اسلامی حکومت میں یہود کیسے خوشحال وامیر ہوئے

دربدر بھٹکتی ایک قوم کو جب ہمدرد مسلمانوں نے پناہ دے کر ترقی یافتہ بنا دیا…حیرت انگیز داستان

دربدر بھٹکتی ایک قوم کو جب ہمدرد مسلمانوں نے پناہ دے کر ترقی یافتہ بنا دیا…حیرت انگیز داستان. فوٹو : فائل

KARACHI:
ڈیوڈ بن گوریان (متوفی 1973 ء)یہودی ریاست اسرائیل کا بانی کہلاتا ہے۔پہلا اسرائیلی وزیراعظم رہا۔اس کا قول ہے:''زیادہ سے زیادہ رقبہ اور کم سے کم عرب۔''معنی یہ کہ اسرائیلی حکومت کو فلسطین کے زیادہ سے زیادہ رقبے پر قبضہ کر لینا چاہیے اور وہاں کم سے کم عرب فلسطینی مسلمان آباد ہوں۔پچھلے چوہترسال سے اسرائیلی حکمران طبقہ اسی پالیسی پہ عمل پیرا ہے۔

اس دوران اسرائیلی حکومت ایسے کئی سخت قوانین بنا چکی جن کے باعث اب اسرائیل میں مقیم کوئی فلسطینی مسلمان گھر نہیں بنا سکتا اور نہ ہی کوئی زمین خرید پاتا ہے۔جبکہ دنیا بھر میں مقیم یہود کو اسرائیل میں زمین یا گھر خریدنے کی خاطر ہر ممکن سہولت دی جاتی ہے۔

اسرائیل میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی حکمران طبقے کا سلوک نہایت ظالمانہ اور شرمناک ہے۔خصوصاً یہ سچائی مدنظر رکھتے ہوئے کہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے پچھلی کئی صدیوں سے رومیوں اور عیسائیوں کے ظلم وستم کا شکار یہودی قوم کو خلافت اسلامیہ میں نہ صرف پناہ دی بلکہ انھیں ترقی کرنے،پھلنے پھولنے اور خوشحال ہونے کے مواقع بھی فراہم کیے۔دور جدید کے یہود مگر مسلمانوں کے تمام احسانات بھول کر فلسطینیوں پہ ایسے خوفناک مظالم ڈھا رہے ہیں جنھیں دیکھ کر انسان خون کے آنسو روتا ہے۔

غلامی سے ملک بدری تک
ماضی میں یہود اللہ تعالی کی مسلسل نافرمانی کرتے رہے،اسی لیے ان پہ عذاب بھی نازل ہوئے۔587قبل مسیح میںشاہ ِ بابل ،نبو خد نصر نے یروشلم پہ حملہ کیا اور ہیکل سلیمانی تباہ کر ڈالا۔وہ ہزارہا یہود کو قیدی بنا کر بابل لے گیا۔کئی سال بعد ایران کے بادشاہ،سائرس اعظم نے بابل فتح کر کے یہود کو آزاد کر دیا۔یہود واپس یروشلم آئے اور دوسرا ہیکل تعمیر کیا۔

آج کے احسان فراموش یہود مگر انہی ایرانیوں کے درپے ہیں اور ایران کو تباہ کرنے کے خواہشمند۔ 63 ق م میں رومی فوج نے فلسطین پہ قبضہ کر لیا۔رومی بھی ہزارہا یہود کو غلام بنا کر روم لے گئے جہاں ان سے پست ورزیل کام کرائے گئے۔یوں رومیوں اور یہود کے مابین طویل تصادم شروع ہوا۔یہود نے کئی بار بغاوتیں کیں جو رومی فوج نے کچل دیں۔ 70ء میں آخر رومیوں نے یہود کا مرکز،دوسرا ہیکل برباد کر ڈالا۔اسی سال یہود پہ ٹیکس لگ گیا۔اب وہ ٹیکس دے کر ہی مذہبی رسومات ادا کر پاتے۔135ء میں رومی حکومت نے یہود کو یروشلم سے نکال دیا۔اب وہ سال میں صرف ایک دن اپنا مذہبی یوم منانے آ سکتے تھے۔

