بجٹ میں ذاتی آمدن پر ٹیکس 30 ارب روپے کا ریونیو متوقع

سرکاری ملازموں اور پنشنروں پر نمایاں مالی دباؤ پڑے گا، اہم اجلاس آئندہ ہفتے متوقع،ذرائع وزارت خزانہ

ریونیو ٹیکس استثنیٰ واپس لینے، تنخواہ دار،کاروباری آمدنی کی سلیب ایڈجسٹمنٹ سے حاصل ہو گا (فوٹو : فائل)

پاکستان نے آئندہ بجٹ میں پرسنل انکم ٹیکس ( ذاتی آمدنی پر ٹیکس) سے متعلق اقدامات کرنے میں دل چسپی ظاہر کی ہے جس کے نتیجے میں 30 ارب روپے کا ریونیو اکٹھا ہوگا، تاہم ان اقدامات سے کچھ انکم گروپوں پر ٹیکس کا بوجھ بڑھ جائے گا۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف سے مذاکرات میں ٹیکس حکام نے انکم ٹیکس سے استثنیٰ رکھنے والوں کی اکثریت کو اس ٹیکس سے مستثنیٰ رکھنے ہی کی تجویز پیش کی ہے، اگر اکثریت سے یہ استثنیٰ واپس لے لیا گیا تو اس سے تنخواہ دار ملازمین، ججوں، سرکاری ملازموں اور پنشنرز پر نمایاں مالی دباؤ پڑے گا۔ تاہم اس حوالے سے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک کوئی اتفاق نہیں ہوسکا ہے اور اس ضمن میں اہم اجلاس آئندہ ہفتے متوقع ہے۔

ذرائع کے مطابق 30 ارب روپے کے انکم ٹیکس سے متعلق اقدامات کا مطلب ہے کہ تنخواہ دار ملازمین اور کاروباری حضرات پر کچھ مالی بوجھ ضرور ڈالا جائے گا۔ اس کے علاوہ گھر بنانے کے قرضے، تعلیمی اخراجات، ہیلتھ انشورنس اور شیئرز میں سرمایہ کاری کے لیے ٹیکس کریڈٹ پر انکم ٹیکس استثنیٰ ختم یا جزوی طور پر انکم ٹیکس لاگو کیا جاسکتا ہے۔


واضح رہے کہ حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 81 ارب روپے مالیت کے کارپوریٹ انکم ٹیکس سے متعلق اقدامات پر پہلے ہی عملدرآمد کرچکی ہے۔

ذرائع کے کہنا ہے کہ 30 ارب روپے ریونیو کا نصف ٹیکس استثنیٰ واپس لینے سے حاصل ہو گا جبکہ 10 ارب روپے تنخواہ دار افراد اورکاروباری آمدنی پر لاگو ٹیکس سلیب کی ایڈجسٹمنٹ سے حاصل کیا جائے گا،مثلاً پائلٹوں، انجنیئراور آرمی ، پی آئی اے، سول ایوی ایشن کے نیوی گیٹرز اور نیول افسران کا سب میرین الاؤنس واپس لیا جاسکتا ہے۔ر

یٹائرڈ اور حاضر سرکاری و عسکری ملازمین کو الاٹ کی جانے والی جائیداد پر عائد انکم ٹیکس استثنیٰ ختم کیا جا سکتا ہے، بجٹ میں 190 ارب روپے کی لاگت کے سیلز ٹیکس اقدامات کیے جاسکتے ہیں جو آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی بحالی کے وقت طے کیے گئے اقدامات سے نصف ہیں۔

 
Load Next Story