اللہ کے نام کی عظمت وفضیلت
ﷲ جل شانہ کو ہر اس نام سے پکار سکتے ہیں جو اس کے شایانِ شان ہو۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رحمت ِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''بے شک اﷲ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، (یعنی) سو میں ایک کم، جس نے ان کو (یاد کیا، یا ان کو پڑھا، یا ان کے معانی جانے اور ان پر عمل کیا اور محفوظ کر لیا) وہ جنّت میں داخل ہوگا۔''
بلاشبہ اﷲ جل جلالہ و اعظم شانہ کی عبادت و معرفت کا جذبہ انسانی فطرت اور طبیعت کا خاصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس دنیا بھر کے انسانوں نے اپنے خالق و حقیقی مالک کے وجود کو دیکھا تو نہیں، لیکن اس کے باوجود جب کبھی اس کی زندگی میں کوئی خوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو عموماً جبینِ انسانی میں سجدۂ شکر مچلنے لگتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس ان دیکھی غیبی ہستی کا شکر ادا کرے، ایسے ہی جب کوئی ناگوار حادثہ پیش آتا ہے تو انسانی ہاتھ اسی نادیدہ ذات کی طرف بے اختیار بڑھتے اور پھیلتے ہیں اور آنکھیں اپنے عجز کے اظہار میں اشک بار ہو جاتی ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی تاریخ کا کوئی زمانہ اور کائنات کا کوئی خطہ خدا پرستی کے اس فطری جذبے سے خالی نہیں رہا ہے، ہمیشہ سے دنیا والے اسی کو یاد کرتے اور پکارتے ہیں۔
ﷲ جل شانہ کو ہر اس نام سے پکار سکتے ہیں جو اس کے شایانِ شان ہو، اﷲ جل شانہ کی ذاتِ منبع الکمالات کو ملحدین و منکرین کے علاوہ (جن کی تعداد ہر زمانہ میں کالعدم رہی ہے) ہر قوم و مذہب کے لوگوں نے آج تک مختلف ناموں سے مانا اور پکارا ہے اور مانتے اور پکارتے رہیں گے۔
غرض جو جس نام سے بھی اﷲ جل شانہ کو یاد کرتا ہے اگر تحقیق کے بعد ثابت ہو جائے کہ و ہ نام اﷲ جل شانہ کی الوہیت و عظمت اور ذات و صفات کے خلاف نہیں تو فقہی نقطۂ نظر سے اس نام سے پکار نے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیوں کہ اﷲ جل شانہ خود ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ''آپ کہہ دیجیے کہ اﷲ جل شانہ کہہ کر پکارو! یا رحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو، پکار سکتے ہو ایک ہی بات ہے، اس کے بہت سے بہترین نام ہیں اور تمام بہترین نام اسی کے ہیں۔'' (بنی اسرائیل)
اﷲ جل شانہ کو ہر اس نام سے پکار سکتے ہیں جو اس کے شایانِ شان ہو، خواہ کسی بھی زبان میں ہو، مختلف مخلوقات کی زبانوں پر بھی تو اسی کا نام ہے۔ اگر گوشِ ہوش سے سنا جائے تو پتوں اور کلیوں کی سرسراہٹ، پھولوں کی مسکراہٹ، پرندوں اور چڑیوں کی چہچہاہٹ میں ''اﷲ، اﷲ'' کی آواز آتی ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کر رہی ہو۔ معلوم ہُوا ہر مخلوق اس کو پکارتی ہے اور پکار سکتی ہے۔
یہ وضاحت ہوگئی کہ اﷲ جل شانہ کے تمام بہترین نام اسی کے ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل کرتے ہوئے سرکار ِ دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: حق تعالیٰ کے اسمائیِ حسنیٰ کی تعداد ننانوے ہے، جو شخص ایمان اور عقیدت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا قُرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کے ننانوے نام محفوظ کر لے، یا ان کے ذریعے دعا کرے، یا ان کے ذریعے اپنے رب کو یاد کرے ، یا ان کے معانی جان کر عمل کرے تو وہ جنّت میں جائے گا۔