یہود بار بار بغاوتیں کرنے کے باعث مسئلہ بن چکے تھے۔رومی حکمرانوں نے انھیں گروہوں کی صورت زبردستی مختلف علاقوں میں بھجوا دیا۔اس طرح یہود تتّربتّر ہو گئے ۔ان پہ یہ عذاب اسی لیے آیا کہ انھوں نے اللہ کے نبی،حضرت عیسیؑ کو اذیتیں دیں اور اپنی دانست میں انھیں شہید کر ڈالا۔انجیل یوحنا(8-37 to 45)میں حضرت عیسیؑ یہودی ربیّوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تم لوگ شیطان کی اولاد ہو،اسی لیے مجھے قتل کرنا چاہتے ہو۔ان کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی۔اسی لیے جب رومی بادشاہ،قسطنطین اعظم نے 312ء میں عیسائیت کو اپنی سلطنت کا سرکاری مذہب بنایا تو عیسائی یہود کے درپے ہو گئے۔وہ یہود کو یسوع مسیحؑ کا قاتل سمجھتے تھے۔

یہی وجہ ہے،قسطنطین اعظم کی والدہ،ملکہ ہیلینا کے حکم پہ ہیکل کے مقام پر شہر کا کوڑا پھینکا جانے لگا۔گویا یہود کے مقدس ترین مقام کو عیسائیوں نے کوڑا گھر بنا لیا۔انتہائی تعجب خیز بات یہ ہے کہ آج امریکا اور یورپ میں لاکھوں عیسائی یہود کو اپنا بھائی بند بنا چکے ہیں۔یہ انقلاب کیونکر آیا،اس کے پس پشت ایک طویل مذہبی داستان پوشیدہ ہے۔مختصر یہ کہ یہود نے بڑی عیاری وچالاکی سے بائیبل کی تفسیر میں ردوبدل کر کے عیسائی عوام کو گمراہ کیا اور یوں اپنا دوست بنا لیا۔

مسلمانوں کا حُسن سلوک
جب رومی فلسطین پر قابض ہوئے تو بہت سے یہودی ازخود بھی مختلف علاقوں کو ہجرت کر گئے تھے۔یوسف فلاوی (Josephus) جو 100ء میں مرا،ممتاز رومی نژاد یہودی مورخ گذرا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جب دوسرا ہیکل تباہ ہوا تو فارس، عراق (بابل) اور عرب میں یہودی بستیاں آباد تھیں۔ گویا کئی یہودی دو ہزار سال پہلے عرب چلے آئے تھے۔بعض یہود قبائل مدینہ منورہ اور قرب جوار کے علاقے میں آباد ہوئے۔

فلسطین میں یہود کی اکثریت رہائش پذیر رہی مگر انھیں یروشلم میں رہنے کی اجازت نہ تھی۔مذید براں عیسائی حکومتوں نے انھیں نئے کنیسہ بنانے سے روک دیا۔وہ کوئی سرکاری عہدہ بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔معمولی واقعات پر یہود کو مارا پیٹا جاتا۔غرض عیسائی حکمرانوں نے یہود کے ساتھ جانوروں جیسا ذلت آمیز سلوک روا رکھا۔ عرب میں آباد یہودی مگر پُرامن اور خوشحال زندگی بسر کرتے رہے۔ان کے عربوں سے اچھے تعلقات تھے۔

اسی دوران عرب میں اسلام کا سورج طلوع ہوا۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ مدینہ تشریف لائے تو مسلمانوں اور یہود کا ربط ضبط بڑھ گیا۔یہود میں اچھے برے،دونوں قسم کے لوگ موجود تھے۔اسی لیے تعلقات بھی اونچ نیچ کا شکار رہے۔عیار ومکار یہود کو حضور اکرمﷺ نے سزائیں دیں۔جبکہ غریب امن پسند یہود کو اسلامی حکومت سے وظائف ملتے رہے۔گویا نبی کریمﷺ اور مسلمانوں نے عیسائیوں کی طرح تمام یہود کو حضرت عیسیؑ کا قاتل گردان کر ان سے تحقیر آمیز سلوک نہیں کیا بلکہ ہر یہودی سے انفرادی طور پہ پیش آئے۔یہی وجہ ہے،کئی یہود مسلمانوں کے حُسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام لے آئے۔

