اسرائیل ہار گیا
اسرائیل شروع سے ہی بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف جارحیت میں شریک رہا ہے۔
HONG KONG:
غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے سیکڑوں مرد، عورتیں اور بچے ضرور شہید ہوگئے مگر حماس کے راکٹ حملوں نے اسرائیل کی دفاعی صلاحیت کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔
اسرائیل کا دفاعی نظام آئرن ڈوم جسے محفوظ ترین کہا جاتا تھا حماس کے راکٹ حملوں کا مقابلہ نہ کرسکا جس سے اسرائیل کے اندر کئی راکٹ گرے جنھوں نے وہاں بڑی تباہی مچائی۔ اسرائیلی حکومت نے حماس کے راکٹوں سے کل بارہ افراد کی ہلاکت کو تسلیم کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے عوام میں ہیجان کو روکنے اور اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے کم ہلاکتیں بتا رہی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پورے گیارہ دن جب اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حملے کرکے وہاں تباہی مچاتا رہا تو کیا ان گیارہ دنوں تک ہونے والی حماس کے راکٹوں کی بارش سے اسرائیل میں صرف 12 افراد ہی ہلاک ہوئے؟ جب کہ ان میں دو تھائی لینڈ کے باشندے تھے اور پھر اسرائیل کی کسی دفاعی تنصیب یا رہائشی عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، کچھ دنوں میں حقیقت ضرور سامنے آجائے گی۔
اس جنگل کی اصل کہانی یہ ہے کہ نیتن یاہو نے غزہ کے رہائشی علاقوں پر حملے اور مسجد اقصیٰ میں اپنی فوج کے ذریعے فلسطینی نمازیوں پر گولیاں برسانے کی کارروائی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی تھی جس سے وہ حالیہ الیکشن میں اپنی ہار کو جیت میں بدلنا چاہتا تھا مگر اب جب کہ فلسطینی اپنی تباہی کے باوجود بھی فتح کا جشن منا رہے ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہیں اور وہ اسرائیل کی کمزوریوں سے بھی واقف ہوگئے ہیں چنانچہ ایسے ماحول میں نیتن یاہو کا فلسطینیوں پر حملوں کے ذریعے اسرائیلی عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے کا ڈرامہ مکمل طور پر فلاپ ہو چکا ہے۔
اب اگر اسرائیل کی طرف سے پھر غزہ یا فلسطینیوں کے دوسرے مقامات پر حملہ کیا گیا تو حماس اپنی نئی طاقت اور نئے ہتھیاروں سے اسرائیل کے ضرور بارہ بجا دے گی۔ وہ تو اسرائیل کی خیر ہوگئی کہ حزب اللہ کے جانبازوں نے صرف پانچ یا چھ راکٹوں کے داغنے پر ہی اکتفا کیا اگر وہ بھرپور حملہ کردیتے تو یقیناً شکست اسرائیل کا مقدر بن جاتی۔اس واقعے کے بعد اب اسرائیل کے پڑوسی عرب ممالک کے حوصلے بھی بڑھے ہوں گے اور وہ اب تک اسرائیلی طاقت سے جس طرح مرعوب نظر آتے تھے اب وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کا قصہ ہی پاک کرنے کے لیے کمر کس چکے ہوں گے۔
بہرحال اب اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے اور وہ اب اپنے تحفظ کے لیے پہلے سے زیادہ مہلک ہتھیار بنانے اور خریدنے کی کوشش کرے گا۔ تاہم اب وہ کچھ بھی کرلے وہ مصیبت میں گھر چکا ہے اور اب امریکا و یورپی ممالک کی بھاری امداد کے باوجود بھی وہ برباد ہو کر رہے گا۔ اب ان اسلامی ممالک کو جنھوں نے اسے تسلیم کر رکھا ہے اپنے فیصلوں پر ضرور نظر ثانی کرنا چاہیے۔
سعودی عرب نے غزہ پر اسرائیل کے حملے کی کھل کر مذمت کی ہے اور اس نے ہی او آئی سی کا اجلاس طلب کیا تھا ۔ اسرائیل گزشتہ ستر سال سے امریکا کی سرپرستی میں پوری اسلامی دنیا میں خوف و ہراس کی علامت بنا ہوا ہے۔ اس نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور اسی لائن پر مودی بھی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر بربریت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل عرب ممالک میں دہشت گردی کراتا رہا ہے اور انھیں ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے سے بھی روکتا رہا ہے۔
عراق اور لیبیا کے ایٹمی پلانٹس کو اسی نے تباہ کیا تھا۔ ایران کے ایٹمی طاقت بننے کی راہ میں وہی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس نے پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو بھی تباہ کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا تھا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد یہ تاثر زور پکڑ گیا تھا کہ اب مشرقی پاکستان کے بعد بھارت کا اگلا ہدف مغربی پاکستان ہوگا۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لے ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخی بیان دیا تھا کہ'' ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنا کر رہیں گے۔'' اس کے بعد ہی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے کام شروع کردیا گیا تھا۔
