لاہورمیں 24 سالہ نوجوان نے نوادرات کا خزانہ جمع کرلیا
محسن فراز کے پاس ایک ہزارکے قریب نوادرات ہیں
اندرون شہر کی تنگ وتاریک گلیوں میں رہنے والے ایک چوبیس سالہ نوجوان نے اپنے گھرمیں ہزاروں سال پرانی نوادارت کاخزانہ جمع کررکھا ہے جن میں دوہزارسال پرانی سرمہ دانیاں بھی شامل ہیں،قدیم دورکے عجیب وغریب تالے،مختلف دھاتوں کے سکے، پاندان، مورتیاں اور برتن بھی محسن فراز کی کلیکشن کا حصہ ہیں جوانہوں نے آٹھ سال کی طویل محنت سے جمع کی ہیں۔
محسن فراز اندرون بھاٹی گیٹ کے رہائشی ہیں جبکہ قدیم دورکی نوادرات جمع کرناان کا شوق ہے۔ کوریڈ 19 کی وجہ سے ان دنوں وہ اپنازیادہ وقت اپنی کولیکشن کی سیٹنگ اور اندرون شہر میں اسلامی میوزیم بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، ان کے پاس سندھ ،ہڑپہ، مہرگڑھ کی قدیم تہذیبوں سمیت ہندو،جین ،بدھ مت ،مغلیہ دور،سکھ عہد اوربرطانوی دور کی ایک ہزارسے زائد نوادرات ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ خاص سرمہ دانیاں ہیں جن کی تعداد ایک سوکے قریب ہے.
محسن فرازنے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا وہ آثارقدیمہ کے طالب علم ہیں اورانہوں نے 8 سال قبل 16 برس کی عمرمیں نوادرات جمع کرنا شروع کئے تھے ،سب سے پہلی چیزجوانہوں نے خریدی وہ ایک گڑوی تھی ،پیتل کی بنی وہ گڑوی جب انہوں نے آثارقدیمہ کے ماہرین کو دکھائی تومعلوم ہوا کہ یہ تقریباایک ہزارسال پرانی ہے جو ہندومت کے دورمیں استعمال ہوتی تھی۔ ان کے مطابق نوادرات کی کولیکشن کے لئے وہ اندرون اوربیرون ملک سفربھی کرچکے ہیں۔ ابتدائی دوتین سالوں میں توان کے ساتھ کئی باردھوکابھی ہوا لوگ نقلی چیزیں یاپھر ریپلیکا دے دیتے تھے۔ اب وقت کے ساتھ ساتھ انہیں تجربہ ہوگیا ہے۔ دوسرا پرانی چیزخود اپنا آپ دکھادیتی ہے۔آج جدید دورمیں تیارکی جانیوالی ریپلیکا پرانے دورکے کاریگروں کے شاہکار کامقابلہ نہیں کرسکتی ہیں
محسن فرازکی کولیکشن کی بات کی جائے توان میں عجیب وغریب قسم کے تالے،پان دان ، اگلدان، گلاب دان، کھانے کے لئے استعمال ہونیوالے برتن،مورتیاں اورسکے شامل ہیں۔ سب سے خاص سرمہ دانیاں ہیں جن کی تعدادایک سو کے قریب ہیں ان میں سے پچاس ایسی ہیں جوانتہائی نایاب ہیں،ان میں سے سب سے بڑی سرمہ دانی ایک کلووزنی ہے،زیادہ ترسرمہ دانیاں دوہزارسال پرانی ہیں، محسن فرازکواپنی کولیکشن میں جوسب سے زیادہ چیزپسند ہے وہ مغلیہ دور میں استعمال ہونیوالے خنجرکی نیام ہے۔ جس پرانتہائی خوبصورت اندازمیں کندہ کاری کی گئی ہے۔اسی طرح قدیم جاپانی تہذیب میں استعمال ہونیوالامرتبان ہے جس پرسونے کی سیاہی سے نقش ونگاربنے ہیں۔اسی طرح قدیم ادوارمیں استعمال ہونے والی چاندی کی جیولری بھی موجود ہے۔
محسن فرازکے مطابق کئی نوادرات انہوں نے اپنے دوستوں سے حاصل کی ہیں، ان کا پاکستان سمیت مختلف ممالک میں نوادرات جمع کرنیوالوں سے رابطہ رہتا ہے ، یہ لوگ آپس میں نوادرات کا تبادلہ بھی کرلیتے ہیں۔ اسی طرح نوادرات جمع کرنے والے کئی افراد کسی وجہ سے اپنی کولیکشن فروخت کردیتے ہیں یاان کی وفات کے بعد ان کی اولاد یہ ورثہ کباڑسمجھ کربیچ دیتی ہے۔ ان کے بقول بعض اوقات کئی نودارت انہیں کباڑ کی بھاؤمل گئیں اور کئی کباڑ کی چیزیں نوادرات سمجھ کرمہنگی خرید لیں۔
محسن فراز نے بتایا کہ شروع میں ان کے گھروالے ان کے مخالف تھے اورمذاق اڑاتے تھے کہ میں گھرمیں کباڑجمع کررہا ہوں لیکن اب وہ خوش ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان نوادرات کی تاریخ اوراصلی ہونے کی تصدیق ماہرین آثارقدیمہ سے کروائی گئی ہے۔ ان کے گھرمیں ان نوادرات کوڈسپلے کرنے کے لئے جگہ نہیں ہے اس لئے اب وہ اندرون بھاٹی میں ایک اسلامک میوزیم بنانے کی تیاریاں کررہے ہیں جہاں یہ تمام کولیکشن ڈسپلے کی جائیگی تاکہ سیاحوں کے علاوہ تاریخ اورآثارقدیمہ کے طالب علم ان سے استفادہ حاصل کرسکیں۔
محسن فراز اندرون بھاٹی گیٹ کے رہائشی ہیں جبکہ قدیم دورکی نوادرات جمع کرناان کا شوق ہے۔ کوریڈ 19 کی وجہ سے ان دنوں وہ اپنازیادہ وقت اپنی کولیکشن کی سیٹنگ اور اندرون شہر میں اسلامی میوزیم بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، ان کے پاس سندھ ،ہڑپہ، مہرگڑھ کی قدیم تہذیبوں سمیت ہندو،جین ،بدھ مت ،مغلیہ دور،سکھ عہد اوربرطانوی دور کی ایک ہزارسے زائد نوادرات ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ خاص سرمہ دانیاں ہیں جن کی تعداد ایک سوکے قریب ہے.