حضرت عیسیؑ کی پیشگوئی
رومی حکمرانوں نے دوسرا ہیکل ڈھا کر ٹیمپل مائونٹ پر اپنے دیوتائوں کا معبد تعمیر کر لیا۔بعد ازاں اسے بھی گرا دیا گیا۔آج مگر یہود کا دعوی ہے کہ دوسرے ہیکل کی ایک دیوار موجود ہے جسے وہ ''مغربی دیوار'' یا ''دیوار گریہ'' کہتے ہیں۔ یہ حرم الشریف کا حصّہ ہے۔درحقیقت یہ دیوار رومیوں کے تعمیر شدہ معبد یا قلعے کا بچا کھچا حصّہ ہے جسے یہود نے بڑی عیاری سے ہیکل کی باقیات بنا ڈالا۔ مقصد یہ ہے کہ حرم الشریف پر اپنا حق جتایا جا سکے۔

حیران کن بات یہ کہ لاکھوں عیسائی بھی یہود کے جھوٹ پر یقین رکھتے ہیں کہ دیوار ہیکل کی نشانی ہے۔ وجہ یہ کہ حضرت عیسیؑ نے واضح طور پر پیشگوئی فرمائی تھی کہ دوسرا ہیکل ''مکمل''طور پر تباہ ہو جائے گا۔ حتی کہ ایک پتھر پر دوسرا پتھر بھی باقی نہیں رہے گا۔ (انجیل مرقس۔ 13-1 to 2)۔ جو عیسائی مغربی دیوار کو ہیکل کی یادگار کہتے ہیں،گویا وہ اپنے ہی رسولؑ کی بات جھٹلا دیتے ہیں۔یہ بڑا انوکھا امر ہے۔

حرم الشریف کا قیام
حقائق سے آشکارا ہے کہ جب 638ء میں مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تو ٹیمپل مائونٹ پر دوسرے ہیکل کا نام ونشان نہیں تھا۔عیسائی اس مقام پر کوڑا کرکٹ ڈالتے تھے۔ مگر اللہ تعالی نے اس مقام کو مقدس حیثیت دے رکھی تھی۔اسی لیے اس کی شان وشوکت بحال کرنے کی خاطر اسے مسلمانوں کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ مسلمانوں کے لیے مقدس مقام بن چکا تھا۔حضوراکرمﷺ نے کئی سال اس کی سمت رخ کر کے نماز ادا فرمائی تھی۔نیز اسی مقام سے آپﷺ شب قدر کی رات عالم بالا تشریف لے گئے تھے۔چناں چہ خلیفہ دوم،حضرت عمر فاروقؓ نے ٹیمپل مائونٹ کی صفائی کرائی اوروہاں نماز پڑھی ۔اموی خلفا نے اس جگہ مسجد اقصی،گنبد ضخرہ اور دیگر تعمیرات بنوا دیں۔

یوں امت مسلمہ کا تیسرا مقدس مقام، حرم الشریف وجود میں آیا۔حضرت عمر فاروقؓ نے ایک اور انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے ساٹھ ستر یہودی گھرانوں کو یروشلم کے قرب وجوار میں رہنے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔نیز یہ بھی اعلان فرمایا کہ یہود جب چاہیں،یروشلم میں آ جا سکتے ہیں۔یہود کو فلسطین میں کنیسہ اور گھر بنانے کی اجازت بھی مل گئی۔اس طرح عیسائیوں نے یہود کی نقل وحرکت پر جو کڑی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں،اسلامی حکومت نے ان کا خاتمہ کر دیا۔اس نے یہود سے عمدہ سلوک کیا۔جبکہ آنے والی صدیوں میں تو خلافت اسلامیہ یہود کے لیے مسیحا اور نجات دہندہ ثابت ہوئی۔یہ سچائی مسلم نہیں غیر مسلم محقق ہی بیان کرتے ہیں۔

تعلیم اور مسلم امداد
مارسٹیلا بوتسینی اٹلی کی بوکانی (Bocconi)یونیورسٹی میں معاشیات کی پروفیسر ہیں۔ انھوں نے اسرائیل کے ممتاز ماہر معاشیات،تسفی ایکسٹین کی شراکت میں ایک کتاب''The Chosen Few: How Education Shaped Jewish History ''تحریر کی جو 2012میں شائع ہوئی۔کتاب کا موضوع یہ ہے کہ یہود قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے بھی دنیا کی امیر اور خوشحال قوم کیسے بن گئے؟محققین نے عرق ریزی سے تحقیق کے بعد دریافت کیا کہ یہ عمل دو عوامل کی بنیاد پر پیدا ہوا: اول ''تعلیم حاصل کرنے سے'' اور دوم ''مسلمانوں کی عملی امداد'' کے سبب!

