بدعنوانی اور چینی ماڈل

چینی وزیر ریلوے لیوژی جون کو کمیشن لینے، عہدے کے غلط استعمال اور کرپشن پر سزائے موت سنائی گئی۔

کرپشن یعنی بدعنوانی کا لفظ آج کل سیاست میں سرگرم افراد کی پہچان بنتا جا رہا ہے۔ سیاسی بدعنوانی درحقیقت ناجائز ذاتی فائدے کی غرض سے حکومتی اہلکاروں کے اپنے منصب و اختیارات کا غلط طریقے سے استعمال کرنا ہے۔

بدعنوانی کے مختلف پیمانے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ نچلی سطح سے لے کر حکومتی سطح تک اور ملکی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک بدعنوانی نے ہر جگہ اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے ٹھیکے منظورکروانا ، مختلف النوع اہم کاموں کے لائسنس حاصل کرنا ، اثر و رسوخ اور تعلقات کو غلط طریقے سے استعمال کرنا ، چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرکے منہ مانگے پیسے وصول کرنا ، بڑے بڑے عہدوں پر یا حکومتی شعبوں میں ملازمتیں حاصل کرنے یا اپنے چاہنے والوں کو ملازمت دلوانے پر بھاری رشوتوں کا لین دین اور اسی طرح کے بہت سارے طریقے کرپٹ عناصر نے ایجاد کر رکھے ہیں جن سے بدعنوانی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔

عوام کے ٹیکسوں کا وہ پیسہ جو قومی خزانے کی امانت ہوتا ہے اور جسے ہر حکومت مختلف قسم کے ترقیاتی ، فلاحی اور اصلاحی کاموں کے لیے خرچ کرتی ہے اور ہر سال بجٹ میں حکومت کی آمدنی و اخراجات کا تخمینہ پیش کرتے ہوئے قوم کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کی فلاح و بہبود کے فلاں فلاں کاموں کے لیے اتنے ارب روپے مختص کر دیے گئے ہیں لیکن دکھ اور افسوس کی بات یہ کہ جن حکومتی ذمے داران کے ذریعے ہمارے ٹیکسوں کا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اس فنڈ کا ایک بڑا حصہ خرد برد کرکے ہضم کرلیا جاتا ہے۔

دنیا کے تقریباً ہر ملک میں عوامی سطح پر بدعنوانی کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔ بالخصوص حکمرانوں کی سطح پر ہونے والی کرپشن کے خلاف عوام الناس میں غم و غصہ پایا جانا ناقابل فہم نہیں کہ اکابرین حکومت قومی خزانے کے امین ہوتے ہیں جہاں عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ جمع ہوتا ہے اور جب عوام کا پیسہ کرپشن کی نذر ہونے لگے اور بدعنوانی کی کہانیاں جنم لینے لگیں تو کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف نفرت کے جذبات کا پروان چڑھنا قطعی ایک فطری تقاضا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں کئی سیاستدانوں نے کرپشن و بدعنوانی کے خلاف مہم چلائی جن میں انا ہزارے، بابا رام دیو، اروند کیجریوال کا نام قابل ذکر ہے۔ کیجریوال نے کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے ایک سیاسی پارٹی '' عام آدمی پارٹی'' بنائی اور بالآخر دہلی کے وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوگئے۔

اسی بدعنوانی و کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر عمران خان نے تحریک انصاف نامی سیاسی جماعت بنائی اور پاکستان سے کرپشن و بدعنوانی کے خاتمے اور تمام کرپٹ و بدعنوان عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر ان کا کڑا احتساب کرنے کا دعویٰ اور وعدہ کرکے 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔

کرپشن و بدعنوانی کے خاتمے اور کڑے احتساب کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ تین سالوں سے ایک ہی موقف اپنا رکھا ہے کہ '' کسی کو نہیں چھوڑوں گا '' اور خواہ میری حکومت چلی جائے میں کسی کو ''این آر او'' نہیں دوں گا۔ کرپٹ عناصر کے احتساب کے حوالے سے وطن عزیز میں گزشتہ تقریباً دو عشروں سے زائد عرصے سے کام کرنے والا واحد ادارہ نیب یعنی قومی احتساب بیورو اپنی کارکردگی و فعالیت کے حوالے سے ہمیشہ تنقید کی زد میں رہا ہے، سیاستدانوں بالخصوص '' نیب زدگان '' کے بیانات سے لے کر اعلیٰ عدلیہ کے معزز ججز صاحبان کے ریمارکس تک نیب کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

اگرچہ وزیر اعظم عمران خان بعض مواقعوں پر نیب کی کارکردگی کو سراہتے رہے ہیں تاہم گزشتہ جمعہ کو پاک چین تعاون سے کراچی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کی افتتاحی تقریب سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے انھوں نے برملا یہ کہا کہ '' نیب 23 سال سے کام کر رہا ہے لیکن بدعنوانی پر قابو نہیں پاسکا۔''


