بات سے بات

کمہارکے سامنے ایک چورکا مقدمہ لایا گیا۔ کمہار نے فیصلہ سنا دیا کہ چورکے ہاتھ کاٹ دو۔

بادشاہ گزر رہا تھا ، اس نے گدھوں کو قطار میں چلتے دیکھا توکمہار سے پوچھا '' تم انھیں کس طرح سیدھا رکھتے ہو؟ '' جواب دیا '' جو بھی گدھا قطار توڑتا ہے اسے سزا دیتا ہوں پھر اسی خوف سے سیدھے چلتے ہیں'' بادشاہ نے کہا '' تم میرے ملک میں امن قائم کرسکتے ہو؟'' کمہار نے ہامی بھر لی۔ شہر آیا تو بادشاہ نے اسے منصف بنا دیا۔

کمہارکے سامنے ایک چورکا مقدمہ لایا گیا۔ کمہار نے فیصلہ سنا دیا کہ چورکے ہاتھ کاٹ دو۔ جلاد نے وزیر کی طرف دیکھا اورکمہار کے کان میں بولا۔ ''جناب ! یہ وزیرکا خاص آدمی ہے'' کمہار نے دوبارہ حکم سنایا۔'' اس کے ہاتھ کاٹ دو'' بعد ازاں وزیر نے خود کمہار کے کان میں سرگوشی کی۔ ''جناب ! تھوڑا خیال کریں، اپنا ہی آدمی ہے۔'' کمہار بولا۔ ''چور کے ساتھ ساتھ وزیر کی زبان ، ہاتھ دونوں کاٹ دو'' بادشاہ نے فیصلے پر عمل کروایا اور کمہار کے صرف ایک فیصلے کے بعد پورے ملک میں امن قائم ہو گیا۔

اگر گناہ گار کی سفارش کرنے والے کی زبان کاٹ دی جائے اور اپنوں کی غلط سرپرستی چھوڑ دی جائے اور مخالفین کو پھنسانے کی سازش چھوڑ دی جائے تو گولیاں چلنا بھی بند ہو جائیں گی اورقتل و غارت بھی رک جائے گی۔ اس عمل سے یقیناً سب سے بڑھ کر معاشرے میں امن بھی قائم ہو جائے گا۔

مظلوم کو بے عزت کیا جا رہا ہے، بھوک سے نڈھال ہوکر غریب نے ایک روٹی کیا چوری کرلی اس کو جیل میں ڈال دیا وہ ایڑھیاں رگڑتا رہا۔ بڑے اور بااثر اشخاص کو کتنی بڑی چوری کیوں نہ ہو وہ ملک لوٹے، ٹیکس کا پیسہ چوری کرے، اپنے ملک سے زر چوری کرکے باہر کے ممالک لے جائے بے ایمان اور ایسے لوگوں کو نہ صرف آزاد چھوڑ دیا گیا بلکہ انھیں معزز تصور کیا جا رہا ہے۔ وہ دندناتے پھر رہے ہیں ان کا بال بھی بیکا نہیں کیا جاسکتا۔

بلکہ ملکی ادارے اس سے خائف جو ان کو برا کہے تو بھی کچھ نہیں کیا جاتا۔ شاید غریب کے لیے اور قانون ، بڑے چوروں ، ڈکیتوں لوٹ مار کرنے والوں کے لیے کوئی دوسرا قانون ہے۔ جس معاشرے میں یہ سب کچھ ہو رہا ہو ، وہ معاشرہ کبھی خوشحال نہیں ہو سکتا سوائے ان چند لوگوں کے جو لوٹ مار میں شامل ہیں۔ ایسے معاشرے کو تباہ و برباد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاشرے کی اس خرابی میں ہم بھی شریک ہیں؟ اللہ رب العزت سے معافی مانگ کر ہمیں معاشرے کے اندر برائیوں کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اگر ہم سب مل کر کوشش کریں تو معاشرے سے ان تمام برائیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ملک لوٹنے والوں کو چھوڑ دینا اس ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ میں کیا کہوں، کس سے کہوں، کون روکے گا جس شعبہ ہائے زندگی پر نظر ڈالی جائے وہی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا گیا ہے، تعلیم کاروبار بن چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے رشوت ستانی قانون بن چکی ہے۔ احساس رشتوں سے ختم ہورہا ہے دعویدار محافظ قاتل اور لٹیرے بن چکے ہیں۔ شریف اور ایماندار کو بزدل تصور کیا جانے لگا ہے۔

خوشامدی ، چاپلوسی کرنیوالے مخلص تصور کیے جانے لگے ہیں۔ جھوٹ بولنے والے ، منافقین کو سب سے زیادہ ذہین سمجھا جا رہا ہے۔ چند جھوٹے ، منافق ، حرام خور ملک کے بڑے سیاستدان بن چکے ہیں۔ عدالتوں میں عدل و انصاف کا سرے عام قتل ہو رہا ہے۔ غریب ، غریب تر اور امیر، امیر تر ہو رہا ہے۔ ظالموں کو عزت اور مظلوم کو بے عزت کیا جا رہا ہے۔ میں نے دیکھا دیوار پرکچھ لکھا ہوا ہے، کھڑا ہوگیا اور خوشنما خطاطی پڑھنے لگا۔ لکھنے والے نے خود سوال کیا اور خود ہی جواب دے دیا۔