محقق درج بالا کتا ب میں لکھتے ہیں کہ دو ہزار سال قبل فلسطین میں آباد یہود کی زندگیاں دو اعمال پر استوار تھیں۔اول یروشلم میں واقع ٹیمپل مائونٹ پر بنے ہیکل میں قربانی دینا۔دوسرے توریت کی تعلیم پانا۔مگر اس وقت یہ دونوں اعمال یہودی عوام کی طرف سے ربیّوں(مذہبی رہنمائوں) کا چھوٹا ساایلیٹ طبقہ انجام دیتا تھا۔معنی یہ کہ کسی عام یہودی کو ہیکل میں قربانی دینے یا توریت پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ان دونوں اعمال پر ربیّوں کا ایلیٹ طبقہ قابض تھا۔

(اسی طبقے کی آمریتاور کرپشن کے خلاف ایک یہودی نوجوان،یسوع بن یوسف المعروف بہ حضرت عیسی ؑ نے جہاد کیا)70ء میں رومی فوج نے دوسرا ہیکل تباہ کر دیا۔یروشلم سے سبھی یہودی نکال دئیے گئے جو گروہوں کی صورت مختلف مقامات پر جا بسے۔اب یہودی ربیّوں کو احساس ہوا کہ اگر انھوں نے عام یہودی تک توریت اور دیگر مذہبی کتب کی رسائی نہ دی تو وہ رفتہ رفتہ اپنے مذہب سے کٹ جائے گا۔مذہب سے تعلق برقرار رکھنے کی خاطر انھوں نے ہر یہودی پہ یہ لازم کر دیا کہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا،غریب ہو یا امیر، توریت کی تعلیم لازماً حاصل کرے گا۔

مذہبی تعلیم کی پابندی
انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مذہب کے پیروکاروں کو اس امر کا پابند بنایا گیا کہ وہ ہر حال میں مذہبی تعلیم پائیں گے۔یہی نہیں ،یہودی والدین پر فرض کیا گیا کہ جب ان کا بچہ پانچ چھ سال کا ہو جائے تو وہ اسے کنسیہ(یہودی عبادت گاہ) میں واقع مدرسے ضرور بھجوائیں ۔یوں یہودیت میں ایک اچھوتا انقلاب آ یا اور تعلیم اس کا نیا ستون بن گئی۔اس زمانے میں کسی مذہب یا ریاست نے اپنے پیروکاروں یا شہریوں پہ یہ پابندی نہیں لگائی تھی کہ وہ ضرور مذہبی تعلیم پائیں ۔رفتہ رفتہ کنسیہ کے مدرسوں میں دیگر علوم کی بھی تدریس ہونے لگی۔یوں وہ مذہبی و دنیاوی تعلیم کے علمی مراکز بن گئے۔

اس وقت ایشیا،افریقا اور یورپ کے مختلف علاقوں میں بسے سبھی یہود زراعت پیشہ تھے۔ان کی اکثریت کا خیال تھا کہ بچوں کو تعلیم دلوانے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انھوں نے آخرکار کاشت کار ہی بننا ہے۔یہی وجہ ہے،بہت سے یہود نے اپنے بچوں کو کنسیہ نہیں بھجوایا۔یہ بچے جب بڑے ہوتے تو اپنی مذہبی تعلیمات سے نابلد ہوتے۔اسی لیے معاشی فوائد پانے کی خاطر وہ عیسائی بن جاتے کہ تب تک عیسائیت رومی سلطنت کا سرکاری مذہب بن چکا تھا۔محققین لکھتے ہیں کہ 65ء میں دنیا میں پچاس سے پچپن لاکھ کے مابین یہودی موجود تھے۔650ء تک مگر ان کی تعداد صرف بارہ تیرہ لاکھ رہ گئی۔یہود کی آبادی کم ہونے جانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت نے کسی نہ کسی وجہ سے عیسائیت یا دیگر مذاہب اختیار کر لیے۔اس کے بعد بچے کھچے یہود کی زندگیوں میں ایک اور بڑا انقلاب برپا ہوا...اور اس کا سبب دین اسلام کی آمد تھی۔