لیکن یہاں علمائِے محدثین فرماتے ہیں کہ اس تعبیر سے اﷲ جل شانہ کے اسمائیِ حسنیٰ کی تکثیر بیان کرنا مقصود ہے، تحدید نہیں، ورنہ ان ننانوے اسمائیِ حسنیٰ کے علاوہ بھی اﷲ جل شانہ کے ایسے بہت سے نام ہیں جن کا ذکر کلام اﷲ اور احادیث ِ رسول اﷲ ﷺ میں نہیں، البتہ ننانوے کا جو عدد ذکر کیا گیا اس کا مقصد یہ ہے کہ حدیث ِ پاک میں اسمائیِ حسنیٰ کو یاد کر نے والے کے لیے جنّت کی جو فضیلت ہے وہ ان ہی ننانوے ناموں کے ساتھ مخصوص ہے ۔ (مظاہرِ حق جدید) اور بعض سلف سے منقول ہے کہ جس نے ''اللّٰہم'' سے دعا مانگی اس نے گویا تمام ہی اسمائیِ حسنیٰ کے ذریعے دعا مانگی۔ (مظاہرِ حق جدید)
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ﷲ جل شانہ کے جتنے بھی اسمائیِ حسنیٰ ہیں وہ سب کے سب اس کی الوہیت و ربوبیت اور شانِ عظمت و رفعت، قدرت و قوت، نصرت و حفاظت، محبت و ہدایت، شفقت و سخاوت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں، ان تمام اسمائِے حسنیٰ میں لفظ اﷲ اسمِ ذات اور باقی اسمائیِ صفات ہیں، جیسا کہ خود قرآنِ پاک کے ارشاد سے پتا چلتا ہے، مفہوم: ''وہ اﷲ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسے تمام کھلی چھپی باتوں کا علم ہے ، وہی رحمٰن و رحیم ہے۔'' (الحشر)
یہاں اسمائیِ حسنیٰ میں لفظ ﷲ کو اسم ِ ذات قرار دیا اور موصوف بنایا، اور دوسرے اسمائیِ حسنیٰ کو صفت بنایا ہے، پھر عجیب بات یہ ہے کہ اس کی عظمتِ شان اس کے ہر عظیم الشان نام سے بھی ثابت ہوتی ہے۔
ایک حیرت انگیز حکایت: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق منقول ہے کہ مقامِ نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد اہل و عیال کے نان نفقہ سے مطمئن کرنے کی غرض سے حق تعالیٰ نے حکم فرمایا: موسیٰ! تمہارے قریب جو چٹان ہے اس پر عصا مارو۔ تعمیل ارشاد میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جب عصا مارا تو چٹان کے دو ٹکڑے ہوگئے اور درمیان سے ایک پتھر نکلا۔ پھر حکم ہوا کہ اس پتھر پر بھی عصا مارو۔
حکم کی تعمیل فرمائی تو اس سے ایک اور پتھر نکلا۔ ارشاد ہوا کہ اس پتھر پر ایک اور ضرب مارو۔ اب کی بار جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر عصا مارا تو اس میں سے ایک عجیب و غریب کیڑا نکلا، جس کے منہ میں بہ طورِ غذا ایک ہرا پتہ تھا اور ہونٹ ہل رہے تھے، کان لگا کر معلوم کیا تو آواز آرہی تھی: ''پاک ہے وہ! جو اس جگہ بھی مجھے برابر دیکھتا ہے، میری بات کو برابر سنتا ہے، میرے مکان اور مسکن سے بھی واقف ہے، مجھے برابر یاد رکھتا ہے، بھولتا نہیں۔'' (گلستانِ قناعت)
واقعی وہ ایسی ہی بلند و بالا شان والا ہے۔ ذات خدا وندی کو ''اﷲ'' اسی لیے تو کہتے ہیں کہ وہ نہایت ہی اعلیٰ و ارفع اور بلند و بالا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات اتنی بلند ہیں کہ پستی کا امکان ہی نہیں، وہ عجز و فنا سے بلند، ضعف و اضمحلال سے بلند، فقر و محتاجی سے بلند، سونے اور اونگھنے سے بلند، کم زوری اور سستی سے بلند، ہر قسم کے نقص و عیب اور وہم و گمان سے بلند ہے۔
