہ کو بڑھا چڑھا کر اس جذباتیت سے بیان کیا جاتا ہے گویا پاکستان کا اصل مسئلہ صرف یہی ہے۔ چینلز پر لوگوں کی ذاتی زندگی کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ انتہائی بازاری طریقے سے شادی بیاہ کی تقریبات آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ نقال اور مسخرے آپ کو ملک کے مسائل پر بھر پور روشنی ڈالتے نظر آتے ہیں مگر آج تک، جی صاحبان! آج تک میں نے ان 55 لاکھ لوگوں کی موثر آواز کہیں نہیں سنی۔ میں نے کسی جگہ بھی ان کے مسائل، ان کی خوشیاں، ان کے غم، ان کی محرومیاں اور ان کی مجموعی زندگی کو سنجیدگی سے زیر موضوع نہیں دیکھا۔ کیا یہ لوگ بے زبان ہیں؟ کیا یہ سانس نہیں لے رہے؟ کیا ان کے دل میں عام آدمی کی طرح زندہ رہنے کی امنگ نہیں ہے؟ کیا یہ ہمارے ملک کے شہری نہیں ہیں؟ میری دانست میں "ہیں" بلکہ بالکل"ہیں"۔
جس گھر میں ذہنی یا جسمانی معذور بچہ پیدا ہو جائے، اہل خانہ اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کو بتانے سے گریز کیا جاتا ہے کہ نوزائیدہ بچہ ہاتھ ٹانگوں یا بینائی کے بغیر ہے۔ تھوڑا سا بڑا ہو کر اگر بچہ ذہنی طور پر کمزور نکل آئے تو اکثر اوقات اس کو تعلیم سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اس بچہ کو اس درجہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہونا پڑتا ہے کہ کچھ سال میں وہ زندگی کی کسی بھی رمق سے عاری نظر آتا ہے۔ اسے گھر سے باہر نہیں جانے دیا جاتا۔ اگر گھر میں مہمان آئیں تو ان بچوں کو اکثر کسی الگ کمرے میں چھپا دیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں یہ بے چارے نظر نہیں آتے۔ یہ گھر کے کسی اجنبی سے کمرے میں محصور رہتے ہیں۔ ان کی ذہانیت، بچپن، خواہشات اور حسِ مزاح کو پتھر کی سِل سے کچل دیا جاتا ہے۔ میں نے بہت کم ایسے والدین دیکھے ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو سب کے سامنے سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔ اکثر والدین حوصلہ ہار جاتے ہیں۔
ان بچوں کے لیے کھیل کے میدان، اچھے اسکول، کالج، درسگاہیں اور وسائل بہت کم ہیں۔ بڑے ہونے پر انکو معاشرہ کا فعال حصہ بنانے پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ ملازمتوں میں برائے نام کوٹہ اور اس کے بعد دفاتر میں مسلسل تضحیک ان کا مقدر بن جاتی ہے۔کئی بار وہ نوکری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کی شادیاں بھی ایک مسئلہ بن کر رہ گئی ہیں۔ ان کو گھر میں وہ حیثیت حاصل نہیں ہوتی جو عام مرد یا عورت کو میسر ہے۔ ان بچوں کے لیے تفریح گاہوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔
آپ ہماری عمارتوں کی بناوٹ دیکھیں، آپ ہمارے ٹرانسپورٹ کے نظام پر غور فرمائیے، آپ ہمارے ہوٹل دیکھیں، کسی جگہ بھی ان لوگوں کے آرام سے بیٹھنے یا سواری پر چڑھنے یا اترنے کا باقاعدہ انتظام نہیں ہے۔ ان کے لیے علیحدہ واش رومز بھی نہیں ہیں۔ اگر ان کی مدد بھی کی جاتی ہے تو اس میں بھی کسی N.G.O یا ادارے کی تشہیر کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ لوگ ان کی ا مداد کرتے ہوئے تصویریں بنواتے ہیں۔ پھر ان تصویروں کو اخباروں میں ذاتی شہرت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وہیل چیئر دیتے ہوئے صاحب محفل کی تصویر کو دیکھنے والوں کے لیے نمایاں کیا جاتا ہے۔ وہ بد قسمت جو کئی گھنٹوں سے تین چار ہزار روپے کی ویل چیئر کا انتظار کر رہا ہوتا ہے، وہ صرف ایک شو پیس کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
