پانی کی قلت معاملے کو سیاسی رنگ دینے کے بجائے افہام وتفہیم سے حل کیا جانا چاہیے

پانی کے معاملے پر پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان کر دیا ہے۔

پانی کے معاملے پر پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان کر دیا ہے۔

ملک بھر کی طرح سندھ کو بھی اس وقت پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے جب کہ پانی کے مسئلے پر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی تحریک انصاف کی وفاقی اور پنجاب حکومت سے سیاسی محاذ آرائی شروع ہو گئی ہے۔

پانی کے معاملے پر پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان کر دیا ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور ہوشرباء مہنگائی کے بعد اب سندھ کو پانی کی کمی کا تحفہ دیا جا رہا ہے ، جس پر پورا سندھ سراپا احتجاج ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ارسا کو سندھ کے حصے کا پانی چوری کرنے نہیں دیں گے ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ تین جون کو لاڑکانہ ، پانچ جون کو ٹھٹھہ ، بدین ، 9 جون سکھر اور 15 جون کو کراچی میں احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔

وزیر آب پاشی سندھ سہیل انور سیال نے کہا کہ ارسا پانی کے معاہدے پر عمل نہیں کر رہی ہے۔ وزیر اعلی سندھ کے مشیر مرتضی وہاب نے اپنے بیان میں کہا کہ وفاقی حکومت کی ایما ء پر سندھ کا پانی بند کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے زراعت تباہ ہو رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنماؤں حلیم عادل شیخ اور خرم شیر زمان نے سندھ حکومت کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ سندھ حکومت پانی کے معاملے پر صوبوں کے درمیان نفرت پیدا کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ کے حصے کے پانی سے بااثر شخصیات ، بیورو کریٹس اور وڈیروں کو نوازا ہے۔ پیپلز پارٹی پانی کی تقسیم پر سندھ اور پنجاب کے درمیان رنجشیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اس سازش کا نوٹس لیا جانا چاہئے۔ سندھ حکومت کی پانی چوری کو بے نقاب کریں گے اور سندھ کے عوام کا مقدمہ ہر فورم پر لڑیں گے۔

دوسری جانب ارسا نے سندھ حکومت کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی نے واضح کیا ہے کہ سندھ کے حصے کے پانی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دریاوں کے پانی کے بہاو میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

پانی کے معاہدے 1991 ء کے مطابق پانی کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر کی طرح سندھ بھی اس وقت کورونا کی لپیٹ میں ہے۔ وفاق ، سندھ اور پنجاب حکومتوں سمیت دیگر صوبائی حکومتوں او رارسا کو چاہئے کہ وہ پانی کے معاملے پر سیاسی جنگ کے بجائے مذاکرات سے اس معاملے کو حل کریں۔ وزیر اعظم عمران خان اس معاملے پر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس فوری بلائیں یا پھر وزرائے اعلی ، ارسا اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام کے ساتھ پانی کی تقسیم اور کمی کے معاملے پر صوبائی حکومتوں کی شکایات کے ازالے کے لیے فوری اقدام کریں۔

پانی کی کمی کا مسئلہ سیاسی جنگ سے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعہ طے کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر پانی کی کمی کے معاملے پر احتجاج کیا جائے گا تو پھر نقصان صرف کاشت کاروں کا ہی ہو گا۔ اگر اس معاملے کو فوری حل نہ کیا گیا اور بروقت نئی فصلوں کی کاشت نہ ہوئی تو آنے والے دنوں میں ملک کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پانی کی کمی کے بعد سندھ حکومت کو ایک نئے مسئلے کا سامنا ہے۔ یہ معاملہ اندرون سندھ کے مختلف اضلاع میں ڈاکو راج کا ہے۔ سندھ کے کئی اضلاع میں یہ شکایات ہے کہ کچے کے علاقے میں جو ڈاکو موجود ہوتے ہیں ، وہ شہریوں کو اغواء￿ کرکے لے جاتے ہیں اور ان سے بھاری تاوان لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے وزیر اعظم کو آگاہ کیا تھا ، جس کے بعد وزیر اعظم کی ہدایت پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کراچی کا دو روزہ دورہ کیا۔

انہوں نے وزیر اعلی سندھ سندھ مراد علی شاہ اور ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل افتحار حسن چوہدری سے ملاقاتیں کیں اور اندرون سندھ کے مختلف اضلاع میں امن و امان کی خراب صورت حال اور ڈاکووں کے خلاف جاری آپریشن پر تبادلہ خیال کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے وزیر اعلی سندھ کو وفاقی حکومت کی جانب سے پیشکش کی کہ اندرون سندھ میں ڈاکووں کے خلاف جاری آپریشن کے حوالے سے وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ ہے اور ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔ دوسری جانب وزیر اعلی سندھ نے بھی شکار پور کا دورہ کیا۔


