اے این پی اور پیپلز پارٹی کے بغیر پی ڈی ایم جلسے کامیاب کر سکے گی

پیپلزپارٹی اور اے این پی کسی بھی طور یہ نہیں چاہیں گی کہ وہ سرنڈر ہوکر پی ڈی ایم میں واپس آئیں۔

پیپلزپارٹی اور اے این پی کسی بھی طور یہ نہیں چاہیں گی کہ وہ سرنڈر ہوکر پی ڈی ایم میں واپس آئیں۔

پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بھی ہو چکا اور اس میں پیپلزپارٹی اور اے این پی کی واپسی کے لیے دروازہ کھولنے کا معاملہ بھی زیر بحث آچکا اور جس انداز میں یہ معاملہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں زیر بحث آیا اس کے بعد بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ اتحاد میں شامل جماعتیں پیپلزپارٹی اور اے این پی کی واپسی نہیں چاہتیں کیونکہ جس انداز میں وہ ان دونوں پارٹیوں کو واپس لانا چاہتی ہیں۔

اس کا مطلب ہے مکمل طور پر سرنڈر اور پیپلزپارٹی اور اے این پی کسی بھی طور یہ نہیں چاہیں گی کہ وہ سرنڈر ہوکر پی ڈی ایم میں واپس آئیں ، یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے پی پی پی اور اے این پی کے حوالے سے جو کچھ کہا اس کا جواب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ولی باغ چارسدہ میں بیٹھ کر دے دیا ہے کہ پی ڈی ایم میں ان کی واپسی اب نہیں ہونی اور جو حالات جاری ہیں ان میں واپسی ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ اے این پی اور پیپلزپارٹی کبھی بھی اس صورت حال میں پی ڈی ایم میں واپس نہیں جانا چاہیں گے ۔

پی ڈی ایم سے ان دونوں جماعتوں کے باہر ہونے کے بعد جو گرد اڑائی جارہی تھی اس سے ایسے ہی حالات بن رہے تھے کہ جس میں پیپلزپارٹی اور اے این پی کی واپسی مشکل ہوتی چلی جارہی تھی اور یہی کچھ ہورہا ہے ،ان حالات کو پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں بھی بخوبی سمجھ رہی تھیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پیپلزپارٹی اور اے این پی کے بغیر ہی جلسوں کے اگلے مرحلہ کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے جس میں پہلا جلسہ 4 جولائی کو سوات میں منعقد ہونا ہے جبکہ اس کے بعد کراچی اور اسلام آباد میں جلسے ہوں گے۔

پی ڈی ایم سے اے این پی اورپیپلزپارٹی کے اخراج کے بعد سوات جلسہ کا سارا بوجھ جمعیت علماء اسلام اور مسلم لیگ ن پر ہوگا تاہم چونکہ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر انجنیئر امیر مقام کا اپنا تعلق بھی ملاکنڈڈویژن سے ہے اس لیے وہ سوات جلسہ کو اپنا شو بنانے کی پوری کوشش کریں گے تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسے جلسے تو پی ڈی ایم اس سے پہلے بھی اپنی احتجاجی تحریک کے پہلے مرحلے میں کر چکی ہے جس کے بعد پھر سے جلسے کرنے کی کیا تک بنتی ہے؟

اصولی طور پرتو بات وہیں سے شروع کرنی چاہیے تھی کہ جہاں یہ سلسلہ ٹوٹا تھا یعنی کہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفے لیکن لگ یہ رہا ہے کہ یہ پارٹیاں ابھی ان دونوں مراحل کے لیے تیار نہیں ہیں اسی لیے انہوں نے مزید وقت لینے کے لیے ایک مرتبہ پھر جلسوں کے شیڈول کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان تین جلسوں کے بعد مزید جلسوں کا اعلان کردیا جائے کیونکہ جولائی میں یہ جلسے ہونگے اور اگست میں موجودہ حکومتیں تین سال پورے کر رہی ہیں اور اپنے چوتھے سال میں داخل ہوجائیں گی جبکہ دوسری جانب جولائی میں عید قرباں اور پھر اگست میں محرم کی وجہ سے معاملات قدرے سست روی کا شکار ہوجائیں گے جس سے یہ تحریک ستمبر میں داخل ہو جائے گی۔

ماہ ستمبر سے موسم میں بہتری آنا شروع ہو جاتی ہے اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ورکروں کو بھی قدرے بہتر ماحول میں سڑکوں پر آنے کا موقع مل جائے گا جبکہ اگر پی ڈی ایم کی تحریک جاری رہی تو اس صورت میں اس کا ٹیمپو بھی دوبارہ بن جائے گا اور اس میں شامل جماعتیں لانگ مارچ اور استعفوں کے لیے شاید تیار ہو چکی ہوں۔


پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی جانب سے دوبارہ جلسوں کے اعلان کے بعدجہاں ایک جانب ان جماعتوں کے ورکروں کی جانب سے لبیک ،لبیک کی صدائیں آرہی ہیں تو ساتھ ہی دوسری جانب تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے اور تنقید کرنے والے مسلسل یہ بات دہرا رہے ہیں کہ اس سے پہلے بھی جلسے کیے گئے اور احتجاجی مظاہرے بھی لیکن اس کا کسی قسم کا کوئی فائدہ ہوا نہ ہی حکومت کو کوئی نقصان تو ایک مرتبہ پھر جلسوں کا انعقاد کیا معنی رکھتا ہے؟ اور اگر پہلے جلسوں کے انعقاد سے حکومت نہیں گئی تو اب کیسے جائے گی؟

اس موقع پر سب یہ توقع کر رہے تھے کہ یہ پارٹیاں اب اس سے آگے جاکر کوئی اعلان کریں گی لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ مذکورہ پارٹیاں اس پوزیشن میں نظر نہیں آرہیں اور پھر گاہے ،گاہے ڈیل کی بازگشت بھی سنائی دے جاتی ہے اس لیے ایسے ماحول میں اسمبلیوں سے باہر آنا مشکل ہے یہی وجہ ہے کہ وقت گزارنے کے لیے جلسوں کے انعقاد پر گزارا کیاگیا ہے تاکہ ورکروں کا لہوب ھی گرم رہے اور ساتھ ہی پی ڈی ایم رہنما سٹیج پر بھی نظر آتے رہیں۔

ان حالات میں جماعت اسلامی تن تنہا میدان میں سرگرم ہے جس نے کراچی میں بڑا شو کرنے کے بعدپشاورمیں بھی بڑے شو کا انعقاد کردیا ہے حالانکہ گرمی پورے جوبن پر ہے اور اس گرمی میں کھلے آسمان تلے جمع ہونا اورگھنٹوں کھڑے رہنا آسان کام نہیں لیکن جماعت اسلامی کے ورکروں نے ایسا ممکن کردکھایا ہے اور جماعت اسلامی اس ٹیمپو کو برقراررکھنے کی خواہاں ہے جس کے لیے دیگر شہروں میں بھی اسی طرح کے بڑے جلسوں کا انعقادکیا جا سکتا ہے۔

تاہم جماعت اسلامی ان جلسوں میں شامل ہونے والے افراد کو اپنے ووٹ بنک میں تبدیل کرنے کی بھی خواہش رکھتی ہے کیونکہ جماعت اسلامی عام انتخابات میں بھی سولو فلائٹ کرے گی اور وہ میدان مارنے کے چکروں میں ہے تاہم صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی بڑے جلسے کرنے اور میدان گرم کرنے کے باوجود انتخابی معرکوں میں مات کھا جاتی ہے اور اس پوزیشن میں نہیں آتی کہ ڈرائیونگ سیٹ پر آسکے اس لیے اسے یا تو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑتا ہے یا پھر حکومت میں بھی اتحادی جماعت کی حیثیت سے لیکن اس مرتبہ جماعت اسلامی صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت کی صورت حال یہ ہے کہ صوبائی کابینہ میں اپریل کے مہینہ میں شامل کردہ چار وزراء کی وجہ سے صوبائی کابینہ اپنے آئینی حجم سے بڑھ گئی،آئین کے مطابق کابینہ کا حجم پندرہ رکنی کابینہ یا صوبائی اسمبلی کے ارکان کی مجموعی تعداد کے گیارہ فیصد کے مساوی ہونا چاہیے اورصوبائی اسمبلی کے 145 ارکان کے گیارہ فیصد کے اعتبار سے کابینہ ارکان کی تعداد 16ہونی چاہیے تاہم چار وزراء کی شمولیت سے یہ تعداد بڑھ کر17ہوگئی۔

جس کی بنیادی وجہ حکومتی حلقوں میں پائی جانے والی کنفیوژن ہے کیونکہ حکومتی حلقے اسے حوالے سے کنفیوزڈ تھے کہ کابینہ سے مراد صرف وزراء ہوتے ہیں اور وزیراعلیٰ اس میں شامل نہیں ہوتا حالانکہ آئینی اعتبار سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ کابینہ کا مطلب وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ ہوتی ہے یعنی وزیراعلیٰ کابینہ کاحصہ ہوتے ہیں تاہم یہ بات حکومتی حلقوں میں واضح نہیں تھی۔ اسی کنفیوژن کی وجہ سے ایک اضافی وزیر کابینہ کا حصہ بنایا گیا تاہم صوبائی اسمبلی میں جب یہ معاملہ اٹھایاگیا اور بات ایڈوکیٹ جنرل کی رائے تک گئی تو معاملہ واضح ہوگیا کہ ایک وزیر کو جانا ہوگااور ان سطور کے زیر مطالعہ آنے تک ممکنہ طور پر خیبرپختونخوا کابینہ سے ایک وزیر کی چھٹی ہو چکی ہوگی جو یا تو مشیر یا معاون خصوصی بنیں گے۔
Load Next Story