ادھر بھارت کو جب یہ پتا چلا تو وہ زیر تعمیر ایٹمی پلانٹ کو ہی تباہ کرنے کا پلان بنانے لگا مگر وہ ایسا کرنے میں ہچکچاتا رہا ۔اب ہماری ایٹمی تنصیبات پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہیں اور کسی بھی دشمن کی دسترس سے دور ہیں۔ پاکستانی جوہری تنصیبات پر حملوں میں اسرائیل اور بھارت ناکام رہے تو پھر پاکستانی ایٹم بم کو بدنام کرنا شروع کردیا کبھی کہا گیا کہ وہ اسلامی بم ہے کبھی اس کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خدشہ ظاہر کرنے لگے مگر ان کا یہ سارا پروپیگنڈا ناکام ہو کر رہا۔
پاکستانی ایٹم بم تو کیا ایک چٹکی یورینیم بھی کسی کے ہاتھ نہ لگ سکی۔ اس کے برعکس بھارتی یورینیم کے کئی مرتبہ چوری ہونے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ ابھی حال میں ممبئی میں کچھ بھارتی لوگ بھارتی ایٹمی پلانٹ سے حاصل کردہ سو گرام کے قریب یورینیم فروخت کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں افسوس کہ عالمی طاقتوں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا لیکن یہی واقعہ اگر پاکستان میں رونما ہو جاتا تو یقیناً پاکستان مصیبت میں گھر جاتا۔
اسرائیل شروع سے ہی بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف جارحیت میں شریک رہا ہے اس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھی بھارت کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف جو بھی جارحیت کی اسرائیل اس کے ساتھ تھا۔ بالاکوٹ پر حملے میں بھی گمان ہے کہ اسرائیل کے پائلٹوں نے حصہ لیا ہو۔
اس وقت غزہ میں اسرائیلی حملوں سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کے غم میں تمام اسلامی ممالک میں اسرائیل کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں ایسے میں حسینہ واجد اسرائیل پرست کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ انھوں نے اپنے پاسپورٹ کو اب اسرائیل کے سفر کے لیے بھی جائز قرار دے دیا ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے سیکڑوں مرد، عورتیں اور بچے ضرور شہید ہوگئے مگر حماس کے راکٹ حملوں نے اسرائیل کی دفاعی صلاحیت کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔
اسرائیل کا دفاعی نظام آئرن ڈوم جسے محفوظ ترین کہا جاتا تھا حماس کے راکٹ حملوں کا مقابلہ نہ کرسکا جس سے اسرائیل کے اندر کئی راکٹ گرے جنھوں نے وہاں بڑی تباہی مچائی۔ اسرائیلی حکومت نے حماس کے راکٹوں سے کل بارہ افراد کی ہلاکت کو تسلیم کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے عوام میں ہیجان کو روکنے اور اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے کم ہلاکتیں بتا رہی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پورے گیارہ دن جب اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حملے کرکے وہاں تباہی مچاتا رہا تو کیا ان گیارہ دنوں تک ہونے والی حماس کے راکٹوں کی بارش سے اسرائیل میں صرف 12 افراد ہی ہلاک ہوئے؟ جب کہ ان میں دو تھائی لینڈ کے باشندے تھے اور پھر اسرائیل کی کسی دفاعی تنصیب یا رہائشی عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، کچھ دنوں میں حقیقت ضرور سامنے آجائے گی۔
اس جنگل کی اصل کہانی یہ ہے کہ نیتن یاہو نے غزہ کے رہائشی علاقوں پر حملے اور مسجد اقصیٰ میں اپنی فوج کے ذریعے فلسطینی نمازیوں پر گولیاں برسانے کی کارروائی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی تھی جس سے وہ حالیہ الیکشن میں اپنی ہار کو جیت میں بدلنا چاہتا تھا مگر اب جب کہ فلسطینی اپنی تباہی کے باوجود بھی فتح کا جشن منا رہے ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہیں اور وہ اسرائیل کی کمزوریوں سے بھی واقف ہوگئے ہیں چنانچہ ایسے ماحول میں نیتن یاہو کا فلسطینیوں پر حملوں کے ذریعے اسرائیلی عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے کا ڈرامہ مکمل طور پر فلاپ ہو چکا ہے۔