اس کی بلندی کے سامنے تمام بلندیاں ہیچ ہیں، اس کے علم کے سامنے سب علوم جہالت، اس کی سماعت کے سامنے سب کی سماعتیں بہری، اس کی بصارت کے سامنے سب کی بصارتیں اندھی، اس کی فصاحت کے سامنے سب کی فصاحتیں گونگی، اس کے وجود کے سامنے سب کا وجود کالعدم اور اس کی بقا کے سامنے سب فنا۔ وہ اس قدر بلند و بالا ہے کہ عظمتوں کی معراج اور بلندیوں کی انتہا اسی کے لیے ہے۔
لفظ ''اﷲ'' حق تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس طرح اﷲ جل شانہ کی ذات و صفات بلند و بالا ہیں، ان میں اس کا کوئی ثانی اور شریک نہیں، اسی طرح اس کا اسم ِ ذات بھی بلند و بالا ہے ، اس میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس لیے علماء نے فرمایا کہ لفظ ''اﷲ'' حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ خاص ہے، لہٰذا لفظ ''اﷲ '' سے حق تعالیٰ ہی کو موسوم کیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ کسی کو نہیں، چناںچہ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''کیا کوئی اور ہے؟ جو اﷲ کے نام سے موسوم ہو۔'' (سورۃ مریم) اس کی ایک تفسیر یہی منقول ہے، اسی لیے اس مبارک نام کا نہ تثنیہ ہے اور نہ جمع۔ (قاموس الفقہ) جمہور اہل علم نے تو لفظ ''اﷲ''ہی کو اسم اعظم قرار دیا ہے۔ (مرقاۃ)
لیکن قطب ربانی، محبوبِ سبحانی حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ اگر لفظ ''اﷲ'' زبان سے اس حال میں ادا کیا جائے کہ دل میں اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کچھ نہ ہو، تب لفظ ''اﷲ'' اسم اعظم ہے ۔ (مرقاۃ) اور ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ دل اگر غیر سے اور پیٹ حرام سے خالی ہو تو پھر اﷲ جل شانہ کا ہر نام ''اسم اعظم'' ہے۔
''اﷲ'' تو ایسا بابرکت نام ہے کہ اگر خدا نہ خواستہ غفلت کے ساتھ بھی لیا جائے تب بھی برکت سے خالی نہیں، پھر عظمت کے ساتھ لینے کی کیا فضیلت ہوگی۔
اﷲ جل شانہ کا مقدس نام کائنات کی روح : کیوں کہ اﷲ جل جلالہ کا مقدس نام تو اس وقت بھی تھا جب کائنات میں کچھ نہ تھا اور اس وقت بھی ہوگا جب کچھ بھی باقی نہ رہے گا، اﷲ جل جلالہ کا مقدس نام ہی کائنات کی اصل روح اور جان ہے، یہ دنیا کی بستی اسی وقت تک آباد رہے گی جب تک کسی ایک کی زبان پر بھی یہ مقدس نام جاری رہے گا، اور جس وقت کوئی زبان بھی ''اﷲ، اﷲ'' کا ورد کرنے والی باقی نہ رہے گی اس وقت بساطِ عالم کو لپیٹ دیا جائے گا، آسمان کی قندیلیں بجھا دی جائیں گی، دریاؤں اور سمندروں کا پانی خشک ہوجائے گا، نظامِ عالم درہم برہم ہو جائے گا۔ (مشکوٰۃ )
بس ثابت ہوا کہ اﷲ جل شانہ کی ذات جیسے عظیم ہے اس کا مقدس نام بھی اسی طرح عظیم ہے اور عظمت سے اس کا مقدس نام لینے والا بھی عظیم ہے۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں: اﷲ رب العزت کا نام اتنا عظمت والا ہے کہ اگر ہم ہزار بار بھی مشک اور عنبر سے اپنی زبان دھو کر اس کا مقدس نام لیں تو اس کے تقدس کا حق ادا نہیں کر سکتے، لیکن یہ اس کا انعام اور احسان ہے کہ اس نے اپنا مقدس اور عظیم نام ہماری ناپاک اور حقیر زبان پر بہ آسانی جاری فرما دیا، اب جو اس پاک نام کو وردِ زبان رکھے گا، اس کی زبان اور جسم دونوں پاک ہو جائیں گے۔ ان شاء اﷲ۔ حق تعالیٰ ہمیں اپنی معرفت اور اپنے نام کی عظمت نصیب فرمائے۔ آمین
