اداکارہ رانی  دوسرا اور آخری حصہ

راقم نے ان سے ناکامی کے اسباب پوچھے توانھوں نے بتایاکہ انسان اپنے محسن کوبھول جائے تواسے ان حالات سے گزرنا پڑتاہے۔

meemsheenkhay@gmail.com

KARACHI:
فلم ''تہذیب'' کا ایک واقعہ سناتے ہوئے، انھوں نے بتایا کہ تہذیب ایک سپرہٹ فلم تھی اس کا ایک گیت ''لگا ہے مصر کا بازار دیکھو'' جسے مہدی حسن نے گایا تھا گانا ریڈیو پر آن ایئر ہوا اور سپر ہٹ ہوا مصر ایمبیسی نے اس گیت پر بہت اعتراض کیا کہ آپ مصر کا نام کیوں استعمال کر رہے ہیں اور گیت ریڈیو سے آن ایئر ہونا بند ہو گیا پھر اس گیت کو بدل کر مہدی حسن نے دوبارہ گایا گیت کے بول تھے ''لگا ہے حسن کا بازار دیکھو'' اس فلم نے کمال کا بزنس کیا۔

انھوں نے اپنی ناکامیوں کا کئی بار تذکرہ کیا دوران گفتگو ان کی آنکھیں غمزدہ اور اشک بار ہوئیں۔ رانی مرحومہ کے نصیب میں ناکامیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں جس طرح شروع شروع میں ان کی فلمیں ناکام ہوئیں اس طرح رانی کی پہلی شادی جو حسن طارق کے ساتھ ہوئی وہ بھی ناکام ہوئی۔

راقم نے ان سے ان کی ناکامی کے اسباب پوچھے تو انھوں نے بتایا کہ انسان اپنے محسن کو بھول جائے تو اسے ان حالات سے گزرنا پڑتا ہے، مختار بیگم نے مجھے بیٹی بن کر پالا میں تو ایک ڈرائیور کی بیٹی تھی انھوں نے مجھے معاشرے میں شہزادیوں کی طرح رکھا میری زندگی میں انمٹ نقوش چھوڑ دیے معاشرے نے جب مجھے شہرت کے دروازے پر لا کھڑا کیا تو میں یوم وصال ہی بھول گئی اور اس غلط فہمی کے گرد گھر گئی کہ میں باصلاحیت ہوں جب آپ کو اعزاز و اکرام ملے تو پروردگار عالم کو سجدہ کریں انھوں نے جذباتی ہو کر راقم کو بیٹا کہہ کر مخاطب کیا کہ زندگی میں کبھی تکبر نہ کرنا ابھی چھوٹے ہو، منزلیں کٹھن ہیں اچھے وقت کی قدر و منزلت کرنا، حضرت علی کا قول ہے جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو میں نے اپنی منہ بولی ماں مختار بیگم کو تکلیف دی تو پھر حساب بھی مجھے دینا ہوگا۔

بے شمار سینئر فنکاروں موسیقاروں اداکاروں نے ان کے حوالے سے راقم کو بتایا اداکار محمد علی مرحوم نے بتایا کہ ''ایک گناہ اور سہی'' میں رانی میرے ساتھ تھیں۔ میرا کھانا گھر سے آیا کرتا تھا جو تقریباً 15 افراد پر مشتمل ہوتا تھا جن میں الیکٹریشن سیٹ کے کارپینٹر درزی اور دیگر ساتھی شامل ہوتے تھے، ایک دن بہت اچھی بریانی آئی۔

دسترخوان لگا تو رانی مرحومہ بھی آگئیں میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ آگئیں کھانے کے وقت تمہیں کیسے پتا بریانی پکی ہے اس نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا، علی بھائی میں نے آج نفلی روزہ رکھا ہے میں نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا'' تو کیا آج شوٹنگ نہیں کروگی'' مسکراتے ہوئے کہا'' آج میری شوٹنگ نہیں ہے میں تو صرف فلم ''ایک گناہ اور سہی'' کی ڈبنگ کروانے آئی ہوں'' محمدعلی نے بتایا بہت معصوم تہذیب دار عورت تھی۔

گلوکارہ نورجہاں مرحومہ کے ہاں چائے پر مدعو تھا، تذکرہ رانی کا آیا وہ رنجیدہ ہوگئیں اور کہا کہ فلم ''ناگ منی'' میں میرے گیت ''تن توپے واروں من توپے واروں/بگڑی بنادے توہے رو رو پکاروں''فلم کی ریلیز کے بعد یہ گیت سپرہٹ ہوا جس کی وحید مراد مرحوم گھر پر مبارک باد دینے آئے مگر میں سمجھتی ہوں کہ اس گیت کی قیمت تو رانی نے ادا کی اتنی عمدہ پرفارمنس دیں کہ میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا ۔رانی وہ اداکارہ تھی جسے ہم انڈین اداکاراؤں کے سامنے برجستہ کھڑا کرتے تھے۔

