حكومت قلت آب كے انتہائی اہم مسئلے سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ ہی نہیں چیف جسٹس بلوچستان

ایم ڈی واسا نے جو صورتحال پیش كی ہے وہ ہو شربا اور خوفناک ہے، عدالت

كوئٹہ شہر میں زیر زمین پانی كی سطح 1200 فٹ گہرائی تک پہنچ چكی ہے، عدالت ۔ فوٹو : فائل

چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ حكومت قلت آب كے انتہائی اہم مسئلے سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ ہی نہیں۔

چیف جسٹس بلوچستان ہائی كورٹ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد كامران خان ملاخیل پر مشتمل دو ركنی بینچ نے كوئٹہ شہر میں پینے كے صاف پانی كی قلت كے حوالے سے دائر كیس كی سماعت كے دوران ریماركس دیتے ہوئے كہا كہ ایسا نظر آرہا ہے كہ صوبائی حكومت اس انتہائی اہم مسئلے سے نمٹنے كے لیے سنجیدہ ہی نہیں ہے، ایم ڈی واسا نے جو صورتحال پیش كی ہے وہ ہو شربا اور خوفناک ہے، كوئٹہ شہر میں زیر زمین پانی كی سطح 1200 فٹ گہرائی تک پہنچ چكی ہے اور اتنی گہرائی كے باوجود بھی نتائج سو فیصد نہیں نكلتے۔

معزز بینچ نے كوئٹہ شہر میں پانی كی قلت كو مدنظر ركھتے ہوئے ہوئے ڈی سی كوئٹہ، چیف انجینئیر پی ایچ ای، چیف انجینئیر اریگیشن (مانیٹرنگ) اور ایم ڈی واسا كو ہدایت كی كہ وہ اس ضمن میں میٹنگ كریں اور كوئٹہ شہر میں زیرزمین پانی كی كھدائی كو مانیٹر كرنے كے لیے مجوزہ پالیسی و میكنزم بارے رپورٹ جمع كرائیں، ساتھ ہی كمیٹی حكومت كے لیے سفارشات مرتب كركے جمع كرائیں تاكہ حكومت زیر زمین پانی كی ری چارجنگ كے لیے فوری اقدامات اٹھائے اور كوئٹہ شہرمیں پینے كے صاف پانی كی فراہمی كے لیے متبادل انتظامات كریں، یہ مذكورہ كمیٹی واسا ایكٹ رولز اینڈ ریگولیشن كے تحت كسی بھی قسم كی ترمیم كے لیے رائے بھی دے سكے گی۔


معزز عدالت نے سیكرٹری اریگیشن اور سیكریٹری پی ایچ ای كو بھی ہدایت كی كہ وہ اس كمیٹی كی مكمل اعانت كریں یہ كمیٹی كسی بھی ادارے محكمے اور آفیسر وغیرہ سے بھی معاونت لے سكے گی۔

قبل ازیں كاشف اقبال ایڈووكیٹ كی جانب سے سیكریٹری پی ایچ ای و دیگر كے خلاف دائر كیس كی سماعت جب شروع ہوئی تو ایم ڈی واسا معزز بینچ كے سامنے پیش ہوئے انہوں نے عدالت عالیہ كو بتایا كہ كوئٹہ شہر میں اكثر ٹیوب ویلز بغیر كسی فزیبیلیٹی مطالعہ كے صرف اور صرف متعلقہ ممبران صوبائی اسمبلی كی خواہش اور حكم پر نكالے گئے اوران ٹیوب ویلز كے مقام كا تعین كرنے كے لئے بھی كوئی تفصیلی سروے نہیں كیا گیا جس كا نتیجہ یہ رہا ہے كہ یہ سال دو سال بھی نہیں چل پائے ہیں۔

ایم ڈی واسا نے بتایا كہ كوئٹہ شہر میں ٹیوب ویل نكالنے كے لیے اگر پالیسی بنا لی جاتی ہے اور پہلے سے موجود ٹیوب ویل كی ری چارجنگ كے لئے اقدام اٹھالئے جاتے ہیں تو كسی حد تک كوئٹہ میں پینے كے پانی كا مسئلہ حل ہو سكتا ہے، بصورت دیگر قحط سالی كی صورتحال ہو سكتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا كہ 70 سے زائد ٹیوبویلز بشمول زیر بحث ٹیوبویل خشک ہو چكے ہیں جس سے صورتحال كی سنگینی كا احساس ہوتا ہے۔

بینچ كے روبرو ایم ڈی واسا نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے كہا كہ حكومت نے سال 2010میں واسا كی زیر نگرانی چلانے كے لیے سیوریج واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جو دو سال ہی فنكشنل رہا لیكن فنڈز كی عدم دستیابی كے باعث اب یہ بند پڑا ہے اور اسے دوبارہ كارآمد بنانے كے لئے سو ملین روپے كی ضرورت ہے حكومت سے اس كے لیے درخواست بھی كردی گئی ہے اور اگر یہ پلانٹ فنكشنل ہو جاتا ہے توواسا روزانہ 1.8 ایم جی ڈی گدلہ پانی صاف كركے اسے صنعت و زراعت اور تعمیرات كے لیے مہیا كر سكتا ہے، بینچ نے سماعت كے آخر میں كمیٹی كے تمام ممبران كو اگلی شنوائی پر بذات خود عدالت میں پیش ہوكر پیش رفت رپورٹ بمعہ تمام تفصیلات عدالت میں جمع كرانے كا حكم دیا۔
Load Next Story