مغربی تہذیب پر اعتراضات کیوں
دنیا کی ہر تہذیب نے چاہے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے سے ہو، دنیا کی دوسری تہذیبوں سے استفادہ کیا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے عظیم رہنما تھے۔ ان کی اور ان کے خاندان کی سیاسی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی خدمات کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ان سے ان کی سیاسی زندگی میں کوئی ایک سیاسی غلطی نہ ہوئی ہو؟
یقیناً ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی لیکن آپ ان کے حامی عناصر سے مکالمہ کرکے دیکھ لیں بیشتر حامی عناصر ان کی کوئی ایک سیاسی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں آئیں گے۔ دوسری جانب مخالفین ہیں جو بھٹو اور ان کے خاندان کی سیاسی خدمات کی مکمل نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں یہاں تک کہ ان کی اور ان کے خاندان کی شہادت کو غلط رنگ دیتے ہیں۔
ہمارا یہ رویہ انتہا پسندی کے رویے کو ظاہر کرتا ہے اسی طرح کا رویہ ہمیں مغربی تہذیب کے حامی عناصر اور مخالفین کے درمیان بھی نظر آتا ہے۔ اس پر بات کرنے سے قبل ہمیں تاریخ کے اوراق میں جانا ہوگا۔پانچ ہزار سال قبل مسیح میں جب خاندانی رشتوں کی بنیاد پر کئی خاندان آپس میں متحد ہوگئے تو انھوں نے قبیلے کی صورت اختیار کرلی اس طرح انسانی تاریخ میں سب سے پہلے قبائلی ریاستوں کی بنیاد پڑی۔ قبائلی ریاستوں کے بعد ہمیں شہنشاہوں کا ذکر ملتا ہے۔
یہ کمزور قبائل پر طاقتور قبائل کے غلبے کا نتیجہ تھیں لیکن قبائلی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور منظم تھیں ان ریاستوں کے ابتدائی نظریات میں ہمیں مذہب کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابتدائی ریاستیں مذہبی ریاستیں تھیں۔ مذہب کے فروغ کے عنصر کے ساتھ ان کی توسیع پسندانہ مہم میں جہاں معاشی اور اقتصادی عوامل کارفرما تھے وہاں اس میں نسلی عصبیت کا عنصر بھی کارفرما نظر آتا ہے۔ مغرب میں عمائدین شہر کے اتفاق رائے سے بادشاہ کا انتخاب ہوتا تھا۔ ریاست کی ساری زمین بادشاہ کی تصور کی جاتی تھی۔
عوام کی حیثیت غلاموں کی تھی۔ وہ زرعی پیداوار کا بڑا حصہ ریاست کے بادشاہ کے نمایندوں کے حوالے کرنے کے پابند تھے۔ اس دور میں بادشاہوں، نوابوں اور پادریوں نے مل کر عوام کو اپنے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا۔ پادری علم کے ٹھیکیدار اور بادشاہ طاقت کے مراکز بن گئے تھے۔ دونوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے باہمی مفاہمت اور گٹھ جوڑ کر رکھا تھا۔ اس کی بنیاد پر دونوں قوتیں مل کر عوام کا مذہبی استحصال سے لے کر معاشی اور ہر طرح کا استحصال کیا جاتا تھا۔ عوام کو سوال کرنے کی آزادی نہیں تھی کسی کو بادشاہ اور پوپ کے خلاف ایک لفظ بھی کہنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔
اگر کوئی جرأت کرتا تو اس کا سر قلم کر دیا جاتا۔ ایسے حالات میں مارٹن لوتھر جو خود ایک پادری تھا اس نے اس رویے کے خلاف آواز بلند کی۔ مارٹن لوتھر نے چونکہ عوام کے دل کی بات کہی تھی لہٰذا لوتھر کا پیغام وقت کی آواز بن گیا۔ اس کے بعد یورپ میں اصلاح دین کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک نے لوگوں کے ان خیالات اور تصورات کو بدل دیا ۔ سائنسی انداز فکر کی بنیاد پڑی اس کے نتیجے میں روشن خیال تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کے بطن سے جمہوریت نے جنم لیا۔
جمہوریت کے نتیجے میں انسان غلامی کی بندش سے آزاد ہوا۔ جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوا۔ ملک کو سیاسی استحکام حاصل ہوا۔ اس کے نتیجے میں عوامی خوشحالی آئی۔ مغرب کے مخالفین ان چند بنیادی سوالوں کہ نظام حکومت کیسے تشکیل دیا جائے قیادت کا انتخاب کیسے کریں، پرامن انتقال اقتدار کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے ان بنیادی سوالات کے جوابات دینے کے بجائے جمہوریت کو ہی فساد کی جڑ قرار دیتے ہیں۔