محسن فرازنے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا وہ آثارقدیمہ کے طالب علم ہیں اورانہوں نے 8 سال قبل 16 برس کی عمرمیں نوادرات جمع کرنا شروع کئے تھے ،سب سے پہلی چیزجوانہوں نے خریدی وہ ایک گڑوی تھی ،پیتل کی بنی وہ گڑوی جب انہوں نے آثارقدیمہ کے ماہرین کو دکھائی تومعلوم ہوا کہ یہ تقریباایک ہزارسال پرانی ہے جو ہندومت کے دورمیں استعمال ہوتی تھی۔ ان کے مطابق نوادرات کی کولیکشن کے لئے وہ اندرون اوربیرون ملک سفربھی کرچکے ہیں۔ ابتدائی دوتین سالوں میں توان کے ساتھ کئی باردھوکابھی ہوا لوگ نقلی چیزیں یاپھر ریپلیکا دے دیتے تھے۔ اب وقت کے ساتھ ساتھ انہیں تجربہ ہوگیا ہے۔ دوسرا پرانی چیزخود اپنا آپ دکھادیتی ہے۔آج جدید دورمیں تیارکی جانیوالی ریپلیکا پرانے دورکے کاریگروں کے شاہکار کامقابلہ نہیں کرسکتی ہیں
محسن فرازکی کولیکشن کی بات کی جائے توان میں عجیب وغریب قسم کے تالے،پان دان ، اگلدان، گلاب دان، کھانے کے لئے استعمال ہونیوالے برتن،مورتیاں اورسکے شامل ہیں۔ سب سے خاص سرمہ دانیاں ہیں جن کی تعدادایک سو کے قریب ہیں ان میں سے پچاس ایسی ہیں جوانتہائی نایاب ہیں،ان میں سے سب سے بڑی سرمہ دانی ایک کلووزنی ہے،زیادہ ترسرمہ دانیاں دوہزارسال پرانی ہیں، محسن فرازکواپنی کولیکشن میں جوسب سے زیادہ چیزپسند ہے وہ مغلیہ دور میں استعمال ہونیوالے خنجرکی نیام ہے۔ جس پرانتہائی خوبصورت اندازمیں کندہ کاری کی گئی ہے۔اسی طرح قدیم جاپانی تہذیب میں استعمال ہونیوالامرتبان ہے جس پرسونے کی سیاہی سے نقش ونگاربنے ہیں۔اسی طرح قدیم ادوارمیں استعمال ہونے والی چاندی کی جیولری بھی موجود ہے۔
محسن فرازکے مطابق کئی نوادرات انہوں نے اپنے دوستوں سے حاصل کی ہیں، ان کا پاکستان سمیت مختلف ممالک میں نوادرات جمع کرنیوالوں سے رابطہ رہتا ہے ، یہ لوگ آپس میں نوادرات کا تبادلہ بھی کرلیتے ہیں۔ اسی طرح نوادرات جمع کرنے والے کئی افراد کسی وجہ سے اپنی کولیکشن فروخت کردیتے ہیں یاان کی وفات کے بعد ان کی اولاد یہ ورثہ کباڑسمجھ کربیچ دیتی ہے۔ ان کے بقول بعض اوقات کئی نودارت انہیں کباڑ کی بھاؤمل گئیں اور کئی کباڑ کی چیزیں نوادرات سمجھ کرمہنگی خرید لیں۔
محسن فراز نے بتایا کہ شروع میں ان کے گھروالے ان کے مخالف تھے اورمذاق اڑاتے تھے کہ میں گھرمیں کباڑجمع کررہا ہوں لیکن اب وہ خوش ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان نوادرات کی تاریخ اوراصلی ہونے کی تصدیق ماہرین آثارقدیمہ سے کروائی گئی ہے۔ ان کے گھرمیں ان نوادرات کوڈسپلے کرنے کے لئے جگہ نہیں ہے اس لئے اب وہ اندرون بھاٹی میں ایک اسلامک میوزیم بنانے کی تیاریاں کررہے ہیں جہاں یہ تمام کولیکشن ڈسپلے کی جائیگی تاکہ سیاحوں کے علاوہ تاریخ اورآثارقدیمہ کے طالب علم ان سے استفادہ حاصل کرسکیں۔