سرکاری اہلکاروں کی ناقص کارکردگی

سیاسی سفارش کے ذریعے جولوگ اپنی پسند کی جاب حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ میرٹ کی دھجیاں اڑا کر ہی منزل پاتے ہیں۔

gfhlb169@gmail.com

ملک کے اندر کوئی بھی سیاسی نظام ہو،کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو،پالیسی ساز چاہے موتی پرو رہے ہوں لیکن آخر کار عملدرآمد وفاقی اور صوبائی افسروں اور ملازمین کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔اگر وہ اہل، قابل، دیانت داراورسوجھ بوجھ رکھتے ہوں تو پالیسی کے اندر خامیوں پر قابو پاتے ہوئے ملک کے بہترین مفاد میں کام آگے بڑھا لیتے ہیں۔

جس بھی ملک کو ایسے سرکاری اہل کار مل جائیں وہ ملک کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا،کوئی اس ملک کا نقصان نہیں کر سکتا لیکن سرکاری اہل کار اگر نکمے،نااہل،بد دیانت اور مطلب پرست ہوں تو ان کے ہاتھوں ہر نظام ناکارہ ٹھہرتا ہے۔اچھی اسکیمیں،اور اچھے پانچ سالہ و سالانہ پروگرام بھی مٹی میں مل جاتے ہیں۔ قوانین کابے لاگ نفاذ نہ ہو تو قوانین، طاقتور کی لونڈی بن کر رہ جاتے ہیں۔

نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی میں تربیتی کورس کے دوران اُس وقت پاکستان میں چینی سفیر نے ہم شرکاء کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔سیشن کے خاتمے پر کہنے لگے میں مختلف حیثیتوں میں کام کرتے ہوئے پچھلے 29سال سے پاکستان میں ہوں۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈرافٹ بنانے میں،پالیسی بنانے اور اس کی Presentationمیں پاکستانیوں کا کوئی ثانی نہیں لیکن پالیسی یا قانون کی Executionکی اسٹیج پر سب زیرو ہو جاتا ہے۔اُس چینی سفیر کے مطابق پاکستان میں بڑا مسئلہ Execution کاہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں معاملات سرکاری اہلکاروں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔

سرکاری اہلکاروں کو ہم عمومی طور پر دو کیٹیگریوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ایک حصہ گریڈ 17اور اس سے اوپر کے افسروں جب کہ، دوسری کیٹیگری گریڈ 16اور اس سے نیچے کے ملازمین کی ہوتی ہے۔ہر دو کی ریکروٹمنٹ مختلف ہے۔ ریکروٹمنٹ،تربیت اور ماحول مل کر سرکاری اہلکار کے مفید یا غیر مفید بننے میں کردار ادا کرتا ہے۔

گریڈ 17میں عام طور پر ریکروٹمنٹ کا عمل وفاقی پبلک سروس کمیشن یا صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے انجام پاتا ہے۔یہاں سیاسی مداخلت یا پیسے کا چلن اس طرح نہیں ہوتا جس طرح نیچے کی آسامیوں پر بھرتی کے لیے ہوتا ہے لیکن یہاں پر امیدواروں میں سے کئی ایک تحریری امتحان کے دوراںcheating کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا پھرsubject specialist کی پسند اور ناپسند بھی اپنا کام دکھا سکتی ہے۔

سائیکالوجسٹ بھی دھوکھا کھا جاتے ہیں۔وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن میں چیئرمین اور ممبران بہت سینیئر سابق بیوروکریٹس ہوتے ہیں، اُن پر اثر اندازہونا خاصا مشکل ہوتا ہے ۔بہر حال یہ ماننا پڑے گا کہ فیڈرل اور صوبائی پبلک سروس کمیشن میں عمومی طور پر میرٹ کا خاصا خیال رکھا جاتا ہے البتہ یہ بالکل الگ بحث ہے کہ مقابلے کے امتحانوں کے ذریعے ریکروٹ کیے گئے افراد ملک و قوم کی خدمت انجام دے پائے ہیں کہ نہیں۔ہمارے ملک کو آزاد ہوئے ستر سال سے اوپر ہو گئے ہیں۔