یہ عناصر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت سے گریز معاشرے میں تشدد کو جنم دیتا ہے اور تشدد جوابی تشدد کو جنم دیتا ہے پھر تشدد انفرادی تشدد سے شروع ہو کر گروہی (لسانی، مسلکی) تشدد اور پھر ریاستی تشدد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مسلم دنیا کی صورتحال بالخصوص سیاسی عدم استحکام کی حالت دیکھ کر اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔مغربی تہذیب کے مخالفین مغرب میں ہر فرد کو اظہار رائے کی آزادی دینے کے حوالے سے مغرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
مغربی فلسفہ کی رو سے اظہار رائے کی آزادی ایک آزاد جمہوری معاشرے کی بنیادی اقدار میں سے ایک ہے۔ اس آزادی کے نتیجے میں سچائی ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ ان کے نزدیک اظہار رائے پر پابندی کے نتیجے میں معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے اس لیے وہ اس اقدار کے تحفظ کو اولین حیثیت دیتے ہیں۔مغرب کے مخالفین کی جانب سے ایک بات متواتر کی جاتی ہے کہ مغربی معاشرہ زوال پذیر ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے مغرب سے مراد سرمایہ دارانہ اور صنعتی نظام ہے۔ مشرق سے مراد دقیانوسی جاگیرداری اور قبائلی نظام ہے۔
ہم مغرب کو تنقید کا نشانہ بنا کر دراصل جاگیرداری اور قبائلی نظام کی حمایت کرتے ہیں ۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض کرلیا جائے کہ مغربی تہذیب زوال پذیر اور گمراہ کن ہے تو بنیادی سوال یہ ہے کہ مشرق کی سماجی پسماندگی اور اقتصادی بدحالی کا کیا علاج ہے؟ کیا مشرقی قدیم روایات اور صدیوں پرانے فرسودہ استحصالی قبائلی نظام میں پناہ لینے سے مشرقی اقوام کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔مغرب کے مخالفین سائنسی ایجادات کے حوالے سے بھی مغرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ سائنسی ایجادات کو نفسانی خواہشات کی تشکیل کا سامان قرار دے کر اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔
تنقید کرتے وقت یہ عناصر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سائنسی ایجادات کا مقصد انسانی زندگی کو آسان اور آرام دہ بنانا ہے۔ قدیم زمانے میں ستر فیصد مائیں بچوں کو جنم دینے کے دوران ہی موت کے منہ میں چلی جاتی تھیں۔ بچے ان ماؤں کی محبت اور آغوش سے محروم ہو جاتے تھے۔ سائنسی ترقی اور طبی سہولتوں کے باعث اب ایسا نہیں ہے۔
اس حوالے سے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ علم کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ سائنسی ایجادات مغرب کا عطیہ نہیں ہے بلکہ تمام تہذیبوں کا اس میں حصہ رہا ہے اس لیے اس حوالے سے مغرب کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔ مغرب کے مخالفین کے سامنے جب مغرب کے مثبت پہلوؤں مثلاً سیاسی استحکام، معاشی مساوات اور قانون کی حکمرانی جیسے پہلوؤں کو پیش کیا جاتا ہے تو یہ طبقہ ان کی وجوہات دینے کے بجائے مغرب کی جنسی بے راہ روی کے حوالے سے کی گئی ریسرچ رپورٹ اور دیگر اعداد و شمار پیش کر دیتا ہے یعنی سوال گندم جواب چنا والی بات ہوتی ہے ایسا کیوں ہے؟
اس کا بہتر جواب ماہر نفسیات ہی دے سکتے ہیں۔ راقم التحریر نہ ہی مغربی تہذیب کا حامی ہے اور نہ ہی مخالف۔ میرے نزدیک ہر تہذیب اپنے اندر جہاں مثبت پہلو رکھتی ہے وہاں کچھ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں۔