وزیر اعظم کا یہ بیان نیب کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ عمران خان کا یہ موقف ہے کہ بدعنوانی کے حوالے سے ہم چھوٹے لوگوں کو پکڑتے ہیں جب کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ بڑے مگرمچھوں کو گرفت میں لایا جائے جیساکہ ہمارے دیرینہ دوست چین نے یہ فارمولا آزمایا اور کامیاب رہا۔ وزیر اعظم کی خواہش ہے کہ وطن عزیز میں بھی چینی فارمولے کے تحت بڑے لوگوں کو قانون و احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے۔

وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ گزشتہ 5 سے 6 سالوں میں چین نے کرپشن پر قابو پایا اور 415 حکومتی وزرا کو کرپشن کے مقدمات میں سزائیں دی گئی ہیں۔ پاکستان کو کرپشن اور اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے پڑیں گے۔ وزیر اعظم کے بقول وائٹ کالر کرائمز کو پکڑنا بہت مشکل کام ہے خصوصاً پاکستان میں، کیونکہ ہمارے ملک میں ایسے صاحب بصیرت اشخاص موجود نہیں ہیں جو وائٹ کالر کرائمز کو سمجھ سکیں اور ان کے مجرمان کو سزائیں دلوا سکیں تو کیوں نہ اس ضمن میں چین کے فارمولے کے مطابق کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

چین میں کرپشن کے حوالے سے انتہائی سخت قوانین نافذ ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چین کی حکمران جماعت کے ایک انتہائی طاقتور وزیر اور چینی صدر شی چن پنگ کے متوقع جاں نشین ژی جون کو کرپشن کرنے پر سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ گزشتہ 15 سالوں میں چین میں تقریباً 3 لاکھ 40 ہزار لوگ کرپشن کے الزامات پر مختلف سزائیں پاچکے ہیں۔ چین میں انسداد بدعنوانی کے لیے کام کرنے والے ادارے سینٹرل کمیشن آف ڈسپلن انسپکشن میں 2017 کی پہلی ششماہی میں تقریباً 13 لاکھ سے زائد شکایات درج ہوئیں جن میں سے 2 لاکھ 10 ہزار مجرموں کو سزائیں دی گئیں۔

سزا پانے والوں میں صرف چھوٹے سرکاری افسران ہی نہیں بلکہ وزارتوں اور انتظامیہ کے 38 سے زائد افسران اور پریفکچر لیول کے تقریباً ایک ہزار لوگ شامل تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین میں 2013 سے 2017 تک 13 لاکھ 40 ہزار لوگوں کو کرپشن پر سزا سنائی گئی۔ چینی فوج کے مطابق جنرل گووبویونگ کو رشوت دینے کے الزام میں عمر قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ چینی وزیر ریلوے لیوژی جون کو کمیشن لینے، عہدے کے غلط استعمال اور کرپشن پر سزائے موت سنائی گئی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن کے میدان میں پاکستان دنیا کے 176 ممالک میں سے 116 ویں نمبر پر ہے جب کہ ادارہ جاتی کرپشن میں 144 ممالک میں ہمارا نمبر 129 واں ہے۔ اسی طرح اقربا پروری میں پاکستان کا نمبر 10 واں ہے۔

حیرت انگیز طور پر کرپشن پر سزاؤں کا تناسب دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں سب سے کم ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اسی تناسب میں اضافے کے لیے تمام کرپٹ عناصر کو احتساب کے کٹہرے میں لا کر سزائیں دلانے کے لیے کوشاں ہیں اور کسی صورت کوئی سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں۔

کور کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ایک مرتبہ پھر دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم انصاف پر یقین رکھتے ہیں کسی پریشر گروپ سے بلیک میل نہیں ہوں گے، مافیا کے خلاف نبرد آزما ہیں، کسی کو این آر او نہیں ملے گا، قانون کی حکمرانی کے لیے ہر حد تک جائیں گے، حکومت جاتی ہے تو جائے دباؤ قبول نہیں کریں گے۔

مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کا یہ اشارہ واضح طور پر ''جہانگیر ترین گروپ'' کی جانب تھا۔ انھوں نے اپنا ''پیغام'' پہنچا دیا ہے۔ عمران خان کو ان کی اپنی حکومت میں جنم لینے والے اسکینڈل جن میں چینی، آٹا، ادویات، پٹرول اور سب سے بڑھ کر رنگ روڈ شامل ہے، میں ملوث اپنی ہی حکومت کے لوگوں کے خلاف احتساب کا شکنجہ کسنا ہوگا اور انھیں سزائیں دلوانا ہوں گی تب احتساب کے چینی ماڈل کا ''آغاز'' ہوگا۔
Load Next Story