پولیس حکام نے انہیں ڈاکووں کے خلاف جاری آپریشن پر بریفنگ دی۔ ڈی آئی جی لاڑکانہ کا کہنا ہے کہ شکار پور اور اطراف کے علاقوں میں ڈاکووں کے خلاف بھرپور آپریشن جاری ہے۔ سندھ کے مختلف اضلاع میں ڈاکووں کی کارروائیوں کی شکایات بہت پرانی ہیں۔ ماضی میں بھی ان ڈاکووں کے خلاف کئی آپریشن ہو چکے ہیں۔

اب اس امر کی ضرورت ہے کہ سندھ حکومت پولیس کو جدید وسائل فراہم کرے اور اگر ڈاکوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے رینجرز کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ رینجرز کی خدمات حاصل کریں کیونکہ کراچی میں قیام امن میں رینجرز کا بہت بڑا کردار ہے۔ پولیس اور رینجرز اگر مشترکہ آپریشن کریں تو ان اضلاع سے ڈاکووں کا صفایا کرنا ممکن ہو جائے گا۔

سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کی جانب سے 2017 ء کی مردم شماری کے نتائج پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ آئے روز وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان مختلف امور پر سیاسی کشیدگی دیکھنے میں آتی ہے۔ پانی کی کمی کا معاملہ ہو یا ڈاکووں کے خلاف آپریشن ، اب سندھ حکومت نے آئین کے آرٹیکل 154 کی شق 7 کے تحت 2007 ء کی مردم شماری کے نتائج کے معاملے پر پارلیمنٹ کو ریفرنس بھیج دیا ہے۔

چیئرمین اور اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوائے گئے ریفرنس میں وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے نتائج کے معاملے پر سی سی آئی میں ووٹنگ کے مروجہ قواعد پر عمل نہیں کیا گیا۔ ہمارے تحفظات کے باوجود ووٹنگ کا غلط طریقہ کار استعمال کیا گیا۔ سی سی آئی نے قواعد کے برخلاف 2017 ء کی مردم شماری کے نتائج کی منظوری دی۔ انہوں نے کہا کہ 2017 ء￿ کی مردم شماری میں سندھ کی آبادی کو کم دکھایا گیا ہے۔

جسے سندھ حکومت نہیں مانتی۔ وزیر اعلی سندھ کا موقف ہے کہ سندھ کی آبادی 6 کروڑ 20 لاکھ ہے۔ مگر 2017 ء￿ کی مردم شماری میں سندھ کی آبادی ایک کروڑ 50 لاکھ کم کرکے 4 کروڑ 70 دکھائی گئی ہے۔ اس معاملے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ مردم شماری کے معاملے پر سندھ کے تحفظات کو دور کرے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس فوری بلایا جائے اور اس اجلاس میں تحفظات کو دور کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی بنائی جائے۔

سندھ میں کورونا کی تیسری لہر پر قابو پانے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے عائد پابندیاں جاری ہیں۔ ان پابندیوں کے سبب صوبے کے مختلف اضلاع میں کورونا کی لہر میں کمی ہوئی ہے۔ تاہم وزیر اعلی سندھ کے مطابق کراچی میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح 10 فیصد سے زائد ہے۔

کورونا کی ان پابندیوں پر ایم کیو ایم پاکستان ، مہاجر قومی موومنٹ،پاک سرزمین پارٹی اور دیگر جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے او رالزام عائد کیا ہے کہ یہ پابندیاں صرف کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے لیے ہیں۔ ان جماعتوں کے رہنماوں نے الزام عائد کیا ہے کہ کراچی میں صرف اردو بولنے والے علاقوں میں کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کرایا جا رہا ہے جبکہ دیگر قومیتوں کے رہائشی علاقوں میں سب کچھ کھلا ہوتا ہے۔

سندھ حکومت کے وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ نے ان جماعتوں کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت سندھ میں رہنے والے تمام قوموں کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان نے سندھ حکومت کی زیادتیوں کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر دی ہے۔ اس حوالے سے کراچی کے مختلف علاقوں میں سندھ حکومت کے خلاف بینرز بھی آویزاں کیے گئے ہیں۔ تاجر تنظیموں نے کاروباری اوقات کار محدود ہونے اور پابندیوں کے خلاف احتجاج کا عندیہ دیا ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے عوام کو کورونا ویکسین لگانے کے دائرہ کار بھی بڑھا دیا گیاہے۔ وزیر اعلی سندھ کا کہنا ہے کہ سندھ میں روزانہ 70 ہزار افراد کو کورونا ویکیسن لگائی جا رہی ہے۔ اب دو لاکھ افراد کو روزانہ ویکسین لگانے کا عمل پورا کیا جائے گا ، جس کے لیے موبائل ویکسی نیشن کا نظام وضع کیا جا رہا ہے۔

ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی 18 سال کی عمر کے افراد ویکسی نیشن بھی این سی او سی کے فیصلے کے مطابق شروع کی جائے گی۔ وزیر اعلی سندھ کے مشیر وقار مہدی کا کہنا ہے کہ کورونا لہر میں کمی کے بعد صورت حال جائزہ لے کر اور طبی ماہرین کی روشنی میں کورونا ایس او پیز کے حوالے عائد پابندیوں کو جاری رکھنے یا نرمی کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
Load Next Story