دنیا کی ہر تہذیب نے چاہے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے سے ہو، دنیا کی دوسری تہذیبوں سے استفادہ کیا ہے۔ اس لیے ہمیں منفی رویے سے گریز کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں سے استفادہ کرنا چاہیے اس کے لیے ہمیں غیر جذباتی اور سائنسی انداز فکر کو فروغ دینا ہوگا۔
یقیناً ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی لیکن آپ ان کے حامی عناصر سے مکالمہ کرکے دیکھ لیں بیشتر حامی عناصر ان کی کوئی ایک سیاسی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں آئیں گے۔ دوسری جانب مخالفین ہیں جو بھٹو اور ان کے خاندان کی سیاسی خدمات کی مکمل نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں یہاں تک کہ ان کی اور ان کے خاندان کی شہادت کو غلط رنگ دیتے ہیں۔
ہمارا یہ رویہ انتہا پسندی کے رویے کو ظاہر کرتا ہے اسی طرح کا رویہ ہمیں مغربی تہذیب کے حامی عناصر اور مخالفین کے درمیان بھی نظر آتا ہے۔ اس پر بات کرنے سے قبل ہمیں تاریخ کے اوراق میں جانا ہوگا۔پانچ ہزار سال قبل مسیح میں جب خاندانی رشتوں کی بنیاد پر کئی خاندان آپس میں متحد ہوگئے تو انھوں نے قبیلے کی صورت اختیار کرلی اس طرح انسانی تاریخ میں سب سے پہلے قبائلی ریاستوں کی بنیاد پڑی۔ قبائلی ریاستوں کے بعد ہمیں شہنشاہوں کا ذکر ملتا ہے۔
یہ کمزور قبائل پر طاقتور قبائل کے غلبے کا نتیجہ تھیں لیکن قبائلی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور منظم تھیں ان ریاستوں کے ابتدائی نظریات میں ہمیں مذہب کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابتدائی ریاستیں مذہبی ریاستیں تھیں۔ مذہب کے فروغ کے عنصر کے ساتھ ان کی توسیع پسندانہ مہم میں جہاں معاشی اور اقتصادی عوامل کارفرما تھے وہاں اس میں نسلی عصبیت کا عنصر بھی کارفرما نظر آتا ہے۔ مغرب میں عمائدین شہر کے اتفاق رائے سے بادشاہ کا انتخاب ہوتا تھا۔ ریاست کی ساری زمین بادشاہ کی تصور کی جاتی تھی۔
عوام کی حیثیت غلاموں کی تھی۔ وہ زرعی پیداوار کا بڑا حصہ ریاست کے بادشاہ کے نمایندوں کے حوالے کرنے کے پابند تھے۔ اس دور میں بادشاہوں، نوابوں اور پادریوں نے مل کر عوام کو اپنے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا۔ پادری علم کے ٹھیکیدار اور بادشاہ طاقت کے مراکز بن گئے تھے۔ دونوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے باہمی مفاہمت اور گٹھ جوڑ کر رکھا تھا۔ اس کی بنیاد پر دونوں قوتیں مل کر عوام کا مذہبی استحصال سے لے کر معاشی اور ہر طرح کا استحصال کیا جاتا تھا۔ عوام کو سوال کرنے کی آزادی نہیں تھی کسی کو بادشاہ اور پوپ کے خلاف ایک لفظ بھی کہنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔
اگر کوئی جرأت کرتا تو اس کا سر قلم کر دیا جاتا۔ ایسے حالات میں مارٹن لوتھر جو خود ایک پادری تھا اس نے اس رویے کے خلاف آواز بلند کی۔ مارٹن لوتھر نے چونکہ عوام کے دل کی بات کہی تھی لہٰذا لوتھر کا پیغام وقت کی آواز بن گیا۔ اس کے بعد یورپ میں اصلاح دین کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک نے لوگوں کے ان خیالات اور تصورات کو بدل دیا ۔ سائنسی انداز فکر کی بنیاد پڑی اس کے نتیجے میں روشن خیال تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کے بطن سے جمہوریت نے جنم لیا۔
جمہوریت کے نتیجے میں انسان غلامی کی بندش سے آزاد ہوا۔ جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوا۔ ملک کو سیاسی استحکام حاصل ہوا۔ اس کے نتیجے میں عوامی خوشحالی آئی۔ مغرب کے مخالفین ان چند بنیادی سوالوں کہ نظام حکومت کیسے تشکیل دیا جائے قیادت کا انتخاب کیسے کریں، پرامن انتقال اقتدار کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے ان بنیادی سوالات کے جوابات دینے کے بجائے جمہوریت کو ہی فساد کی جڑ قرار دیتے ہیں۔
