معاشی منظرنامہ اور سیاسی حقائق

بظاہر ملکی معیشت مستحکم ہونے کا بیانیہ اپنے جدلیاتی پیراڈائم سے منسلک ہے۔

بظاہر ملکی معیشت مستحکم ہونے کا بیانیہ اپنے جدلیاتی پیراڈائم سے منسلک ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ سالانہ منصوبہ بندی کمیٹی نے آیندہ مالی سال کے لیے 4.8 فیصد گروتھ ریٹ کی منظوری دیدی ہے، آیندہ مالی سال کے لیے 900 ارب ترقیاتی بجٹ رکھا جائے گا، نیب کے خوف سے سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے، نیب سے سرکاری افسران اور کاروباری افراد کو تحفظ دینے کے لیے قانون لائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ اگلے ہفتے نیشنل اکنامک کونسل میں اینول پلان بھیجا جائے گا، اگلے سال شرح نمو4.8 فیصد تخمینہ ہے، اس سال کے مطابق 3.9 فیصد سے شرح نمو بڑھے گی، بہت اچھی گروتھ اس سال ہوئی، اس سال 6.5 فیصد جی این پی گروتھ رہی، اس سال 2004 کے بعد معیشت میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔

نئے بجٹ کی تیاریوں کے سیاق و سباق میں عوام اور کاروباری طبقات اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کے منتظر ہیں، انھیں مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے تہرے مصائب اور زمینی و اقتصادی حقائق نے شدید دباؤ کا شکار کیا ہے، مہنگائی نے عوام کو اس قابل بھی نہیں چھوڑا ہے کہ وہ اپنے گھریلو بجٹ کی تیاری کے بوجھ سے ہی نمٹ سکیں، پولٹری کے دام پر نظر ڈالیے تو روح کانپ جاتی ہے، بچوں کا دودھ مہنگائی کے بام بلند پر ہے، اقتصادی و وزارتی ماہرین میں آیندہ شرح نمو کی بحث جاری ہے۔

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ جی ڈی پی گروتھ ریٹ پر مخالفین حیران ہیں، بلکہ ششدر ہیں کہ یہ کیا ماجرا ہوگیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا، شرح نمو میں اضافہ ہوا کیسے؟ شکر ہے عوام اپنے روزمرہ کے دکھ بھول گئے۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ عام آدمی ملکی بجٹ میں نئے ٹیکسز، جی ڈی پی، ترقیاتی پروگرام سے کوئی سروکار نہیں رکھتا، انھیں تو روزگار، دو وقت کی روٹی اور معاشی صورتحال کے استحکام کی فکر ہے۔

یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ حکومت آیندہ بجٹ میں مہنگائی کا مسئلہ حل کرے گی یا غریب کے پیٹ پر مزید لات پڑے گی، اگر زمینی حقیقت دیکھی جائے تو تبدیلی کے نام پر مہنگائی کا جو بھوت ملکی مارکیٹ اکانومی میں مسلسل رقص کرتا نظر آتا ہے اس کا عوام نے ماضی میں کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا، مگر آج بھی حکمراں ''گھبرانا نہیں ہے'' کا حوالہ کسی اور تناظر میں عوام کی زبانی سنتے ہیں، بظاہر ملکی معیشت مستحکم ہونے کا بیانیہ اپنے جدلیاتی پیراڈائم سے منسلک ہے۔

لوگ اسے سنتے تو ہیں لیکن اس پر یقین اسی وقت کریں گے جب مہنگائی انھیں واقعی کم ہوتی نظر آئے گی اور اپنے گھر کے بجٹ اور روزمرہ کی چیزوں کے دام کا میزانیہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، اس لیے مارکیٹ عوام کے مشاہدے کی منتظر ہے، معاشی صورتحال اس حوالہ سے مہنگائی اور غربت سے دوطرفہ سطح پر ستیزہ کار ہے، عام آدمی بلاشبہ مہنگائی سے نالاں ہے دوسری طرف ارباب اختیار عوام کو تسلیاں دے رہے ہیں کہ اچھے دن آ رہے ہیں، اب تو گھبرانا نہیں:

چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد

گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی

وفاقی وزیر اسد عمر نے جزوی حقیقت بیان کی کہ نیب کے خوف سے سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے، نیب سے سرکاری افسران اور کاروباری افراد کو تحفظ دینے کے لیے قانون لائیں گے، ہمارے پاس عددی برتری ہے کہ قانون سازی کروا لیں، ماہرین کے خیال میں پاکستان کی معیشت کا حجم بڑھا ہے انڈر رپورٹنگ ہو رہی ہے، کپاس کی فصل بہت بری طرح متاثر ہوئی، اس سال کپاس کے لیے بہتر بیج فراہمی کے اقدامات کیے ہیں، ساڑھے دس ملین کپاس کی بیل اگلے سال کا تخمینہ ہے۔

پولٹری کی صنعت کورونا بندشوں کے باعث بر ے طریقے سے متاثر ہوئی، پولٹری اگلے سال نارمل ہوگی، بجلی کی صنعتی کھپت میں15 فیصد اضافہ ہوا، گیس کی ڈرلنگ ایکٹیویٹی جاری رہیگی، کوئلے کی پروڈکشن اور کنسٹرکشن سیکٹر میں اضافہ ہوگا، ایکسپورٹ اگلے سال بڑھے گی، اگلے سال26.8 ارب ڈالر کا تخمینہ ہے،جب کہ ترسیلات زر31.3 ارب ڈالر رہیں گی، آئی ٹی کی ایکسپورٹ میں اس سال 46 فیصد اضافہ ہے۔

پی ایس ڈی پی میں اس سال ساڑھے 6 سو ارب تک اگلے سال 900 ارب تک رکھا جائے گا، یہ سب چیزیں دیکھ کر 4.8 فیصد جی ڈی پی گروتھ کا آیندہ سال تخمینہ لگایا گیا ہے، اگلے سال 0.7 فیصد کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کا تخمینہ ہے، یہ گروتھ چاول، گنے، مکئی، گندم کی زیادہ پروڈکشن کی وجہ سے آئی ہے، 16 فیصد انوسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کا ریشو اگلے سال ہمارا تخمینہ ہے، اگلے سال میں تقریبا گھر کے منصوبے پبلک پرائیویٹ فنڈ کے تحت کریں گے،70 ارب تک وائبلٹی گیپ فنڈ میں رکھے ہیں۔


دیامیر بھاشا، مہمند ڈیم، داسو سمیت دیگر ڈیمز پر 100 ارب روپے فنڈز رکھے ہیں، صحت سیکٹر میں28 ارب کی فنڈنگ رکھی گئی، کووڈ رسپانس کے لیے60 ارب کی رقم رکھی گئی، تعلیم سیکٹر کے لیے ایچ ای سی کے لیے37 ارب کا بجٹ رکھا گیا ہے،42 ارب سے زائد تعلیم کے لیے رکھے ہیں۔

وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ بہت سے نئے منصوبے سال دو سال کی مدت کے شروع کیے جا رہے ہیں، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ایک کھرب کے منصوبے شروع کر رہے ہیں، زراعت کے لیے 3.4 ، انڈسٹریل 6.8، سروسز سیکٹر کی 4.7 فیصد گروتھ ریٹ ہے، سو سے ڈیڑھ سو ملین ڈالر ویکسی نیشن پر اسی سال خرچ ہو جائے گا۔

دریں اثنا اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود7 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا، پالیسی ریٹ 25 جون 2020 سے 7 فیصد پر برقرار ہے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ آیندہ مالی سال معاشی ترقی مزید بہتر رہے گی تاہم آیندہ مہینوں میں مہنگائی کی شرح بھی بلند رہے گی۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال اوسط مہنگائی نو فیصد تک رہنے کی توقع ہے، معیشت گزشتہ سال کے کورونا کے دھچکے سے نکل کر مستحکم انداز میں بحال ہوگئی ہے، جاری کھاتے کا خسارہ آیندہ بھی محدود رہنے کی توقع ہے، شرح مبادلہ کو لچکدار نظام سے تقویت ملے گی، زرمبادلہ کے ذخائر مزید مضبوط ہونگے۔

زرعی پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے مطابق موسمی اثر کی بنا پر اس سال اپریل میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی بڑھ کر11.1 فیصد ہوگئی۔ مالی سال 21ء میں صنعت کے شعبے میں 3.6 فیصد نمو ہوئی ہے جس میں اہم کردار تعمیرات اور بڑے پیمانے کی اشیا سازی، خصوصاً غذا، سیمنٹ، ٹیکسٹائل اور گاڑیوں کے شعبوں کا ہے۔ زرعی شعبے کی حاصل شدہ نمو کا تخمینہ 2.8 فیصد ہے جس میں تین اہم فصلوں گندم، چاول اور مکئی کی پیداوار ریکارڈ بلند رہی۔