بلاشبہ اﷲ جل جلالہ و اعظم شانہ کی عبادت و معرفت کا جذبہ انسانی فطرت اور طبیعت کا خاصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس دنیا بھر کے انسانوں نے اپنے خالق و حقیقی مالک کے وجود کو دیکھا تو نہیں، لیکن اس کے باوجود جب کبھی اس کی زندگی میں کوئی خوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو عموماً جبینِ انسانی میں سجدۂ شکر مچلنے لگتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس ان دیکھی غیبی ہستی کا شکر ادا کرے، ایسے ہی جب کوئی ناگوار حادثہ پیش آتا ہے تو انسانی ہاتھ اسی نادیدہ ذات کی طرف بے اختیار بڑھتے اور پھیلتے ہیں اور آنکھیں اپنے عجز کے اظہار میں اشک بار ہو جاتی ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی تاریخ کا کوئی زمانہ اور کائنات کا کوئی خطہ خدا پرستی کے اس فطری جذبے سے خالی نہیں رہا ہے، ہمیشہ سے دنیا والے اسی کو یاد کرتے اور پکارتے ہیں۔
ﷲ جل شانہ کو ہر اس نام سے پکار سکتے ہیں جو اس کے شایانِ شان ہو، اﷲ جل شانہ کی ذاتِ منبع الکمالات کو ملحدین و منکرین کے علاوہ (جن کی تعداد ہر زمانہ میں کالعدم رہی ہے) ہر قوم و مذہب کے لوگوں نے آج تک مختلف ناموں سے مانا اور پکارا ہے اور مانتے اور پکارتے رہیں گے۔
غرض جو جس نام سے بھی اﷲ جل شانہ کو یاد کرتا ہے اگر تحقیق کے بعد ثابت ہو جائے کہ و ہ نام اﷲ جل شانہ کی الوہیت و عظمت اور ذات و صفات کے خلاف نہیں تو فقہی نقطۂ نظر سے اس نام سے پکار نے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیوں کہ اﷲ جل شانہ خود ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ''آپ کہہ دیجیے کہ اﷲ جل شانہ کہہ کر پکارو! یا رحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو، پکار سکتے ہو ایک ہی بات ہے، اس کے بہت سے بہترین نام ہیں اور تمام بہترین نام اسی کے ہیں۔'' (بنی اسرائیل)
اﷲ جل شانہ کو ہر اس نام سے پکار سکتے ہیں جو اس کے شایانِ شان ہو، خواہ کسی بھی زبان میں ہو، مختلف مخلوقات کی زبانوں پر بھی تو اسی کا نام ہے۔ اگر گوشِ ہوش سے سنا جائے تو پتوں اور کلیوں کی سرسراہٹ، پھولوں کی مسکراہٹ، پرندوں اور چڑیوں کی چہچہاہٹ میں ''اﷲ، اﷲ'' کی آواز آتی ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کر رہی ہو۔ معلوم ہُوا ہر مخلوق اس کو پکارتی ہے اور پکار سکتی ہے۔
یہ وضاحت ہوگئی کہ اﷲ جل شانہ کے تمام بہترین نام اسی کے ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل کرتے ہوئے سرکار ِ دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: حق تعالیٰ کے اسمائیِ حسنیٰ کی تعداد ننانوے ہے، جو شخص ایمان اور عقیدت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا قُرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کے ننانوے نام محفوظ کر لے، یا ان کے ذریعے دعا کرے، یا ان کے ذریعے اپنے رب کو یاد کرے ، یا ان کے معانی جان کر عمل کرے تو وہ جنّت میں جائے گا۔