مسلمان سپر پاور بن گئے
ہوا یہ کہ 632ء میں نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد مسلمان اگلے ستر اسّی برس میں ایشیا سے لے کر افریقا اور روس تک وسیع علاقے اپنے زیرنگیں لے آئے۔ اس طرح شاندار خلافت اسلامیہ کی بنیاد پڑی۔اب مسلمان دنیا کی ایک بڑی سپر پاور بن گئے۔انھوں نے اپنی سلطنت میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیا۔نئی صنعتیں لگیں۔تجارت کے نئے مواقع پیدا ہوئے اور کاروبار بھی نموپذیر ہو گیا۔مسلم حکمران سائنس وٹیکنالوجی کی سرپرستی کرنے لگے۔غرض علم پرور اسلامی تعلیمات کے زیراثر اسلامی خلافت میں معاشی و معاشرتی انقلاب برپا ہو گیا۔

850ء تک مسلمانوں کی سعی سے ایسی زبردست خلافت اسلامیہ وجود میں آ گئی جو ایک طرف چین وہندوستان ،دوسری سمت روس اور تیسری طرف مراکش و اسپین تک پھیلی ہوئی تھی۔اس سلطنت میں زراعت،صنت وتجارت اور کاروبار نے بھرپور ترقی کی۔نئے کارخانے لگے اور نت نئے پیشے ظہور میں آئے۔نئے شہروں اور قصبوں کی بنیاد بھی رکھی گئی۔قابل ذکر بات یہ کہ ان ڈرامائی تبدیلیوں کی وجہ سے خلافت میں ایسے افراد کی مانگ بڑھ گئی جو تعلیم یافتہ،مختلف علوم وفنون میں طاق اور ہنرمند ہوں۔

اس زمانے میں بارہ تیرہ لاکھ میں سے ''75''یہود ایشیائی،افریقی اور قرب وجوار کے ممالک میں مقیم تھے۔ان سبھی یہود نے اسلامی خلافت کے کسی نہ کسی نجی و سرکاری شعبے میں ملازمت کر لی۔انھیں ملازمت اس لیے ملی کہ وہ تعلیم یافتہ اور ہنرمند تھے۔جبکہ یہود اس لیے ملازمتوں کی جانب مائل ہوئے کیونکہ انھیں کھیتی باڑی سے زیادہ ملازمت میں آمدن ہو رہی تھی۔لہذا چند عشروں میں لاکھوں یہود نے زراعت کو خیرباد کہا اور اسلامی سلطنت میں صنعت وتجارت،کاروبار،درس وتدریس اور سرکاری شعبوں سے وابستہ ہو گئے۔

یہودی سرمایہ دار بنتے ہیں
یوں یہود کی زندگیوں میں نیا انقلاب آ گیا۔عام یہودی حضرت یوسفؑ کے زمانے سے کاشت کاری کرتے چلے آ رہے تھے۔خلافت اسلامیہ قائم ہونے پر انھوں نے زراعت کو پس پشت ڈالا اور اسلامی شہروں میں پہنچ نجی وسرکاری ملازمتیں کرنے لگے۔انھوں نے خلافت کی معاشی و معاشرتی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ لیا اور اسے ترقی دینے میں ممد ومعاون بنے۔کئی یہود نے اسلامی دنیا میں شہرت پائی۔وہ خلفا اور وزرا کے مشیر رہے۔ذمی ہونے کے ناتے انھیں تمام شہری حقوق حاصل تھے۔حتی کہ وہ خلافت اسلامیہ میں کسی بھی جگہ کسی بھی وقت زمین خرید سکتے تھے۔(اسرائیل میں یہودی حکمران اس کے برعکس عمل کر رہے ہیں)مگر یہود زراعت سے کٹ چکے تھے،اسی لیے انھوں نے زمین خریدنے کے بجائے سرمایہ جمع کرنے کو ترجیع دی۔

مارسٹیلا بوتسینی اور تسفی ایکسٹین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :''دور جدید کے مغربی ماہرین کی اکثریت سمجھتی ہے کہ یہود جب دنیا بھر میں بکھرنے کے بعد مختلف علاقوں میں قیام پذیر ہوئے تو وہاں لگی معاشی پابندیوں کے باعث کھیتی باڑی چھوڑ کر دکاندار، تاجر، ہنرمند، ساہوکار، طبیب، بینکار، سائنس داں، دانشور وغیرہ بن گئے۔ مگر تاریخ کے مطالعے سے یہ نظریہ باطل قرار پاتا ہے۔زراعت چھوڑنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہیکل کی تباہی کے بعد ہر یہودی مذہبی ودنیاوی تعلیم پانے لگا۔اور جب اسلامی سلطنت وجود میں آئی تو اسی تعلیم ہی نے یہود کی قدر وقیمت بڑھا دی۔چناں چہ نئی سلطنت کے صنعتی،تجارتی اور کاروباری شعبوں میں یہود کی مانگ بڑھ گئی۔تب وہ کاشت کاری چھوڑ کر ان شعبوں میں چلے آئے کیونکہ وہاں انھیں زیادہ آمدن ہو رہی تھی۔''