سوال: بڑے اور چھوٹے میں کیا فرق ہے؟

جواب: بڑا اس قدر کھاتا ہے، بدہضمی بھی ہو جائے لیکن پیٹ نہیں بھرتا ، چھوٹا آدمی وہ ہے جو بھوک ، افلاس ، ننگ ، غربت میں عمر گزار دیتا ہے ساری۔

سوال: اصلی گھی کا کنستر اور چاول کی بوری پہنچا دی کیا؟

جواب: ہاں، ہاں پہنچ گئے۔ اب تم لوگ روٹی شوٹی کھا کر جانا۔


سوال: پینے کے پانی کو ترستے ہیں ، تالاب کی شکل میں جمع ہونے والا پانی کب آتا ہے؟

جواب: جب بارش ہوتی ہے زیادہ بارش میں زیادہ پانی اور کم بارش میں کم پانی۔

سوال: قیمے والے نان ہیں کیا؟

جواب: ہاں بھئی! قیمے والے نان ہیں، پہلے '' امیر حمزہ کی داستان'' سن لو اس کے بعد نان ملیں گے، ساتھ لے کر بھی چلے جانا۔

سوال: غریب کو ''گریب'' کون کہتا ہے؟

جواب: جو بھی کہتا ہے وہ غریب نہیں، مخاطب ہوتا ہے لاکھوں کا لباس زیب تن کیا ہوتا ہے۔ آج تک غریب کے مسائل حل نہ کیے ہاں غریب سے ووٹ ضرور لیے۔

سوال: سرکاری ادارے کن سے ڈرتے ہیں؟

جواب: ایسے بڑے لوگ ، امیر ، کبیر، رؤسا جنھوں نے ملک لوٹا ، غریب عوام کے ٹیکس کا پیسہ، سرکاری خزانے سے مال، زر و رشوت لے کر بیرونی ممالک لے جا کر نہایت قیمتی عمارات خریدیں، کاروبار کیے۔ وہی لوگ ملک کے اداروں کو اس قدر برا کہتے ہیں سننے والوں کو شرم آجاتی ہے۔ بجائے ان کے ساتھ کارروائی کرنے کے ان سے خوف کھاتے رہیں۔

میں جب آگے آیا تو سوچوں کی اتھاہ گہرائی میں چلا گیا میرے ذہن نے کہا لکھنے والے نے لکھا وہ اپنے دل کی بات دیوار پر لکھ کر چلا گیا ، پڑھنے والوں نے پڑھا اور میری طرح پڑھ کر نکل گئے، اکثر لوگ سوال کرتے ہیں ''عمل کرنیوالوں نے کیا کیا؟'' جواب کچھ نہیں یاپھر کچھ۔

دراصل ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ہو وہ گناہ ہے اور اگر کسی کام کے کرنے کا حکم رب تبارک و تعالیٰ نے دیا وہ کام نہ ہو تو یہ بھی گناہ ہے۔ جس کام کو روکنا یا اس کے قریب جانے سے منع کیا گیا اس کو کرنا یا اس کے نزدیک جانا گناہ ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کسی برے کام کا معلوم ہونا اس کی روک تھام یا قلع قمع نہ کرنا یہ بھی تو گناہ ہے۔ وہ صاحب اقتدار جو برائی یا برے اعمال روک سکتے ہیں ان کے علم میں ہے اور وہ نہیں کر رہے تو کیا وہ گناہ میں شامل نہیں؟ میں اپنے مشاہدات تحریر کر رہا ہوں، ممکن ہے مجھ جیسے اور لوگوں کے یہی الفاظ اور جملے ہوں۔

جب کبھی زندگی رلائے سمجھیں گناہ معاف ہوگئے اور جب ہنسائے تو سمجھیں دعا قبول ہوگئی۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے گناہ پر ندامت گناہ کو مٹا دیتی ہے اور نیکی پر غرور و تکبر نیکی کو تباہ کر دیتا ہے۔ انسان روز گناہ کرتا ہے وہ روز چھپا دیتا ہے، انسان مجبور اپنی عادت سے وہ مجبور اپنی رحمت سے۔

یہ حقیقت ہے کہ گناہ زہر کی مانند ہوتا ہے کم ہو یا زیادہ ہر صورت میں نقصان ہوتا ہے۔ ہاں ، ہاں وہ تو گناہ گار کی دعا بھی سنتا ہے اس کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر تو دیکھیں وہ کبھی مایوس نہیں کرے گا۔ کوئی بھی گناہ کے بعد رنج ہو تو یاد رکھیں اس نیکی سے وہ رنج بہتر ہے جس سے غرور و تکبر پیدا ہو جائے۔ جو نیکیاں کریں ، جو عبادت کریں نہ بتائیں آپ میں کبھی غرور نہیں آئے گا ، اکثر لوگ ان باتوں سے ضرور متفق ہوں گے۔
Load Next Story