لیکن یہاں علمائِے محدثین فرماتے ہیں کہ اس تعبیر سے اﷲ جل شانہ کے اسمائیِ حسنیٰ کی تکثیر بیان کرنا مقصود ہے، تحدید نہیں، ورنہ ان ننانوے اسمائیِ حسنیٰ کے علاوہ بھی اﷲ جل شانہ کے ایسے بہت سے نام ہیں جن کا ذکر کلام اﷲ اور احادیث ِ رسول اﷲ ﷺ میں نہیں، البتہ ننانوے کا جو عدد ذکر کیا گیا اس کا مقصد یہ ہے کہ حدیث ِ پاک میں اسمائیِ حسنیٰ کو یاد کر نے والے کے لیے جنّت کی جو فضیلت ہے وہ ان ہی ننانوے ناموں کے ساتھ مخصوص ہے ۔ (مظاہرِ حق جدید) اور بعض سلف سے منقول ہے کہ جس نے ''اللّٰہم'' سے دعا مانگی اس نے گویا تمام ہی اسمائیِ حسنیٰ کے ذریعے دعا مانگی۔ (مظاہرِ حق جدید)
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ﷲ جل شانہ کے جتنے بھی اسمائیِ حسنیٰ ہیں وہ سب کے سب اس کی الوہیت و ربوبیت اور شانِ عظمت و رفعت، قدرت و قوت، نصرت و حفاظت، محبت و ہدایت، شفقت و سخاوت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں، ان تمام اسمائِے حسنیٰ میں لفظ اﷲ اسمِ ذات اور باقی اسمائیِ صفات ہیں، جیسا کہ خود قرآنِ پاک کے ارشاد سے پتا چلتا ہے، مفہوم: ''وہ اﷲ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسے تمام کھلی چھپی باتوں کا علم ہے ، وہی رحمٰن و رحیم ہے۔'' (الحشر)
یہاں اسمائیِ حسنیٰ میں لفظ ﷲ کو اسم ِ ذات قرار دیا اور موصوف بنایا، اور دوسرے اسمائیِ حسنیٰ کو صفت بنایا ہے، پھر عجیب بات یہ ہے کہ اس کی عظمتِ شان اس کے ہر عظیم الشان نام سے بھی ثابت ہوتی ہے۔
ایک حیرت انگیز حکایت: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق منقول ہے کہ مقامِ نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد اہل و عیال کے نان نفقہ سے مطمئن کرنے کی غرض سے حق تعالیٰ نے حکم فرمایا: موسیٰ! تمہارے قریب جو چٹان ہے اس پر عصا مارو۔ تعمیل ارشاد میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جب عصا مارا تو چٹان کے دو ٹکڑے ہوگئے اور درمیان سے ایک پتھر نکلا۔ پھر حکم ہوا کہ اس پتھر پر بھی عصا مارو۔
حکم کی تعمیل فرمائی تو اس سے ایک اور پتھر نکلا۔ ارشاد ہوا کہ اس پتھر پر ایک اور ضرب مارو۔ اب کی بار جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر عصا مارا تو اس میں سے ایک عجیب و غریب کیڑا نکلا، جس کے منہ میں بہ طورِ غذا ایک ہرا پتہ تھا اور ہونٹ ہل رہے تھے، کان لگا کر معلوم کیا تو آواز آرہی تھی: ''پاک ہے وہ! جو اس جگہ بھی مجھے برابر دیکھتا ہے، میری بات کو برابر سنتا ہے، میرے مکان اور مسکن سے بھی واقف ہے، مجھے برابر یاد رکھتا ہے، بھولتا نہیں۔'' (گلستانِ قناعت)
واقعی وہ ایسی ہی بلند و بالا شان والا ہے۔ ذات خدا وندی کو ''اﷲ'' اسی لیے تو کہتے ہیں کہ وہ نہایت ہی اعلیٰ و ارفع اور بلند و بالا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات اتنی بلند ہیں کہ پستی کا امکان ہی نہیں، وہ عجز و فنا سے بلند، ضعف و اضمحلال سے بلند، فقر و محتاجی سے بلند، سونے اور اونگھنے سے بلند، کم زوری اور سستی سے بلند، ہر قسم کے نقص و عیب اور وہم و گمان سے بلند ہے۔