مغرب میں یہودی ساہوکار
مغربی محققوں کی تحقیق سے عیاں ہے کہ خلافت اسلامیہ کا قیام یہود کی زندگیوں میں انقلاب لے آیا۔اب وہ پہلے کی طرح کسان یا مویشی پال نہیں رہے بلکہ دیگر انسانی شعبوں میں نفوذ کرنے لگے۔جب عباسی خلافت زوال پذیر ہوئی تو یہود کی اکثریت اندلس ہجرت کر گئی۔رفتہ رفتہ اب وہ علاقہ یہود کا بڑا مرکز بن گیا۔ اندلسی مسلم حکمرانوں کے دربار میں کئی یہودی موجود تھے۔صنعت وتجارت اور کاروبار میں سرگرم حصّہ لینے کے سبب انھوں نے کثیر سرمایہ بھی جمع کر لیا۔تبھی بہت سے یہودی اس سرمائے کو سود پر دینے لگے اور یوں ساہوکار بن بیٹھے۔اس شعبے میں انھیں یوں بھی ترقی ملی کہ عیسائی اور مسلمان سود کو حرام سمجھتے اور اس کام سے دور رہتے۔

جب اندلس میں اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوا تو عیسائی حکمرانوں نے تمام یہود کو اسپین سے نکال دیا اور ان پہ ظلم و ستم کیے۔امیرکبیر یہود افریقی وایشائی ممالک ہجرت کر گئے۔آہستہ آہستہ انھوں نے یورپی ملکوں خصوصاً اٹلی،جرمنی،فرانس،ہالینڈ اور برطانیہ کا رخ کر لیا۔انھیں خوش آمدید نہیں کہا گیا مگر امیر یہود بتدریج یورپی معاشروں میں قبول کر لیے گئے۔ان کی اہمیت تب بڑھی جب وہ مغربی بادشاہوں کو جنگیں شروع کرنے اور جاری رکھنے کی خاطر سرمایہ فراہم کرنے لگے۔ایسٹ انڈیا کمپنی اور ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی استعماری کمپنیاں کھولنے کے لیے بھی انھوں نے وافر سرمایہ فراہم کیا۔اس طرح یک دم یہودی بنیوں کی اہمیت بڑھ گئی۔آگے چل کر وہ بینکار بن گئے اور انھوں نے بینک و مالیاتی ادارے قائم کیے۔

سرمائے کا کنٹرول
یورپ کے یہودی ساہوکاروں میں روتھشیلڈ خاندان سب سے نمایاں تھا۔اس دوران امریکا میں آباد انگریزوں نے اپنے ملک کو خودمختار بنانے کے لیے برطانیہ سے جنگ چھیڑ دی۔امریکی فوج کو بھی ایک یہودی ساہوکار،ہائم سولومن (Haym Salomon)نے کثیر رقم سود پر دی۔یہی نہیں جب امریکا کا قیام عمل میں آیا تو روتھشیلڈ خاندان کے سرمائے ہی سے وہاں بینک کھولے گئے۔آج بھی دنیا کی طاقتور ترین کرنسی، ڈالر کی گردش اسی خاندان کے قبضے میں ہے۔دراصل تب تک یہودی ساہوکاروں کو احساس ہو چکا تھا کہ ایک ملک میں جو قوت کرنسی کو کنٹرول کرے،وہی اصل میں حکومت کرتا ہے۔اسی لیے انھوں نے بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں میں اپنے ایجنٹ داخل کیے اور یوں امریکا و یورپ میں سرمائے کو کنٹرول کرنے کے قابل ہو گئے۔

گویا پس پشت یہود نے مغربی حکومتوں کے معاشی و سیاسی نظام میں بڑی اہمیت حاصل کر لی۔اسی اثرورسوخ سے فائدہ اٹھا کر یہود نے انیسویں صدی کے اواخر میں فیصلہ کیا کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کر دی جائے۔اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امیریہود فلسطین میں زمینیں خریدنے لگے۔ان زمینوں پر یہودی بستیاں بسا دی جاتیں۔1918ء میں برطانیہ نے فلسطین پہ قبضہ کر لیا۔