یہ عناصر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت سے گریز معاشرے میں تشدد کو جنم دیتا ہے اور تشدد جوابی تشدد کو جنم دیتا ہے پھر تشدد انفرادی تشدد سے شروع ہو کر گروہی (لسانی، مسلکی) تشدد اور پھر ریاستی تشدد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مسلم دنیا کی صورتحال بالخصوص سیاسی عدم استحکام کی حالت دیکھ کر اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔مغربی تہذیب کے مخالفین مغرب میں ہر فرد کو اظہار رائے کی آزادی دینے کے حوالے سے مغرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
مغربی فلسفہ کی رو سے اظہار رائے کی آزادی ایک آزاد جمہوری معاشرے کی بنیادی اقدار میں سے ایک ہے۔ اس آزادی کے نتیجے میں سچائی ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ ان کے نزدیک اظہار رائے پر پابندی کے نتیجے میں معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے اس لیے وہ اس اقدار کے تحفظ کو اولین حیثیت دیتے ہیں۔مغرب کے مخالفین کی جانب سے ایک بات متواتر کی جاتی ہے کہ مغربی معاشرہ زوال پذیر ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے مغرب سے مراد سرمایہ دارانہ اور صنعتی نظام ہے۔ مشرق سے مراد دقیانوسی جاگیرداری اور قبائلی نظام ہے۔
ہم مغرب کو تنقید کا نشانہ بنا کر دراصل جاگیرداری اور قبائلی نظام کی حمایت کرتے ہیں ۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض کرلیا جائے کہ مغربی تہذیب زوال پذیر اور گمراہ کن ہے تو بنیادی سوال یہ ہے کہ مشرق کی سماجی پسماندگی اور اقتصادی بدحالی کا کیا علاج ہے؟ کیا مشرقی قدیم روایات اور صدیوں پرانے فرسودہ استحصالی قبائلی نظام میں پناہ لینے سے مشرقی اقوام کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔مغرب کے مخالفین سائنسی ایجادات کے حوالے سے بھی مغرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ سائنسی ایجادات کو نفسانی خواہشات کی تشکیل کا سامان قرار دے کر اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔
تنقید کرتے وقت یہ عناصر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سائنسی ایجادات کا مقصد انسانی زندگی کو آسان اور آرام دہ بنانا ہے۔ قدیم زمانے میں ستر فیصد مائیں بچوں کو جنم دینے کے دوران ہی موت کے منہ میں چلی جاتی تھیں۔ بچے ان ماؤں کی محبت اور آغوش سے محروم ہو جاتے تھے۔ سائنسی ترقی اور طبی سہولتوں کے باعث اب ایسا نہیں ہے۔
اس حوالے سے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ علم کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ سائنسی ایجادات مغرب کا عطیہ نہیں ہے بلکہ تمام تہذیبوں کا اس میں حصہ رہا ہے اس لیے اس حوالے سے مغرب کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔ مغرب کے مخالفین کے سامنے جب مغرب کے مثبت پہلوؤں مثلاً سیاسی استحکام، معاشی مساوات اور قانون کی حکمرانی جیسے پہلوؤں کو پیش کیا جاتا ہے تو یہ طبقہ ان کی وجوہات دینے کے بجائے مغرب کی جنسی بے راہ روی کے حوالے سے کی گئی ریسرچ رپورٹ اور دیگر اعداد و شمار پیش کر دیتا ہے یعنی سوال گندم جواب چنا والی بات ہوتی ہے ایسا کیوں ہے؟
اس کا بہتر جواب ماہر نفسیات ہی دے سکتے ہیں۔ راقم التحریر نہ ہی مغربی تہذیب کا حامی ہے اور نہ ہی مخالف۔ میرے نزدیک ہر تہذیب اپنے اندر جہاں مثبت پہلو رکھتی ہے وہاں کچھ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں۔
دنیا کی ہر تہذیب نے چاہے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے سے ہو، دنیا کی دوسری تہذیبوں سے استفادہ کیا ہے۔ اس لیے ہمیں منفی رویے سے گریز کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں سے استفادہ کرنا چاہیے اس کے لیے ہمیں غیر جذباتی اور سائنسی انداز فکر کو فروغ دینا ہوگا۔