موسیقار نثار بزمی کے حوالے سے لاہور میں ''بزمی ایوارڈ'' ایک 5 اسٹار ہوٹل میں منعقد ہوا یہ 1995 کی بات ہے غالبا راقم اس وقت کراچی کے ایک بڑے روزنامے میں شوبزنس سے وابستہ تھا مجھے بھی لاہور کی تقریب میں مدعو کیا گیا اور مجھے بھی بزمی ایوارڈ سے نوازا گیا بزمی صاحب کے دوست تبسم بٹ تھے ۔بزمی صاحب وہاں ٹھہرے ہوئے تھے میں نے ان کا ایک انٹرویو کرنا تھا انھوں نے مجھے وہاں بلایا دوسرے دن دوران انٹرویو رانی مرحومہ کا تذکرہ ہوا ان کے تذکرے پر بزمی صاحب کی آنکھوں میں نمی آگئی اور بہت افسردہ ہوکر بولے ''تم یہ سمجھ لو کہ میں ایک بہن سے محروم ہو گیا ہوں وہ ایک شریف النفس اور معصوم عورت تھی جس کا نام ناصرہ تھا۔

میں نے کہا ''آپ انھیں رانی کے نام سے نہیں پکاریں گے ،کہنے لگے ، رانی تو شہزادی کو کہتے ہیں وہ تو معصوم بدنصیب تھی مجھے اپنی بہن کی موت کا بہت دکھ ہے ''مئی کے پہلے ہفتے میں انھیں پتا چلا کہ وہ کینسر کی مریضہ ہیں طبیعت کافی دنوں سے ناساز تھی۔


ایک کہانی اور بتاتا ہوں ماضی کے معروف ہدایت کار نذرالاسلام عرف دادا بڑے ہدایت کار تھے انھوں نے سیریل ''خواہش'' کا آغاز کیا، اس سیریل نے کئی گھر اجاڑ کر رکھ دیے ۔ہدایت کار نذرالاسلام مرحوم سپرہٹ فلموں کے کامیاب ترین ہدایت کار اقبال یوسف مرحوم بہت زندہ دل تھے ان کی زندہ دلی پر پھر کبھی تحریر کروں گا یہ دونوں لندن میں سیریل ''خواہش'' کا کام کر رہے تھے کہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور سیریل ''خواہش'' نے رقص و سرور کی ملکہ فقید المثال پذیرائی حاصل کرنے والی رانی کو بھی اسکرین کے پردوں سے ہمیشہ کے لیے مٹا دیا اور وہ رب کی طرف لوٹ گئیں۔

سیریل ''فریب'' میں کام کر رہی تھیں فون پر ان سے بات ہوئی تو کہا ابھی آف دی ریکارڈ ہے مزید کچھ رپورٹوں کا انتظار ہے مگر ڈاکٹروں نے مجھے کینسر بتایا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ رانی مرحومہ کی پہلی شادی حسن طارق مرحوم سے ہوئی ان سے طلاق ہوئی وہ دلی قربتوں کے سارے دیے بجھا بیٹھی تھیں ان کے لیے سارے چراغ بجھ رہے تھے اوروہ دل برداشتہ ہوکر خاموشی کے پردوں میں بیٹھ گئی تھیں ۔ناکامی دل گرفتہ کو ایک امید چراغ کی طرح روشن نظر آئی کہ فیصل آباد کے معروف فلم ساز جاوید قمر نے انھیں شادی کا پیغام بھیجا جو انھوں نے خوش دلی سے قبول کیا اوران سے شادی کرلی یہ ان کی دوسری شادی تھی۔

اس شادی کے بعد وہ بیمار رہنے لگیں اور پھر نہ جانے حالات نے کیا رخ اختیار کیا کہ دوبارہ ان کا نام تہی دامانوں میں لکھا گیا کہ جاوید قمر نے انھیں طلاق دے دی ۔رانی علاج کی غرض سے لندن چلی گئیں ابھی غریب کے نصیب میں ٹھوکریں باقی تھیں۔ لندن میں کرکٹ کے نامور کھلاڑی اور فاسٹ بولر سرفراز نواز سے ملاقات ہوئی، اداکارہ رانی نے تیسری اور آخری شادی سرفراز نواز سے کرلی۔

1992 میں رانی دوبارہ شوبز سے وابستہ ہوگئیں ،ان کے شوبزنس میں آنے کی وجہ سے ان کے شوہر ناخوش تھے اور پھر سرفراز نواز نے انھیں طلاق دے دی۔ مئی کے شروع میں رانی کراچی کے آغا خان اسپتال میں داخل ہوگئیں وہ بستر مرگ پر تھیں کینسر آخری اسٹیج پر تھا یہاں راقم روز ان کی عیادت کے لیے اسپتال جاتا تھا وہ بہت مایوس تھیں۔

اپنی زندگی سے تہذیب کی رانی انجمن کی دنیا میں بے بس پڑی تھیں انھوں نے ہم سے کہا بعد انتقال ہماری مغفرت کی دعا ضرور کرنا کہ میں گناہگار ہوں۔ 27 مئی 1993 کی رات ساڑھے بارہ بجے اس معاشرے کی انجمن اور تہذیب کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں اداکارہ رانی جدوجہد کی کتاب تھیں جو ہمیشہ ناکامیوں اور نامرادیوں کے حصار میں رہیں ۔

استاد قمر جلالوی کا یہ شعر:

مقدر میں جو سختی تھی وہ مر کر بھی نہیں نکلی

لحد کھودی گئی میری تو پتھریلی زمین نکلی
Load Next Story