برطانوی حکومت میں یہود کا بڑا اثرورسوخ تھا۔چناں چہ ان کی ایما پر یورپ سے دھڑا دھڑ یہودی فلسطین لائے گئے۔تمام تر سعی کے باوجود 1947ء میں یہود فلسطین میں صرف'' 7''فیصد زمین کے مالک بن سکے تھے۔ نیز کل آبادی میں یہود کا حصہ صرف '' 33 ''فیصد تھا۔اس کے باوجود امریکا وبرطانیہ کے دبائو پر اقوام متحدہ نے جب فلسطین کو تقسیم کیا تو اس کا ''56''فیصد رقبہ یہود کو دے ڈالا۔یہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہوئی بہت بڑی ناانصافی تھی جو طاقت کے بل پر کی گئی۔یوں مسلمانوں نے جن یہود کو پناہ دی تھی،دودھ پلایا تھا، انھوں نے سانپ بن کر اپنے محسنوں کو ہی ڈس لیا۔

انسان دشمن اسرائیلی قانون
1948ء سے اسرائیلی ریاست فلسطین بھر میں مختلف ہتھکنڈے اختیار کر یہودی بستیاں بسا رہی ہے۔مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں آزاد ریاست فلسطین کا قیام مشکل سے مشکل تر بنا دیا جائے۔اس غنڈہ گردی،قبضہ گیری اور ریاستی دہشت گردی میں امریکا اور کئی یورپی ممالک اسرائیل کے حامی و مددگار بنے ہوئے ہیں۔اسرائیل میں سیاست داں،فوج،افسر شاہی ، عدلیہ اور میڈیا...حکومت کا ہر ستون غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقوں سے اپنے ہم مذہبوں کی مدد کرتا ہے تاکہ وہ فلسطینی مسلمانوں کی زمینیں اور گھربار چھین سکیں۔اسرائیلی حکومت مغربی کنارے میں بھی سرعت سے یہودی بستیاں تعمیر کر رہی ہے۔

اسرائیل کا ایک قانون خصوصاً حقوق انسانی اور عالمی قوانین کو پیروں تلے کچلنے کے مترادف اور ظالمانہ ہے۔ قانون یہ ہے کہ کوئی بھی یہودی یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ وہ ماضی میں کسی بھی وقت فلسطین کے کسی بھی حصّے میں بطور مالک یا کرایہ دار مقیم تھا،تو وہ وہاں کی زمین کی ملکیت کا دعوی اسرائیلی عدالت میں کر سکتا ہے۔اس قانون نے کئی یہود کو چور ڈاکو بنا دیا۔زمین کے لالچ نے ان کی ساری اخلاقایات مردہ کر دی۔وہ مختلف طریقے اپنا کر بے بس و مقہور فلسطینیوں سے زمینیں ہتیھانے لگے۔

یہود کا پسندیدہ طریق واردات یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے کسی فلسطینی گھرانے کو تاک لیتے ہیں۔پھر اسرائیلی وکلا کی مدد سے اس گھرانے کی زمین کے جعلی کاغذات تیار کیے جاتے ہیں۔اس کام کی تکمیل پر یہود اسرائیلی عدالت میں یہ مقدمہ دائر کر دیتے ہیں کہ فلاں زمین ان کی ملکیت ہے جس پر عربوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ عدالت جعلی دستاویزات کی بنیاد پر یہود کے حق میں فیصلہ دیتی ہے۔گویا اس معاملے میں ظالم اور منصف، دونوں ہی یہود ہیں۔اس طریق واردات سے یہودی خصوصاً مشرقی یروشلم اور دیگر اسرائیلی شہروں میں مجبور فلسطینیوں سے ہزارہا ایکڑ زمین چھین چکے ۔اور مظلوموں کی دہائی سننے اور انھیں انصاف دینے والا کوئی نہیں!