حیدر آباد میں چند سال پہلے انکشاف ہوا کہ معذور بچوں کو ان کے والدین سے چند ہزار روپے میں خریدا جاتا ہے اور پھر منظم گروہ ان کو ایران لے جاتے ہیں جہاں ان سے بھیک مانگنے کا کام لیا جاتا ہے۔ ذہنی طور پر معذور بچیوں سے زیادتی بڑی عام سی چیز ہے مگر میں نے آج تک اس گھناونے جرم پر کسی طرف سے کوئی پکار نہیں سنی۔ کبھی بھی قانون کے بے رحم پہیے کو ان ظالموں کو کچلتے نہیں دیکھا۔ شائد یہ بچیاں شکایت ہی نہیں کر سکتیں یا شائد ان کو شکایت کا حق اور اختیار ہی نہیں ہے۔ شائد ان کے لواحقین ان کی بد قسمتی سے سمجھوتہ کر چکے ہیں۔
نعیم چشتی لاہور کا رہنے والا ہے۔ وہ مردانہ وجاہت کا ایک نمونہ ہے۔ چھ فٹ قد اور تیکھے نقش۔ پچاس سال کی عمر میں بھی وہ پنتیس برس کا معلوم ہوتا ہے۔ وہ لاہور میں مال روڈ پر واقع سب سے اچھے اسکول میں زیر تعلیم رہا۔ کھیلوں میں اس کی نمایاں کارگردگی نے بہت جلد اسے اسکول پریفکٹ بنا دیا۔ وہ فٹ بال کھیلتا تھا تو باقی بچے اسے صرف دیکھنے آتے تھے۔A لیول کے بعد اُس نے فیصلہ کیا وہ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے امریکا جائے گا۔ وہ 1980ء میں امریکا چلا گیا۔ تمام دوست اس پر رشک کرتے تھے اور اس جیسا بننا چاہتے تھے۔
امریکا جا کر اُس نے یونیورسٹی میں اپنی کارگردگی برقرار رکھی۔ وہاں وہ یونیورسٹی کی سوکر ٹیم میں آ گیا۔ اس کی ٹیوشن فیس معاف کر دی گئی۔ اچانک نعیم نے اپنے گھر والوں سے رابطہ ختم کر دیا۔ ایک دو ماہ تو اس کے والدین نے اس چیز کا نوٹس نہ لیا۔ مگر پھر وہ فکر مند ہو گئے۔ یونیورسٹی میں اس کے دوستوں سے معلوم کیا۔ پتہ چلا وہ تین چار ماہ سے کلاس میں نہیں آیا۔ والد اور بڑا بھائی اور فکر مند ہو گئے۔ بڑا بھائی اس کو تلاش کرنے امریکا چلا گیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ نعیم کئی ماہ سے اپنے کمرے میں بند ہے۔
اسکو ایک انجانا خوف لاحق ہو چکا تھا۔ اس کو ہر طرف تمام لوگ اپنے خلاف باتیں کرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ بڑے بھائی نے انتہائی مشکل سے نعیم کو لاہور آنے پر راضی کیا۔ نعیم لاہور آ گیا۔ پہلے تو اس کے والدین نے کسی کو بھی اس کی ذہنی حالت کے متعلق نہ بتایا مگر کچھ عرصے بعد مجبوراً اسے میو اسپتال کے سائیکٹری وارڈ میں داخل کروانا پڑا۔ نعیم کے پرانے دوستوں نے اس سے ملنا شروع کیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے دوست کا یہ حال ہو گا۔ نعیم کو Schizophrenia ہو چکا تھا۔ وہ ہر وقت باتیں کرتا رہتا تھا۔ پھر چند دنوں کے لیے خاموش ہو جاتا تھا۔ وہ وارڈ سے بھاگ جاتا تھا۔ چنانچہ کئی بار اس کی حفاظت کے لیے اس کو بیڈ سے باندھنا پڑتا تھا۔ دوائی کے باوجود اس کی ذہنی حالت اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ اس نے کئی بار خود کشی کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔
اب اسے پوری زندگی دوائی کھانی تھی اور بس سانس لینی تھی۔ اس کے چند دوست اس کو اپنے گھر لے گئے۔ مگر نعیم اس قدر بکھر چکا تھا کہ کہیں بھی ٹھہر نہ پایا۔ اب تو وہ گھر کے ادب آداب سے بھی عاری ہو چکا تھا چنانچہ بہت جلد اس کے تمام دوست اسے لاہور میں اُسکے آبائی گھر چھوڑ گئے۔ انتہائی تیز ہدف دوائیوں پر نعیم آج بھی زندہ ہے۔ وہ دیکھنے میں بالکل ٹھیک ہے۔ جب آپ بات کریں تو جلد معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے والدین اور اس کے بھائیوں نے اس کے لیے بے مثال جدوجہد اور عملی ہمت کی ہے مگر سب مریض اتنے خوش قسمت نہیں ہوتے۔
پتہ نہیں کیوں؟ میں ان تمام لوگوں کو معذور نہیں کہہ سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ خدا کی وہ مخلوق ہے جو اس کے نزدیک بہت خاص ہے مگر دنیاوی طور پر شائد کچھ کمی رہ گئی ہے۔ شائد کمی بھی مناسب لفظ نہیں! میری نظر میں تو یہ برف کے فرشتے ہیں۔ قدرت کی دھوپ سے ان کے بدن کے کچھ قیمتی اعضاء پگھل گئے ہیں مگر ہیں تو یہ برف کے فرشتے!