اس کی بلندی کے سامنے تمام بلندیاں ہیچ ہیں، اس کے علم کے سامنے سب علوم جہالت، اس کی سماعت کے سامنے سب کی سماعتیں بہری، اس کی بصارت کے سامنے سب کی بصارتیں اندھی، اس کی فصاحت کے سامنے سب کی فصاحتیں گونگی، اس کے وجود کے سامنے سب کا وجود کالعدم اور اس کی بقا کے سامنے سب فنا۔ وہ اس قدر بلند و بالا ہے کہ عظمتوں کی معراج اور بلندیوں کی انتہا اسی کے لیے ہے۔
لفظ ''اﷲ'' حق تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس طرح اﷲ جل شانہ کی ذات و صفات بلند و بالا ہیں، ان میں اس کا کوئی ثانی اور شریک نہیں، اسی طرح اس کا اسم ِ ذات بھی بلند و بالا ہے ، اس میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس لیے علماء نے فرمایا کہ لفظ ''اﷲ'' حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ خاص ہے، لہٰذا لفظ ''اﷲ '' سے حق تعالیٰ ہی کو موسوم کیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ کسی کو نہیں، چناںچہ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''کیا کوئی اور ہے؟ جو اﷲ کے نام سے موسوم ہو۔'' (سورۃ مریم) اس کی ایک تفسیر یہی منقول ہے، اسی لیے اس مبارک نام کا نہ تثنیہ ہے اور نہ جمع۔ (قاموس الفقہ) جمہور اہل علم نے تو لفظ ''اﷲ''ہی کو اسم اعظم قرار دیا ہے۔ (مرقاۃ)
لیکن قطب ربانی، محبوبِ سبحانی حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ اگر لفظ ''اﷲ'' زبان سے اس حال میں ادا کیا جائے کہ دل میں اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کچھ نہ ہو، تب لفظ ''اﷲ'' اسم اعظم ہے ۔ (مرقاۃ) اور ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ دل اگر غیر سے اور پیٹ حرام سے خالی ہو تو پھر اﷲ جل شانہ کا ہر نام ''اسم اعظم'' ہے۔
''اﷲ'' تو ایسا بابرکت نام ہے کہ اگر خدا نہ خواستہ غفلت کے ساتھ بھی لیا جائے تب بھی برکت سے خالی نہیں، پھر عظمت کے ساتھ لینے کی کیا فضیلت ہوگی۔
اﷲ جل شانہ کا مقدس نام کائنات کی روح : کیوں کہ اﷲ جل جلالہ کا مقدس نام تو اس وقت بھی تھا جب کائنات میں کچھ نہ تھا اور اس وقت بھی ہوگا جب کچھ بھی باقی نہ رہے گا، اﷲ جل جلالہ کا مقدس نام ہی کائنات کی اصل روح اور جان ہے، یہ دنیا کی بستی اسی وقت تک آباد رہے گی جب تک کسی ایک کی زبان پر بھی یہ مقدس نام جاری رہے گا، اور جس وقت کوئی زبان بھی ''اﷲ، اﷲ'' کا ورد کرنے والی باقی نہ رہے گی اس وقت بساطِ عالم کو لپیٹ دیا جائے گا، آسمان کی قندیلیں بجھا دی جائیں گی، دریاؤں اور سمندروں کا پانی خشک ہوجائے گا، نظامِ عالم درہم برہم ہو جائے گا۔ (مشکوٰۃ )
بس ثابت ہوا کہ اﷲ جل شانہ کی ذات جیسے عظیم ہے اس کا مقدس نام بھی اسی طرح عظیم ہے اور عظمت سے اس کا مقدس نام لینے والا بھی عظیم ہے۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں: اﷲ رب العزت کا نام اتنا عظمت والا ہے کہ اگر ہم ہزار بار بھی مشک اور عنبر سے اپنی زبان دھو کر اس کا مقدس نام لیں تو اس کے تقدس کا حق ادا نہیں کر سکتے، لیکن یہ اس کا انعام اور احسان ہے کہ اس نے اپنا مقدس اور عظیم نام ہماری ناپاک اور حقیر زبان پر بہ آسانی جاری فرما دیا، اب جو اس پاک نام کو وردِ زبان رکھے گا، اس کی زبان اور جسم دونوں پاک ہو جائیں گے۔ ان شاء اﷲ۔ حق تعالیٰ ہمیں اپنی معرفت اور اپنے نام کی عظمت نصیب فرمائے۔ آمین