93فیصدرقبے کی مالک حکومت
ستم بالائے ستم یہ کہ اسرائیل میں آباد کوئی فلسطینی مسلمان اس زمین کی ملکیت کا دعوی نہیں کر سکتا جو 1948ء سے قبل اس کے تصرف میں تھی۔گویا اسرائیلی حکمران طبقہ قانون و انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ہر ممکن طور پر فلسطینیوں کی زیادہ سے زیادہ زمینوں پہ قابض ہونے کا متمنی ہے۔یاد رہے، 1948ء کی جنگ میں اسرائیلی فوج نے ان علاقوں سے ساڑھے سات لاکھ فلسطینی مسلمانوں کو زبردستی نکال دیا تھا جو آج اسرائیل کا حصہ ہیں۔یہ بھی واضح رہے کہ اسرائیل میں'' 93فیصد'' رقبے کی مالک حکومت ہے۔بقیہ 7فیصد زمین میں سے بیشتر رقبہ یہودی مذہبی تنظیموں کی ملکیت ہے۔

اسرائیل میں بستے مظلوم فلسطینی
اسرائیل میں بعض مقامات پر آباد بستیوں میں فلسطینی مسلمانوں کی کثرت ہے۔ اسرائیلی حکومت نے مختلف اقدامات سے یہ ظلم ڈھا رکھا ہے کہ یہ بستیاں پھلنے پھولنے نہ پائیں۔مثلاً ان بستیوں کے چاروں طرف یہودی بستیاں بسا دی گئیں۔ کچھ مسلم بستیوں کے اطراف میں زمین ''نیشل پارک''قرار پا چکی۔ان تمام سرکاری پالیسیوں کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کی بستیاں پھل پھول نہ سکیں اور نہ ہی خوشحال ہوں۔

اسرائیل میں واقع فلسطینی بستیوں میں ضروریات زندگی کا فقدان ہے۔صاف پانی کی شدید کمی رہتی ہے۔اسپتال اور اسکول کم ہیں۔گندے پانی کے نکاس کا کوئی انتظام نہیں۔بیروزگاروں کو ملازمتیں دینے کی خاطر کوئی منصوبہ نہیں بنایا جاتا۔سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں۔سب سے بڑھ کر ان بستیوں میں آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی۔ایک ایک گھر میں کئی خاندان مقیم ہیں۔اس سے بستیوں میں مختلف معاشرتی ومعاشی مسائل جنم لے چکے۔جرائم کی شرح بھی بڑھ چکی۔ درحقیقت ان بستیوں میں فلسطینی بڑی تکلیف دہ زندگی گذار رہے ہیں۔

دوسری طرف یہود کی سبھی بستیاں،قصبے اور شہر ضروریات زندگی سے لیس ہیں۔ وہاں پانی کی فراوانی ہے۔نکاسی آب کا بہترین بندوبست ملتا ہے۔سڑکیں کشادہ اور صاف ستھری ہیں۔جا بجا اسپتال اور اسکول دکھائی دیتے ہیں۔جرائم کی شرح بہت کم ہے۔پولیس مستعد اور سرگرم ہے۔غرض ان علاقوں میں یہود بڑی آرام دہ اور خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔

مسلمانوں کی نسل کشی
اسرائیل ہی نہیں مغربی کنارے میں بھی چیک پوسٹوں ،تلاشیوں اور کیمروں کے ذریعے فلسطینیوں پہ مسلسل نظر رکھی جاتی اور انھیں تنگ کیا جاتا ہے۔ اگر کسی مسئلے پر یہود اور فلسطینیوں کے مابین تصادم ہو جائے تو اسرائیلی فوج اور پولیس ہر حال میں اپنے ہم مذہبوں کا ہی ساتھ دیتی ہے...چاہے فلسطینی حق پر ہوں اور یہود زور زبردستی سے کام لیں۔اسرائیل میں ہر کسی کا نعرہ ہے:''دفاع کرنا ہمارا حق ہے۔''یہ حق بروئے کار لاتے ہوئے اسرائیلی حکومت فلسطینیوں پر خوفناک میزائیل و بم پھینکنے سے نہیں ہچکچاتی ۔مگر کوئی فلسطینی اپنے دفاع میں ایک پتھر بھی پھینک دے تو اسے جارحیت قرار دے کر بیچارے کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کا بھی یہی چلن ہے۔اسرائیل و بھارت نے مل کر عالمی قوانین کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔وہ فلسطینی و کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہیں۔مگر معاشی مفادات کے سبب حقوق انسانی کی چیمپین مغربی دنیا ہی نہیں بہت سے اسلامی ملک بھی دونوں ملکوں کے جرائم سے نگاہیں پھیر لیتے ہیں۔یہ طرزعمل انسانیت کے خلاف سنگین جرم اور مجرموںکے جرائم میں شرکت کے مترادف ہے۔
Load Next Story