فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم

اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر 750 سے زائد میزائل برسانے پر کوئی سوال نہیں اٹھایا۔

zb0322-2284142@gmail.com

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہٹلر نے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں یہودیوں کا قتل عام کیا جو یقینا غلط بات تھی مگر آج اسرائیل جب فلسطین پر بمباری کرتا ہے اور ہلاک ہونے والوں میں 95 فیصد مسلمان ہیں تو یہ بھی قابل مذمت اور جرم ہے۔

فلسطینی بہت پہلے سے اس خطے میں آباد ہیں۔ فلسطین میں مختلف لسان اور مذہب کے لوگ آباد تھے۔ کسی زبانے میں اس سرزمین میں (مصر اور فلسطین) حضرت موسیٰ پیدا ہوئے اور غلامی کے خلاف جنگ لڑی، آج وہاں انسانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ حضرت عیسیٰ بھی اسی علاقے میں پیدا ہوئے اور طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی۔ اسی پاداش میں انھیں مصلوب کیا گیا۔

درحقیقت یہ لڑائی سامراجی مفادات کے لیے ہے (خصوصاً تیل) اسرائیل کو امریکی سامراج عربوں کے تیل پر نظر گڑائے رکھنے اور انھیں مفلوج کرنے کا کام انجام دلوا رہا ہے۔ اسی خطے میں جب فرانس نے حملہ کیا تھا (1099 میں) جسے صلیبی جنگ بھی کہتے ہیں اس وقت یہاں کے مسلمانوں اور یہودیوں نے مل کر فرانسیسی حملہ آوروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا ہرچند کہ انھیں شکست ہوئی تھی۔ بے شمار مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام ہوا تھا۔ یہ تمام لڑائیاں نسلی ہوں یا مذہبی، سامراجی طاقتیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے دوسروں کو لڑواتی ہیں۔

اسرائیل کو لے لیں۔ اگر امریکا یہ اعلان کردے کہ ہم اسرائیل کی حمایت نہیں کرتے تو اسرائیل ایک دن بھی نہیں لڑ سکتا ہے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ میں جتنے امریکی فوجی ہیں ان سے دو گنا امریکی فوج اسرائیل میں ہے۔ مسلم ممالک 57 کے لگ بھگ ہیں۔ مگر یہ بے کس ہیں۔ اس لیے کہ اسرائیل کے گرد مسلم ممالک نے اپنے مفادات کے لیے اسرائیل اور امریکا سے گہرے تعلقات بنا رکھے ہیں اور وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف بیان بازی اور قراردادوں کے سوا اور کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ ترکی کے بیانات بڑے سخت ہوتے ہیں لیکن وہ نیٹو کا رکن ملک ہے۔

ایک زمانہ وہ تھا جب مصر، اردن، شام، عراق اور سعودی عرب میں فلسطینی مہاجرین کیمپوں کے گوریلا کارکنان مسلح ہوکر آزادانہ طور پر پھرتے تھے۔ پھر ان کی حرکات و سکنات پر پابندی لگا دی گئی۔ درحقیقت اس وقت عالم عرب میں بعث سوشلسٹ پارٹی تشکیل پائی تھی اور اس نے مصر، الجزائر، لیبیا، عراق اور شام میں بادشاہت کا خاتمہ کردیا تھا۔

اس کے جواب میں عرب میں اخوان المسلمون تشکیل دی گئی تھی۔ پھر فلسطین میں جب بائیں بازو کی پی ایف ایل پی اور ڈی ایف ایل پی، امریکی سامراج کے خلاف موثر اور فعال محاذ کے طور پر طاقت ور ہوئیں تو اس کے مدمقابل حماس بنائی گئی۔ اور اب جب حماس امریکا کے خلاف ہوگئی تو امریکی سامراج، اسرائیل کے ذریعے اسی پر حملہ آور ہوگیا۔ حالیہ اسرائیل کے حملے کے خلاف ہونے والے مظاہرے سب سے موثر تھے، بڑے مظاہرے امریکا، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اٹلی میں ہوئے۔

اٹلی میں لاکھوں کمیونسٹوں، انارکسٹوں، سوشلسٹوں، امن پسندوں اور جمہوریت پسندوں نے ریلی نکالی۔ کیوبا، شمالی کوریا، کیٹالونیا، وینزویلا اور بولیویا میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ پاکستان میں کراچی اور اسلام آباد میں بائیں بازو کی جماعتوں اور گروہوں نے بڑے مظاہرے کیے۔ اسرائیل میں بھی امن پسند یہودیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔


اسرائیل نے تقریباً 250 فلسطینیوں، بشمول 60 بچوں اور 50 خواتین کا قتل عام کیا۔ حماس کے راکٹ حملے میں بھی بقول اسرائیل کے 23 شہری اور فوجی مارے گئے۔ فلسطین کے اربوں ڈالر کے اثاثے اور انفرااسٹرکچر تباہ ہوئے۔ تمام عالمی برادری (بقول پروفیسر نوم چومسکی نیٹو، یو این او، اور آئی ایم ایف) خاموش تماشائی بنی رہی۔ فرانس نے اسرائیل کی مذمت کرنے کے بجائے وضاحت مانگ لی اور ناروے نے فلسطین میں آگ لگانے پر سوال اٹھایا۔ یہ ہیں انگلی کاٹ کر شہیدوں میں شامل ہونا۔ جب کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر 750 سے زائد میزائل برسانے پر کوئی سوال نہیں اٹھایا۔

یہ یکطرفہ قتل عام تھا۔ اسرائیل نے غزہ کی جنگ بندی کے چند گھنٹوں کے بعد مسجدالاقصیٰ پر ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس برسائے۔ جب کہ فلسطینی فائر بندی کی خوشی میں مسجد الاقصیٰ میں نماز ادا کرنے گئے تھے۔ سرمایہ دارانہ دنیا میں جنھیں بہت مہذب اور انصاف پسند کہا جاتا ہے جن میں اسکینڈی نیوین ممالک، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا بھی خاموش رہا۔ ہاں مگر امریکا کے انارکسٹ دانشور ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق اور ایریزونا یونیورسٹی کے استاد کامریڈ پروفیسر نوم چومسکی نے اسرائیل کی مذمت کی۔

امریکا کے سوشلسٹ رہنما برنی سینڈرز اور برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رہنما جیمری کوربون نے بھی اسرائیل کی مذمت اور فلسطین کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ یہودیوں کے لیے 1948 میں اسرائیل کے نام سے ایک ملک بنایا گیا۔

پھر یہاں امریکا، روس اور یورپ سے یہودیوں نے ہجرت کی۔ انھوں نے مقامی آبادی کو بھاری رقوم دے کر زمینیں خریدیں، مگر توسیع پسندانہ عزائم کو عروج دیتے ہوئے 1967 کی جنگ میں عراق، شام، اردن اور مصر کے علاقوں پر قبضہ کیا اور تاحال ناجائز قبضہ جمائے رکھا ہے۔ ہرچندکہ جنگ کے بعد عربوں کے قبضہ کیے ہوئے علاقوں کی واپسی کا معاہدہ ہوا تھا مگر اب تک اسرائیل نے نہ صرف وہ مقبوضہ علاقے متعلقہ عرب ممالک کو واپس نہیں کیے بلکہ مزید علاقوں پر قبضہ کرتا جا رہا ہے۔

حالیہ جھگڑا بھی اسی وجہ سے ہوا۔ اسرائیل فلسطین کے علاقوں پر جبری تعمیرات کر رہا ہے اور خالی زمینوں پر اسرائیل کا جھنڈا گاڑ کر اپنے ملک کے حصے کے طور پر قبضہ کرکے جائز بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ فلسطینی اس عمل کے خلاف نہتے احتجاج کر رہے تھے تو اسرائیل کی فوج اور سیکیورٹی فورسز نے فلسطینیوں پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں برسائیں، جب فلسطینیوں کے جم غفیر نے مقبوضہ علاقے سے اسرائیلی جھنڈے اکھاڑ پھینکے تو اسرائیلی فوج نے ان پر فائر کھول دیے۔

اس کے جواب میں جب حماس نے راکٹ داغے تو اسرائیل نے بمباری شروع کردی۔ اسرائیل کے اس جارحانہ عمل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلانے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل 100 سے زائد بچوں اور عورتوں کو قتل کرکے سنگین جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔

اسرائیل کے اس وحشیانہ قتل عام کے خلاف عالمی امہ کا نعرہ لگانے والے اپنے ملکوں سے فلسطین کی حمایت کے لیے گوریلاؤں کو بھیجنا چاہیے تھا جس طرح اسپین میں جنرل فرانکو اور کوریا میں فوجی آمر کے خلاف دنیا بھر سے امریکی سامراج کے خلاف کمیونسٹ گوریلاؤں نے لاکھوں کی تعداد میں جنگ لڑی اور جنرل فرانکو اور سامراجی کوریا کو شکست دی۔

آج بھی کیٹالونیا میں انارکسٹوں کا راج ہے اور سوشلسٹ کوریا سامراج مخالف ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن جلد آنے والا ہے کہ دنیا ایک ہوجائے گی۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔ اسرائیلی حکمران نیست و نابود ہوں گے فلسطین اور عرب عوام سب آزاد ہوں گے۔
Load Next Story