اب اگر اسرائیل کی طرف سے پھر غزہ یا فلسطینیوں کے دوسرے مقامات پر حملہ کیا گیا تو حماس اپنی نئی طاقت اور نئے ہتھیاروں سے اسرائیل کے ضرور بارہ بجا دے گی۔ وہ تو اسرائیل کی خیر ہوگئی کہ حزب اللہ کے جانبازوں نے صرف پانچ یا چھ راکٹوں کے داغنے پر ہی اکتفا کیا اگر وہ بھرپور حملہ کردیتے تو یقیناً شکست اسرائیل کا مقدر بن جاتی۔اس واقعے کے بعد اب اسرائیل کے پڑوسی عرب ممالک کے حوصلے بھی بڑھے ہوں گے اور وہ اب تک اسرائیلی طاقت سے جس طرح مرعوب نظر آتے تھے اب وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کا قصہ ہی پاک کرنے کے لیے کمر کس چکے ہوں گے۔
بہرحال اب اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے اور وہ اب اپنے تحفظ کے لیے پہلے سے زیادہ مہلک ہتھیار بنانے اور خریدنے کی کوشش کرے گا۔ تاہم اب وہ کچھ بھی کرلے وہ مصیبت میں گھر چکا ہے اور اب امریکا و یورپی ممالک کی بھاری امداد کے باوجود بھی وہ برباد ہو کر رہے گا۔ اب ان اسلامی ممالک کو جنھوں نے اسے تسلیم کر رکھا ہے اپنے فیصلوں پر ضرور نظر ثانی کرنا چاہیے۔
سعودی عرب نے غزہ پر اسرائیل کے حملے کی کھل کر مذمت کی ہے اور اس نے ہی او آئی سی کا اجلاس طلب کیا تھا ۔ اسرائیل گزشتہ ستر سال سے امریکا کی سرپرستی میں پوری اسلامی دنیا میں خوف و ہراس کی علامت بنا ہوا ہے۔ اس نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور اسی لائن پر مودی بھی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر بربریت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل عرب ممالک میں دہشت گردی کراتا رہا ہے اور انھیں ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے سے بھی روکتا رہا ہے۔
عراق اور لیبیا کے ایٹمی پلانٹس کو اسی نے تباہ کیا تھا۔ ایران کے ایٹمی طاقت بننے کی راہ میں وہی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس نے پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو بھی تباہ کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا تھا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد یہ تاثر زور پکڑ گیا تھا کہ اب مشرقی پاکستان کے بعد بھارت کا اگلا ہدف مغربی پاکستان ہوگا۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لے ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخی بیان دیا تھا کہ'' ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنا کر رہیں گے۔'' اس کے بعد ہی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے کام شروع کردیا گیا تھا۔
ادھر بھارت کو جب یہ پتا چلا تو وہ زیر تعمیر ایٹمی پلانٹ کو ہی تباہ کرنے کا پلان بنانے لگا مگر وہ ایسا کرنے میں ہچکچاتا رہا ۔اب ہماری ایٹمی تنصیبات پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہیں اور کسی بھی دشمن کی دسترس سے دور ہیں۔ پاکستانی جوہری تنصیبات پر حملوں میں اسرائیل اور بھارت ناکام رہے تو پھر پاکستانی ایٹم بم کو بدنام کرنا شروع کردیا کبھی کہا گیا کہ وہ اسلامی بم ہے کبھی اس کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خدشہ ظاہر کرنے لگے مگر ان کا یہ سارا پروپیگنڈا ناکام ہو کر رہا۔
پاکستانی ایٹم بم تو کیا ایک چٹکی یورینیم بھی کسی کے ہاتھ نہ لگ سکی۔ اس کے برعکس بھارتی یورینیم کے کئی مرتبہ چوری ہونے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ ابھی حال میں ممبئی میں کچھ بھارتی لوگ بھارتی ایٹمی پلانٹ سے حاصل کردہ سو گرام کے قریب یورینیم فروخت کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں افسوس کہ عالمی طاقتوں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا لیکن یہی واقعہ اگر پاکستان میں رونما ہو جاتا تو یقیناً پاکستان مصیبت میں گھر جاتا۔
اسرائیل شروع سے ہی بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف جارحیت میں شریک رہا ہے اس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھی بھارت کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف جو بھی جارحیت کی اسرائیل اس کے ساتھ تھا۔ بالاکوٹ پر حملے میں بھی گمان ہے کہ اسرائیل کے پائلٹوں نے حصہ لیا ہو۔
اس وقت غزہ میں اسرائیلی حملوں سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کے غم میں تمام اسلامی ممالک میں اسرائیل کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں ایسے میں حسینہ واجد اسرائیل پرست کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ انھوں نے اپنے پاسپورٹ کو اب اسرائیل کے سفر کے لیے بھی جائز قرار دے دیا ہے۔