تقریباً دو نسلیں آبیاری کرتے گزر چکی ہیں اور ہمارے ملک کا ہر شعبہ تیزی سے رُو بہ زوال ہے۔اگر مقابلے کے امتحانات کے ذریعے اچھے امیدواروں کا چناؤ ہو رہا ہوتا تو ملک کا حال یہ نہ ہوتا۔ماننا پڑے گا کہ خرابی تو ہے۔زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ انگریزوں نے افسران بہم پہنچانے کا یہ نظام اپنے ملک انگلینڈ کو چلانے کے لیے نہیں بلکہ انڈیا کو ایک نوآبادی کے طور پر قابو میں رکھنے کے لیے دیا تھا۔یہ نظام ایک بہتر معاشرے کا خواب شرمندہء تعبیر کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔

اس ناکامی میں ہمارے پڑھے لکھے،باصلاحیت افسران کا بڑا حصہ ہے۔مقابلے کے امتحانات کے ذریعے آنے والے انھی با صلاحیت افراد میں سے چند ایک وزیرِ اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے اسٹاف افسران بن کر کابینہ ممبران یعنی وزیروں سے بھی زیادہ با اثر ٹھہرتے ہیں، اگر ریکروٹمنٹ اور ٹریننگ کے ذریعے ایک بہتر معاشرہ تشکیل دینے والے افراد مہیا کیے جا رہے ہوتے تو یہی افراد ملک و قوم کی بھلائی کے کام کرتے لیکن آئے دن ان کی من مانیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ معاملہ بہت خراب ہے۔


حال ہی میں ایک اعلیٰ ترین تربیتی ادارے کے ریکٹر کی آسامی پُر کرنے کے لیے جس طرح اشتہار دے کر ایک اعلیٰ افسر نے پہلے اپنے آپ کو اس بورڈ کا حصہ بنایا جس نے موزوں امیدوار چننا تھا اور پھر اپنے ہی آپ کو امیدوار بنا کر خود کو ہی سلیکٹ کر لیا اور وزیرِ اعظم سے اپنی تعیناتی کی منظوری بھی لے لی،یہ سب کچھ ہمارے گلے سڑے بدبودار نظام کی قلعی کھول دیتا ہے۔

جناب ذوالفقار علی بھُٹو کی حکومت سے پہلے کیا صورتحال تھی اس کا صحیح علم نہیں لیکن ہم لوگ جب ملازمت میں آئے تو جناب بھٹوبرسرِاقتدار تھے۔ میرٹ سے ہٹ کر بھرتیوں کا رواج اس وقت سے دیکھا جا رہا ہے۔ بعد میں تو صرف ایک اصول کارفرما تھا کہ آپ کا تعلق کسی نہ کسی طرح حکومتی پارٹی سے ہونا چاہیے۔

ان ادوار میں تمام وزارتوں اور محکموں سے آسامیوں کی تعداد معلوم کر لی جاتی تھی۔وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ میں قائم Placement Bureauسے متعلقہ وزارتوں اور محکموں کو ایک لسٹ فراہم کر کے حکم یہ ہوتا تھا کہ ان افراد کو بھرتی کر لیا جائے۔پی آئی اے،اسٹیل ملز، ریلوے، پاکستان پوسٹ،تقریباً تمام بینک، غرضیکہ ہر جانب یہی چلن تھا۔آپ جہاں کھوج لگائیں ان ادوار میں ایسی ہی لسٹوںکے ذریعے وزیرِاعظم سیکریٹریٹ کے احکامات پر بھرتی کیے گئے افراد کی ایک بڑی تعداد آپ کو ملے گی۔سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔

پی آئی اے اور اسٹیل ملزکو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ پنجاب میں بھی حکومتی پارٹی کے وفادار افراد کو کھپایا گیا۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں جو بھی ان کے پاس پہنچ گیا اس کی مراد بر آئی۔ان ا دوار میں اگر کوئی آسامی مشتہر بھی کی گئی تو بھرتی بہر حال اسی کو کیا گیا جس کا نام بڑے دفتر سے موصول ہوا۔ دفاتر میں جب اس قسم کے افراد آ جاتے ہیں تو وہ اگلے کم از کم 30سے اوپر سالوں کے لیے حکومت کے ایسے مہمان ہوتے ہیں جنھیں ہر سہولت تو چاہیے لیکن کام دھیلے کا بھی نہیں کرنا۔

ریکروٹمنٹ کسی بھی مینجمنٹ کا بہت اہم فنکشن ہے۔ریکروٹمنٹ کے لیے ضروری ہے کہ پہلے جاب Job Specificationہو یعنی یہ جاب کیا ہے۔اس جاب کو کرنے کے لیے جو فرد ریکروٹ کیا جائے اس کے اندر کون کون سی صلاحیتیں ہونی چاہییں۔ ریکروٹ کرتے ہوئے اہل امیدواروں میں سے جو بھی Laid down criteria پر سب سے اچھا اترتا ہو یا اترتی ہو اگر اسے جاب دے دی جائے گی تو قوی امکان ہے کہ موقع ملنے پر وہ فرد اپنی پوری صلاحیت، اخلاص اور ہوشیاری سے کام کرے گا لیکن اگر میرٹ کو ڈس ریگارڈ کر کے محض خانہ پوری کر دی جائے تو اچھے کام کی توقع رکھنا عبث ہے۔

گریڈ 16اور اس سے نیچے کی آسامیوں پر بھرتی کے لیے عام طور پر محکمے اپنے اپنے رولز اور ریگولیشن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آسامیوں کو مشتہر کر کے بھرتی کا یہ عمل مکمل کرتے ہیں۔یہاں بے پناہ سیاسی مداخلت بھی ہوتی ہے اور پیسے بھی بنائے جاتے ہیں۔ہر سیاسی کارکن اور رہنما اس تاک میں ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بھرتیاں کرائے تاکہ بھرتی شدہ اہلکار اور اس کے لواحقین مرہونِ منت رہیں اور انتخابات میں ساتھ دیں۔افسران بھی ایسے مواقع سے فائدہ اٹھا کر ہر آسامی کا ریٹ مقرر کرتے ہیں۔جو مطلوبہ رقم ادا کر دیتا ہے اس کا کام یقینی ہو جاتا ہے۔

سیاسی سفارش اور رقم کی ادائیگی کے ذریعے جو لوگ اپنی پسند کی جاب حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ میرٹ کی دھجیاں اڑا کر ہی منزل پاتے ہیں۔ان کے ہاں میرٹ کی کوئی قدر نہیں ہوتی اس قسم کی ریکروٹمنٹ ہوتے ہوئے اب چار سے زیادہ دہائیاں گزر گئی ہیں۔اب زیادہ تعداد ایسے ہی افراد کی ہے۔

یہ لوگ نا اہل،نکمے اور بد دیانت ہیں اس لیے فیڈرل گورنمنٹ اور صوبائی حکومتیں ایسے اہلکاروں کے ہاتھوںمفلوج ہو چکی ہیں۔اگر آج یہ تہیہ کر لیا جائے کہ صرف اہل صلاحیتوں کے مالک افراد کو ملازمت دی جائے گی تو تب بھی پاکستان کے ہر دفتر کو پندرہ سے بیس سال کے بعد اچھے افسران اور اہلکار مطلوبہ تعداد میں حاصل ہوں گے جو بہترین معاشرے کے خواب کو شرمندہ ء تعبیر کر سکیں۔یہ کام ایک فیصلے سے فوراً نہیں ہونے والا۔آہستہ آہستہ نکمے،نا اہل اور بددیانت افراد اپنا وقت پورا کرکے جگہ خالی کریں گے اور ان کی جگہ میرٹ پر اچھے افراد لیں گے۔جب اچھے اور اہل افراد کی تعداد نکموں سے بڑھے گی تو تب ہی پانسا پلٹے گا۔
Load Next Story