مالی سال21ء کے ابتدائی دس مہینوں میں جاری کھاتہ 0.8 ارب ڈالر فاضل رہا ہے، ترسیلات زر کی ریکارڈ سطح بڑی حد تک اس کی تلافی کر رہی ہے جو اپریل کے مہینے میں بڑھ کر ماہانہ (2.8 ارب ڈالر) اور مجموعی (24.2 ارب ڈالر) دونوں بنیادوں پر تاریخی سطح تک پہنچ گئیں۔

علاوہ ازیں، اس سال اب تک برآمدات میں تقریباً14فیصد نمو ہو چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر تقریباً 16 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 3.5 فیصد ہے جو بلند سودی ادائیگیوں اور کورونا سے متعلق اخراجات کے باوجود گزشتہ برس کی نسبت0.6 فیصد درجے کم ہے۔

یہ ملکی معیشت کا منظر ہے، تاہم سیاسی محاذ آرائی کا تسلسل ختم نہیں ہو رہا، وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی زیر قیادت حکومت کی پالیسی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے بہت زیادہ متاثر ہے۔

فواد چوہدری نے بی بی سی ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ تمام فیصلوں کی انچارج ہے۔ پروگرام کے میزبان سٹیفن نے فرزانہ شیخ کا حوالہ دیا جو برطانیہ میں تھنک ٹینک میں بطور تجزیہ کار ہیں۔ سندھ اسمبلی نے جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور کر لیا، ڈیرہ غازی خان کے قبائلی اور سندھ کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن جاری ہے، پنجاب میں حکومت مخالف ایک ناراض گروہ اپنے مطالبات لے کر سامنے آیا ہے، کے پی کے میں بھی منتخب اراکین پلے کارڈ اٹھائے ہوئے ہیں، حکومت، عدلیہ کشمکش تھمنے کے منتظر سیکڑوں سائلین اپنے مقدمات کی سماعت کے انتظار میں ہیں، سندھ اور پنجاب میں پانی کی تقسیم کا مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صائب بیان دیا ہے کہ پہلے جب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو دونوں صوبوں میں خیرسگالی اور مفاہمت کا طریقہ اختیار کیا مگر اب کیا کوئی ادارہ جاتی بحران کے باعث بات میڈیا میں لائی گئی، کیا ادارے اپنا جواز کھو چکے ہیں، سیاست جمہوری عمل کی بنیادی رواداری اور اخلاقی وژن، قومی یکجہتی اور فکرانگیزی کی متاع گراں بہا سے محروم ہوچکی ہے، ایک دوسرے پر اعتبار نہیں رہا۔ یہ تو داخلی انتشار اور تناؤ کا عالم ہے، دوسری جانب ہمارے اپنے بیک یارڈ میں پڑوسی ملک، علاقائی طاقتیں تزویراتی معاملات کے بہ انداز دگر حل کے لیے پر تول رہی ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے غیر ملکی دورے رفتارعالم، نتیجہ خیزی اور فلسطین و کشمیر کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے قوم کو باور کرا رہے ہیں کہ سیاست میں دوراندیشی کی ضرورت ہے، بصیرت اور عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ہمیں ملکی حقائق کی گہری تفہیم سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے، وقت بہت نازک ہے، بہت سے سوالوں کا قوم اور اس کے رہنماؤں نے تاریخ کو جواب دینا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر نے گزشتہ روز پاکستانی قوم کو ایک فکر انگیز پیغام دیا ہے، اگرچہ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کے ذمے بھی کشمیر اور فلسطین کا کیس اور خطے کے دو عظیم خواب شرمندہ تعبیر ہونا باقی ہیں، زندہ قومیں طاؤس ورباب آخر کا سبق کبھی نہیں بھولتیں، اس لیے ارباب اختیار کو یاد دلانا ضروری ہے کہ زمینی حقائق کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ چیلنجز کے اژدھے ہمیں پھنکار رہے ہیں۔
Load Next Story