مسافر بردار طیارے میں بم کی موجودگی کی اطلاع پر ہنگامی لینڈنگ
آئرلینڈ سے پولینڈ جانے والے طیارے میں 160 مسافر موجود تھے
KABUL:
آئرلینڈ سے پولینڈ جانے والے ریان ایئر کے مسافر بردار طیارے کو بم کی موجودگی کی اطلاع پر برلن میں ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق 160 مسافروں کو ڈبلن سے پولینڈ کے شہر کراکو لے جانے والی ریان ایئر کی پرواز کا رُوٹ اچانک تبدیل کرکے برلن کے ایئرپورٹ میں ہنگامی لینڈنگ کی گئی۔
برلن پولیس کا کہنا ہے کہ ریان ایئرلائن کو اترنے کی اجازت ہنگامی سیکویرٹی رسک کی وجہ سے دی گئی۔ طیارے اور مسافروں کے بیگز کی تلاشی لی گئی تاہم کوئی خطرناک چیز سامنے نہیں آئی۔
برلن پولیس کی جانب سے ہنگامی سیکیورٹی رسک کی وضاحت نہیں کی گئی تاہم عالمی خبر رساں ادارے کا دعوی ہے کہ طیارے میں بم کی موجودگی کی اطلاع پر ہنگامی لینڈنگ کی گئی تھی۔
طیارے کا عملہ اور مسافر مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ گزشتہ برس جولائی میں بھی ریان ایئر کی ڈٖبلن سے کراکو جانے والی ایک پرواز میں بم کی جھوٹی اطلاع پر طیارے کو ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی تھی۔
واضح رہے کہ اسی ماہ ریان ایئر کی ایک پرواز کو زبردستی بیلاروس اتار کر حکومت مخالف صحافی کو حراست میں لیا گیا تھا جب کہ اس عمل کو عالمی برادری نے ہائی جیکنگ کا نام دیا تھا۔
آئرلینڈ سے پولینڈ جانے والے ریان ایئر کے مسافر بردار طیارے کو بم کی موجودگی کی اطلاع پر برلن میں ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق 160 مسافروں کو ڈبلن سے پولینڈ کے شہر کراکو لے جانے والی ریان ایئر کی پرواز کا رُوٹ اچانک تبدیل کرکے برلن کے ایئرپورٹ میں ہنگامی لینڈنگ کی گئی۔
برلن پولیس کا کہنا ہے کہ ریان ایئرلائن کو اترنے کی اجازت ہنگامی سیکویرٹی رسک کی وجہ سے دی گئی۔ طیارے اور مسافروں کے بیگز کی تلاشی لی گئی تاہم کوئی خطرناک چیز سامنے نہیں آئی۔
برلن پولیس کی جانب سے ہنگامی سیکیورٹی رسک کی وضاحت نہیں کی گئی تاہم عالمی خبر رساں ادارے کا دعوی ہے کہ طیارے میں بم کی موجودگی کی اطلاع پر ہنگامی لینڈنگ کی گئی تھی۔
طیارے کا عملہ اور مسافر مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ گزشتہ برس جولائی میں بھی ریان ایئر کی ڈٖبلن سے کراکو جانے والی ایک پرواز میں بم کی جھوٹی اطلاع پر طیارے کو ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی تھی۔
واضح رہے کہ اسی ماہ ریان ایئر کی ایک پرواز کو زبردستی بیلاروس اتار کر حکومت مخالف صحافی کو حراست میں لیا گیا تھا جب کہ اس عمل کو عالمی برادری نے ہائی جیکنگ کا نام دیا تھا۔